تیرا عشق مرہم سا ہے

  قسط نمبر 9

از۔ طوبیٰ صدیقی

 

°°°°°°


❤❤❤


ایمان نے شوکڈ سے ریان کو جاتے دیکھا تھا۔


یہ آپ کے بیٹے کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔


سمینہ بیگم نے احتشام صاحب کے کان میں سرگوشی کی۔


احتشام صاحب مسکرائے۔


مجھے تو لگ نہیں رہے آپ وہاں نہیں تھیں ریان کو دیکھ کر آپ یقین کر تیں یہ وہی ریان ہے جو لڑکیوں سے سوفٹ دور بھاگتا ہے۔


احتشام صاحب کی بات پر سمینہ بیگم مسکرائی۔


مرحا بیٹا آپ فریش ہو جاؤ پھر سب ساتھ میں کھانا کھاتے ہیں ایمان بیٹا مر حاکو روم میں لے جاؤ۔


سمینہ بیگم کے کہنے پر ایمان مرحا کو اپنے ساتھ اپنے روم میں لے آئی۔


بے بی ڈول ویسے تو تمھارا روم میرے برابر والا سیٹ کر وایا ہے مگر ابھی تم کچھ ٹائم میرے ساتھ رہو گی سمجھی ہم بہت سارا ٹائم ساتھ میں گزاریں گے۔


ایمان کے کہنے پہ مر حاہل کا سا مسکرائی تھی۔


ایمان نے مرحا کو اپنا یو ڈریس نکال کر دیا اور اسے فرش ہونے بھیج دیا۔


ماما کھانا دے دیں بھوک لگ رہی ہے دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے اس ٹائم اسٹرس میں تو کچھ کھایا نہیں گیا مگر اب بھوک لگ رہی ہے۔


ریان نے کچن کے دروازے پر کھڑے ہو کر سمینہ بیگم سے کہا۔


بس بیٹا کچھ دیر رک جائیں سب ساتھ میں کھاتے ہیں۔


سمینہ بیگم کی بات پر ریان نے ہاں میں گردن ہلائی اور وہی ڈائینگ ٹیبل پر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔


غیر ارادی طور پہ نظریں مرحا کی منتظر تھیں۔


باقی سب گھر والے بھی آگئے تھے بس ایمان اور مرحا کا انتظار تھا۔


ریان کی نظریں بار بار سیڑھیوں کی طرف اٹھ رہی تھیں جو سمینہ بیگم اور شایان نے نوٹ کی۔


ایمان مرحا کا انتظار کر رہی تھی جب وہ شاور کے کر باہر نکلی۔


لائٹ بلو کلر کی فراک اور چوڑیدار پجامے میں اس کا چہرہ پہلے کی بانسبت نکھر انکھر الگ رہا تھا البتہ آنکھیں ابھی بھی تھوڑی سوجی ہوئی تھیں۔


ماشاء اللہ آپ تو بیچ میں بے بی ڈول لگ رہی ہیں۔ ہائے کاش میں لڑکا ہوتی ابھی تمھیں اپنی باہوں میں


بھر لیتی اور سب کے سامنے اقرار کرتی مر حامیری جان آئی لو ویو۔


ایمان نے ایکٹینگ کرتے ہوئے مرحا کو گول گول گھمایا تھا۔


ایمان کی باتیں مرحا کے لبوں پہ ایک بار پھر مسکراہٹ بکھیر گئی۔


پاگل لڑکی امر جانے کہہ کر ایمان کے سر پہ چپت لگائی۔


ڈپٹے کو گلے میں ڈال کر وہ نیچے جانے کے لیے بالکل تیار تھی۔


سب لوگ ہی انکا انتظار کر رہے تھے۔


لو آگئیں دونوں ۔ دادا جان کے کہنے پہ سب کی نظر میں سیڑھیوں کی طرف اٹھی تھیں۔


اس سادگی میں بھی وہ غضب ڈھارہی تھی۔


مرحا کو دیکھ کر شاہ میر کے دل نے ایک بیٹ مس کی وہی ریان جیسے اس سے نظریں ہٹانا بھول گیا۔ وہ


بے تحاشہ خوبصورت تھی ریان کے دل نے اعتراف کیا تھا۔


شاہ میر کے دل کا حال بھی کچھ الگ نہیں تھا۔


مرحا کو ایسے کنفیوز دیکھ کر ریان اسکی کنڈیشن کو سمجھ گیا تھا۔


ماما اب کھانا دے بھی دیں بہت بھوک لگی ہے اور تم دونوں بھی بیٹھ جاؤ۔


ریان نے سمینہ بیگم سے کہہ کر دونوں کو مخاطب کیا تو ایمان نے مرحا کو ریان کے سامنے والی چیئر پہ بیٹھا دیا۔


روز کی طرح ایمان اور شہیر کی نوک جھوک شروع ہو چکی تھی جو سب ہی انجوائے کر رہے تھے سوائے مرحا کے۔


ریان نے مرحا کو دیکھا جو گم سم سی اپنی کھانے میں صرف چینچ ہلا رہی تھی۔


ریان نے سمینہ بیگم کو اشارہ کیا تو اس کا اشارہ سمجھ کر وہ اٹھ کر مرحا کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ سے


اسپون لے کر اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا کر مر حا کے پاس لے کے گئی۔


مر جانے انہیں دیکھا ان کے انداز میں اتنا حق تھا کہ مر جانے انکے ہاتھ سے لقمہ لیا۔


اسے بے ساختہ اپنی ماں یاد آئی۔ جو اس کے ناراض ہونے پر یا بیمار ہونے پر اسے ایسے ہی کھانا کھلاتی تھیں۔


مرحا کی آنکھوں میں آنسو آئے مگر پھر ریان پر نظر پڑی جو اسے دیکھ کر نہ کا اشارہ کر رہ تھا۔


مرحانے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔


میں کھالوں گی آنٹی آپ بھی کھانا کھائیں۔


مرجانے سمینہ بیگم سے کہا تو انہوں نے نہ میں گردن ہلائی۔


میں کھالوں گی آپ کھاؤ پہلے۔


انکے حق جتانے پہ مر جانے انہیں دوبارہ نہیں ٹو کا بس خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔


ایمان مرحا جو اپنے کمرے میں کے آئی تھی اسے سونے کے لیے لٹا دیا تھا۔ جب ریان کمرے میں آیا۔ ڈسٹرب تو نہیں کیا تم لوگوں کو۔


ریان کی آواز پہ مر حاجلدی سے اٹھ کر بیٹھی تھی۔


نہیں بھیو آپ ڈسٹرب نہیں آپ تو شاک پہ شاک دے رہے ہیں۔


ایمان کی بات سمجھ کر ریان مسکرایا تھا۔


اس شاک کی عادت ڈالو گڑیا اور بے بی ڈول آئی مین مرحا میڈم۔ ریان کے بے بی ڈول کہنے پہ ایمان نے اپنی ہنسی روکی تھی وہی مرحا نے ریان کو گھورا تھا ریان نے فوراً اس کا نام ٹھیک کیا جبکہ لبوں مسکراہٹ تھی وہ اسے شیز کرنے میں کامیاب رہا تھا۔


آپ نے میڈ سن تو لی ہی نہیں ہے کیا جلدی ٹھیک نہیں ہونا۔


ریان نے میڈیسن مرحا کی طرف بڑھائی تو اس نے گھورتے ہوئے میڈیسن لی۔


ویسے گڑیا اس کا نام جس نے بھی بے بی ڈول رکھا ہے غلط رکھا ہے اس کو تو ٹیڈی بیئر بولنا چاہیے۔


ریان کی بات پر ایمان کا قہقہہ چھوٹا وہی مرحا کو پانی پیتے ایک دم پھند الگا۔


مر حاریان کو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگی وہ اسے کہاں سے ٹیڈی پینز لگ رہی تھی۔


بھیوٹیڈی بیئر کیوں ایمان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔


ٹیڈی بیئر کی طرح ہی تو ہے دیکھا کیسے بڑی بڑی آنکھیں کر کے گھور رہی ہے اور اس کے گال دیکھو جو


غصے میں ٹیڈی بیئر کی طرح پھولے پھولے ہو گئے ہیں۔


ریان کی بات پہ مر جانے اپنی نظریں چرائی جبکہ ایمان ہستی چلی گئی۔


ریان ایک مسکراتی نظر مرحا پہ ڈال کر چلا گیا۔


کمرے کے باہر جا کر ریان اپنی ہی بات پر دل کھول کر مسکرایا تھا۔ پھر آس پاس دیکھا کہیں کوئی اسے دیکھ ہی نہ لے۔


ریان کے دل کی دنیا بدل رہی تھی۔ یہ معصوم سی موم کی گڑیا جیسی لڑکی ریان حیدر کو اپنا اسیر کر رہی تھی۔


شاہ میر کیا اپڈیٹ ہے کچھ بہتری فیل ہوئی۔


ریان ساحر کے روم آیا جہاں شایان شاہ میر موجود تھے۔


جی بھائی ہاتھوں میں موومنٹ شروع ہوئی ابھی کچھ دیر پہلے بھی اس نے اپنی انگلیاں ہلائی ہیں۔


شاہ میر نے بتایا۔


یہ تو اچھی بات ہے تم ڈاکٹر کو اپڈیٹ کر دو وہ ایک بار چیک کر لیں گے آکر ۔


ریان کی بات پہ دونوں نے ہامی بھری۔


ٹھیک بھائی میں ابھی کال کر دیتا ہوں۔ اور میں نے انسپیکٹر شیر از کو بھی اس کیس کی تحقیقات کے لیے بول دیا ہے وہ خود پر سنلی سب تحقیقات کروائیں گے۔ گاڑی کی بھی چیکینگ اسٹارٹ ہو گئی جلدی ہی اس کی بھی رپورٹ آجائے گی۔


شاہ میر نے بتایا تو ریان نے ہاں میں گردن ہلائی۔


ساحر کے روم میں اس وقت ریان شاہ میر اور احتشام صاحب موجود تھے۔ ڈاکٹر ساحر کا چیک اپ کر رہا تھا۔


کافی امپر و فمینٹ آئی ہے انکی کنڈیشن میں بس انکا ایسے ہی خیال رکھیں اور کوشش کریں کچھ وقت ان کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کریں یہ بے شک اس وقت ہوش میں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان سے کی جانے والی باتیں یہ سن سکتے ہیں اپنے ارد گرد کی کنڈیشن کو محسوس کر سکتے ہیں۔ انشاء اللہ یہ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔


ڈاکٹر نے تفصیل سے بتایا۔


یہ تو بہت اچھی بات ہے ڈاکٹر آپ بے فکر رہیں ہم پورا خیال رکھیں گے ان سب باتوں کا۔ ڈاکٹر آپ ایک بار مرحا کو بھی چیک کر لیں ویسے تو وہ ٹھیک ہے مگر چپ رہتی ہے بات نہیں کرتی کوئی کچھ بولے تو جواب دے دیتی ہے کھاتی پیتی بھی نہیں ہے صحیح سے اور گم سم رہتی ہے بہت۔


ریان نے ڈاکٹر سے کہا تو انہوں نے اس کی بات سمجھ کر ہاں میں گردن ہلائی۔


ریان ڈاکٹر کو لے کر مرحا کے روم کی طرف آیا۔


ایمان بچہ مر حا جاگ رہی ہے ڈاکٹر صاحب آئے ہیں چیک اپ کے لیے۔


ریان نے کمرے کا دروازہ نوک کیا۔


ریان دوباره دروازه نوک کرنے لگا تو مر جانے دروازہ کھول دیا۔ ریان کا ہاتھ مرحا کے ماتھے پہ لگا تھا۔


مرحا ایک دم پیچھے ہوئی۔


ایم سوری لگی تو نہیں۔


ریان نے مرحا سے پوچھا تو اس نے گردن نہ میں ہلائی۔


ڈاکٹر آئے ہیں چیک کریں گے تمھیں آؤ۔


ریان کہہ کر اندر داخل ہوا۔


میں تو ٹھیک ہوں پھر ڈاکٹر کی کیا ضرورت ہے۔


مرحانے انگلیاں مروڑتے ہوئے کہا۔


اندازہ ہے مجھے کہ تم کتنی ٹھیک ہو ۔ اب خاموشی سے بیٹھ جاؤ ڈاکٹر شاہ میر کے ساتھ کمرے میں داخل


ہوئے تو ریان نے مرحا کو بیٹھنے کے لیے کہا۔


ڈاکٹر مرحا کا چیک اپ کرنے لگے۔


ریان پیچھے کھڑ امر حا کا چہرہ دیکھنے لگا۔


انتہا کی معصومیت لیے وہ پری پیکر چہرہ ریان کا دل بے ترتیب کر رہا تھا۔


ریان نے نظریں چرانی چاہیں مگر یہ بھی کہاں ممکن تھا نظر خود بخود اس کی طرف اٹھتی تھیں۔


جہاں ریان کے لیے اس سے نظریں ہٹانا مشکل تھا وہی شاہ میر کے لیے بھی یہ سب ممکن نہیں تھا۔


شاہ میر تو اس حادثے سے پہلے ہی مرحا پہ اپنا دل ہار گیا تھا۔ اب حالات ایسے تھے کہ وہ اس کے اتنے قریب ہو کر بھی کوسوں دور تھی۔


انکائی پی بہت لو ہو رہا ہے اور ہلکا سافیور بھی ہے میں انہیں انجیکشن دے دیتا ہوں باقی انکے کھانے پینے کا خیال رکھیں۔


ڈاکٹر کہہ کر انجیکشن نکالنے لگا تو مر حاکی آواز نکلی۔


نہیں نہیں۔۔ میں ٹھیک ہوں آپ اس کو دور رکھیں میں نہیں لگواؤں گی یہ۔


مرحا کی بات پر ریان اور شاہ میر دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


دیکھیں بیٹا یہ ضروری ہے پلیز اس سے آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر نے سمجھانا چاہا تو مر جانے زور زور سے گردن ہلائی۔


نہیں نہیں پلیز آپ۔۔ آپ منع کریں نہ پلیز انکو بولیں مجھے نہیں لگوانا یہ ۔ پلیز مرحانے معصومیت سے زیان اور شاہ میر سے کہا۔


شاہ میر نے ریان کی طرف دیکھا۔


بالکل نہیں چھلنا اس کی صحبت سب سے پہلے صحت پہ کوئی کمپرومائز نہیں چلے گا۔


ریان نے کہا تو شاہ میر نے اس کی بات سے اتفاق کیا تھا۔


ہاں وہ اس کی محبت تھی اسے تکلیف کو شاہ میر نہیں چاہتا تھا مگر یہاں بات اس کی صحت کی تھی۔


شاہ میر مرحا کے پاس جا کر کھڑا ہوا اور اسے باتوں میں الجھانے لگا۔


مرحا اس سے پہلے تمھیں کبھی انجیکشن نہیں لگا کیا۔


نہیں میں نے کبھی نہیں لگوایا۔


مرحانے شاہ میر کی بات پہ جواب دیا۔


مرحا کا دھیان شاہ میر کی طرف گیا تو ریان نے نہ محسوس انداز میں اس کا ہاتھ پکڑا۔


اچھا مگر ہسپتال میں تو تمھارے ڈرپ بھی لگی تھی۔


شاہ میر کے کہنے پہ مرحا کی آنکھیں پوری کھول گے گئیں۔


ڈرپ بھی لگی تھی۔ مگر اس وقت تو مجھے خود کا ہوش ہی نہیں تھا۔


مر حاسوچ کر اداس ہوئی تو شاہ میر کو دکھ ہوا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کے زخم کو چھیڑ گیا تھا۔ ہو گیا !


ریان کی آواز پہ مر جانے اس کو دیکھا پھر اپنے ہاتھ کو جو ریان نے پکڑا ہوا تھا پھر نظر ڈاکٹر پہ پڑی جو


اسے انجیکشن لگا چکے تھے۔


آپ۔۔ آپ بہت گندے میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔


مرحا نے ریان کو کہہ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اور آپ سے بھی نہیں کروں گی آپ بھی بہت


گندے ہیں مجھے باتوں میں لگایا آپ نے۔ میں کسی سے بھی بات نہیں کروں گی۔


مر حابول کر بیڈ پھیلا نکتی ہوئی روم سے باہر چلی گئی۔


اس کا یہ معصومیت بھرا اند از شاہ میر اور ریان دونوں کو پیارا لگا تھا۔


وہ بہت چھوٹی عمر میں بہت بڑا دکھ دیکھ چکی ہے اس کی معصومیت نہ کھو جائے۔


ریان نے کہا تو شاہ میر نے بھی ہاں میں گردن ہلائی۔


ڈاکٹر مر حاویسے تو ٹھیک ہے نہ۔


ریان نے ڈاکٹر سے پوچھا۔


دیکھیں مسٹر ریان جس دکھ سے وہ گزری ہیں وہ تو اچھے سے اچھے انسان کو توڑ دیتا وہ تو پھر ابھی چھوٹی ہیں۔ آپ لوگ انہیں نارمل ماحول دیں انہیں کمفرٹیبل کریں ہنسی مذاق کریں انکا دماغ دوسری چیزوں میں لگائیں اور کوشش کریں وہ ایک ہی جگہ نہ رہیں اپنے آپ کو کمرے تک محدود نہ کر لیں۔


ڈاکٹر کی بات شاہ میر اور ریان دونوں سمجھ گئے تھے۔


ڈاکٹر کے جانے کے بعد ریان شاہ میر سے مخاطب ہوا۔


مجھے بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ تم لوگوں کو کیا کرنا ہے پورا دن گھر میں جو مچھلی بزار بنا کر رکھتے ہو


تم لوگ اس میں اسے بھی شامل کرو اس سے دوستی کرو۔


ریان کی بات پر شاہ میر نے ہاں میں گردن ہلائی۔


ٹھیک ہے بھائی مگر ابھی تو ناراض ہو گئیں ہیں میڈم اب انہیں منایا کیسے جائے۔


شاہ میر نے کہا تو ریان مسکرایا۔


جتنی بار تم لوگوں نے ایمان کو منایا ہے میرے خیال سے یہ سوال کرنا بنتا نہیں ہے تمھارا۔


ریان کی بات پہ شاہ میر بھی مسکرایا۔


ہاں مرحا بھی تو ایمان کی طرح تھی اور ایمان کو منانے کا اتنا زیادہ ایکسپیرینس ہو گیا تھا کہ یہ تو کوئی مشکل تھا ہی نہیں۔


شاہ میر تو منا لے گا اسے مسٹر ریان مگر تم اسے کیسے مناؤ گے تمھیں تو کوئی آیڈیا ہی نہیں ہے۔


مگر میں اسے کیوں مناؤں میں کیوں سوچوں اس کے بارے میں اتنا۔


نہیں یار منانا تو چاہیے اب جو بھی ہو ریان تم مانو یا نہ مانو مگر یہ لڑکی تمھارے دل کے قریب تو ہو گئی ہے


اسے ایسے ناراض کیسے چھوڑ سکتے ہو۔


ریان دل اور دماغ کی اس جنگ میں الجھا ہوا تھا جب اس کا موبائل بجا۔


آنے والی کال دیکھ کر ریان کے چہرے کے تاثرات ایک دم بدلے تھے۔


جی انسپیکٹر صاحب بو لیے کیا انفار میشن ہے۔ 


ریان نے کال اٹھا کر کہا۔


لیکن اگلی طرف کی بات سن کر ریان پریشان ہوا تھا۔


ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں پہنچتا ہوں۔


ریان نے کہہ کر کال کائی اور پولیس اسٹیشن کے لیے نکل گیا۔


مرحا ایمان کے ساتھ بیٹھی بات کر رہی تھی جب شاہ میر اندر آیا۔


اسے دیکھ کر مر جانے منہ بنایا تھا۔


ایمان مجھے کسی سے بھی بات نہیں کرنی انکو بولو جائیں یہاں سے۔


مر جانے ایمان سے کہا تو ایمان نے شاہ میر کو دیکھا۔


ارے بابا ایمان یہاں تو ناراضگی بہت ہائی لیول پر چلی گئی ہے۔ اب کیا کرا جائے۔ کیا چوکلیٹس اور آئسکریم سے بھی بات نہیں بنے گی۔


شاہ میر نے لالچ دیا مگر مر جانے چہرہ موڑ کر شاہ میر کو دیکھا تک نہیں۔


اچھا بابا ای سوری آئیندہ ایسا نہیں ہو گا پکا پرومس آئندہ اگر انجیکشن لگانے لگا کوئی تو میں تمھیں وہاں


سے بھاگا دوں گا کبھی نہیں لگنے دوں گا انجیکشن۔


مرجانے چہرہ موڑ کر شاہ میر کو دیکھا نو مسکین کی شکل بنا کر اسے دیکھ رہا تھا۔


پکا پرو میں امر جانے تصدیق چاہی ہاں ہاں پکا پرومس آئندہ کبھی ایسا نہیں ہو گا۔ 


مرحا انہوں نے آئندہ ایسا کیا نہ تو انکے لیے میرے پاس ایک سزا ہے۔


ایمان نے کہا تو مر حال اسے دیکھنے لگی۔


معاف کرو بہن تم اور تمھاری سزائیں میری عزت کی دھجیاں اڑا دیتی ہیں۔


شاہ میر نے با قاعدہ ہاتھ جوڑ کر کہا تو ایمان کھلکھلا کر ہنسی۔


ایمان نے مرحا کے کان میں سزا بتائی تو مرحا کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر گئی جس سے اس کے دونوں گالوں پر ڈمپل نمایا ہوئے۔


شاہ میرے کوئی پوچھتا اس وقت سب سے حسین کیا ہے تو وہ کہتا اس معصوم سی لڑکی کی مسکراہٹ۔


ریان گھر واپسی پر مرحا کے گھر کی طرف سے آیا تا کہ جان سکے اس وقت وہاں کوئی ہے یا نہیں۔ لیکن اس وقت اس کے گھر کے پاس اسے کوئی نہیں دیکھا۔ اب اس نے مرحا کو یہاں لانا تھا تا کہ اسے جو بھی کام ہو وہ کر سکے۔


ریان گھر پہنچا تو ایمان اور مر حا گارڈن میں بیٹھی تھیں۔


ریان چلتا ہوا ان کے پاس آیا تو مر حاکی آواز اس کے کان میں پڑی۔


ایمان تمھارے بھائی تمھیں ایسے ہی مناتے ہیں چاکلیٹ اور آئسکریم دے کر۔


مر جانے چوکلیٹ کا بائیٹ لیتے ہوئے پو چھان او شاہ میر نے منالیا میڈم کو۔


ریان نے دل میں سوچا۔


ہاں جب میں ان سے ناراض ہوتی ہوں نہ تو وہ مجھے ایسے ہی مناتے ہیں مگر بھیو ان کا اسٹائل تھوڑا ڈ فرنٹ ہے۔


کیا کرتے ہیں وہ منانے کے لیے۔


مر جانے ایمان کی بات پر پوچھا۔


وہ مجھے اپنا کارڈ دیتے ہیں اور کہتے ہیں جاؤ میر ابچہ دل کھول کر شاپنگ کرو۔


ایمان کی بات پہ مرحا مسکرائی تھی۔


تمھارے بابا کیسے مناتے تھے تمھیں۔


ایمان نے پوچھا تو مر حاماضی کی یاد میں کھوئی تھی۔


میں جب بابا سے ناراض ہوتی تھی نہ تو وہ مجھے منانے کے لیے سنگنگ کرتے تھے پھر ہم سانگلنگ کرتے


تھے دور تک پھر واپس آتے ہوئے بابا مجھے ڈھابے کی چائے پلاتے تھے۔


کتنا کچھ بدل جاتا ہے نہ ماں باپ کے جانے کے بعد وقت کس طرح پلٹی کھاتا ہے انسان صرف دیکھتارہ جاتا ہے۔ رتقای آواز دیتی ایمان نے اسے سینے سے لگایا۔


اللہ تعالیٰ تمھیں صبر میری جان تم رو نہیں اس سب میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی۔


مر حا کارو ناریان کا دل ایک بار پھر دکھا گیا تھا۔


یہ حقیقت تھی ریان اس کے قدموں میں دنیا جہاں کی چیزیں لا کر رکھ سکتا تھا مگر اس کی زندگی کی سب سے بڑی کمی پوری نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس کے ماں باپ کو واپس نہیں لا سکتا تھا۔


ہاں لیکن اسے منانے کے لیے بیت کچھ کر سکتا تھا اور اپنے مزاج کے خلاف جا کر اس نے کرنے کا سوچ بھی لیا تھا۔


اگر اس کی چھوٹی سی کوشش مرحا کو خوشی دے سکتی تھی تو ریان حیدر آج اس کی خوشی کے لیے وہ کرنے والا تھا جو شاید اس کے گھر والے دیکھیں تو صدمے سے بے ہوش ہو جائیں۔


اہم اہم !


ریان کی آواز پہ دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔


بھیو آئیں آپ بھی بیٹھیں ہمارے ساتھ۔


ایمان نے کہا مر جانے اسے دیکھ کر واپس چہرہ پھیر لیا تھا مطلب ناراضگی ابھی بھی برقرار تھی۔


نہیں بچہ ایک کام کرو آپ اندر جاؤ اور مر حاتم چلو تمھیں گھر جانا تھا اپنے۔


ریان کے کہنے پہ مر جانے اس کی طرف دیکھ کر ہاں میں گردن ہلائی۔


چلو چلتے ہیں پھر ۔


ریان کہہ کر باہر کی طرف چلا گیا جبکہ ایمان مرحا کو ہائے کر کے اندر چلی گئی تھی۔


مرحا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باہر آئی تو ریان گاڑی کے پاس کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر ریان نے اس کے فرنٹ ڈور کھولا تو وہ چلتی ہوئی گاڑی تک آئی۔


مرحا نے ریان کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دونوں کی نظریں ایک لمحے کے لیے ملی تھیں پھر دونوں نے ہی نظریں چرائی۔


ریان کا دل بے ترتیب ہو ا تھا وہی مر حا کا دل بھی زور سے دھڑ کا تھا۔


مرحا کو بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کری۔


مرحا پورے راستے کچھ نہیں بولی بس اپنی انگلیاں مروڑتی رہی وہ کنفیوز ہو رہی تھی مگر کیوں ریان سمجھ نہیں پایا۔ ریان نے بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا بس یہ سفر خاموشی کے نام کر دیا۔


ریان نے مرحا کے گھر کے باہر گاڑی روکی تو اس کے گھر کا چوکیدار اسفند یار مر حا کو دیکھ کر فوراً اس کی طرف بڑھا۔


مرحا بی بی آپ زندہ ہیں آپ کہاں تھیں کیا واقعی صاحب اور بیگم صاحبہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ آپ لوگ تو گاؤں گئے تھے نہ پھر یہ سب اچانک کیا ہو گا۔


اسفند یار نے کئی سوال کر ڈالے۔


مرجانے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔


جی لالا آپ نے جو بھی سنا وہ سب سچ ہے۔ ماما با باب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ مرحا کی آواز میں نمی گھلی تھی۔


بہت افسوس ہو ابی بی جی مگر آپ زندہ ہیں میں نے تو یہی سنا تھا آپ بھی نہیں رہیں۔


ریان با غور اسفند یار کو دیکھ رہا تھا۔


افسوس بعد میں کرنا پہلے یہ بتاؤ تم تک یہ خبر کس نے پہنچائی ہے۔


ریان کے ایک دم پوچھنے پہ وہ تھوڑا گھبر آیا تھا پھر سنبھل کر بولا۔


وہ۔۔ وہ نہ صاحب جی گاؤں سے دو لوگ آئے تھے انہوں نے بتایا تھا۔


اسفند یار کے کہنے پر ریان نے آئیبر و اٹھا کر اسے دیکھا۔ ریان کو اس آدمی سے کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا تھا۔


لالا مجھے کچھ سامان لینا ہے گھر سے اور آپ بھی اب گھر جاسکتے ہیں جب میں یہاں واپس آجاؤں گی تب


آپ کو بلالوں گی۔


مرحا کے کہنے پہ اسفند یار نے سر ہلایا۔


کہاں ۔۔ کہاں رہ رہی ہیں آپ بی بی جی۔


گرلز ہاسٹل میں رو رہی ہے تمہیں اس بات سے کیا لینا دینا۔


اسفند یار کی بات پر مرحا کوئی جواب دیتی اس سے پہلے ہی ریان بول پڑا تھا۔


مرحا نے ریان کو دیکھا جو ابھی بھی اسفند یار کو گھور رہا تھا۔


مرحا جلدی کرو تمہیں چھوڑ کر مجھے جانا بھی ہے واپس۔


مر حاریان کی بات پر کنفیوز سی اندر چلی گئی۔


ریان بھی مرحا کے پیچھے آیا تھا۔


ریان نے ایک نظر گھومائی۔ گھر بہت بڑا نہیں تھا مگر چھوٹا بھی نہیں تھا۔ پورا گھر بہت خوبصورتی اور نفاست سے سجا ہو اتھا۔


مرحا کو آج سے پہلے یہ گھر اتناویر ان کبھی نہ لگا تھا جتنا اس وقت لگ رہا تھا۔ ست قدموں سے چلتی ہوئی وہ بال کے ایک سائڈ پہ آئی جہاں دیوار پر آصف صاحب اور رمشاء کی تصویر لگی ہوئی تھی۔


ریان نے تصویر کو دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا ان کی جوڑی بہت خوبصورت تھی۔


مر جانے دیوار سے تصویر نکال کر اپنے ہاتھ میں لی اور محبت سے اس پہ ہاتھ پھیرا۔


آنکھوں سے آنسو بے ساختہ بہنے لگے۔ 


ریان نے دیوار پر لگی باقی تصویریں دیکھیں جس میں زیادہ تر مرحا کی تھیں۔ ہال کی ایک سائڈ کی دیوار کا


آدھا صرف تصویروں سے بھرا ہوا تھا۔


بچپن سے لے کر اب تک کی مرحا کی کئی تصویر میں موجود تھیں۔


مر حاسنبھالو پلیز ہمیں جلدی نکلنا ہے یہاں سے۔


❤❤❤