تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 04

از قلم ؛ طوبیٰ صدیقی




❤️❤️❤️


رمشاء نے مسکرا کر کہا۔


کیا مطلب ماں آگے کا کیا سوچنا ہے ؟


ساحر واقعی نہیں سمجھا تھا۔


ارے شادی کی بات کر رہی ہوں اب تمھاری شادی کی عمر ہو گئی ہے۔ کوئی لڑکی پسند کی بھی ہے یا نہیں۔


رمشاء کے کہنے پر ساحر کی آنکھوں میں ایمان کا چہرہ لہرایا تھا۔ لب خود ہی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔


ہم تو جناب کو لڑکی پسند آگئی ہے۔


رمشاء کے کہنے پر ساحر فورا سنبھالا۔


میں نے کب کہا ماں مجھے لڑکی پسند آگئی ہے۔


ساحر نے نظریں چرائیں۔


یہ جو تمھارے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی نہ وہ سب بتا گئی ہے اب جلدی سے بتاؤ کون ہے وہ۔


رمشاء نے ایکسائیڈ ہو کر پوچھا جبکہ آصف صاحب دلچسپی سے دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔


ایمان۔۔ ایمان نام ہے اسکا۔


ساحر نے سچ سچ بتا دیا بھلا وہ اپنی ماں سے کیسے کچھ چھپا لیتا۔ جبکہ ایمان نمکے نام پر کمرے سے نکلتی مرحا


چونکی تھی۔ وہ بھی وہی آگئی مگر کسی نے اسے دیکھا نہیں تھا۔


ارے واہ بڑا پیارا نام ہے۔ کون ہے کہاں رہتی ہے کیسی دیکھتی ہے کہاں ملی تھی۔


رمشاء نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے جبکہ ان کے انداز پر آصف صاحب اور ساحر مسکرائے تھے۔


ماں ابھی کچھ بھی نہیں جانتا اس کے بارے میں بس وی مرحا کے کالج میں پڑھتی ہے اس دن تایا جان کے ساتھ کالج گیا تھا مر حاکم لینے وہاں ٹکرائی تھی اور پہلی ہی ملاقات میں میڈم میری شرٹ پہ اپنے انک والے ہاتھ چھاپ گئی تھیں۔ اس کا نام تو بس کالج کارڈ پہ پڑھا تھا۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں پتا۔ ساحر نے تفصیل بتائی تو آصف صاحب اور رمشاء کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


جناب پہلی نظر کی محبت کا شکار ہوئے ہیں۔ تم فکر نہیں کرو تم کینیڈا سے آجاؤ اور ہم گاؤں کے معاملات حل کر لیں پھر ساری انفارمیشن نکالوالوں کی مرحا کے کالج کی ہے تو مر حاپتہ کرلے گی۔ پھر خود اپنے بیٹے کارشتہ لے کر جاؤں گی میں۔


رمشاء نے ساحر کے سر پہ پیارے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔


یہ تو آپ کو کرنا ہی پڑے گاماں کیونکہ اب تو معاملہ جان لیوا ہو تا جا رہا ہے۔ ساحر کی بات پر آصف صاحب کا قہقہ گونجا تھا۔


پیچھے کھڑی مرحا سمجھ گئی تھی کہ اس کا بھائی کسی کی محبت کا شکار ہوا ہے۔ وہ بہت خوش تھی لیکن ابھی وہ کسی کو نہیں بتانے والی تھی کہ ایمان اس کی دوست ہے۔


وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئی اس کا ارادہ ایمان کو تنگ کرنے کا تھا۔


مرحانے ایمان کے نمبر پر کال ملائی۔


ایمان کا موبائل لاؤنچ میں رکھا تھا کہ اس کا موبائل رنگ ہوا۔


پاس بیٹھے ریان نے ایک نظر اسکرین پر ڈالی بے بی ڈول نام جگمگا رہا تھا۔ ریان واپس کام میں مصروف ہو گیا۔ ایمان شہیر کے ساتھ ٹیرس پر تھی اور اس کی ایک عادت جس سے سب پریشان تھے وہ اپنا موبائل کہیں بھی رکھ کر اسے اٹھانا ہی بھول جاتی تھی۔ ابھی بھی یہی ہوا تھا اسے اپنا موبائل کا ہوش ہی نہیں تھا۔


کال کٹ ہو کر ایک بار پھر آنے لگی اور پھر رکی نہیں دو تین چار پانچ کالز کے بعد چھٹی کال پر ریان نے کال اٹھالی۔


افففف ایمان ایمان ایمان کب سے کال کر رہی ہوں کہا تھیں بندہ ایمر جنسی میں بھی کال کر سکتا ہے


کہاں تھی کال کیوں نہیں اٹھا رہی تھیں۔


مر حاشروع ہو گئی تھی جبکہ ریان نے موبائل کو گھورا تھا جیسے کال والی لڑکی کو گھور رہا ہو۔


ایمان یہاں نہیں ہے آجائے گی تو کال کر لے گی۔


نرم گرم گمبھیر لہجہ مرحا کی سماعتوں سے ٹکرایا۔ وہ جو بھی تھا اس کی آواز بہت پیاری تھی۔


اس کی آواز سن کر ایک لمحہ کے لیے مرحا کا دل دھڑکنا بھولا پھر سنبھل کر اس نے فورا کال کاٹ دی۔


ریان نے کان سے موبائل ہٹایا کال کٹ چکی تھی۔ مگر کال پہ جو بھی تھا اس کی آواز کسی چھوٹی بچی کی طرح فیل ہوئی بار یک مگر خوبصورت لہجہ ۔


ریان کے لب مسکرائے تھے جو اسے خود بھی پتہ نہ لگا۔


پاگل لڑکی۔ ریان کہہ کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔


دوسری طرف مرحا اس آواز کے سحر میں تھی اس نے ایسا لہجہ پہلے کبھی نہیں سنا تھا بھاری گہر امگر نرم تاثر لیے۔


پھر فورا ہی لاحول پڑھ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔


اسے کسی بھی طرح آج اس اسکیچ کو مکمل کرنا تھا گاؤں جانے سے پہلے وہ اسے تیار کر لینا چاہتی تھی۔


کیا بکواس ہے یہ۔۔ اتنے سالوں کے بعد کیوں آرہا ہے وہ واپس سچ سچ بتا یا سر تیر ا ساحر لالا انہیں چکروں میں تھا نہ اس کے کرتوت ہیں نہ یہ۔ اس بدبخت نے ہی کچھ بولا ہو گا اس سے یا اللہ عذاب کردی کے زندگی اس منحوس نے


اماں صاحب کا غصہ ساتویں آسمان پہ تھا۔ آصف صاحب کے آنے کی خبر لگنے سے ان کا قہر سب پر برس رہا تھا۔


ارے ے ے اورو اماں کیوں شور کر ہیں ایسی بھی کیا قیامت آجائے گی ۔


امجد نے بیزاریت سے کہا۔


ارے تجھے نہیں پتا کیا اس نے یہاں آکر اپنا حق جتانا شروع کر دیا تو کیا ہو گا۔ وشیعت بھول گیا ہے کیا تو۔


اماں صاحب نے غصے سے امجد کو گھورا یہاں ان کا پریشانی سے برا حال تھا اور انکی نالائق اولادوں کو پروا ہی نہ تھی۔


ارے اماں تو فکر نہیں کر میرے پاس ایک ایسا پلان ہے نہ تیری ساری پریشانی دور ہو جائے گی۔


ماجد نے اماں صاحب کے پاس بیٹھ کر کہا تو وہ تجسس سے اسے دیکھنے لگی۔


امجد اور ماجد کے چہروں پہ فریبی مسکراہٹ تھی۔


کیا پلان ہے ہاں بتا مجھے بھی۔


اماں صاحب کے کہنے پر دونوں نے اپنی پلاننگ بتائی تو اماں صاحب کے چہرے پر سکون اترا۔


یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ اگر ایسا ہو گیا تو سارا معاملہ ہی ختم ہو جائے گا بہت خوب سب کچھ ایسے


ہی ہونا چاہیے جیسا سوچا ہے۔


اماں صاحب نے سکون سے پان منہ میں رکھا تھا بس اب انہیں کل کا انتظار تھا۔


ایمان کیا ہو رہا ہے بچہ ۔ ایمان سونے کی تیاری کر رہی تھی جب ریان کمرے میں آیا۔


کچھ نہیں بھیو بس سونے لگی ہوں آپ بتائیں کوئی کام تھا۔


ایمان نے ریان کو اپنے پاس جگہ دی تو وہ بیڈ پہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔


کام کوئی نہیں ہے یہ آپ کا موبائل میڈم جسے آپ رکھ کہ بھول جاتی ہیں۔


ریان نے موبائل ایمان کو تھمایا۔


تمھاری بے بی ڈول کی کال آئی تھی یار کیا لڑ کی ہے زرا سا صبر نام کو نہیں ہے کیا اس میں۔


ریان کے کہنے پر ایمان بنی تھی۔


یہ سچ ہے بھائی اس سے صبر بالکل نہیں ہوتا۔ پر آپ ایسے کیوں بول رہے ہیں۔


آپ ٹیرس پہ تھیں تو کال آئی ایک بار دو بار تین بار نہیں بلکہ پورے چھ بار۔ تنگ آکر چھٹی کال پہ میں نے ریسیو و کر لی تھی مگر مجال ہے اس نے بولنے کا موقع دیا ہو۔ ریان نے منہ بنا کر کہا۔


با بابا وہ ایسی ہی ہے بھائی پر بہت پیاری ہے آپ آج آتے نہ لینے تو میں آپ کو ملواتی۔ وہ بہت بہت اچھی ہے۔


ریان کانوں میں انگلیاں ڈالے روم سے چلا گیا۔


کیا ااا اتم گاؤں جارہی ہو مرحا یہ کیا بات ہوئی تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔


ایمان نے صبح اٹھ کر سب سے پہلے مرحا کو کال ملائی تھی اب اس کے گاؤں جانے کا سن کر وہ شوکڈ تھی۔


یار بس کل اچانک ہی پلان بنا بابا کا کل رات تمھیں اس لیے کال کر ہی تھی پر کسی اور نے کال اٹھائی تھی کون تھاوہ۔


مرحا کے دل میں اس انسان کو جاننے کی خواہش ہوئی جس کی آواز کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھی۔


ہاں یار وہ ریان بھیو تھے۔ کل ان کے پاس ہی موبائل بھول گئی تھی تو اسی لیے کال انہوں نے اٹھائی تھی۔


اچھالا ! خیر یہ سب چھوڑو میں ابھی تھوڑی دیر میں گاؤں کے لیے نکلوں گی لیکن بس دو دن میں واپس آجاؤں گی منڈے کو کالج آؤں گی میں ٹھیک ہے۔


مرحانے ایمان کو بتایا۔


اچھا ٹھیک ہے یار میں بھی ویسے اب کالج نہیں جاؤں گی کلاسز تو ویسے بھی منڈے سے اسٹارٹ ہونگی میری بھی تو میں بھی منڈے سے ہی جاؤنگی۔


ایمان نے اہنا پلان بتایا۔


مرحا سے بات کرنے کے بعد ایمان نیچے چلے گئی اب کالج کا آف تھا تو اس کے فائدے بھی تو اٹھانے تھے۔


شاہ میر اور شایان اس ٹیچر کی کھوج میں لگے تھے مگر ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا تھا۔ کالج سے سلمان کا جو ایڈریس ملا تھا وہ بھی جعلی تھا۔ وہ خود نہ جانے کہاں غائب ہوا تھا۔


وہ دونوں اسی معاملے کو ڈسکس کر رہے تھے جب ایمان آئی اس کو دیکھ کر دونوں خاموش ہو گئے وہ


ایمان کے سامنے دوبارہ اس بات کو چھیڑ کر اسے خوفزدہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیا بھائی بوریت ہو رہی ہے اب کالج کا آف ہے تو کیا ایسے بور ہوتی رہوں گھر میں۔ ایمان نے معصوم سی اداس شکل بنا کر کہا۔


اچھا جی تو میڈم بور ہو رہی ہیں۔ کہاں جانا ہے میری گڑیا نے۔ شایان نے ایمان کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ جب شہیر اندر آیا۔


ایمو بور ہو رہی ہیں تو اپنا فیورٹ کام کریں نہ۔


شہیر کے کہنے پہ سب نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔


ارے یار گھر میں ڈھونڈے کوئی چھپکلی کا کروچ اور کر دیں اس کی چیر پھاڑ۔


شہیر کے کہنے پر شایان اور شاہ میر نے قہقہ لگایا جبکہ ایمان منہ بناگئی۔


بیٹا شہیر پہلے تو آج تم بتا ہی دو کے تمھیں ایمان کے میڈیکل فیلڈ سے کیا دشمنی ہے۔


شاہ میر نے شہیر کے کندھے میں ہاتھ ڈال کر پوچھا۔


و شمنی بھائی سخت دشمنی ہے خود سے پکڑی تو جاتی نہیں ہیں یہ چیزیں مجھے بلی کا بکر ابنا پڑتا ہے.


میرا دکھ کوئی نہیں سمجھ سکتا ان میڈم کی وجہ سے گندی گندی چیزیں ہاتھوں میں لینی پڑتی ہیں۔


شہیر نے اپناد کھٹر اسنایا تو شایان اور شاہ میر زور زور سے ہننے لگے۔


بھائی ہم پنچ کے لیے باہر چلیں گے اور شہیر بہت زبان چل رہی ہے نہ ابھی بھیو کو کال کر کے بتاتی ہوں میں وہی ٹھیک کریں گے تمھیں۔


ایمان کہہ کر اپنے روم میں بھاگ گئی تا کہ ریان کو کال کر سکے۔


ارے ارے بات سنور تم کرو مجھ معصوم پر کیا کرنے جارہی ہو ایمو۔ شہیر بھی بھاگتا ہوا ایمان کے پیچھے گیا۔


دادا جان اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے بچوں کی نوک جھوک دیکھ رہے تھے۔ یہی بچے انکے گھر کی رونق تھے بچوں کو دیکھ کر انہیں سکون ملتا تھا۔


آصف صاحب ساحر سے مل کر گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے تھے جبکہ ساحر کو بھی کچھ دیر بعد ائیر پورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ پیکنگ وہ ساری کر چکا تھا۔ اس نے یا سر کو کال ملائی تا کہ وہاں کے حالات جان سکے۔


ہیلو لالا کیے ہیں آپ کب تک آئیں گے واپس۔


ساحر کی کال اٹھاتے ہی یا سر نے سوال کیا۔


میں ٹھیک ہوں یا سر ابھی بس کینیڈا کے لیے نکلوں گا واپسی کا کچھ کہہ نہیں سکتا ابھی تم یہ بتاؤ گھر کے کیا معاملات ہیں ماں صاحب غصہ ہیں ؟


ساحر نے سوال کیا۔


نہیں لالا کل تک تو اماں صاحب کا غصہ دیکھنے لائق تھا مگر آج تو صبح سے ہی وہ بڑے صاحب کے آنے کی تیاری میں لگی ہیں۔


ساحر کو یہ بات سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔


یہ تو اچھی بات ہے وہ ماں ہیں بھلا اپنی اولاد سے کب تک ناراض رہتی۔


آپ کی بات ٹھیک ہے لالا مگر پتہ نہیں کیوں مجھے تو کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے کل تک تو بہت غصہ تھیں اب اچانک سے پتہ نہیں کیا ہوا ہے یا سر نے پریشانی سے کہا۔


ارے تم زیادہ نہیں سوچو ہم ماں کے دل کو کبھی نہیں سمجھ سکتے تم بس ہر وقت تایا جان کے ساتھ رہنا انکو کوئی پریشانی نہ ہو اور میری گڑیا کا بھی نہت خیال رکھنا ہے ٹھیک ہے میں نکلتا ہوں فلائیٹ کا ٹائم ہونے والا ہے۔


ساحر نے کال کاٹی اور ائیر پورٹ کے لیے گھر سے نکل گیا۔


ایمان کی ضد پہ آج وہ تینوں اپنی اسپورٹس بائیک پر آئے تھے۔ ایمان کی خواہش رد کرنا ان کے لیے تو ہین تھی۔


لنچ کرنے کے بعد ایمان کی فرمائش پر شایان نے آئسکریم پارلر پہ بائیک روکی۔


شہیر اور شاہ میر مال کی طرف بائیک گھومالی تھی کیونکہ اب ان سب کا ارادہ شاپنگ کا تھا تو انہیں پتہ نہیں لگا کہ وہ لوگ آئسکریم کھانے روک گئے ہیں۔


کونسا فلیور میڈم ! شایان نے ایمان سے پوچھا۔


بھائی چوکلیٹ فلیور اور ایک کام کریں آپ ساری آئسکریم پیک کروالیں مال تھوڑی دور وہاں جاکر ہی کھالیں گے ورنہ آپ کو پتہ ہے نہ کتنے تعنے دیں گے دونوں ہمیں۔


ایمان کی بات پر شایان نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور آئسکریم لینے اندر چلا گیا۔ ایمان بائیک کے پاس کھڑی تھی۔


ساحر ائیر پورٹ کے لیے راستے میں تھا جب سڑک اس پار اس کی نظر اس دشمن جان پر پڑی جو


آئسکریم پارلر کے باہر کھڑی سیلفی لینے میں مصروف تھی۔


ایمان کو تو ساحر لاکھوں کے ہجوم میں بھی پہچان سکتا تھا۔ ایمان کو دیکھ کر اس نے گاڑی روکی۔


ایمان جو سیلفی لینے میں مصروف تھی اچانک ایک وایٹ پر اڈو آکر اس کے سامنے روکی اور اس میں سے دو آدمی تیزی سے نکل کر ایمان کی طرف آئے۔


شایان اندر سے بار بار ایک نگاہ ایمان پر ڈالتا - 


دو آدمیوں میں سے ایک نے جلدی سے ایمان کے منہ پہ کپڑارکھا۔


یہ حرکت شایان اور ساحر دونوں دیکھ چکے تھے۔ ساحر نے جلدی سے گاڑی اس طرف گھمائی تھی۔


شایان بھی بھاگتا ہوا باہر نکلا تھا مگر اس سے پہلے شایان باہر پہنچا وہ لوگ ایمان کو لے جاچکے تھے۔ جبکہ ساحر ان لوگوں کے پیچھے ہی اپنی گاڑی بھاگا چکا تھا۔


شایان نے صرف ایک وائٹ پر اڈو دیکھی جو اسے آئسکریم پارلر کے باہر سے دکھی تھی اور اس گاڑی کا نمبر یاد کر کے اس نے اپنی بائیک اس کے پیچھے لگائی۔ مگر بد قسمتی سے اس کی نظر ایمان والی گاڑی کے پیچھے جاتی ساحر کی وائٹ پر اڈو پہ پڑی تھی۔ شایان جتنی تیز انکا پیچھا کر سکتا تھا کیا مگر وہ گاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی اس نے فوراریان کو کال ملائی۔


شایان کی کال آتے دیکھ ریان نے کام چھوڑ کر کال اٹھائی مگر اس کی بات سن کر ریان کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔


بھائی کچھ لوگ ایمان کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ اس نے گاڑی کا نمبر ریان کو بتایا تا کہ اپنے ریسور سمز کا استعمال کر کے وہ گاڑی کی لوکیشن پتا کر سکے۔


ایمان کی کڈنیپنگ نے سب کو پریشان کر دیا۔ ریان نے یہ بات ابھی اپنی ماں اور دادا جان کو بتانے سے منع کر دی تھی۔


شایان شاہ میر ریان پاگلوں کی طرح ہر جگہ اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ ریان نے اپنے تعلقات کی بنا پر گاڑی کو ٹریس کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ اسے بس کال کا انتظار تھا تا کہ لوکیشن کا پتہ لگ سکے۔ دل میں بے پناہ خوف تھا اگر ایمان کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا کریں گے بس یہ وہ آخری بات تھی جو ریان اپنے دماغ میں نہیں لا سکتا تھا۔


کیسے بھائی ہیں ہم ہمارے ہوتے ہوئے چار چار بھائیوں کے ہوتے ہوئے کوئی ہماری بہن کو دن دھاڑے اٹھا کر لے گیا اور ہم کچھ نہیں کر پائے میں کچھ نہیں کر پایا اپنی بہن کی حفاظت نہیں کر سکا میں


شایان نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر دے مارا اس کے ہاتھ سے خون نکلنے لگا مگر اسے پر وا نہیں تھی اس کا غصہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔


شایان پاگل ہو گئے ہو ایسے خود کو تکلیف دینے سے کچھ نہیں ہو گا جو ہونا تھا ہو گیا ابھی امپورٹن یہ ہے کہ ہم ایمان کو کیسے ڈھونڈے اس طرح جذباتی ہو کر کچھ نہیں ہو گا۔ شہیر فرسٹ ایڈ باکس لے کر آؤ


ریان نے شایان کو سمجھایا اور ساتھ شہیر کو اسکی بینڈ بیچ کرنے کا بولا اتنے میں ریان کا موبائل بجنے لگا۔ ریان نے تیزی سے کال اٹھائی تھی۔


ٹھیک ہے تھینک یو میچ یار ۔ ریان نے کہہ کر کال کاٹی ایمان کو جو گاڑی لے کر گئی تھی اس کا پتہ لگ گیا تھا۔


وہ چاروں تیزی سے باہر بھاگے تھے۔ جبکہ شاہ میر نے اپنے بابا اور تایا جان کو مطمئن کر دیا تھا۔


مرحا بہت خاموش تھی ورنہ سفر کے دوران اسکا خاموش رہنانا ممکن تھا۔


کیا ہو امر حا اتنا چپ کیوں ہے میرابچہ ۔ رمشاء نے مرحا کو مخاطب کیا۔


کچھ نہیں ماما جانی۔ وہ مسکرائی تھی مگر اس کی مسکراہٹ دونوں کو پھیکی سی لگی۔


مرحا کیا ہوا بچہ کل تک تو آپ خوشی سے ناچ رہی تھیں اب اتنی ہی خاموش ہو کوئی پریشانی ہے۔


آصف صاحب بھی فکر مند ہوئے۔


نہ بابا جانی پریشانی نہیں ہے بس عجیب سی بے چینی سی ہو رہی ہے پتہ نہیں کیوں دل کر رہا ہے واپس چلے جائیں بس دل گھبر ارہا ہے بہت۔


مرحانے ایمانداری سے بتایا تو آصف صاحب مسکرائے۔


میر ابچہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ آپ کل سے گاؤں کے بارے میں سب جان چکی ہیں اب آپ کو ٹینشن ہے کہ وہاں آپ رہ سکو گی یا نہیں ۔ مگر آپ فکر نہیں کرو بس دو دن کی بات ہے پھر ہم واپس آجائیں گے۔


آصف صاحب کی بات پر مر جانے ہاں میں سر ہلا یا شاید میں گاؤں کے لائف اسٹائل کے بارے میں زیادہ سوچ رہی ہوں مر جانے دل میں سوچا۔ 


اچھا یہ سب چھوڑیں ایک مزے کی بات بتاؤں آپ لوگوں کو۔


مرحانے ایکسا ئیٹڈ ہو کر پوچھا۔


جی بتائیے کیا مزے کی بات بتانی ہے۔


رمشاء کے کہنے پہ وہ مسکرائی پر پہلے پرومس لیا کہ وہ لوگ ساحر کو ابھی کچھ نہیں بتائیں گے۔


اچھا بابا نہیں بتائیں گے تمھارے لالا کو کچھ اب جلدی سے بات بتا بھی دو سپینس ڈال دیا ہے۔


آصف صاحب کے کہنے پر وہ کھل کر بنی تھی۔


آپ کو پتہ ہے لالا کو جو لڑکی پسند آگئی ہے ناوہ میری ہی نیو فرینڈ ہے ایمان حیدر۔


ایمان نے راض کھولا تو دونوں حیرت سے مرحا کو دیکھنے لگا۔


ارے تو یہ بات بتائی کیوں نہیں ساحر کو۔


رمشاء نے سوال کیا۔


ارے ماما جانی تھوڑا تنگ کروں گی پھر بتاؤں گی نہ ایسے وہ تھوڑی بتادوں گی۔


مرجانے آنکھ دبا کر کہا۔


اچھا لڑ کی کیسی ہے فیملی کیسی ہے کچھ ہمیں تو بتادیں۔


رمشاء نے پوچھا تو مر جانے سوچنے والے انداز میں اپنے گال پر انگلی رکھی پھر مسکرائی۔


ماما جانی بہت پیاری ہے وہ اکلوتی ہے چار بھائی ہیں اس کے دو سگے اور دو چازاد۔ سب کی لاڈلی


ہے مگر بہتتت اچھی ہے۔


مر جانے دل سے ایمان کی تعریف کی۔


رمشاء نے شکر ادا کیا اور دل سے دعا کی کہ ان کے بیٹے کے نصیب میں اللہ تعالی اس لڑکی کو لکھ دے۔


ساحر نے ایک پل کے لیے بھی سامنے والی گاڑی کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے اتنی رش ڈرائیونگ کی تھی۔


گاڑی ایک سنسان علاقے میں ایک خالی ٹوٹے پھوٹے مکان کے قریب رکی تو ساحر نے فاصلے پر اپنی گاڑی روکی۔


غلطی کی بالکل گنجائش نہیں تھی ایمان ان کے پاس تھی وہ کچھ بھی کر سکتے تھے ایسے میں ساحر کو بہت سوچ سمجھ کہ قدم اٹھانا تھا۔


ایک درخت کی آڑ میں چھپ کر ساحر ان لوگوں کو دیکھنے لگا جو ایمان کو زبر دستی اس گھر میں لے کر جارہے تھے۔


چھوڑو مجھے پلیز مجھے چھوڑو۔ بھیو مجھے بچاؤ پلیز زز جانے دو مجھے۔


ایمان کے چیخنے کی آواز میں وہ صاف سن سکتا تھا۔


آے سے چپ کر چلا اندر خاموشی سے ورنہ یہیں گاڑھ دیں گے تجھے کسی کو لاش بھی نہیں ملے گی تیری سمجھے اب منہ بند کر اور چپ چاپ چل۔


ایک آدمی نے ایمان کے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔


یہ دیکھ کر ساحر کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ کسی کو ایمان کو چھونے بھی نہ دے اور اس آدمی نے


اس کی ایمان پہ ہاتھ اٹھا اپنے لیے قبر کھودنے کا انتظام خود کیا تھا۔


ان لوگوں نے زبر دستی ایمان کو لا کے زمین پر پھینکا۔


ارے ارے آرام سے بھئی محترمہ کو چوٹ لگ جائے گی۔


سلمان نے ایمان کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔


سلمان کو وہاں دیکھ ایمان کے رونگھٹے کھڑے ہو چکے تھے اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ سامنے بیٹھا شخص اس حد تک گر سکتا ہے۔


تت تم کیوں لا۔۔۔ئے ہو مم مجھے مکی می می بیہاں۔


الفاظ منہ سے نکلنے سے انکاری تھے۔ اس کا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔


ارے میری جان ابھی پتہ لگ جائے گا کیوں لائے ہیں۔ سلمان نے کمینگی سے کہتے ہوئے ایمان کے


گلے سے دوپٹہ کھینچا۔


ایمان کی چیخ نکلی تھی۔


اس نے سلمان سے دوری بنانے کی کوشش کی تو سلمان نے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچی مگر اس پہلے کہ وہ


ایمان کو ہاتھ لگا تا ایک زور دار لات اسے ایمان سے دور کر گئی۔


ساحر کی آنکھیں غصے سے لال تھیں۔ وہ ایمان کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔


پلیز مجھے بچالیں مجھے پچالیں۔


ساحر کو دیکھ کر ایمان کی جان میں جان آئیے


تھی۔ وہ اسے پہچان گئی تھی۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ساحر نے ایمان کا دو پٹہ اسکے اوپر پھیلایا اور اس کو اپنے پیچھے چھپا لیا۔


اے کون ہے یہ تو یہاں کیا کر رہا اپنی جان پیاری ہے تو چلا جا یہاں ہے۔ ایک آدمی نے آگے آتے ہوئے کہا۔ یہ وہی آدمی تھا جس نے ایمان پہ ہاتھ اٹھایا تھا۔


ہاتھ کیسے لگایا تو نے اسے۔


ساحر کی آنکھیں خون کی مانند لال تھیں اس نے اس آدمی کا زمین پہ پھینک کر اس کا ہاتھ پکڑا اور پیچھے لے جا کر اپنے پاؤ کی مدد سے اس کے ہاتھ کی ہڈی توڑ دی۔


وہ آدمی بلبلا اٹھا باقی آدمیوں نے ساحر کی طرف آکر اسے مارنا چاہا مگر ساحر اس وقت اپنا آپا کھو چکا تھا۔


وہ چاروں مل کر بھی ساحر کا مقابلہ نہیں کر پارہے تھے۔


اس پہلے ساحر ان لوگوں کو جان سے مار ڈالتا سلمان نے ساحر کے سر پر لوہے ہی روڈ ماری ایک پل کہ


لیے وہ سنبھل نہ پایا اور وہ چاروں وہاں سے بھاگ نکلے ۔ 


ایمان بھاگتی ہوئی ساحر کے پاس آئی تھی۔


آپ ٹھیک ہیں آپ کو چوٹ لگی ہے۔


ایمان کی فکر پہ ساحر مسکرایا تھا۔


یہ چوٹ کچھ بھی نہیں ہے ایمان اصل چوٹ تو میرے دل پہ لگی ہے تمھیں اس حال میں دیکھ کر تم ٹھیک ہونا تمھیں چوٹ تو نہیں لگی۔


ساحر نے فکر مندی سے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر اتھا۔


اگر آج آپ نہیں آتے تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا آپ نے میری عزت کی میری جان کی حفاظت کی ہے میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولو گی۔


ایمان نے روتے ہوئے کہا تو ساحر تڑپا تھا۔


میرے ہوتے ہوئے تمھیں کبھی کچھ نہیں ہو سکتا ساحر خان اپنی جان دے دے گا مگر اپنی ایمان پر ایک تکلیف بھی نہیں آنے دے گا۔


اس سے پہلے ساحر اور کچھ بولتا ایمان اس کی باہوں میں جھول گئی۔


ایمان ایمان آنکھیں کھولو تم ٹھیک ہو نہ ایمان پلیز و یک اپ۔


ساحر نے بے چینی سے اس کے گال تھپتھپائے۔


تب ہی قدموں کی آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا چار لڑکے کھڑے بے حد غصے سے اسے دیکھ رہے تھے۔


تیری اتنی ہمت تو نے ہماری بہن کو ہاتھ بھی کیسے لگایا۔


ریان نے آگے بڑھتے ہوئے ساحر کو ایمان سے الگ کر کے ایک زور دار مکہ اس کے منہ پر مارا۔


❤️❤️❤️