تیری دیوانی
ناول نگار ؛ فرحاد خان
قسط نمبر 4
~~~~~~
"نہیں۔۔۔آپ کافی کانفڈنٹ ہیں ۔مجھے آپکا حوصلہ اور خود پر یقین آچھا لگا ۔۔۔آپ کل سے جوین کرسکتی ہیں "
"تھینکس سر مجھے آپ سے ملکر خوشی ہوئی"عنایہ نے مسکراتے ہوئے کہا
"مجھے بھی "عزیر نے جواب دیا
∆∆∆
"مرال عمار آگیا ہے جاؤ"
امی آپ نے بھی کسکو بلا دیا.مرال نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔وہ جاکر گاڑی میں بیٹھتی ہے
"کیسا ہے تمہارا پیٹ کا درد"وہ ہنستے ہوئے پوچھتی ہے
"بالکل ٹھیک پر مرال اسکا بدلہ میں ضرور لوں گا "
"لے لینا۔۔۔فلحال چلو مجھے لیٹ ہورہا ہے "
راستے میں پنچھی بیچنے والا کھڑا تھا
"عمار گاڑی روکو ،مجھے چڑیا آزاد کرنی ہے "مرال یکدم کہتی ہے
"کیا بھیء سیدھا چلو،بہت مسئلہ مساءل ہے تمہارے ساتھ "
"روکو سیدھے طرح سے اور سنو کھلے پیسے ہے تو دےدو مجھے چڑیا آزاد کرنی ہے "
"واہ!آزاد تم کرو اور پیسے میرے"۔مجھے آزاد نہیں کرنی
"حد ہے عمار میں تمہیں دے دوں گی 'تم خود سوچو اگر تمہیں کسی پنجرے میں قید کردیا جائے تو تمہیں کیسا لگے گا ۔وہ بھی جاندار ہیں انہیں بھی جینے کا حق ہے وہ ہمیں دعا دیں گے "
اچھا دادی اماں ،یہ لو اور آزاد کرکے جلدی آو مجھے آفس کے لے لیٹ ہورہا ہے
"وہ چڑیا آزاد کررہی تھی ۔عمار گاڑی میں ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا ۔ویسے اتنی بری ہے نہیں ۔آج اسے مرال پہلی دفع اچھی لگی تھی "
~~~~~~
"یونیورسٹی میں پہنچتے ہی مرال دیکھتی ہے ۔ایک ہجوم اکٹھا ہے ۔وہ وہاں پہنچتی ہے تو دیکھتی ہے ایک لڑکا ہیوی بائیک لیے کھڑا تھا ۔ایک لڑکی کو ٹھوکر ماردی ہے اور اب اسے ہی قصوروار ٹھہرا ہے "
"او بھائی صاحب۔۔۔"وہ غصے سے کہتی ہے
*بائیک میں کالے پینٹ شرٹ میں،گلے میں سونے کی چین ،ہاتھوں میں انگھوٹھی ۔لمبی کالی فرینچ داڑھی ،کالی گہری آنکھیں جسمیں چشمہ کا پردہ تھا۔اسکے ہاتھوں میں نسوں کا جنجال تھا ۔سینہ وسیع اور قد لمبا تھا وہ 'زوہیب جہانزیب 'تھا ۔وہ زدی تھا ۔اسے جو چیز پسند آجاءے وہ اسے پاکر رہتا تھا*
"کیا ہوا ؟؟اب کونسی چڑیا چہچہا رہی ہے "اس نے مڑتے ہوئے کہا
"میں چڑیا نہیں،میں وہ شے ہو جو آپ جیسے لونڈوں کو تارے دیکھائے ،آپکو آپکی اوقات دیکھانے کی حیثیت رکھتی ہوں "مرال نے یکدم کہا
"اس نے جب مرال کو دیکھا تو وہ اسمیں کھو گیا تھا ،مرال کی پہلی جھلک اسکی جان کے گئی تھی "
"لڑکی جو گراتے ہو اور تو اور اپنی غلطی نہیں مانتے "
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment