تیرا عشق مرہم سا ہے

تیسری قسط

ازقلم؛ طوبیٰ صدیقی

 

°°°°°°


❤❤❤


ایمان میری جان میری طرف دیکھو تمھیں نظریں چرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے نظریں وہ چراتے ہیں جو غلط ہوتے ہیں اور میری گڑیا تو غلط نہیں ہیں نہ۔


ریان کی بات سن کر ایمان نے اپنا جھکا سر اٹھایا تھا۔ ایمان کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر ریان نے بہت مشکل سے اپنا غصہ کنٹرول کیا تھا۔


ایمان اب میری بات بہت غور سے سنو۔


میری جان یہ دنیا ایسے ہی بھٹڑیوں سے بھری پڑی ہے۔ ابھی لائف کا ایک اسٹیج ہے آگئے بھی تمھارا سامنا ایسے بہت سے لوگوں سے ہو گا جو انسانی روپ میں درندے ہونگے۔ مگر ایسے لوگوں سے ڈرنا نہیں ہوتا نہ ہی رو رو کر خود کو کمزور ظاہر کرنا ہوتا ہے۔


 تمھارے چاروں بھائی ہمیشہ تمھارے لیے کھڑے ہیں مگر زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جس میں انسان اکیلا ہوتا ہے مگر حقیقت وہ کبھی اکیلا نہیں ہوتا ایک ذات ہوتی ہے جو ہمیشہ اس کے پاس ہوتی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات تو جب اللہ ساتھ ہو تو ڈرنے کے تو سوال ہی نہیں اٹھتا نہ۔ 


عزت اس دنیا میں ہر چیز پہ بھاری ہے تو جو بھی کوئی تمھاری عزت کو نقصان پہچانا چاہے اس کا منہ توڑ دینا جو بھی چیز پاس پڑی ہو وہ کھینچ کے مار دینا۔ یہاں تک کہ اگر اپنی عزت کو بچانے کے لیے قتل بھی کرنا پڑے نہ تو کر دینا مگر آنکھوں سے آنسو نکالے بغیر بالکل کسی شیرنی کی طرح۔ تمھارا بھائی سب سنبھال لے گا۔


اب یہ آنسو پوچھو اور بالکل ڈرنے یا رونے کی ضرورت نہیں ہے میری گڑیا بہت بہادر ہے اس ٹیچر کی تم فکر نہیں کرو اس کو میں ایسی سزا دوں گا کہ وہ اپنے آپ کو بھی پہچان نہیں پائے گا۔


اور اس معاملے کا ذکر گھر میں کسی سے نہیں کرنا اوکے میں سب ٹھیک کر دوں گا۔ ایمان نے مسکرا کر ہاں میں سرہلایا۔


ایمان کے ماتھے پہ بوسہ دے کہ ریان نے اسے فریش ہونے بھیجا۔ اپنی بہن کو تو اس نے سنبھال لیا تھا اب باری تھی اس ٹیچر کی جس نے اپنی شامت خود بلائی تھی۔


رات کا کھانا کھا کر مر جانے روم میں جاکے ایمان سے بات کرنے کا سوچا مگر اس نے کال نہیں اٹھائی تو اس نے اپنا فیورٹ کام شروع کر دیا۔ اسکیچینگ جس میں وہ ماہر تھی۔ 


ایمان نے اس کی آج بہت مدد کی تھی جس کے لیے مرحا اسے کوئی تحفہ دینا چاہتی تھی تو اس نے سوچا کیوں نہ وہ ایمان کو اسکا ایک اس اسکیچ فریم کروا کے دے۔ 


بس اس خیال کے آنے کی دیر تھی مرحا اپنے کام پر لگ گئی ویسے بھی اس کی کلا سر منڈے سے شروع ہوئی تھیں مطلب اس کے پاس ایک ہفتہ تھا اور ایک ہفتہ میں وہ اس کا اسکینچ مکمل تیار کرلے گی اسے یقین تھا۔


ساحر اپنی شرٹ کو ہاتھوں میں لیے کہیں گم تھا۔ ایمان کے ہاتھ چھپی یہ شرٹ اس کے لیے بہت قیمتی ہو گئی تھی۔ ابھی بھی ایمان کا چہرہ اس کے حواسوں پر سوار تھا۔


سیده ایمان حیدر اس کا نام لے کے ساحر کے لبوں پہ دلفریب مسکراہٹ آئی۔ شکر تھا ایمان کے کالج کارڈ پہ وہ اسکا نام دیکھ چکا تھا۔


 مس ایمان آپ تو دماغ پہ بری طرح چپک گئی ہیں اور ایسے کسی نامحرم کا خیال آنا تو ٹھیک نہیں ہے لگتا ہے اب جلد ہی کچھ کرنا پڑے گا ایسے تو اب گزارا نہیں ہے۔


ساحر نے دل میں سوچا۔ پھر شرٹ کو اپنے بیگ میں رکھ کر وہ چھت پر چلا گیا جہاں آصف صاحب پہلے سے موجود تھے۔


آؤ بیٹا یہاں آؤ۔


آصف صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا۔


تا یا جان کیا آپ کبھی واپس گاؤں نہیں آئیں گے؟


اپنے دل میں اٹھتے سوال کو اس نے آصف صاحب سے کر دیا۔


ساحر تمھیں کیا لگتا ہے میرا دل نہیں کرتا اپنی حویلی جانے کا اپنے گاؤں کو دیکھنے کا اپنے بھائیوں سے بھتیجوں سے ملنے کا مگر تمھیں پتہ ہے نہ اماں صاحب کبھی اس بات کو گوارا نہیں کریں گی۔ 


میں نہیں جانتا وہ اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں مجھ سے یہ نفرت میرے شہر آنے سے بھی پہلے کی ہے ساحر ۔ سب کو لگتا ہے میں شہر آگیا۔۔


 وہ اس لیے ناراض ہیں مگر یہ حقیقت نہیں ہے میں انکی نفرت بچپن سے دیکھ رہا ہوں بابا کے سامنے وہ کچھ نہیں کہتی تھیں مگر اکیلے میں انھوں نے کبھی مجھے پیار نہیں دیا۔ اور پھر بابا کے جانے کے بعد انکی نفرت کھل کر سامنے آگئی۔ میرا ان سے دور رہنا بہتر ہے میں انہیں تکلیف نہیں


دینا چاہتا وہ ماں ہیں میری میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں۔


آصف صاحب کی بات سن کر اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں وہ بھی تو انہی سب حالات کا شکار رہا ہے۔ ساحر سوچ میں گم ہو گیا۔


ساحر کو گم سم دیکھ کر آصف صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ سنبھالا۔ میں جانتا ہوں ساحر تم بھی اس سب کا شکار رہے ہو۔ انکی بات سن کر ساحر نے اپنا سر جھکا لیا گہر اسانسلے کے آصف صاحب کو دیکھا۔


عادت ہو گئی ہے تایا جان مگر گاؤں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں نہ ہی حویلی میں کچھ ٹھیک ہے۔ سب برباد ہو رہا ہے تایا جان آپ کو ایک بار چلنا ہو گا آپ ہی کچھ کر سکتے ہیں اب کیونکہ دادا جان کی وسیعت کے مطابق آپ کا گاؤں پہ اور حویلی پہ سب سے زیادہ حق ہے آپ کا حکم گاؤں والوں کے لیے سب سے پہلے لے ہے اور حویلی میں بھی آپ جس کو چاہیں جو چاہیں کرنے کو کہہ سکتے ہیں۔ 


میں مجبور ہوں تایا جان ماں صاحب میری کسی بات کو اہمیت نہیں دیتیں میں صرف اس زمین پہ بہتری کا کام کر سکتا ہوں جو میری ہے باقی سب آپ کر سکتے ہیں۔ وہاں سب کو یہ لگتا ہے کہ آپ کبھی واپس نہیں آئیں گے تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔


 آپ کو نہیں پتہ چھوٹی سی غلطی پہ بھی گاؤں کے لوگوں کو کتنی اذیت دی جاتی ہے۔ کوئی حکم نہ مانے تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ آپ سب ٹھیک کر سکتے پلیز تایا جان میری بات کو سمجھیں۔


ساحر نے التجا کی جبکہ یہ سب سن کر آصف صاحب بھی پریشان ہو گئے تھے۔


ٹھیک ہے ساحر میں گاؤں جاؤں گا جتنا ہو سکے گا میں وہاں کے حالات بہتر کروں گا۔ تم پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔


آصف صاحب کے کہنے پہ اس کے دل میں سکون اترا تھا۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ساحر نے بھی دل سے دعا کی تھی۔


ایمان فریش ہو کے آئی تو اسکے موبائل پر مرحا کی کال آئی ہوئی تھی مگر ابھی اسے نیچے جانا تھا مر حاکم بعد میں کال کرنے کا سوچ کے وہ کھانے کے لیے نیچے جانے لگی۔


کیا ہو اریان بھائی بتا یا ایمان نے کچھ ۔ سب کا ایک ہی سوال تھا مگر فلحال وہ کسی کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔


ہاں وہ ٹھیک ہے کچھ نہیں بس ایک ٹیچر نے کچھ کہہ دیا تھا تو وہ اپ سیٹ ہو گئی میں نے سمجھا دیا ہے اب ٹھیک ہے وہ بس اب کوئی اس بارے میذکر نہیں کرے گا وہ آتی ہو گی نیچے۔


ریان نے سب کو سمجھا دیا تھا۔ ایمان نیچے آئی تو اس کی حالات پہلے سے بہتر تھی۔


کیا یار ایمو زرا سی بات پر رو گئیں وہ بھی اتنا سارا۔ مجھے بھی ٹیچر ز ڈانٹتے ہیں میں تو کبھی نہیں رویا۔ اور آپ تو چھپکلی کو دیکھ کر نہیں روتی ڈانٹ پر رو گئیں۔ شہیر نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا تو سب نے نفی میں سر ہلایا۔


ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ شہیر چپ رہے۔


بھید آپ نے آج شہیر کا میتھ کا ٹیسٹ لینا تھا۔


ایمان کے بولتے ہی شایان اور شاہ میر زور سے ہنسے جبکہ شہیر کا منہ بن گیا۔ اس نے خود سے پنگے لیے کے پھر سے غلطی کر دی تھی اب اسے ریان کے غضب سے کون بچائے گا۔


ایمان نے مسکرا کر شہیر کو دیکھا تو اس نے معصوم سی شکل بنائی۔


جبکہ ریان کہیں اور ہی گم تھا۔


ڈیٹر سسٹر پکا تمھاری فیورٹ آئسکریم کھلاؤ نگا پلیز مجھے بچالو بھائی بلا کل جلاد بن جاتے ہیں یار۔


شہیر نے ایمان کے کان میں سرگوشی کی تو ایمان کہلکہلا کے ہنسی۔


اچھا ٹھیک ہے ڈیل میں ابھی تمھیں بچالیتی ہوں پھر میری آئسکریم پکی۔


دونوں ہاتھ ملا کر ڈیل ڈن کی۔


کیا یار ایمان بس ایک آئسکریم پر مان گئیں تمھیں زیادہ ڈیمانڈ کرنی چاہیے تھی۔


شایان نے سمجھایا۔


بالکل صرف ایک آئسکریم سے کیا ہوتا ہے ساتھ میں برگر پیزا بھی تو ڈن کرنے تھے نہ۔


شاہ میر نے بھی اسکا دماغ بنایا۔


اچھا بس بس آپ دونوں نہیں بولیں ہمارا معاملہ ہے یہ اور میری پوسٹ منی بھی کم ہے میں ایک ٹائم پر


ایک چیز افورڈ کر اکتا ہوں۔ شہیر نے مسکین شکل بنا کر ایمان کو دیکھا۔


اچھا ٹھیک ہے نیکسٹ منتھ پیز اکھلانا ہو گا۔ ایمان کے کہنے پر شہیر نے فوراہاں میں سر ہلایا۔


ایمان نے ریان کو دیکھا جو سوچوں میں گم تھا۔


بھیو ! ایمان سے ریان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تو وہ چونکہ ۔


آپ آج ٹیسٹ نہیں لیں شہیر کا۔ ایمان نے آنکھ دبا کر ریان سے کہا تو وہ مسکرادیا۔


ایمان نے کمرے میں آکر سب سے پہلے مرحا کو کال ملائی۔


مرحا اسکیچنگ میں مصروف تھی جب اس کا موبائل بجا۔ ایمان کا نمبر دیکھ کر اس نے سب کام سائیڈ کر کے کال پک کی۔


ہائے بے بی ڈول کیسی ہو۔ ایمان نے جوش سے کہا۔


ہاں ہاں اب تم بھی مجھے اس نام سے بلاو بہت غلط بات ہے یار تمھیں اس لیے نہیں بتایا تھا میں نے۔


مرحا نے خفگی سے کہا۔


با بابا اچھا اچھا نہیں بولتی مگر تمھیں چڑنا تو نہیں چاہیے تم خود ڈول جیسی تو ہو تمھارے گال دیکھ کر زور سے کھینچنے کا دل کرتا ہے۔


ایمان نے مرحا کو پھر چھیڑا۔


میڈم آپ نے یہی سب بات کرنی ہے تو میں کال کاٹ دوں ۔


مرجانے مسکراہٹ دبا کر کہا۔


اچھا اچھا لڑکی نہیں بولتی کچھ تم تو دھمکیوں پر اتر آئیں۔


ایمان کی بات سن کر مر جا کھکھلا کے ہنسی۔


اچھا میں نے تمھیں دوبارہ تھینکس کہنے کے لیے کال کی تھی اور سیکنڈ یہ کہ کل تم کالج آؤ گی مجھے کالج کارڈ پک کرنا ہے سر نے کہا تھا کل لینے کے لیے۔


مرحا کے کالج کے ذکر پر ایمان کانپ گئی تھی کل کالج جانا مطلب سر سلمان کا سامنا کرنا۔ ہیلو ایمان تم سن رہی ہونہ۔


ایمان کی خاموشی پر مر جانے اسے پکارا تو وہ سوچ سے باہر نکلی۔


ہاں۔۔ ہاں میں آونگی کل کالج تم آجانا ہماری ملاقات بھی ہو جائے گی۔ ایمان نے جواب دیا۔ وہ ڈر رہی رہی مگر پھر ریان کے الفاظ اس کے کان میں گونجے تھے وہ غلط نہیں تھی تو وہ کیوں ڈرے بھلا۔


پر فیکٹ پھر کل ملتے ہیں ٹھیک ہے۔ مر جانے خوش ہو کر کہا۔


ہاں ٹھیک ہے پر جلدی آنا میں کالج گیٹ پر ویٹ کروں گی تمھارا۔ ایمان کی بات پہ او کے کہہ کر اس نے کال کائی تھی۔


پتہ نہیں کیوں مر حا کو ایسالگا جیسے ایمان کالج کے نام پہ نروس ہوئی تھی۔ خیر جو بھی تھا کل اس سے پوچھ لے گی۔


بھائی ایمان کو ابھی کچھ دن کالج نہیں جانا چاہیے۔


شایان نے کہا۔


نہیں بھائی میرا نہیں خیال مرحا کو کالج کا آف کرنا چاہیے۔ ہم اسے گھر میں قید کیوں کریں صرف کچھ خراب لوگوں کی وجہ سے ہم ایسا تو نہیں کر سکتے۔


 شاہ میر نے اپنی رائے دی۔


ریان نے شایان اور شاہ میر کو سب بتا دیا تھا اور اس ٹیچر کی پوری معلومات جمع کرنے کو بھی کہہ دیا تھا۔


نہیں شایان شاہ میر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ہم نے اسے کمزور نہیں بنانا ہے۔ ریان نے شایان کو سمجھایا تھا۔


ٹھیک ہے بھائی ہم کل ہی اس ٹیچر کی ساری معلومات لیتے ہیں پھر آپکو بتاتے ہیں۔


ہم ٹھیک۔


گڈمورننگ ! ناشتے کے لیے سب ٹیبل پر موجود تھے جب ایمان آئی۔


گڈمور ننگ میرا بچہ چلو جلدی سے ناشتہ کرو پھر شاہ میر تمھیں کالج چھوڑ دے گا واپسی میں تمھیں میں خود لینے آؤں گا۔


ریان نے اسے اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے کہا۔


ٹھیک ہے بھیو ۔ شاہ میر بھائی جلدی سے ناشتہ کریں میری فرینڈ پہلے پہنچ گئی نہ تو اسے میر اویٹ کرنا


پڑے گا۔


ایمان نے جلدی جلدی ناشتہ کرتے ہوئے کہا۔


کیا بات ہے یہ کونسی نئی دوست آگئی جس کے لیے اتنی جلدی مچائی جارہی ہے ہم میرا نہیں خیال آج تک تم نے کبھی اپنی کسی دوست کا اتنا خیال کیا ہے۔ ریان نے کہا کیوں کہ سب ہی جانتے تھے ایمان بہت لیمیٹڈ لوگوں سے دوستی کرتی تھی اور انکو بھی بہت زیادہ فری کبھی نہیں کرتی تھی اس کے لئے خاص دوستوں میں بس اس کے چاروں بھائی آتے تھے ایسے میں سب کی حیرانگی بنتی تھی۔


بھیو کل ہی میری نیو فرینڈ بنی ہے ابھی ایڈمیشن ہوا ہے اسکا میری جو نیئر ہے پر میری بہت اچھی دوست بن گئی ہے۔ مرحا نام ہے اسکا۔ آپ کو پتہ ہے بھیو وہ بہت بہت بہت کیوٹ ہے بالکل ڈول جیسی ہے اور اس کے گال تو ۔۔۔۔


بس بس بس بریک لگاؤ اور ناشتہ کر دور نہ تمھاری فرینڈ کو یقینا ویٹ کرنا پڑے گا۔


اس سے پہلے ایمان مزید مر حانامہ اسکے سامنے گاتی ریان نے اسے ٹوکا۔


او وہاں چلیں بھائی جلدی کریں۔ اس نے ایک بار پھر شاہ میر کو مخاطب کر کے کہا۔ وہ جلدی جلدی کالج پہنچی تھی یہ نہ ہو مر حا اسکا ویٹ کرتے کرتے اندر چلی جائے۔


اچھا ایمان اپنا خیال رکھنا اوکے بھائی جلدی آجائیں گے تمھیں لینے ٹھیک ہے۔ اور تم اندر چلی جاؤ تمھاری فرینڈ آجائے گی اندر ہی۔


شاہ میر نے ایمان سے کہا۔


نہیں بھائی میں نے نہ اسے کہا تھا میں کالج گیٹ پہ اسکاویٹ کروں گی وہ آتی ہی ہو گی۔ ایمان نے بتایا


اچھا ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں یونی کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں او کے خیال رکھنا اپنا۔ شاہ میر نے ایمان کو گیٹ کے پاس بی بیچ پہ بیٹھایا اور واپس جانے لگا۔


شاہ میر نے ایمان کو گیٹ کے پاس بنی پہنچ پہ بیٹھایا اور واپس جانے لگا۔ ابھی وہ کالج کے گیٹ سے نکلاہی تھا کہ سامنے سے آتی لڑکی بری طرح اس سے ٹکرائی تھی جس سے اسکا بیگ پانی کی بوتل زمین پہ گر گیا۔


آئی ایم سو سو سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں ۔۔۔ شاہ میر نے نیچے جھک کر اسکے ساتھ سامان اٹھانے


لگا مگر الفاظ ادا نہیں کر سکا۔ وہ معصوم چہرہ شاہ میر کی زبان کو بریک لگا گیا۔


اونچی ہالف پونی مظلر کی طرح دوپٹہ گلے میں لیٹے بلیک کلر کی ڈریس میں اسکا چہرہ چاند کی طرح معلوم


ہوتا تھا۔ شاہ میر جیسے اگلی سانس لینا بھول گیا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔


پھولے پھولے گال بنامیک اپ کے سامنے والے کو ڈھیر کرنے کا ہنر رکھتے تھے۔


اٹس اوکے نو پر و بلم ہو جاتا ہے۔


مرجانے مسکرا کر کہا اور آگے بڑھ گئی۔ مگر اس کے مسکرانے پہ گالوں پر پڑتے ڈمپلز نے شاہ میر حیدر کو ڈھیر کر دیا تھا۔


اس نے مرحا کو مڑ کر دیکھا جو کالج گیٹ کر اس کر گئی تھی۔


اسے پہلی نظر کی محبت پر یقین نہیں تھا مگر آج اس کے دل میں محبت کے پھول کھل گئے تھے۔


ہاں اسے پہلی نظر کی محبت ہو گئی تھی۔ لاحاصل محبت جو شاہ میر حیدر کو برباد کرنے والی تھی۔


ساحر ہم سوچ رہے ہیں کل ہی گاؤں کے لیے نکل جائیں ابھی مرحا کی بھی کلاسسز شروع نہیں ہوئی ہیں وہ بھی گاؤں گھوم لے گی۔


ساحر اپنے موبائل پہ مصروف تھا جب آصف صاحب روم میں آئے۔


یہ تو اچھا ہو جائے گا تایا جان آپ کل چلے جائیں مجھے بھی ایک ضروری کام کے لیے کل ہی کینیڈا جانا ہو گا ٹیکسٹائل کا جو نیو بزنس شروع کیا ہے اس کے سلسلے میں۔


ساحر نے بھی انہیں اپنی پلانگ بتائی تھی۔


بس تو پھر ٹھیک ہے ہم کل ہی نکلتے ہیں جب تک تم بھی واپس آجاؤ گے۔


آصف صاحب نے گاؤں جانے کی تیاری شروع کر دی تھی انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ انکا یہ سفر کتنا بھیانک ہو سکتا ہے۔


کیا را جا بھائی میں نے آپ کے لیے کیا کچھ نہیں کیا اور آپ میرے لیے ایک کام نہیں کر پار ہے۔


سلمان نے سامنے بیٹھے آدمی کو دیکھ کر کہا جو دیکھنے میں ہی کوئی غنڈا معلوم ہوتا تھا۔


ارے ہو جائے گا تیرا کام بھی آدمی لگارکھے ہیں تیری محبوبہ کے پیچھے جیسے ہی موقع لگے گا اسے تیرے بستر کی زینت بنانے میں وقت نہیں لگاؤں گا تھوڑا صبر رکھ یہ کام ایسے ہی نہیں ہو جاتے دیکھ بھال کے سب کرنا پڑتا ہے۔


سامنے بیٹھے آدمی نے شراب کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔


ارے کیا کروں راجا بھائی صبر ہی تو نہیں ہو رہا جب سے اسے دیکھا ہے نہ اسے حاصل کرنے کی تڑپ ہی لگ گئی ہے سالا اس کل موقع لگا بھی اکیلی تھی کلاس میں مگر میں نے ہلکے میں لیا اور وہ مجھے دھکا دے کر بھاگ گئی۔


سلمان نے نقاہت سے کہا۔


پر سلمان بھائی اس لڑکی نے تو اب تک کالج میں شکایت لگا دی ہو گی نہ اب تو تم وہاں نہیں جاؤ گے۔


ساتھ کھڑے آدمی نے سوال کیا۔


ہاں ظاہر ہے اب میرا وہاں کوئی کام نہیں ہے بس را جا بھائی جلدی اس لڑکی کو مجھ تک پہنچا دو۔ ایک رات کے لیے میری پھر جہاں چاہو بھیج دینا۔


سلمان نے بے ڈھنگا قہقہہ لگایا۔


کل ہی تمھارا کام ہو جائے گا سلمان بھروسہ رکھو کل تک کا صبر اور کر لو۔


سلمان نے ہاں میں گردن ہلائی۔


وہ لڑکی کسی بھی حال میں اسے چاہیے تھی اس کی ساری انفار میشن وہ را جا بھائی کو دے چکا تھا۔


یہ انکا دھندا تھا لڑکیوں کی عزت چھین کر آگے بیچ دیتے تھے کوئی آگے پسند کرلے تو لڑ کی اسکی ورنہ لڑکیوں کے جسم کے اعضاء نکال کر بیچ دیے جاتے تھے۔ اور انکی لاشوں میں بیچ سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ انکا پورا گینگ تھا جو اس سب میں ملوث تھا۔ ایسی ہی ایک تیاری ان لوگوں نے ایمان کے لیے بھی کر رکھی تھی۔ مگر انہیں معلوم نہیں تھا ایمان پہ ہاتھ ڈال کر انہوں نے شیر کے منہ میں ہاتھ دے دیا تھا۔


ایمان نے کل جو کچھ ہو امر حا کو سب بتا دیا۔ وہ دونوں اس وقت کالج کینٹین میں بیٹھی تھیں۔


تمھیں نہیں پتہ مر حاکل اگر میں وہاں سے نہیں نکل پاتی تو پتہ نہیں میرے ساتھ ۔۔۔ اس سے پہلے ایمان اپنی بات مکمل کرتی مر جانے اٹھ کر اسے گلے لگایا۔


ایمان تم رو نہیں تم دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا تمھارے بھائی نے کہا ہے نہ وہ سر سلمان کو چھوڑیں گے نہیں تو تم پریشان نہیں ہو۔


مرحا نے ایمان کے آنسو صاف کیے اور اسے پانی پلایا۔


ہاں میرے بھیو بہت اچھے انہوں نے کہا ہے اس سر کا تو وہ حال کریں گے کہ اس کی سوچ ہو گی۔


ایمان نے مسکرا کر کہا۔


ہاں اور مجھے دیکھ گئے نہ وہ سر تو انکو نہ میں گنجا کر دوں گی اوکے ۔


مرجانے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوئے کہا۔


ایمان کو اپنی دوست پر بہت پیار آیا۔ دو دن میں ہی مرحا اسے بہت عزیز ہو گئی تھی۔


ہاں شاہ میر کیا خبر ہے کچھ پتہ لگا۔


ریان نے شاہ میر کو ایمان کے ٹیچر کے پیچھے لگایا تھا تا کہ اس کے بارے میں سب معلوم کر سکے۔


نہیں بھائی کچھ نہیں پتہ لگا۔ وہ ٹیچر آج آیا ہی نہیں ہے اسے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ایمان نے اسکی کمپلین کر دی ہو گی تب بھی وہ فرار ہو گیا۔


شاہ میر نے ریان کو آگاہ کیا۔


ٹھیک ہے ایک کام کرو تم وہاں رہو اور ایمان کو لے کر واپس آنا ٹھیک ہے۔


ریان کے کہنے پر اس نے فورا حامی بھری تھی اس کے پاس ایک اور موقع تھا اس لڑکی کو دیکھنے کا جسے


ایک نظر دیکھ کر اس کی نظریں بے چین ہوگئی تھیں۔


ٹھیک ہے بھائی آپ پریشان نہیں ہوں میں ایمان کو لے آؤنگا۔


شاہ میر نے کہہ کر کال کٹ کی اور کالج کی چھٹی کا انتظار کرنے لگا۔ ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا اور وقت تو


جیسے کٹنے کو ہی نہیں کہہ رہا تھا۔


آنکھوں پر سن گلاسز لگائے گاڑی سے ٹیک لگائے وہ ایمان کا ویٹ کر رہا تھا۔


کالج کا آف ہو گیا تھا ایمان آنے والی تھی ساتھ ساتھ اس کی نظریں اس معصوم چہرے کو بھی ڈھونڈ رہی تھیں۔


لڑکیاں جس طرح اسے دیکھتے ہوئے جارہی تھیں یہ اسکے لیے نیا نہیں تھا شاہ میر بہت جاذب نظر تھا۔


لیکن اگر یہ لڑکیاں ریان کو یہاں دیکھ لیتیں تو یقینا اس کی پرسنیلٹی پر دل ہار جاتیں۔


انتظار کی گھڑی بھی ختم ہوئی۔


ایمان کو اس لڑکی کے ساتھ دیکھ کر شامیر سیکنڈز لگے تھے سمجھنے میں کہ یہ وہی لڑکی ہے جس کی تعریفیں ایمان صبح کر رہی تھی۔


لو میرے بھائی تو پہلے سے کھڑے ہیں مگر یہ شاہ میر بھائی ہے یہ بھی ہینڈ سم ہیں مگر میرے بھیو ہے نہ وہ ان سے بھی ڈبل ٹریپل ہینڈ سم ہیں۔


ایمان اور مرحا کالج سے نکلی تو سامنے شاہ میر کو دیکھ کر ایمان نے مرحا کو بتایا اس کا ارادہ آج مرحا کو ریان سے ملانے کا تھا مگر یہاں ریان کی جگہ شاہ میر کھڑا تھا۔


مرحا ان سے ملو یہ میرے بھائی ہیں شاہ میر ۔ اور بھائی یہ ہے میری نئی دوست مرحا جس کے بارے میں صبح بتارہی تھی۔


ایمان نے دونوں کا انٹرو کروایا۔


ایمان کی بات سن کر شاہ میر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔ جس لڑکی کو لے کر وہ پریشان ہو رہا تھا کہ اس کے بارے میں کچھ بھی کیسے پتہ کرے گا یہاں تو مسئلہ ہی حل ہو گیا تھا ایمان کی دوست کی انفارمیشن لینا کو نسا مشکل کام تھا۔


ہیلو مس مرحا ہماری صبح ملاقات ہوئی تھی۔ شاہ میر نے مسکرا کر کہا۔


ہیلو مر جانے بھی مسکرا کر ہیلو کہا اور صبح ہوئی ساری بات ایمان کو بتائی۔


ایمان کو ایسا لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ اس نے آس پاس دیکھا مگر کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔


ایسا ہی ایک احساس نے مرحا کو بھی آس پاس دیکھنے پر مجبور کرا۔


اچھا اب میں چلتی ہوں میری گاڑی آگئی۔


مر جانے اپنی کار کی طرف اشارہ کیا پھر دونوں کو ہائے بول کر چلی گئی۔


ایمان کو بھی شاہ میر نے گاڑی میں بٹھایا۔ اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس کر کے اس نے نہ محسوس انداز میں گردن گھمائی مگر اسے کچھ بھی ایسا نہیں دیکھا سوائے ایک بچے کے جو ہاتھوں میں گجرے لیے انہیں بیچ رہا تھا۔ بچہ انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔


اپنے اوپر بچے کی نظریں سمجھ کر شاہ میر اس بات کو اگنور کر گیا۔ اور ایمان کو لے کر چلا گیا۔


اس بچے کی نظروں نے دور تک انکی گاڑی کا پیچھا کیا تھا اور یہ حرکت شاہ میر کو کھٹکنے پر مجبور کرگئی تھی۔


مرحا گھر پہنچی تو اس کے لیے سر پر ائر تیار تھا۔


گاؤں جانے کا سن کر اسکی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔


جب بھی اس کے بابا گاؤں کا ذکر کرتے تھے تو وہ ہمیشہ ان سے بولتی تھی کہ اسے بھی گاؤں دیکھنا ہے اور آصف صاحب ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ کبھی ممکن ہوا تو وہ اسے گاؤں دیکھانے ضرور لے کر جائیں گے۔


مرحا کی خوشی قابل دید تھی مگر ساحر یہ سوچ کر پریشان تھا کہ وہاں سب کے رویے دیکھ کر اسکی خوشی


برقرار رہے گی۔ اس نے یا سر کو کال کر کے تایا جان کے آنے کا بتا دیا تھا۔


ساحر تمھاری فلائیٹ کب کی ہے ؟


آصف صاحب نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا۔


تایا جان کل شام 5 بجے کی ہے پھر وہاں کا کام نمٹا کر میں آپ کے پاس ہی آؤں گا۔ حویلی میں یاسر ہے میرا خاص آدمی ہے اسے آپ ہر ٹائم اپنے ساتھ رکھیے گا وہ آپ کو تمام معملات سے آگاہی دیگا۔ اسے میں نے بتا دیا ہے آپ کے آنے کا۔


آصف صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی۔


ویسے ساحر تمھیں نہیں لگتا تمھیں اب آگے کا سوچنا چاہیے۔