تیری دیوانی
ناول نگار؛ فرحاد خان
قسط نمبر 2 ،3(میگا ایپیسوڈ)
~~~~~~~
"کیا مطلب"سلیقہ"میں نے کس چیز کا سلیقہ نہیں کیا "۔مرال قریب آتے ہوئے کہتی ہے
"سلیقہ مند لوگ چپلیں۔۔الگ الگ نہیں پہنتے "۔
"میں۔ نے چپل الگ الگ پہن لی تو میں سلیقہ مند نہیں ہوں۔"وہ ایسا کہہ کر اندر چل دیتی ہے
عمار دیکھو بیٹآ ۔۔۔۔تم نے اسے ناراض کردیا ۔شگفتہ بیگم نے عمار کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
"ماما۔آپ ٹینشن نہ لے میں اسے ابھی منا لیتا ہوں "
وہ اندر کی طرف ارہا تھا ۔سامنے سے مرال پانی سے بھرا گلاس اٹھائے آرہی تھی
"تم تو ناراض ہو گئ تھی نہ۔؟؟"
"کس نے کہا ۔۔؟"
"تم اندر آئی تو مجھے لگا تمہیں میری بات کا برا لگ گیا ہوگا"
"جی نہیں،میں پانی لینے آئی تھی تاکہ تم پر ڈال سکو۔"
"کیوں۔۔؟"عمار نے حیرت سے پوچھا ۔
"تاکہ پھر تمہیں آبا کی قمیض پہنواتی اور کہتی
*عمار تھوڑا سلیقہ سیکھو لو*۔مرال نے چلبلے انداز میں کہا ۔
"تم قابل ہی نہیں ہو ہمدردی کی ۔۔۔چڑیل"۔عمار نے غصے میں کہا ۔
"چڑیل ۔۔کس منہ سے بولا"
"جو اللہ نے مجھے دیا ہے"
"ہاں۔گدھے جیسا-------"
"او،اس گدھے جیسے منہ پر نہ کم از کم 500 لڑکیاں فدا ہیں ۔"عمار نے پر اعتماد ہوتے ہوئے کہا۔
"500۔۔ہاہا۔۔اسمیں تم نے غلطی سے 5 لگا دیا ہے اصل میں 00(انڈا)ہیں ۔
~~~~~~~
"عنایہ کچن میں آتی ہے ۔۔مرال۔۔امی نے کہا ہے چائے بناکر لاؤ"
"میں۔۔۔۔؟؟"
"چلو بی بی چائے بنا کر لاؤ اور ساتھ میں کچھ لے آنا "عمار نے ہنستے ہوئے کہا اور کچن سے چل دیا۔
"ہاں۔۔ہاں آپکے لئے چھپن بھوگ بنواوں گی "
"اس لنگور کے انگور کو تو ایسی چاے بنا کر پلاؤں گی کی آئندہ میرے نام سے کانپے گا "
∆∆∆
"پھوپھو۔۔۔چاے ۔۔"مرال کہتے ہوئے آتی ہے
"میری بچی نے بنائی ہے تو اچھی ہی ہوگی "
"بس امی پی لیں ۔۔۔لگتا نہیں ۔۔اسکو کام بگاڑنے کے علاوہ ۔۔کام سنوارنا بھی آتا ہوگا ۔"عمار نے کہا
"عمار تم ہر وقت کیوں مرال کو تنگ کرتے ہو"شگفتہ بیگم نے کہا
"شگفتہ تم چاءے پیو بچے مذاق نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا "خالد صاحب نے کہا
"عمار مزے سے چاے پی رہا تھا (چائے ویسے اچھی بنا لیتی ہے)اچانک اسکے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے ۔وہ واشروم کی طرف بھاگتا ہے
"عمار ۔۔کیا ہوگیا بیٹا ۔۔"شگفتہ بیگم پریشانی سے کہتی ہیں
"پھوپھو ۔۔۔آپ ٹینشن نہ لے ۔۔میں دیکھتی ہوں "مرال نے اعتماد دلاتے ہوئے کہا
∆∆∆∆
وہ واش روم کے باہر پیٹ پکڑے کھڑا تھا ۔
"مرال۔۔۔تم نے کیا ملایا تھا چائے میں۔۔؟"
"جمال گھوٹا "وہ مزاح سے کہتی ہے
"کیا۔۔۔؟؟٫
وہ ایسا کہہ کر دوبارہ واشروم چلے جاتا ہے
"وہ تیز آواز میں کہتی ہے "گزارو۔۔۔پوری رات گزارو واشروم میں عمار سلیقدار۔۔۔"
∆∆∆
عنایہ اتنے میں وہاں پہنچتی ہے
"مرال۔۔۔اب تم نے کیا گڑبڑ کی ہے ؟؟"
"کچھ نہیں۔۔۔بس سلیقہ سکھایا ہے"وہ چل ہوکر کہتی ہے
"مرال کی بچی تم کبھی نہیں سدھروگی"عنایہ اسے غصے میں کہتی ہے
پہلی بات تو میری ابھی شادی نہیں ہوئی تو میری بچی آسمان سے کیسے اترے گی۔وہ ایسا کہہ کر چل دیتی ہے
"عمار واش روم سے باہر نکل کر کہتا ہے "مرال ۔۔تمییں تو میں پورے سود سمیت اسکا بدلہ لوں گا "
""کیا کیا مرال نے ۔۔"عنایہ آرام سے پوچھتی ہے
"کچھ نہیں ۔۔عنایہ آپی ۔۔۔اسے تو میں خود دیکھ لوں گا "
~~~~~
"یہ لڑکی کبھی نہیں سدھرے گی اسے کوئی جہان یا سالار لے جاءے تو ہی اچھا ہے "
∆∆∆
~~~~
"مرال ۔۔۔۔اپنا کالا والا ابایہ مجھے دے دو،میں کل میں انٹریو میں پہن کے جاؤنگی "۔عنایہ نے مرال سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
"دیکھو نہ وہیں کہیں رکھا ہوگا"مرال ہاتھ میں کتاب تھامے کہتی ہے
" ہاں مل گیا ."
"مرال کبھی ان خوابوں کی کتابوں سے نکل کر کورس کی کتابیں بھی پڑھ لیا کرو"
"وہ بھی پڑھ لیں گے "اس نے مزاح انداز میں کہا
"مرال ایک بات بولو تھوڑی میچور ہوجاو اس سے پہلے زندگی تمہارے لیے مچیور ہوجاے "
"ہاں ۔۔ہاں ہوجاوگی ۔۔تم سوجاؤ ورنہ آفس کے پہلے ہی دن لیٹ ہوجاو گی ۔"
∆∆∆∆
"صبح آٹھ بجے "
"بابا ۔۔مجھے آفس ڈراپ کردیں "عنایہ نے جلد بازی میں کہا
"چلو۔۔۔بیٹا"
"عنایہ وہ نالائق مرال بیبی کہاں ہے اٹھی نہیں ابتک "مہرانساء نے کہا
"نہیں امی۔۔۔میں نے اٹھانے کی کوشش کی مگر نہیں اٹھ رہی وہ "
"اچھا ۔۔چلو تم جاؤ اللہ میری بچی کو کامیاب کرے ،میں اس ناللاق کو دیکھتی ہوں "
~~~~~
"مہرانساء بیگم مرال کے کمرے میں داخل ہوتی ہیں اور کہتی ہیں "
"مرال۔۔۔۔اٹھ جاؤ کیا آج بھی یونیورسٹی نہیں جانا۔۔ ؟؟"
وہ یکدم اٹھتی ہے ۔سامنے کمبل میں پڑی کتاب نیچے گر پڑتی ہے ماما کتنا ٹایم ہوگیا۔۔۔بابا چلے گئے کیا ۔۔۔"اس نے بے فکری سے کہا ۔
"جی۔۔۔اب تمہارے انتظار میں تو نہیں رک سکتے "
"میں عمار کو بلا دیتی ہوں تم اسکے ساتھ چلے جاؤ"
"نہیں اما۔۔۔۔رہنے دیں ۔۔۔میں خود ہی چلی جاؤنگی "
"چپ چاپ تیار ہو مرال میں عمار کو بلا رہی ہوں ۔۔کبھی بڑوں کی بھی سن لیتے ہیں "
~~~~
"عنایہ انٹرویو دینے کے لیے کمرے میں بیٹھی تھی جب ہی "عزیر سکندر"کمرے میں آتے ہیں ۔۔۔۔
"مس عنایہ۔۔۔۔آپ ہیں ۔۔۔کافی کچھ لکھا ہے آپکے باؤ ڈیٹا میں "
"جی جی ۔۔۔میں ہی ہوں "عنایہ نے سر جھکائے کہا
"میں عزیر سکندر ۔۔۔آپکا بوس"
(اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا)
"سوری سر ۔۔۔مگر میں غیر مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی "
"اوکے ۔۔نو پروبلم"
"آپ مجھے یہ بتائیں میں آپکو ھوب میں کیوں رکھوں"
"کیونکہ مجھے لگتا ہے میں اسکے قابل ہوں "
"یہ آپکو لگتا ہے مس عنایہ ۔۔اگر میں کہوں ایسا نہیں ہے تو۔۔۔۔"
"تو یہ آپکی نظر ہے سر "
"اچھا۔۔۔آپ برقہ پہن کر آہیں گی آفس میں "اس نے سوالیہ انداز میں کہا
"جی ۔۔۔کوی مسئلہ ہے سر۔۔"
"ہاں اگر آپ ایسے آہیں گی تو ہمارے کلائنٹس آپ سے راضی کیسے ہونگے وہ کہتے ہیں نہ مس عنایہ
*First expression is the last expression*
"آپکی بات بالکل درست ہے سر مگر "میں بندوں کو خوش کرنے کے لے رب کو تو ناراض نہیں کرسکتی نہ "
"اگر آپکو مناسب نہ لگے تو مجھے جاب نہ دیں "اس نے بے ساختہ کہا
∆∆∆∆
0 Comments
Post a Comment