تیرا عشق مرہم سا ہے

دوسری قسط

ازقلم؛ طوبیٰ صدیقی


 


❤️❤️❤️


اس نے چڑتے ہوئے کہا۔


سمینہ بیگم نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا۔


بیٹا جی یہ سب آپ اس لیے بول رہے ہیں کیوں کہ آپ کو لڑکیوں سے ہی الرجی ہے۔ مجھے تو انتظار ہے اس دن کا جب آپ کو کوئی لڑکی پسند آئے گی۔


نہ نہ نہ مجھے کوئی نہیں پسند آنے والی ماما اور نہ میں ان سب میں پڑنا چاہتا ہوں۔ ماں کی بات سمجھتے ہی


ریان نے فورا جواب دیا۔ 


یہ بھی ٹھیک ہے پھر ہماری ماہی ٹھیک رہے گی آپ کے لیے۔ سمینہ نے اپنی پیاری بھانجی کا نام لیا جس کو سنتے ہی ریان کا منہ بن گیا۔


لائک سیر لیسلی ماما۔ ماہین کبھی میری پسند نہیں ہو سکتی۔ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جو مجھے پسند آئے تو اسکا خیال تو آپ نکال ہی دیں۔


ریان کی بات سن کر سمینہ نے نفی میں سر ہلایا وہ جانتی تھیں اس بحث میں ریان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ وہ کبھی اس پہ راضی نہیں ہو گا۔


اچھا تو پھر بتایے میرے بیٹے کو کیسی لڑکی چاہیے۔ کیا الگ ہو اس میں ؟


ہمینہ کے سوال پر ریان کے عنابی لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔


کم ۔ آنکھیں بند کر کے اس نے بولنا شروع کیا۔


جو میری طرح ہو۔ جس کی زندگی میں مجھ سے پہلے کوئی نہ آیا ہو۔ جسے آج کل کے لوگوں کی طرحبناوٹی چیزیں پسند نہ ہوں، جو میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں کھڑی رہے، جسے میرے لوکس نہیں میر ادل پسند ہو ، جو میرے ساتھ تیز بارش میں کسی ڈھابے پہ بیٹھ کہ چائے پیے، جس کے لیے یہ اسٹینڈرڈ یہ پیسہ میٹر نہ کرے، جو میرے ساتھ آواز ملا کر نا ئنٹیز کے گانے گائے ، حمدرد بنے سر درد نہ بنے، رحمدل ہو اصول پسند ہو ، سوشل میڈیا کی بناوٹی زندگی نہ جیتی ہو بلکہ ہر لمحے کو میرے ساتھ جیسے،


جس کے لیے تصویروں سے زیادہ وہ وقت اہمیت رکھے جس میں ہم ساتھ ہوں، میری پسند نہ پسند - کے مطابق خود کو ڈھال لے ، اور جسے میں آدھی رات کو بھی چائے پینے کا بولوں تو وہ آدھی رات کو بھی اٹھ کر میرے لیے چائے بنائے بلکہ میرے ساتھ پیے بھی، جو مجھ سے زیادہ آپ کی بابا کی دادا جان کی عزت کرے، میرے بہن بھائیوں کو ویسی ہی اہمیت دے جیسی میں دیتا ہوں، جسے تنہائی سے زیادہ


آپ سب کا ساتھ اچھا لگے۔۔ اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں پر یہ مین میں ہیں۔


ریان کی باتوں پہ سمینہ کچھ بولتیں اس سے پہلے ہال میں قہقہے گونجے۔


شایان اور شاہ میر ہنستے ہوئے اندر آئے۔


بھائی کیا واقعی ایسی لڑکی چاہیے مطلب نائنٹیز کے گانے آدھی رات کو چائے بس یہ سب ۔۔۔ خوبصورت ہو پیاری ہو یہ نہیں ؟؟


شایان نے ریان کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔


جب مجھے یہ چیزیں کسی لڑکی میں دیکھ جائیں گی وہی میرے لیے سب سے خوبصورت ہو گی۔ ہر چیز می صرف خوبصورتی میٹر نہیں کرتی ہے۔ کیا فائدہ لڑکی خوبصورت ہو اور میرے مطابق نہ ہو۔ تم جب اپنی کوئی شرٹ لینے جاتے ہو تو صرف یہ دیکھتے ہو کہ کونسی اچھی تم پہ اچھی لگے گی یا یہ بھی دیکھتے ہو کہ اس کی کوالیٹی ہے یا نہیں۔ ریان نے دونوں کو سمجھایا تھا۔


بات میں دم تو ہے بھائی۔ شاہ میر نے ایگری کیا۔


اللہ کرے جیسی تمھیں چاہیے ویسی لڑکی جلد ہی تمھاری زندگی میں آجائے۔ سمینہ بیگم نے دل سے دعا تھی۔ ریان صرف مسکرایا تھا دل میں صرف ایک ہی سوال تھا کیا واقعی ایسی کوئی لڑکی ہو گی۔


آصف صاحب نے گرلز کالج کے باہر گاڑی روکی انھیں یہاں سے مرحا کو پک کرنا تھا۔ کیا ہوا تا یا جان آپ نے یہاں گاڑی کیوں روکی ہے۔ ساحر نے پوچھا۔


بیٹا مر حا کو پک کرنا ہے وہ ایڈمیشن لینے آئی تھی اس کا کام بھی مکمل ہو گیا ہو گا تو اسے ساتھ لے چلیں گے۔ میں اسے لے کر آتا ہوں


آصف صاحب کی بات سمجھ کر اس نے گردن ہلائی۔ گاڑی میں بیٹھے اسے 20 منٹ ہو گئے تو وہ اکتا گیا۔ اس نے تایا جان کے پیچھے جانے کا سوچا۔ وہ کلاج کے اندر آیا تو اس وقت ایڈمیشن کے لیے آئے لوگوں کا کافی رش تھا۔ وہ تھوڑا آگے آیا تو لیب سے نکلتی ایمان بری طرح ٹکرائی۔ ایمان کا سر اس کے


چوڑے سینے سے لگا۔ جہاں ساحر کا دل زور سے دھڑکا تھا وہی ایمان خود کو کسی لڑکے کے اتنی قریب دیکھ کر سٹپٹا گئی تھی۔


ایم ریلی سوری میں نے دیکھا نہیں تھا آپ کو یہ غلطی سے ہو گیا ہیں۔


ساحر کو اسکے الفاظ سنائی کہاں دیے تھے وہ تو اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ معصوم سا چہرہ ساحر کے دل کی دل کی دنیا ایک لمحہ میں ہلا گیا۔


اٹس اوکے بٹ بی کیئر فل ایسے کسی سے نہیں نکر انا چاہئے خاص کر کسی لڑکے سے وہ آپ کے پیچھے بھی پڑ سکتا ہے میں ایمان۔


ساحر نے اسے ایسا کیوں کہا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا مگر وہ معصوم سی لڑکی اس کے دل میں اتر رہی تھی۔


ایمان بنا اسکی بات کا جواب دیے اندر کی طرف چلی گئی جہاں ایک لڑکی کھڑی اسے بلارہی تھی۔


اس کے جانے کے بعد ساحر ہوش کی دنیا میں واپس آیا تو اسے اندازہ ہوا ایمان اسکی شرٹ خراب کر چکی ہے۔


اس نے ایک نظر اپنی شرٹ کو دیکھا جس پر ایمان کے انک والے دونوں ہاتھ چھے ہوئے تھے۔


ساحر کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھری۔ وہ کوئی دل پھیک مرد نہیں تھا کہ ایسی ہی کسی بھی لڑکی کے لیے مسکراتا مگر ایمان نے اس کے دل میں اپنے قدم رکھ دیے تھے۔


واہ پہلی ملاقات میں کیا تحفہ دے کے گئی ہے۔ ساحر نے اپنی خراب ہوئی شرٹ کو دیکھ کر سوچا پھر مسکرا کر واپس باہر کی طرف چلا گیا۔ آصف صاحب باہر آگئے تھے میسج اسے مل گیا تھا۔


تم کیا کر ہیں تھیں ایمان اور وہ لڑکا کون تھا۔ اور تمھارے ہاتھوں پہ اتنی ساری انک کیسے لگ گئی۔


مر حاجو اس کا کب سے انتظار کر رہی تھی اسے دیکھتے ہی سوالوں کی لائن لگادی۔ مرحا اور ایمان میں بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ایڈریس سے لے کر موبائل نمبر تک شیئر کرلیے تھے۔


یار تمھیں پتہ ہے کیا ہوا۔ میں لیب سے باہر نکل رہی وہی ہمیشہ کی طرح بھاگتی ہوئی۔ وہ لڑکا سامنے کھڑا تھا میں اس سے ٹکراگئی اس کی شرٹ بھی ساری خراب ہو گئی مجھ سے پر مزے کی بات بتاؤں اس سے پہلے وہ اپنی شرٹ دیکھتے میں وہاں سے بھاگ کے آگئی۔


ایمان نے مزہ سے اپنا کارنامہ بتایا۔


پھر تو دعا کرو وہ تمھیں دوبارہ نہ ملیں ورنہ اگر انھیں تمھیں دیکھ کر اپنی شرٹ یاد آگئی تو کیا ہو گا۔ مرحا

نے ہنستے ہوئے کہا۔


ہاں سہی بول رہی ہو اللہ جی پلیز وہ مجھے دوبارہ نہ دیکھیں کہیں بھی۔ ایمان نے دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھا کر کہا۔


اچھا میں اب چلتی ہوں میرے بابا بایر میر اویٹ کر رہے ہیں اب انشاء اللہ منڈے کو ملیں گے میری کلاسر منڈے سے اسٹارٹ ہیں۔ اور تھینک یو سو میچ تمھارے ساتھ ہونے سے میری بہت ہیلپ ہو گئی۔ مرحانے ایمان کے گلے لگتے ہوئے کہا۔


اٹس اوکے فرینڈز کو تھوڑی تھینک یو کہتے ہیں۔ کوئی بھی ہیلپ چاہیے ہو مجھے ضرور بتانا۔ مرحا کے جانے کے بعد اس نے ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کی وہ شخص اس سے دوبارہ نہ دیکھے۔ مگر کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ قسمت کیا کیا کھیل کھیلتی ہے۔ ایمان کو اندازہ بھی نہیں تھا جس شخص سے وہ دور رہنے کی دعا کر رہی ہے وہی شخص اس کی زندگی میں محبت کے رنگ بکھیر دے گا۔


ساحر باہر آیا تو آصف صاحب اکیلے کھڑے تھے۔ 


کیا ہوا تا یا جان مرحا نہیں آئی ؟ ساحر نے انھیں اکیلا دیکھ کر سوال کیا۔ وہ بس آتی ہو گی بیٹا یہ تمھاری شرٹ کو کیا ہوا یہ تو گندی ہو گئی۔ ساحر نے ایک نظر اپنی شرٹ کو دیکھا جس پر ایمان کے ہاتھ چھپے ہوئے تھے اور ہاتھوں کی یہ چھاپ ساحر کے دل تک گئی تھی۔


جی وہ اصل میں ایک اسٹوڈینٹ سے غلطی سے خراب ہو گئی۔ میں یہ کوٹ پہن لیتا ہوں میری بہن پہلی بار مجھے ایسے گندے کپڑوں میں دیکھے گی تو کیا سوچے گی۔ اس نے مسکراتے ہوئے اپنا کوٹ پہنا تا کہ اس کی شرٹ چھپ جائے۔ آخر اس کی بہن پہلی بار اس سے ملنے والی تھی وہ اپنا را امپریشن تو بالکل نہیں دے سکتا تھا۔


لو آگئی میری پرنس۔ آصف صاحب کے کہنے پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں ایک چھوٹی سی لڑکی اپنی مستی میں چلتی ان کے پاس آرہی تھی۔


میں آگئی بابا جان میر اسارا کام ہو گیا منڈے سے میری کلاسس بھی اسٹارٹ ہو جائیں گی۔ اور آپ کو پتہ ہے میری ایک فرینڈ بھی بن گئی۔ وہ بہت پیاری ہے بہت اچھی ہے اس نے میری بہت ہیلپ کی اس کی وجہ سے میرا کام بھی جلدی ہو گیا۔ پر بس وہ سیکنڈ ائیر کی اسٹوڈینٹ ہے میں نے نہ اسکا۔۔۔۔ بابا کے اشارے پر اسکی بولتی زبان کو بریک لگا۔


بابا کے اشارے پر اس نے اپنے پیچھے کھڑے شخص کو دیکھا جو اس کی باتیں سن کہ مسکرانے میں مصروف تھا۔


جلدی چل یار ایمان انتظار کر رہی ہو گی ریان بھائی کو پتہ لگا نہ کہ ایمان کو ہم ٹائم پہ لینے نہیں گئے تو ہماری ٹھیک ٹھاک کلاس لگ جائے گی۔ شاہ میر نے جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے شایان کو بھی


جلدی چلنے کو بولا جو کچھوے کی اسپیڈ سے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔


ہاں اور تو اور وہ شکایت لگانے سے بھی کہاں پیچھے رہتی ہے سب سے پہلے ریان بھائی کو شکایت لگائے گی پھر کچھ کھائے گی۔ ورنہ کھانا ہضم نہیں ہو گا میڈم کا۔


شایان نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ اتنے میں شاہ میر کے موبائل پر ریان کی کال آنے لگی۔


لگتا ہے کمپلین ہیڈ آفس پہنچ گئی ہے۔ شاہ میر نے بولتے ہوئے کال اٹھائی۔


ہیلو بھائی۔۔ اس سے وہ کچھ اور بولتاریان کی غصے بھری آواز آئی۔


تم لوگوں کو ایک کام دیا وہ بھی ٹھیک سے نہیں کر پائے ایمان کا آف ہوئے دس منٹ سے اوپر ہو گیا ہے اور تم لوگوں کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے وہاں ایمان پریشان ہو رہی ہے کہاں ہو تم لوگ۔


بھائی ہم بس گھر سے نکل گئے ہیں بس دس منٹ میں پہنچ جائیں گے۔ شاہ میر نے بولتے ہی گاڑی بھگائی تھی۔


یہ کون ہے بابا ؟


مرجانے آصف صاحب سے سوال کیا۔


بیٹا یہ تمھارے امجد چاچو کے بیٹے ہیں۔ اب آگے خود پہچانو !


آصف صاحب کے کہنے پر ساحر نے حیرانگی سے انھیں دیکھا۔


او مائی گاڈ کیا یہ ساحر لالا ہیں بابا جان ؟؟ مر جانے ایکسائینڈ ہو کر پوچھا تو اس کے ساحر لالا کہنے پر سا کے چہرے پر تبسم بکھر اتھا۔


ہاں وہ اسے پہچان گئی تھی وہ رشتوں سے انجان نہیں تھی۔ اس نے بھائی کو پہچان لیا تھا۔ ساحر کو مرحا پر ٹوٹ کر پیار آیا آج اسے کسی نے اتنی محبت سے لالا پہلی بار کہا تھا۔ ساحر کو اپنے دل میں سکون اتر تا محسوس ہوا۔


ے یا سر ارے او یا سر کدھر مر گیا ہے بد بخت۔


اماں صاحب کی گرجدار آواز پر یاسر کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ شاید نہیں یقینا انھیں ساحر کی غیر موجودگی محسوس کر لی تھی اب وہ انھیں کیا جواب دے گا یا سر سوچنے میں مصروف تھا جب اماں صاحب کی آواز دوبارہ آئی۔


اب اگر تو فورا سامنے نہیں آیا نہ تو بندوق کی ساری گولیاں تیرے سینے میں اتار دوں گی۔


انکے کہنے کی دیر تھی یا سر فورا حاضر ہوا۔


سلام بیگم صاحب آپ نے مجھے بلایا۔ یا سر نے سر جھکائے ہوئے کہا۔


کدھر مر گیا تھا کانوں میں روئیاں ڈالی ہوئی ہیں کب سے آواز دے رہی ہوں۔ اماں صاحب نے تحصے سے گھورتے ہوئے کہا۔


تب ہی وہاں ساحل اور مزمل بھی آکر بیٹھے۔ ان کو دیکھ کر یا سر کے ہوائیاں اڑ گئی تھی۔ اگر انکے سامنے رقیہ بیگم نے یاسر سے ساحر کے بارے میں پوچھا اور اس کے جھوٹ کو ان لوگوں نے پکڑ لیا تو


یا سر اپنی حالات صرف سوچ ہی سکتا تھا۔


تو مجھے یہ بتا یہ تیر اساحر لالا کہاں غائب ہے کل ہے۔ ایسے تو وہ کہیں جاتا نہیں ہے۔ کیا کھچڑی چل رہی


ہے اس کے دماغ میں بتا مجھے - 


یا سر کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا اسے اس سوال کی امید تھی۔


بیگم صاحب وہ شہر گئے ہیں انکے کسی دوست کی طبیعت کافی خراب تھی اسی لیے۔


یاسر نے ہمت سے جواب دیا دل میں یہی دعا تھی کہ سب اس بات پر یقین کر لیں۔۔


م شہر گیا ہے تب ہی تو گھر میں سکون ہے ورنہ میرے معصوم بچوں کے پیچھے ہی پڑا رہتا تھا۔ خیر تو جا اب


رقیہ بیگم کے کہنے کی دیر تھی یا سر بوتل کے جن کی طرح غائب ہوا۔


اماں صاحب دیکھ لیں یہ ساحر آپ کے بیٹے سے ملنے نہ گیا ہو۔


خبردار جو اسے میرا بیٹا کہا۔ میرے صرف دو بیٹے ہیں امجد اور ماجد اس کے علاوہ کوئی بیٹا نہیں میرا سمجھے۔


مزمل کے کہنے پہ انھوں نے اسے بری طرح جھڑ کا تھا۔ رقیہ بیگم کی آصف کے لیے نفرت سے سب ہی واقف تھے حویلی میں کیا پورے گاؤں میں آصف کا نام لینے کی اجازت کسی کو نہیں تھی۔


اچھا اچھا خفانہ ہوں ہمارا ناشتہ بنوائیں دیر ہو رہی ہے ہمیں۔ ساحل نے بات بدلی تو رقیہ بیگم بھی وہاں


سے اٹھ گئیں تا کہ اپنے پوتوں کے لی ناشتے کا انتظام کروائیں۔


جی جناب یہ آپ کے ساحر لالا ہیں۔ آصف صاحب نے مرحا کو جواب دیا جو ایکسائیٹیڈ سی ساحر کو دیکھ رہی تھی۔


اسلام و علیکم لالا آپ کیسے ہیں اور آپ اب آ رہے ہیں آپ پہلے کیوں نہیں آئے کبھی آپ کو کبھی ہماری یاد نہیں آئی۔


مرحا بہت خوش تھی وہ پہلے کبھی اپنے اپنوں سے نہیں ملی تھی۔


والیکم اسلام میں بالکل ٹھیک ہوں بچہ اور واقعی میں نے آنے میں بہت دیر کر دی کاش میں پہلے ہی آجاتا مجھے اندازہ نہیں تھا کوئی مجھ سے مل کہ اتنا خوش ہو گا۔


ساحر نے مرحا کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا آج اپنے جذبات وہ الفاظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتا تھا اسے نہیں یاد تھا کہ حویلی میں اس سے کبھی کسی نے اتنے پیار سے بات کی تھی۔


اچھا اچھا اب کیا ساری باتیں یہیں کرنی ہے بیٹا اپنے لالا کو گھر نہیں لے کے جاؤ گی۔


بابا جان کے کہنے پر مرحا کے چہرے پہ رونق آئی


کیا کچی لالا ہمارے ساتھ رہیں گے پھر تو بہت مزہ آئے گا چلیں چلیں پھر تو جلدی سے گھر چلیں۔


مرحانے بولتے کے ساتھ ہی ساحر کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔ ساحر نے اس کے گال کھینچے تو وہ کھل کے کھکھلائی تھی۔


شاہ میر اسپیڈ میں گاڑی بھگاتا ہو الا یا اور گارڈ کو ایمان کو بلانے کے لیے کہا۔


ایمان باہر آئی تو اسکی آنکھیں لال ہو رہی تھیں وہ روئی تھی اور یہی بات شایان اور شاہ میر کو پریشان کرنے کے لئے کافی تھی۔ وہ تو مزاق میں بھی اسے رونے نہیں دیتے تھے۔


ایمان کیا ہو ابچہ میری جان تم روئی ہو کیا بات ہے کسی نے کچھ کہا تمھیں۔ شایان نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا۔


ہاں ایمان پلیز بتاؤ گڑیا کیا ہوا ہے تم کیوں توئی ہو تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ کہیں درد تو نہیں ہے نہ بچہ کچھ تو بولو۔


شایان اور شاہ میر دونوں پریشان ہو چکے تھے۔ ایمان کا رونا ان کے لیے کوئی معمولی بات ہر گز نہیں تھی۔


مجھے بس گھر جانا ہے بھائی پلیز گھر لے چلیں مجھے۔


ایمان کے کہنے پہ وہ دونوں ہی بنا کچھ بولے اسے لے کر گھر کے لیے نکل چکے تھے اب جو بات تھی وہ ریان کے سامنے ہی ہوئی تھی ایمان نے یقینا اب اسے ہی سب بتانا تھا۔


شاہ میر نے ایک بار پھر اسپیڈ سے گاڑی گھر کی طرف کی ساتھ ساتھ ریان کو مسیح بھی کر دیا کے وہ جلدی گھر پہنچے۔


دروازے کی دستک سن کر رمشاء کام چھوڑ کر جلدی سے کچن سے نکلی تھیں۔ مرحا آگئی ہو گی یہی سوچتے ہوئے انھوں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک لڑکے کو کھڑا دیکھ وہ ٹھٹکی تھیں بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیے گھنی مونچھیں ہلکی سی داڑھی فورمل سوٹ میں ملبوس اس پر کشش شخصیت کو دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ انہیں سالوں پیچھے لے گیا تھا۔


میرا بچہ جلدی سے آئیں ادھر آپ کے چوٹ لگ جائے گی۔ رمشاء کی آواز سن کر وہ بچہ مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھا ماں کہہ کر اس کے سینے سے لگا تھا۔


اس مسکراہٹ کو تو کروڑوں میں بھی پہچان سکتی تھیں ممتا کا پہلا احساس تو انہیں اسی سے ملا تھا۔


وہ یک ٹک ساحر کو دیکھ رہی تھیں جو اپنے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔


ساحر نے آج بھی ماں کہہ کر پکارا تو پھر اچانک امڈ آنے والے آنسو کو وہ روک نہیں پائی تھیں۔


وہ اپنے ساحر کو کیسے بھول سکتی تھیں آج اتنے سالوں بعد اسے سامنے دیکھ کر وہ اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کر پائی تھیں۔ ان کے جذبات سمجھ کر ساحر نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگایا۔


آپ ایسے روئیں گی تو میں واپس چلا جاؤں گاماں۔ بس چپ ہو جائیں ایسے ویلکم کریں گی آپ مجھے ہم۔


ساحر نے انکے آنسو پوچھے۔ 


کیسا ہے میرا بیٹا اتنے سالوں میں ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہمیں بھول گئے تھے اپنی ماں کو بھول گئے تھے۔ رمشاء نے اسکی پیشانی پہ بوسا دیا اور خفگی سے کہا۔


میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں بھلا میں ساری دنیا بھولا سکتا ہوں پر آپ کو نہیں ماں۔


آپ لوگوں کے جانے کے بعد حویلی میں آپ لوگوں کا نام لینا بھی کسی کو برداشت نہیں تھا۔ پھر کسی نے کبھی آپ لوگوں سے ملنے نہیں دیا۔ آج بہت ہمت کر کے یہاں تک آیا ہوں بس ڈر تھا آپ لوگوں کے دل میں پہلے جیسے جذبات ہوں گے یا نہیں۔


ساحر نے رمشاء کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔


ایسا سوچا بھی کیسے تم نے ہاں ماں کے جذبات بھی بھالا اولاد کے لیے بدلتے ہیں۔ کوئی ایک دن ایسا نہیں تھا جب رمشاء تمھارا ذ کر نہ کرے۔ ہم کبھی تمھیں نہیں بھولے تھے۔


آسف صاحب نے کہا۔


جب ساحر کی نظر دروازے کے پاس کھڑی ناراضگی سے دیکھتی ہوئی مرحا پہ پڑی۔


اہم۔۔ ساحر نے دونوں کی توجہ مرحا کی طرف دلائی جو اپنے گالوں کو پھولائے سب کو دیکھ رہی تھی۔


ارے میری گڑیا وہاں کیوں کھڑی ہے آؤ ادھر اپنے لالا کے پاس۔ ساحر نے اسے اپنے پاس بولایا۔


مرحا پھولے پھولے گالوں کو لے کر ساحر کے برابر میں بیٹھ گئی۔


لالا کے آتے ہی آپ دونوں کو خیال ہی نہیں رہا کہ آپ کی ایک بیٹی بھی ہے۔


 مرحانے نارانگی سے کہا۔


ارے ہماری مجال ہم یہ بات بھول جائیں آپ تو میری پرنس ہو نہ۔


آصف صاحب نے پیار سے کہا۔


جی نہیں سب سمجھ رہی ہوں میں اب میں آپ دونوں سے بالکل بات نہیں کروں گی صرف اپنے لالا سے کروں گی بات۔


ارے نہیں بابا نہیں ایسا ظلم تو نہیں کریں بچہ آپ کو پتہ ہے نہ ہمارا گزارا کہاں ہے آپ سے بات کیے


جبکہ رمشاء مسکراتے ہوئے دونوں باپ بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔


مرحا کی ناراضگی ہمیشہ کی طرح جب ہی دور ہوتی ہے جب تک تمھارے تایا جان اسے گھومانے نہیں لے جاتے یہ ہمیشہ کا ہے۔


رمشاء نے ساحر کے کان میں سرگوشی کی تو وہ مسکر ا دیا۔


یہ چھوٹا ہ گھر جس میں صرف خوشیوں کا راج تھا اسے حویلی کی بے رونقی سے زیادہ اچھا لگا۔ پر کسی کو نہیں پتہ تھا آنے والا وقت انھیں کیا دیکھانے والا ہے۔


ایمان بیٹا بتاؤ تو ہوا کیا ہے کیوں اس طرح رو رہی ہو تم بتاؤ گی نہیں تو کیسے پتہ لگے گا ہمیں۔


سمینہ بیگم نے ایمان کو سمجھایا۔ ایمان کا رونا سب کو پریشان کر گیا تھا ایمان کے کچھ نہ بتانے پہ وہ بھی نیچے آگئیں جہاں ریان بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔


ماما کہاں ہے ایمان کیا ہوا ہے وہ کیوں رو رہی ہے کچھ بتایا اس نے ؟ ریان نے آتے ہی سوال جواب شروع کر دیے۔


تمھیں لگتا ہے تمھارے سوا وہ کسی کو کچھ بتائے گی۔ اپنے کمرے میں ہے او پر شایان شاہ میر اور شہیر ہیں اس کے پاس۔


ریان سنتے ہی اوپر کی طرف چلا گیا جبکہ سمینہ بیگم نفی میں سر ہلاتی کچن کی طرف چلی گئیں۔


ریان ایمان کے کمرے میں داخل ہوا تو تینوں بھائی ایمان کو بہلانے میں مصروف تھے۔


کیا ہوا ہے میری گڑیا کو کسی نے کچھ کہا ہے۔ ریان کے پوچھنے کی دیر تھی کہ ایمان نے دوبارہ زار و قطار رونا شروع کر دیا۔


ریان نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور شایان شاہ میر اور شہیر کو کمرے سے جانے کا بول دیا۔


انکے جانے کے بعد ریان نے ایمان کا سر اٹھایا تو اسکی آنکھوں میں تکلیف دیکھ کر ریان کے دل میں ٹیس اٹھی تھی۔


ایمان بھروسہ ہے نہ بھائی پہ بتاؤ کیا ہوا ہے۔ ریان نے ایمان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ ایمان نے ریان سے کچھ نہیں چھپایا سب بتائی گئی جسے سن کر ریان کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئیں۔ کالج کی چھٹی ہو گئی تھی کلاس روم خالی ہو چکا تھا ایمان بھی جلدی جلدی اپنا بیگ پیک کر کے کلاس سے نکلنے ہی والی تھی کہ اتنے میں بائیولوجی کے نئے ٹیچر سر سلمان اندر داخل ہوئے۔


ایمان نے انھیں سلام کیا اور کلاس سے جانے لگی تو انھوں نے اس کا راستہ روکا۔


ارے ایمان رکیں یہ کچھ نوٹس ہیں کل آپ کلاس میں سب اسٹوڈینٹس کو دے دیے گا میں کل نہیں آونگا میں نہیں چاہتا بچوں کالوس ہو۔


سر کے کہنے پر ایمان نے انکے ہاتھ سے نوٹس لیے۔


ٹھیک ہے سر میں کل یہ پوری کلاس میں دے دوں گی۔ اللہ حافظ ۔ ایمان کہہ کر جانے لگی پتہ نہیں کیوں مگر سر سلمان سے اسے عجیب سی خیل آتی تھی کئی بار اس نے انھیں خود کو دیکھتے پایا تھا۔


ایمان ان کے قریب سے گزرنے لگی تو انھوں نے اس آگے پاؤں اڑایا جس سے ایمان اپنے گرتی لیکن اس پہلے ہی وہ اسے پکڑ چکے تھے۔


ہاتھ سے پکڑ کر اچانک انھوں نے ایمان کو کمر سے پکڑا۔ ایمان نے اپنے آپ کو چھوڑوانے کی کوشش


کی مگر انکے گرفت سخت تھی۔ 


سر چھ چھوڑیں مم مجھے پلیز۔ ایمان کی آواز روند گئی تھی سر کا ہاتھ اپنی کمر پر چلتا محسوس کر ایمان کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس سے پہلے وہ اپنا ہاتھ کمر کے نیچے تک لے کے جاتے ایمان نے انھیں زور دار


دھکا دیا اور کلاس روم سے بھاگ نکلی۔


اسے بہت رونا آیا 4 بھائی تھے اس کے وہ کبھی کسی سے نہیں ڈری تھی کوئی اس کی طرف میلی نظر سے دیکھ نہیں سکتا تھا لیکن آج وہ اس وقت بالکل تنہا تھی اگر آج کچھ غلط ہو جاتا تو وہ کیا کرتی اسکے باپ دادا بھائیوں کا غرور خاک ہو جاتا۔ وہ باہر آئی تو گارڈ نے بتایا اسے ابھی تک لینے کوئی نہیں آیا ہے۔


کیا ہوا بیٹا کوئی پریشانی ہے تم رورہی ہو ہانپ رہی ہو سب ٹھیک ہے۔


گارڈ نے اسکی حالات دیکھ کر سوال کیا۔


ایمان نے اپنے آنسو صاف کیے اور گارڈ کو بنا جواب دیے ریان کو صبح کرنے لگی اسے بس یہاں سے نکلنا تھا اسے اس وقت سب سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اور آج ہی اس کا بھائی لیٹ ہو گیا تھا۔


گارڈ نے اسے اندر جاکے ویٹ کرنے کو کہا مگر وہ وہی گیٹ کے پاس بنی بینچ پہ بیٹھی رہی۔ واپس اندر جانے کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔


ایمان کی بات سن کر ریان نے اسے سینے سے لگایا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس ٹیچر کے ٹکرے ٹکرے کر دے جس نے سید ریان حیدر کی بہن کو اپنے گندوں ہاتھوں سے چھونے کی غلطی کی اور وہ ایسا ہی کرنے والا تھا۔ 


ریان اس معاملے کو ایسے نہیں جانے دے سکتا اس ٹیچر کا تو وہ ایسا حشر کرنے والا تھا جو اس نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی سید ریان حیدر کی بہن کو مولیسٹ کرنے کی۔ لیکن سب سے پہلے اسے اپنی بہن کو سنبھالنا تھا جو اس ظلم کا شکار ہوئی تھی۔


ایمان میر ابچہ ادھر بیٹھو اور یہ پانی پیو۔


ریان نے اسے بیڈ پہ بیٹھا کر پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔

❤️❤️❤️