تیرا عشق مرہم سا ہے

پہلی قسط

ازقلم؛ طوبیٰ صدیقی

 



❤❤❤


فجر کی اذان ہوئے تھوڑا وقت گزرا تھا۔ رات کی بارش کی وجہ سے سڑکیں اب تک نم تھیں ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی تازی ہوا نے صبح کے اس وقت کو اور دلکش بنایا ہوا تھا۔ سورج کی روشنی ابھی ٹھیک سے پھیلی بھی نہیں تھی ایسے میں سڑک کے کنارے وہ روز کی طرح آج بھی جو گنگ میں مصروف تھا۔ پرندو کی چہچہاہٹ میں اضافہ ہونے لگا تھا اور سورج کی روشنی ہر سو پھیلنے میں چند لمحے باقی تھے تو اس نے اپنا رخ واپس گھر کی طرف موڑ لیا۔ مین گیٹ کے باہر پہنچ کر اس نے اپنے چوکیدار لیاقت کو دیکھا جو روز کی طرح آج بھی اس وقت نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔ وہ کب جو گنگ کے لیے نکلا کب واپس آیا لیاقت کو آج بھی پتا نہ لگا۔


افف کسی دن چور آکے گھر لوٹ کر فرار ہو جائیں گے اور جناب کو خبر بھی نہیں ہو گی۔ اس نے دل میں سوچا اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اندر کی طرف قدم بڑھائے۔ گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ابھی سب کے اٹھنے میں وقت تھاور نہ اس گھر میں خاموشی نا ممکن کی بات تھی۔ اپنے کمرے میں آکر اس نے ایک نظر اپنا آپ آئینے میں دیکھا۔ ماتھے پر بکھرے بال جو اس کی چوڑی پیشانی کو چھپا گئے تھے ، ہیزل لائٹ براؤن آنکھیں اور ان پر لمبی گھنی پلکیں، کھڑی مغرور ناک، ہلکی ہلکی موچھیں اور ملکی کی داڑھی وہ و جاہت و خوبصورتی کی مثال تھا۔ سید ریان حید رسید ذوالفقار حیدر کا عکس معلوم ہوتا تھا۔ یہ وجہیہ چہرہ اور خوبصورت پرسنیلٹی اسے اپنے پیارے دادا سے وراثت میں ملی تھی۔ ایسا نہ تھا کہ گھر کے باقی بچے کسی سے کم تھے مگر سید ریان حیدر خاندان کا سب سے ہینڈ سم لڑکا مانا جاتا تھا۔


خود کو ایک نظر دیکھ کے وہ شاور لینے چلا گیا۔ آج ایک نیا دن تھا ایک نئی شروعات تھی آج ریان آفس جوائن کرنے والا تھا یہ دادا جان کا حکم تھاور نہ اس کا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہ۔


تھا۔ ایک بلیک ڈریس پینٹ کے ساتھ گرے کلر کی شرٹ پہ بلیک ہی ٹائی لگائے بلیک کوٹ پہنے وہ تیار تھے مکمل نظر خود پر ڈال کہ اس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے جہاں سے ینگ پارٹی کے شور کی آواز آنا شروع ہو چکی تھیں مطلب سب ناشتے کے لیے آچکے تھے۔ ریان کو دیکھ سب منہ کھولے اسے دیکھنے گئے۔


ماشاء اللہ ماشاء اللہ میرا بیٹا کتنا پیارا لگ رہا ہے ۔ سمینہ بیگم نے اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرا۔ بہت خوب برخوردار تمہیں ایسے دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہو رہی ہے۔ دادا جان نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔ جبکہ احتشام صاحب اور شعیب صاحب بھی اسے دیکھ کر خوش نظر آرہے تھے۔


تم سب مجھے ایسے کیوں گھور رہے ہو۔ ریان نے بیٹھ ہوئے تینوں کو مخاطب کیا۔ شایان شاہ میر اور شہیر نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر مسکراہٹ دبائی۔


ارے نہیں بھیا ہم آپ کو گھور نہیں رہے آپ بہت ہینڈ سم لگ رہے ہیں بس اس لیے۔ شایان نے مسکراتے ہوئے کہا۔


جی جی بھیا آپ بہت ہینڈ سم لگ رہے ہیں آج تو آپ کو دیکھ کر لڑکیاں گرتی پھیریں گی۔ شہیر نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔


ہم یہ تو شام میں جب میں تمھارا میتھ کا ٹیسٹ لوں گا تب پتہ لگے گا کہ کون گرتا ہے۔ ریان نے مسکراہٹ دبا کے کہا۔ جبکہ ریان کی بات سن کر شہیر کی سانس اٹک چکی تھی۔ میتھ میں ایک ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ریان کی ڈانٹ کا شکار ہوتا تھا۔


یہ بلاوجہ پک پک کرنے کی عادت مجھے کسی دن کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ شہیر نے ہلکی آواز میں کہا مگر اس کی آواز اتنی ہلکی بھی نہیں تھی کہ کوئی سن نہ پاتا۔ شہیر کی بات پر جہاں سب نے مسکراتے چہرے


جھکائے تھے وہی شایان اور شاہ میر کا فقہ بے ساختہ تھا۔


ارے بھی ہماری پیاری فیوچر ڈاکٹر کہاں ہیں۔ 


احتشام صاحب نے سمینہ بیگم کو مخاطب کر کے پوچھا تھا۔


میں دیکھتی ہوں اسے سمینہ بیگم اٹھنے لگیں۔ شہیر کی زبان پر دبارہ خارش ہوئی۔


ارے بڑی امی چھوڑیں ایمو کو ابھی آئیں گی اور اپنے کیڑے مکوڑوں کی باتیں شروع کر دیں گی۔ پتہ نہیں اتنا دل گردہ کہا سے لائی ہیں ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو ایک کا کروچ دیکھ کو چیخنے لگتی ہیں اور یہ میڈم انہیں ہاتھوں سے پکڑ کے آپریشن کرنے بیٹھ جاتی ہیں۔ چھی چھی کیسے کر لیتی ہیں وہ یہ سب۔ شہیر نے منہ بناتے ہوئے کہا نظر ریان پر پڑی جو اسے آئینبر و اٹھائے دیکھ رہا تھا۔


ویسے شہیر لڑکیوں کی بہت معلومات ہونے لگی ہے تمہیں۔ وہ کیسے کرتی ہیں کس سے ڈرتی ہیں ہم۔۔ ا۔۔ وہ بھیا میں تو ایسے ہی بول رہا تھا یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے لڑکیاں کس سے ڈرتی ہیں۔۔


نہیں ہمیں تو نہیں پتا تھا شہیر ۔ شاہ میر نے کہا۔ ہاں مجھے بھی نہیں پتا تھا۔ شایان نے بھی شاہ میر کا ساتھ دیا۔


شہیر نے دونوں کو گھورا تھا جو ریان سے اس کی کلاس لگوانے میں ہمیشہ آگے رہتے تھے۔


اچھا بس اب چپ کر کے ناشتہ کرو۔ دادا جان کی آواز پہ سب ناشتے کی طرف متواجہ ہو گئے ۔ جب ایمان نیچے آئی۔


اسلام و علیکم ڈیئر لیڈی اینڈ جینٹلمینز اس نے تیز آواز میں اپنے اسٹائل میں سب کو سلام کیا۔ نیوی بلو کلر کی شرٹ کے ساتھ جینز اور گلے میں دیئے کو منظر کی طرح ڈالے بال اونچی پونی میں کید کیسے میک اپ سے پاک چہرہ لیے وہ چھوٹی سی گڑیا معلوم ہوتی تھی۔


والیکم اسلام میرا بچہ دادا سے پیار لے کے وہ ریان کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھ گئی۔ کیسا ہے میر ابچہ ۔ ریان نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے پوچھا۔


میں بہت پیاری اور معصوم سی ہوں بھیو۔ ایمان نے آنکھیں ٹمٹماتے ہوئے کہا۔ سب کے چہرے مسکرائے تھے۔


افففف منہ میاں میٹھو شروع ہو گئے۔ شہیر نے زبان چیڑاتے ہوئے کہا۔


بھیو آپ کو پتہ ہے رات شہیر نے۔۔۔ ارے ارے پیاری بہنا میں تو مزاق کر رہا تھا آپ تو سیر لیس ہی ہو گئی۔ اس سے پہلے ایمان شہیر کے بارے میں کچھ بتاتی شہیر نے بیچ میں ہی ٹوک دیا۔


یہ چھوٹی چھوٹی کٹ کٹ روزانہ کا معمول تھا پر اصل میں یہ بچے ہی ذوالفقار صاحب کے گھر کی رونق تھے جنھیں دیکھ کے وہ جی اٹھتے تھے۔


سید ذوالفقار حیدر اور انکی بیگم رضیہ کے دو بیٹے تھے۔ سب سے بڑے سید احتشام حیدر اور چھوٹے سید شعیب حیدر ۔ احتشام نے اپنے والدین کی پسند سمینہ سے شادی کی تھی جو انکی خالہ زاد بھی تھیں۔ انکے تین بچے تھے۔ سب سے بڑا اور سب سے لاڈلا سید ریان حیدر اس سے چھوٹا سید شایان حیدر اور اس سے چھوٹی سب بھائیوں کی جان سیدہ ایمان حیدر


سید شعیب حیدر نے اپنی یونی فیلو سارہ سے پسند کی شادی کی تھی جس سے انکے دو بیٹے تھے۔ سید شاہ میر حیدر جو عمر میں شایان کا ہم عمر تھا۔ اور سب سے چھوٹا سب سے شرارتی سید شہیر حیدر۔


ریان نے ڈبل ایم اے کیا تھا اور اب اپنے دادا جان کی خواہش پر خاندانی بزنس سنبھالنے والا تھا۔ شایان اور شاہ میر ایک یہ یونی میں بی بی اے کے تھرڈ ائیر میں تھے۔ شہیر نے انجینئر نگ کے لیے ایڈمیشن لیا تھا۔ جبکہ ایمان کو ڈاکٹر بنے دیکھنا اس کے بابا جان اور بڑے بھیو ریان کی خواہش تھی سو اس نے انکی خواہش کو اپنی خواہش بنا لیا تھا۔ 


آج سے دس سال پہلے ایک کار ایکسیڈینٹ میں ان کی دل عزیز بیگم رضیہ اور چھوٹی بہو سارہ وفات پاگئی تھیں۔ شاہ میر اور شہیر کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ ایسے میں سمینہ بیگم نے نہ صرف اپنے پورے گھر کو سمنبھالا تھا بلکہ شاہ میر اور شہیر کو بھی اپنے بچوں کی طرح پالا۔ شاہ میر اور شہیر سمینہ بیگم کو نہ صرف بڑی امی بولتے اس کے ساتھ ساتھ ایک ماں کا رتبہ بھی دیتے تھے۔


ذو الفقار صاحب اور صاحب احتشام صاحب نے شعیب صاحب کو دوسری شادی کا مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ سارہ کی جگہ انکی زندگی میں کوئی نہیں لے سکتا۔ آج بھی وہ انکی یادوں کے ساتھ سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔


گاؤں میں اس وقت معمول کے مطابق لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ سرخ حویلی میں اس وقت خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی۔ رقیہ اور لیس خان با نیچے میں موجود پودوں کا معائنہ کر رہی تھیں۔ اور میں خان کی وفات کے بعد اس حویلی کو اور اس گاؤں کی کرتا دھر تارقیہ اور لیس خان تھیں۔ تقریباً پندرہ سال سے انکاراج یہاں چل رہا تھا۔ انکے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑا بیٹا آصف جس نے پسند کی شادی کر کے شہر میں ہی اپنی زندگی آباد کر لی تھی۔ دوسرا بیٹا امجد جس نے گاؤں کی ہی ایک لڑکی سومیہ کی عزت لوٹی تھی اور سزا کے طور پہ اور لیس خان نے امجد کا نکاح اسی لڑکی سے کروادیا تھا۔ تیسرا بیٹا ماجد جس کی شادی رقیہ خان نے اپنی پسند کی لڑکی سے کی تھی۔


اور بیٹی رملہ جس نے شادی نہیں کی تھی۔


آصف اور رمشاء کی ایک ہی بیٹی تھی مرحا جس کی خوشی انہیں شادی کے پانچ سال بعد ملی تھی۔


امجد اور سومیہ کے دو بیٹے تھے۔ 


بڑا بیٹا ساحر اور چھوٹا بیٹا ساحل۔ دوسرے بیٹے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی سومیہ نے خود کشی کر لی تھی جس کی وجہ آج تک کسی کو بھی معلوم نہ ہو سکی۔


ساحر اور ساحل سگے بھائی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ وجہ دونوں کی تربیت تھی۔ ساحر اپنے دادا کے قریب تھا جس کی وجہ سے اس کی طبیعت مزاج اور اخلاق سب کچھ دادا سائیں جیسا تھا نرم رحمول اور انصاف پسند۔ ساحل چونکہ اپنے باپ اور دادی کے قریب رہا تھا تو اس کی طبیعت میں ضد، بد تمیزی، اور جہالت شامل تھی۔


ماجد اور انکی بیگم ندرت کے بھی دو بیٹے تھے۔ بڑا حاشر اور چھوٹا مز مل۔ ندرت کو ماجد نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا ماجد کے مطابق ندرت کا اپنے چا زاد سے تعلقات تھے اور اپنے انصاف کے بنا پر انہوں نے قتل کر دیا۔ چونکہ اس وقت سارا راج رقیہ خان کا تھا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو صحیح قرار دیتے ہو معاف کر دیا۔ بھلا ان سے سوال جواب کرنے والا کون تھا۔


ساحل کی طرح حاشر اور مزمل بھی سر سے پیر تک بد تمیزی میں ڈوبے ہوئے تھے۔


انہیں سب معاملات کو دیکھتے ہوئے آصف خان اپنی بیوی کو لے کر شہر شفٹ ہو گئے۔ شہر آنے کے ایک سال بعد ہی مر جانے انکی زندگی کو جنت بنا دیا تھا۔ ماں باپ کی لاڈلی ہونے کے باوجود مر حاضر ور و انا سے بہت دور تھی۔ معصوم سی گڑیا جیسی مر حاموم سادل رکھتی تھی۔


مر حامیر ابچہ اٹھ جائیں کالج کے لیے لیٹ ہو جائیں گی نہ آپ۔


رمشاء نے محبت سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔


ماما جانی بس پانچ منٹ ! مرجانے بلینٹ واپس منہ تک ڈالتے ہوئے کہا۔


اچھا ٹھیک لیکن صرف پانچ منٹ اوکے جلدی سے ریڈی ہو کے آئیے آپ کے بابا جان ناشتے پر ویٹ کر رہے ہیں آپ کا۔ رمشاء کہہ کر واپس جا چکی تھیں۔ جب اس نے بلینٹ سے نکل کر بھر پور انگڑائی بکھرے بکھرے بھورے لمبے بال، خوبصورت آنکھیں، پھولے پھولے گال اور ان پر پڑتے ڈمپل اور چہرے پہ بلا کی معصومیت سترہ سال کی ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی عمر سے چھوٹی لگتی تھی۔ وہ بے


تحاشہ حسین تھی۔ اس کی سہیلیاں تو اسے بے بی ڈول بلاتی تھیں۔


بیڈ سے اٹھتے ہی لمبے بالوں کو کیچر میں قید کر کے تیار ہونے چلی گئی۔


رمشاء میری پرنس کہاں ہیں اٹھی نہیں ابھی تک۔ آصف نے رمشاء کو کچن میں دیکھ کر سوال کیا۔


اٹھا دیا ہے آپ کی پرنس کو آپ ناشتہ شروع کریں وہ آرہی ہے۔ رمشاء نے بیٹھتے ہوئے کہا جبکہ یہ تو وہ بھی جانتی تھیں کہ جب تک انکی لاڈلی نہیں آجاتی وہ ناشتہ شروع نہیں کریں گے۔ مرحا کے لیے انکی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب تک وہ کھانا شروع نہیں کر دیتی آصف خود ایک لقمہ بھی نہیں لیتے تھے۔


ماں صاحب ماں صاحب !


ساحر کی گرجدار آواز نے انہیں سر اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ رقیہ خان جو اس وقت کڑھائی کر تھیں ناگواری سے بال کی طرف دیکھنے لگیں۔


اس کمبخت کو چین نہیں ہے پھر ہمارے بچے کے پیچھے پڑ گیا ہو گا۔ رقیہ خان نے ناگواریت سے کہا. کیا آفت آگئی ہے کیوں چیخ و پکار مچارکھا ہے تو نے لڑکے سکون کا سانس کب لینے دیگا تو ہمیں۔ رقیہ خان آتے ہی ساحر پہ ہی شروع ہو گئی تھیں۔ ماں صاحب دیکھیے یہ کیا ہے یہ سب میرے منع کرنے کے


با وجود ساحل حویلی میں شراب کیوں لے کر آیا ہے۔ 


ساحر نے ساحل کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا جو صوفے پر نیم دراز ہوا پڑا تھا اس کی حالت بتارہی تھی کہ وہ نشے میں ہے سامنے ہی ٹیبل پر شراب کی بوتلیں پڑی تھیں جسے دیکھ کر ساحر کا غصہ ساتویں آسمان پہ تھا۔


ارے تو اتنا شور کرنے کی کیا بات ہے کوئی قیامت تھوڑی آگئی ہے جو اتنا شور مچا دیا ہے تجھے کتنی بار سمجھایا ہے میرے بچوں کے پیچھے نہ لگا کر۔ رقیہ خان نے ساحر کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔


ہاں نہ اماں صاحب میں بھی تو یہ ہی کہہ رہا تھا پر لالا کا بس چلے تو ہم پہ دانا پانی بھی تنگ کر دیں۔ ساحل نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔ 


ساحر کو پتہ تھا کوئی فائدہ نہیں ہے یہاں کچھ بولنے کا ماں صاحب نے ہمیشہ اپنے تینوں پوتوں کو ہی صحیحکہنا ہے۔ کہنے کو وہ بھی انھیں کا پوتا تھا وہ بھی سب سے بڑا اور قابل پوتا مگر رقیہ خان نے کبھی بھی اسے اہمیت نہیں دی تھی۔ نہ کبھی ان کے الفاظوں میں اس ساحر کے لیے محبت جھلکی تھی۔ ساحر اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ رقیہ خان کو اندازہ بھی نہ تھا کہ انکی بے جالاڈ پیار نے انکے پوتوں کو کس حد تک بگاڑ دیا ہے اور آگے یہی پوتے انکی زندگی میں کیا قیامت لائیں گے۔


کمرے میں آکر بھی ساحر کا غصہ کم نہ ہوا تھا۔ ایسے موقع پر اسے دادا جان کی شدت سے یاد آتی تھی جو محبت سے زیادہ صحیح کو ترجیح دیتے تھے۔ 


دادا جان بہت مشکل ہے آپ کے بنا یہ سب کچھ بہت مشکل ہے آپ کی دی ہوئی ذمہ داریاں کیسے نبھاؤں گا میں۔ یہاں تو میرے سب اپنے ہوتے ہوئے بھی کوئی اپنا نہیں ہے۔ پتہ نہیں ماں صاحب مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں۔ کیا کروں کہاں جاؤں کیسے سنبھالوں یہ سب۔


کھڑکی کے پاس آنکھیں موندے کھڑابار و عب شخصیت رکھنے والا ساحر اندر سے ٹوٹ گیا تھا۔


ضبط سے آنکھیں لال ہو گئی تھیں۔


نہیں یہ سب ایسے نہیں چل سکتا مجھے تایا جان سے ملنا ہو گا اب کسی کو بھی برا لگے مجھے یہ قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔


آخر کار اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔ ہاں یہ ضروری تھا مستقبل کی بہتری کے لیے یہ ضروری تھا۔ وہ جانتا تھا ماں صاحب کو اس بات کی خبر لگ گئی تو کیا طوفان آئے گا مگر اب اسے ہمت دیکھانی تھی۔ اپنے دادا جان کی خواہش کی خاطر اسے یہ کرنا ہی تھا۔ اس نے کل ہی شہر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔


ریان آفس آکر پچھتا رہا تھا۔ اسے اندازہ بھی نہیں کہ یہاں یہ سب ہو گا۔ آفس میں کام کرنے والی فیمیل ورکرز اسے بار بار بہانے سے دیکھتی اور بات کرنے کی کوشش کرتی۔ اسکے ڈیڈ نے ایک سیکریٹری اس کے لیے ارینج کر دی تھی جو اسے سارے شیڈیولز سمجھا رہی مگر اس کے بات کرنے کا

اند از اتنا بناوٹی تیار یان کو چیڑ آنے لگی۔ 


میں ہما آج کے لیے اتنا بہت ہے اب آپ جا سکتی ہیں۔ میں سب سمجھ گیا ہوں۔ آخر کار تنگ آکر اس نے اپنی سیکریٹری کو جانے کے لیے کہہ دیا۔ بٹ ریان سر احتشام سر نے بولا ہے مجھے ہر ٹائم آپ کے ساتھ رہنا ہے۔ ہمانے ایک ادا سے کہا تو ریان اپنا سر پکڑ کے رہ گیا۔ اسے بنا کچھ بولے وہ تیزی سے اپنے کیبن سے نکل کر احتشا صاحب کے کیبن کی طرف آیا۔ ڈیڈ میں خود سے بھی سب سمجھ سکتا ہوں آپ کو کسی سیکریٹری کو میرے پاس بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی وہ بھی ایک لڑکی کو۔ ریان نے خفگی کا اظہار کیا۔ اس کی بات سمجھ کر احتشام صاحب مسکرائے۔ مائی سن کب تک تم لڑکیوں سے ایسے بھاگتے رہو گے۔ ابھی تم نے بزنس ولڈ میں قدم رکھا ہے ابھی تو تمہیں بہت کچھ دیکھنا پڑے گا۔ اور ہو بھی سکتا ہے اب تمھارے لیے پروپوز لز بھی آنا شروع ہو جائیں۔ احتشام صاحب نے اسے چھیڑ ا تھا۔ اوہ نو !


ریان نے اپنا سر کرسی پہ ٹیکایا۔ کوئی بھی پروپوزل آجائے کچھ بھی ہو جائے کوئی لڑکی آسمان سے اتر کر ہی کیوں نہ آجائے ریان حیدر کبھی اس سب میں نہیں پڑے گا۔ کیونکہ جیسی لڑکی میں چاہتا ہوں ایسی شاید آج کے دور میں ملنا نا ممکن سی بات ہے۔ سو اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور پلیز ڈیڈ آپ اس سیکریٹری کو ہٹائیں میرے کیبن سے مجھے الجھن ہو رہی ہے میں کام نہیں کر پارہا۔


ریان کی بات سن کر احتشام صاحب مسکرائے۔ بیٹا تمھارے دادا جی نے ہمیشہ ایک بات سیکھائی ہے کہ اللہ سے اچھا گمان رکھو ہم جیسا گمان رکھتے ہیں اللہ ہمھیں ویسے ہی نوازتا ہے تم بھی اچھا گمان رکھو کیا پتا تم جیسی لڑکی چاہتے ہو ویسی مل جائے۔ 


احتشام صاحب کی بات پر اس نے دل میں سوچا تھا کیا واقعی ایسی کوئی لڑکی ہو گی جیسی میں چاہتا ہوں۔


اسلام و علیکم بابا جانی ماما جانی! 


مرحا نے آصف صاحب اور رمشاء کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔ یہ انداز آصف صاحب نے بچپن سے ہی مرحا کو سیکھایا تھا اور اب یہ اسکی عادت بن چکا تھا۔


والیکم اسلام پیرا بچہ آئیں جلدی سے ناشتہ کریں پھر آپ نے اپنے ایڈمیشن کے لیے بھی تو جانا ہے۔ آصف صاحب نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔


یس بابا جانی جو آپ کا حکم ۔


ویسے دیکھ لیں بیٹا میں تو اب بھی یہی کہوں گا آگے بزنس فیلڈ جوائن کر لیں اپنے بابا کا پرنس سنبھا لیے گا۔ آصف صاحب نے اپنے دل کی بات کہی۔


ڈیڈ میں بزنس میں آکر کیا کروں گی اس کے لیے آپ ہیں نہ مجھے بھلا کیا ضرورت میں تو ڈاکٹر ہی بنوں گی اور غریب لوگوں کا مفت علاج کروں گی۔ مرحانے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔


اچھا ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی میں بس اس لیے کہہ رہا تھا کہ کل کو میرے بعد میرا بزنس سمبھالنے والا ہو گا۔


کیا ہو گیا آپکو ڈیڈ آپ ایسے کیوں بول رہے ہیں آپ تھوڑی نہ کہیں جارے ہیں آپ ہمیشہ یہیں رہیں گے میرے پاس۔ مرحانے اپنے ڈیڈ کے گلے لگتے ہوئے کہا۔


آپ دونوں باپ بیٹی بس ایک دوسرے سے ہی پیار کرتے ہیں مجھے تو کوئی پیار ہی نہیں کرتا۔ رمشاء نے ناراضگی سے کہا تو مر جانے مسکراتے ہوئے انکے گلے میں باتیں ڈالی۔ آپ تو سب سے پہلے ہو ماما جانی۔


آپ دونوں ہی تو ہو میرے لیے میرا سب کچھ سو آپ لوگ کہیں نہیں جارہے ہیں اور ڈیڈ آئندہ آپ ایسی باتیں نہیں کریں گے وعدہ کریں۔ مرحا نے آصف صاحب کے سامنے ہاتھ پھیلایا تو انہوں نے اس کا تھام کر اپنے دل پہ رکھا۔ نا جانے کیوں آج کل آصف صاحب کو مرحا کی بہت فکر رہنے لگی تھی ماں باپ کے سوا اس کا کوئی بھی نہیں تھا اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو انکی گڑیا کا کیا ہوتا۔ خیر ابھی تو میں ہوں


میرے ہوتے ہوئے میری بیٹی کے پاس کوئی غم تکلیف نہیں آسکتی۔ انہوں نے دل میں سوچا۔ مگر وقت کب کیا کیا دیکھا دے کے خبر ہوتی ہے وہ بھی اس بات سے انجان تھے کہ انکی جان سے پیاری بیٹی جسے آج تک انہوں نے کوئی تکلیف نہیں ہونے دی آگے کیا کچھ سہنے والی ہے۔


ساحر لالا آپ ایک بار پھر سوچ لیں اگر اماں صاحب کو پتہ لگ گیا کہ آپ شہر بڑے صاحب جی سے ملنے گئے ہیں تو وہ بہت خفا ہو نگی۔ یاسر نے ساحر کا سامان گاڑی میں رکھتے ہوئے کہا۔


نہیں یا سراب یہ سب سوچنے کا وقت نکل چکا ہے مجھے دادا جان کی دی ہوئی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں اور اس کے لیے تایا جان سے ملنا بہت ضروری ہے۔ یہاں کے معاملات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں نہ تو حویلی کہ معاملات ٹھیک ہوتے نظر آرہے ہیں اور نہ ہی گاوں کے۔ میں اکیلے نہیں سنبھال سکتا تایا جان ہی ہیں جو میری مدد کر سکتے ہیں۔ تم یہی رہنا اور کوشش کرناماں صاحب کو پتہ نہ لگے میں کہاں گیا ہوں۔


ویسے تو وہ میرے بارے میں کچھ نہیں پوچھیں گی لیکن اگر پوچھیں تو کہہ دینا شہر میں میرا دوست بیمار ہے اس سے ملنے گیا ہوں۔ ساحر نے اپنے خاص وفادار یا سر کو سمجھاتے ہوئے کہا۔


لالا میں آپ کو اکیلے کیسے جانے دے سکتا ہوں۔


نہیں یا سر مجھے کچھ نہیں ہو گا میں اپنا خیال رکھ لوں گا مگر تمھیں یہیں رہنا ہو گا۔ یہ کہہ کر ساحر رکا نہیں گاڑی میں بیٹھ کر شہر کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔


مرحا کا ایڈمیشن شہر کے بیٹ میڈیکل کالج میں ہو گیا تھا۔ وہ ویسے بھی پڑھائی میں اتنی اچھی تھی کہ اسے یہاں ایڈمیشن ملنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونے والا تھا۔


اپنا کام نمٹا کر وہ باہر کی طرف جانے لگی جب سامنے سے آتی لڑکی بری طرح ٹکرائی اور دونوں ہی توازن بر قرار نہیں رکھ پائیں اور زمین بوس ہو گئیں۔


دونوں نے کو ایک دوسرے کو گھورا پھر دونوں ہی ہنس پڑیں۔


رینگلی سوری میں جلدی میں تھی تم سے ٹکرائی۔ مر جانے اس پیاری سی لڑکی کو دیکھ کر کہا۔


نہیں میری بھی غلطی ہے میں بھاگتی ہوئی آرہی تھی۔ میرا نام ایمان ہے ایمان حیدر۔ ایمان نے مرحا کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا جسے دیکھتے ہی اسکے گال ھیچنے کا من کرنے لگا تھا۔


ہائے ایمان میر انام مرحا ہے مرحا آصف خان۔ مر جانے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ اور یہاں ایک نئی دوستی کا آغاز ہوا۔ تا عمر چلنے والی دوستی کا آغاز - 


سر آپ سے ملنے ایک لڑکا آیا ہے کہہ رہا ہے آپ کا رشتہ دار ہے۔


آصف صاحب اپنے آفس میں بیٹھے کام میں مصروف تھے جب انھیں کال کر کے بتایا گیا۔


میرا رشتہ دار کون کیا نام بتایا ہے ؟ آصف صاحب کو تشفیش ہوئی کیونکہ انکا تو کوئی بھی رشتہ دار شہر میں نہیں رہتا اور رمشاء کے رشتہ داروں میں بھی صرف اسکا بھائی ہی ہے اور اسے آفس میں سب ہی لوگ جانتے ہیں۔


سر نام نہیں بتارہے بس کہہ رہے ہیں آپ کے گاؤں سے آئے ہیں۔


ٹھیک ہے اندر بھیجیں۔ گاؤں کا نام سن کر آصف صاحب کے چہرے پر خوشی آگئی تھی۔ آنے والے نے جب دستک دے کر اندر قدم رکھا تو آصف صاحب کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔


ساحر میرا۔۔ میرابچہ کیسے ہو تم؟ آصف صاحب نے آگے بڑھ کہ اسے گلے لگایا تھا۔ انھیں یقین نہیں آرہا تھا ان کا پیارا بھتیجا ان کے بھائی کا بیٹا انکے سامنے تھا وہ بھی انیس سال بعد ۔


میں ٹھیک ہوں تایا جان آپ کیسے ہیں؟ مجھے لگا تھا آپ مجھے پہچان نہیں پائیں گے اتنے سال بعد دیکھا ہے آپ نے مجھے کیسے پہچانا۔ ساحر کو بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ اس کے تایا نے نہ صرف اسے پہچان لیا تھا بلکہ انھیں اس کے آنے کی خوشی بھی تھی۔


میرے بیٹے تمھیں دیکھ کر کوئی بھی پہچان سکتا ہے کہ تم اور میں خان کے پوتے ہو۔ آؤ بیٹھو نہ بیٹا۔ اور بتاو کیسے ہیں سب حویلی میں اماں صاحب کیسی ہیں۔ اور ساحل مزمل حاشر کیسے ہیں ۔ اماں صاحب کو پتہ ہے تم یہاں آئے ہو ؟


آصف صاحب نے اسے اپنے ساتھ بیٹھایا۔


سب ٹھیک ہیں تایا جان میں ماں صاحب کو بتا کہ نہیں آیا آپ جانتے نہیں ہیں انہیں پتہ لگتا تو بہت خفا ہوتیں۔


ساحر نے جواب دیا۔


ہم مجھے اندازہ ہے۔۔ خیر یہ سب چھوڑو یہ بتاؤ کتنے دن کے لیے آئے ہو اور کہاں رکے ہو۔ آصف صاحب نے بات کا رخ بدلا۔


میں ایک ہفتے کے لیے آیا ہوں یہیں قریب ہوٹل میں روم لیا ہے۔


ساحر نے تفصیل بتائی تو آصف صاحب نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔


بہت غلط بات ہے یہ اپنے تایا کا گھر چھوڑ کر تم نے ایک ہوٹل میں روم لیا ہے۔ بس تم کسی ہوٹل نہیں جارہے ہو تم میرے ساتھ گھر چل رہے ہو اور وہیں رہو گے۔ رمشاء اور مر حاتم سے مل کے بہت خوب ہوگی۔


آصف صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا جبکہ اس کی نہ نہ کو انھوں نے ترجیح نہیں دی۔


گھر آکر ریان نے اپنی ماں کو ڈھونڈا جو اسے کچن می نظر آگئیں۔ اسلام و علیکم ماما کیسی ہیں آپ۔


والیکم اسلام آگیا میر ابچہ اتنی جلدی کیا دل نہیں لگا آفس میں۔ سمینہ نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔ میر اول لگے نہ لگے پر مجھ سے دل لگانے کے لیے کئی تیار تھیں۔ کانٹ بلیو و ماما یہ آج کل کی لڑکیوں کو ہو کیا گیا ہے۔ کیسی کیسی حرکتیں کرنے لگی ہیں۔


❤❤❤