تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 05

ازقلم؛ طوبیٰ صدیقی

 




شہیر نے آگے بڑھ کر ایمان کو سنبھالا۔


تم لوگ غلط ۔۔


اس سے پہلے ساحر کچھ کہتا شایان اور شاہ میر نے اسے بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔


میری بات سنو تم لوگ غلط سمجھ رہے ہو میں نے ایمان۔۔


ساحر کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی شایان نے پاس پڑا لوہے کا روڈ پوری طاقت کے ساتھ ساحر کے


سر پہ مارا۔ ایک کے بعد ایک وار سے ساحر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔


اس کا چہرہ خون میں تیسپت ہو چکا تھا۔ سر سے تیزی سے خون بہہ رہا تھا۔


شایان شاہ میر بس کرو گاڑی نکالو اسے ہسپتال پہنچاؤ اسے ایسے ہی مرنے نہیں دوں گا میں اس نے جو کیا ہے اسکے لیے اسے اتنی آسانی سے موت نہیں ملے گی یہ مرنا نہیں چاہیے ۔ ریان نے غصے سے کہا ساتھ ہی ایمان کو باہوں میں اٹھائے اسے بھی ہسپتال کے جانے لگا ایمان اس وقت بے ہوش تھی اسے علاج کی ضرورت تھی۔


ہسپتال میں ایک طرف ایمان کا علاج چل رہا تھا تو دوسری طرف ساحر کی ٹریٹمنٹ بھی شروع ہو چکا تھا۔ ساحر کا کافی خون بہہ چکا تھا اس کی حالت تشویشناک تھی ڈاکٹر صاف الفاظوں میں بتا گئے تھے کہ سر پہ کئی بار دار ہونے کی وجہ سے انکے سر میں بہت گہری چوٹ آئی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی جان بچنے کے صرف 20 ب چانس تھے۔


مگر وہاں کسی کو بھی ساحر کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ چاہتے تھے ساحر زندہ بچے لیکن اگر مر بھی جائے تو بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔


ڈاکٹر میری بہن کیسی ہے وہ ٹھیک ہے نہ۔


ڈاکٹر کے باہر آنے پہ ریان نے بے چینی سے پوچھا۔


آپکی سٹر ڈر و خوف کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہیں۔ ابھی بھی وہ کسی خوف کے زیر اثر ہیں جس کی وجہ سے بے ہوشی کی حالات میں بھی انکی باڈی کانپ رہی ہے۔ مگر فکر کی بات نہیں ہے ابھی ہم نے انہیں نیند کا انجیکشن دیا ہے تا کہ وہ سکون میں آسکیں باقی کی کنڈیشن ان کے ہوش میں آنے کے بعد ہی بتائی جاسکے گی۔


ڈاکٹر کہہ کر چلی گئیں تو سب نے سکون کا سانس لیا انکی بہن ٹھیک تھی اس سے بڑھ کر ان سب کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔


ام صاحب کو ولی نیچے پہنتے رات ہوگئی تھی۔۔


۔


مگر اس کے باوجود بھی ان لوگوں کا گرینڈ و یکم کیا گیا تھا۔


آصف صاحب کو اس سب کی بالکل امید نہیں تھی انہیں اندازہ بھی نہیں تھا ان کا استقبال اس طرح کیا جائے گا۔


آصف میرابچہ !


اماں صاحب نے انہیں دیکھ کر اپنی باہیں پھیلائی تھیں۔


پہلی بار اپنی ماں کی محبت بھری پکار پر وہ جلدی سے انکی باہوں میں سمائے تھے۔


اماں صاحب کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔ رمشاء بھی یہ سب دیکھ کر ایموشنل ہو گئی تھی جبکہ مرحا خوشی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔


حویلی کی سجاوٹ دادی جان کا پیار دیکھ کر اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔


مرحا آؤ بیٹا ادھر آؤ دادی سے ملو۔


آصف صاحب نے مرحا کو اپنے پاس بلایا تو وہ دوڑتی ہوئی آکر انکے گلے لگی تھیں۔


مرحا کو اماں صاحب آج پہلی بار دیکھ رہی تھیں مگر مرحا کو دیکھ کر اپنی بیٹی کا چہرہ انکی آنکھوں میں لہرایا تھا۔


میری بچی کیسی ہے ناراض تو نہیں ہے ہم سے۔


اماں صاحب نے مرحا کو پیار کرتے ہوئے کہا۔


نہیں دادو میں کیوں آپ سے ناراض ہونگی میں تو بہت خوش ہوں آپ سے مل کر۔


مر جانے محبت سے کہا۔


لالا ! سیڑھیوں سے اترے امجد اور ماجد نے آصف صاحب کو پکارا اور جلدی سے آکر آصف صاحب کے گلے لگ گئے۔


ابھی وہ ان سے مل رہے تھے کہ تین لڑکے بال میں داخل ہوئے۔


اسلام و علیکم تایا جان تائی جان۔


مزمل ساحل اور حاشر نے دونوں کو ادب سے سلام کیا تھا۔


آصف صاحب کو یہ سب دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی جبکہ دور کھڑا یا سر سامنے ہونے والے تماشے دیکھ رہا تھا۔


اتنی تمیز اور تہذیب دیکھ کر اسے یقین ہو گیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔


سب سے مل کر اماں صاحب نے آصف صاحب کو آرام کے لیے جانے کو کہہ دیا۔


یا سر یہ سب دیکھ کر پریشان تھا اس نے ساحر کو کال کرنے کا سوچا مگر ساحر کا نمبر مسلسل بند جارہا تھا۔


یا سر نے خود ہی ان لوگوں پر نظر رکھنے کو سوچا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ آصف صاحب کے ساتھ


کچھ بھی غلط نہیں ہونے دے سکتا تھا۔


ساحر کے پیچھے آصف صاحب کا خیال رکھنے کی زمہ داری یاسر کی تھی اور وہ اپنی زمہ داری نبھانا اچھے سے جانتا تھا۔


مر حامیر ابچہ یہ ہے تمھارا کمر اکیسا لگا۔


ماجد نے مرحا کو اس کا کمرہ دیکھایا جو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ہر چیز مرحا کی پسند کے مطابق تھی یقینا یہ کمرہ ساحر نے تیار کروایا تھا۔


آصف میر ابچہ میرے دل کو سکون آگیا تمھیں یہاں دیکھ کر ۔ بس تم ہمیشہ اب میرے پاس رہنا اب کہیں نہ جانا اپنی بوڑھی ماں کو چھوڑ کر۔


اماں صاحب کی بات سن کر آصف صاحب مسکرائے۔


ماں صاحب میں سمجھتا ہوں آپ کی بات مگر اب میرا یہاں رکنا ممکن نہیں ہے وہاں میر ا بزنس ہے اسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے اور مرحا کبھی ماشاء اللہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اس کی بھی پڑھائی کا مسئلہ ہو گا مگر میں اپنی ماں سے ملنے ہر مہینے آیا کروں گا اور کچھ دن آپ کے ساتھ گزاروں گا۔


آصف صاحب نے محبت سے اپنی ماں کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔


ہاں یہ بھی ہے ایسے کیسے سب چھوڑ کر یہاں آسکتے ہو مگر اپنی ماں کی ایک خواہش تو پوری کر سکتے ہو نہ۔ حکم کریں ماں صاحب کیا خواہش ہے آپ کی۔


آصف صاحب نے پوچھا۔


بھئی دیکھو اتنے سالوں کی دوری نے دلوں میں بھی فاصلے ڈال دیے ہو نگے میں بس یہ چاہتی ہوں تمھارا اس گھر سے ایک مضبوط رشتہ جوڑ جائے۔


امان صاحب کی بات وہ سمجھ نہیں پائے۔


مگر ماں صاحب میرا تو یہاں سب سے ہی مضبوط رشتہ ہے آپ کیا کہنا چاہتی ہیں میں سمجھا نہیں۔ صاف الفاظوں میں یہ کہ میں اپنی پوتی کی شادی اپنے پوتے سے کروانا چاہتی ہوں میں چاہتی ہوں مرحا کو حاشر کے نام سے منصوب کر دو۔


اماں صاحب نے صاف الفاظ میں اپنی خواہش بتائی۔


آصف اور رمشاء کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ انکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انکی خواہش ایسی بھی ہو سکتی ہے۔


کچھ لمحے تو آصف صاحب کچھ نہیں بول پائے پھر سنبھل کر اپنی ماں کا ہاتھ تھاما۔


ماں صاحب میں آپکی خواہش کا احترام کرتا ہوں مگر اتنا بڑا فیصلہ میں مرحا کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتا وہ بالغ ہے اپنے لیے فیصلہ لینے کا حق رکھتی ہے۔ میں نے ابھی اس کے لیے ایسا کچھ سوچا نہیں تھا ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے صرف سولہ سال میں اس کی مرضی جان کر پھر آپ کو جواب دوں گا۔


آصف صاحب نے بہت تحمل اور محبت سے اماں صاحب کو اپنی بات سمجھائی۔


ٹھیک ہے دیکھ لو مگر جواب ہاں میں ہو پڑھائی کی فکر والی بات نہیں ہے وہ ڈاکٹر بنے ہم اسے روکیں گے تھوڑی۔ مجھے مرحا میں اپنی رملہ کی پر چھائی دیکھتی ہے آصف میں اپنی بچی کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔


اماں صاحب ایمو شنل ہوئی تو آصف صاحب نے ان کے گرد بازو پھیلائے۔


میں مرحا کے ساتھ زبردستی نہیں کروں گاماں صاحب بس اللہ نے چاہا تو سب اچھا ہو گا۔ انہوں نے سمجھایا۔


اماں صاحب سے بات کر کے جب آصف صاحب اپنے کمرے میں آئے تو رمشاء پریشان کسی انکی طرف بڑھی تھیں۔


رمشاء کی پریشانی سمجھ کر آصف صاحب مسکرائے۔


میری پیاری بیگم کیوں اتنی پریشان ہے۔


آصف صاحب نے انہیں بیڈ پہ بیٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل انکے سامنے بیٹھے۔


آپ نے سنی ناماں صاحب کی خواہش ہم ایسا کیسا کر سکتے ہیں آصف مرحا ابھی چھوٹی ہے اور یہاں وہ


کیسے ایڈ جسٹ کرے گی اس کی خواہش اس کے سپنے ہم ایسا نہیں کر سکتے۔


رمشاء نے پریشانی سے کہا۔


آصف صاحب مسکرائے۔


رمشاء میرے لیے میری بیٹی کی خوشی اس کی خواہش سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے میں اس کے لیے کبھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کروں گا جس کے لیے مجھے کبھی پچھتانا پڑے۔ میں مر حا سے بات کروں گا یہ سب اسکی مرضی سے ہو گاور نہ نہیں ہو گا۔ اماں صاحب ویسے ہی مجھ سے بہت ناراض رہی ہیں اب انکو ڈائیریکٹ منع کر کے میں انکا دل نہیں دکھا سکتا تھا تم فکر نہیں کرو سب ٹھیک ہو گا۔


میں اس معاملے میں پہلے ساحر سے بات کروں گا وہ اس حویلی میں رہا ہے وہ بہتر مشورہ دے گا آگے جو مرحا کی مرضی ہو گی وہی ہو گا۔


اب تم پریشان نہیں ہو اور سو جاؤ میں ساحر سے بات کر کے پھر سوؤں گا۔


آصف صاحب نے ساحر سے بات کرنے کی بہت کوشش کی مگر اس کا نمبر مسلسل آف ہی آتا رہا تو


آصف صاحب نے اگلے دن کال کرنے کا سوچا۔


کیا بات ہے حاشر تیری تو لوٹری نکل پڑی ہے بنا محنت کے شہر کی چھوکری مل گئی۔


مزمل نے ہنستے ہوئے کہا۔


ابے ابھی کہاں ابھی تو دیکھ وہ لڑکی ہاں کرتی ہے یا نہیں اگر اس نے نہ کر دی تو ۔


ساحل نے حاشر کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔


تو ہمیں بہت سے راستے آتے ہیں ہاں کروانے کے۔


حاشر نے کمینگی سے کہا تو وہ دونوں ہنس پڑے۔


ارے فکر کی بات نہیں سب کچھ اماں صاحب کے پلان کے مطابق ہو گا اگر سیدھے طریقے سے مان


گئے تو صحیح ور نہ اماں صاحب کا دوسرا طریقہ ہے نہ سب کچھ پلان کے مطابق ہو گا۔


تینوں آپس میں باتوں میں مصروف تھے یہ جانے بغیر کہ باہر یا سر انکی ساری باتیں سن چکا ہے۔


یا سر کو یقین تھا کہ کوئی نہ کوئی وجہ ہے ان لوگوں کی اتنی محبت کی اب اس کو صبح ہوتے ہی یہ سب آصف صاحب کو بتانا تھا۔


ریان سمیت تینوں بھائی اس وقت ایمان کے پاس موجود تھے۔


ریان مسلسل ایمان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جہاں تھپڑ کا نشان اب بھی بلکہ ساموجود تھا۔


تم جلدی ٹھیک ہو جاؤ میر ابچہ تمہیں اس حالات میں دیکھنا میرے لیے دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے اٹھ جاؤ میر ابچہ پلیز اٹھ جاؤ۔


ریان نے ایمان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔


ایمان نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں۔


ایمان گڑیا دیکھو ہم لوگ ہیں تمھارے ساتھ دیکھو تمھارے چاروں بھائی ہیں یہاں تم بالکل سیو و ہو۔


ریان نے ایمان کے اٹھنے پر اسے سہارا دے کر بیٹھایا۔ ایمان ریان کو دیکھ اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


ایمان بس چپ بالکل چپ اب ایک آنسو بھی نہ نکلے آپ کی آنکھوں سے ہم آگئے ہیں نہ سب کچھ ٹھیک ہے اب کچھ غلط نہیں ہو گا۔ 


بھیو میں بہت ڈر گئی تھی وہ لوگ مجھے کسی سنسان جگہ لے گئے تھے پتہ نہیں کیا کرتے میرے ساتھ وہ لوگ بھیو میں برباد ہو جاتی۔


ایمان کے آنسوں رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے جبکہ ریان اسے اپنے ساتھ لگائے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔


کچھ نہیں ہو امیر ابچہ اب سب ٹھیک ہے نہ وہ لوگ کچھ نہیں کر سکے سب ٹھیک ہے اب ریان نے ایمان کو سمجھایا تو اس نے سر اٹھا کر ریان کو دیکھا۔


ہاں بھیو اگر وہ صحیح وقت پر نہیں آتے نہ تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔ انہوں نے مجھے بچایا میری عزت کی حفاظت کی بہت مارا ان لوگوں کو ایک کی تو ہڈی بھی توڑ دی کیونکہ اس نے مجھے تھپڑ مارا تھا۔ آج اگر میں یہاں صحیح سلامت بیٹھی ہوں تو صرف ان کی وجہ سے۔


ایمان کے کہنے پہ وہ چاروں ہی پریشان ہو گئے تھے کس نے بچایا تھا ایمان کو وہاں تو صرف ایک آدمی تھا جو اس وقت ہاسپیٹل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔


ایک منٹ کس نے بچایا کس کی بات کر رہی ہو ایمان۔


شایان نے پریشانی سے پوچھا۔


پتہ نہ یہ نہیں بھائی مجھے انکا نام نہیں پتہ مگر وہ بہت اچھے ہیں میں ان سے بات کر رہی تھی پھر اس کے بعد مجھے یاد نہیں کیا ہوا۔ 


ایمان کی باتوں سے وہ چاروں ہی پریشان ہو گئے تھے۔ جس وقت وہ لوگ پہنچے تھے وہاں صرف ایک ہی انسان تھا جس کو ان لوگوں نے بہت مارا تھا۔


مطلب وہ لوگ ایک بے قصور انسان کی اتنی بری حالات کر چکے تھے۔ ایمان کو ریسٹ کرنے کے لیے شہیر کے ساتھ چھوڑ کر وہ تینوں بے چینی سے باہر آئے تھے۔


بھائی اس کا مطلب وہ آدمی جسے ہم نے مارا وہ ایمان کو نقصان دینے نہیں بلکہ اسے بچانے آیا تھا۔


شاہ میر کے کہنے پر ریان نے ہاں میں گردن ہلائی۔


ریان اپنا سر پکڑ کر پاس رکھی بینچ پر بیٹھ گیا۔


یہ کیا ہو گیا ہم سے کیا کر دیا ہم نے وہ بولتار با ہم غلط سمجھ رہے ہیں مگر ہم نے سنی ہی نہیں۔


ریان بہت زیادہ گلٹ میں تھا۔ شاہ میر اور شایان کا حال بھی ایسا ہی تھا جب ڈاکٹر ان کے قریب آکر رکا۔


مسٹر ریان پیشنٹ خطرے سے باہر ہے لیکن سر پہ گہری چوٹوں کی وجہ سے وہ کومہ میں چلے گئے ہیں۔ ریان شایان شاہ میر ڈاکٹر کی بات سن کر شرمندگی کی گہرائیوں میں گرے تھے۔ ان کی وجہ سے آج ایک بے گناہ شخص اتنی بری حالت میں تھا۔


ڈاکٹر وہ کب تک ہوش میں آجائے گا۔ 


ریان نے فکر مندی سے پوچھا۔


دیکھیں کچھ کہا نہیں جاسکتا کو مہ سے نکلے کا کوئی فکس ٹائم پیریڈ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ دن لگیں ہو سکتا ہے کچھ ہفتے لگ جائیں یا پھر مہینے یا سال۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ آپ لوگ دعا کریں اور ان کا خیال رکھیں انشاء اللہ وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔


ڈاکٹر اپنے آگاہ کر کے جا چکا تھا۔


شایان شاہ میر تم لوگ جاؤ اور اس کے بارے میں پتا کر وکون ہے کہاں رہتا ہے اس کی فیملی کا پتہ کرو۔


جو ہو گیا وہ ہو گیا مگر اس کی فیملی کو انفارم کرنا پڑے گا۔


ریان نے دونوں کو بھیجا اور خود ساحر والے روم میں چلا گیا۔


بیڈ پہ پڑا وجود پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ ریان کو افسوس ہوا تھا۔


میں جانتا ہوں تمھارے ساتھ جو ہوا وہ بہت غلط ہے میں اس چیز کا ازالہ بھی نہیں کر سکتا مگر اب جب نے تک تم ٹھیک نہیں ہو جاتے تمھاری ساری زمہ داری میری ہے تم بس ہوش میں آجاؤ دوست۔ تم میری بہن کے لیے جو کیا ہے اس کے لیے میں تمھارا احسان کبھی نہیں بھول سکتا جان بستی ہے ہماری


بہن میں ہماری تم نے اسے بچا کر ہم سب کی جان بچائی ہے۔ بس تم ٹھیک ہو جاؤ۔


ریان نے اپنے دل کی باتیں ساحر کے سامنے کی مگر اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہوئی بس سکوت تھا گہر اسکوت۔ 


ریان تھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھ کر ایمان کے پاس چلا گیا۔


ایمان کے روم میں ڈاکٹر ایمان کا چیک اپ کر رہی تھیں۔


ڈاکٹر میری بہن ٹھیک ہے نہ۔


ریان نے پوچھا۔


جی مسٹر ریان آپ کی بہن بالکل ٹھیک ہیں مینٹلی بس ڈسٹرب ہیں اس سے نکلے میں آپ سب کا کردار زیادہ ہو گا آپ لوگ انہیں کمفر نمیبل ماحول دیں تا کہ وہ جلدی اس سب سے نکل سکیں۔


ڈاکٹر چند ایک اور ہدایت دے کر چلی گئیں۔


ریان جا کر ایمان کے پاس بیٹھا تو شہیر نے ایمان کی دوسری طرف اپنی جگہ بنائی۔


اللہ ایمو تھوڑی جگہ دے دیں آپ تو پورا بیڈ ہی گھیر کے بیٹھ گئی ہیں۔


شہیر نے ایمان سے کہا تو وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


شہیر بیڈ کا سائز دیکھیں اور اپنی بلڈوزر جیسی باڈی دیکھیں۔


ایمان نے شہیر کی صحت پر کمنٹ کیا تو شہیر نے اسے گھورا۔


اچھا اچھا لڑو نہیں یہ ہسپتال ہے گھر نہیں تم دونوں کہیں بھی شروع ہو جاتے ہو۔


ریان کے کہنے پہ دونوں خاموش ہو گئے۔


بھیو وہ کہاں ہیں جنھوں نے میری جان بچائی تھی مجھے یاد ہے میرے نے ہوش ہونے سے پہلے وہ ساتھ تھے میرے۔ آپ نہ انہیں بہت سارا تھینک یو کرنا انہوں نے جو کیا میرے لیے وہ بہت بہادری کا کام تھا۔


ایمان نے ریان سے کہا تو اس نے ایمان سے نظریں چرائی تھیں۔ کیا ہوا بھیو چپ کیوں ہیں۔


ریان کو خاموش دیکھ ایمان نے سوال کیا۔


ریان اپنی بہن سے کچھ نہیں چھپانا چاہتا تھا اس لیے اس نے ساحر کے ساتھ ہوئے سارے معاملے کو بتا دیا جسے سن کر ایمان بے یقینی سے دونوں کو دیکھنے لگی۔


بھیو یہ کیا کر دیا آپ لوگوں نے ان کی کوئی غلطی نہیں تھی مجھے اٹھانے والے سر سلمان تھے۔ انہوں نے مجھے کڈنیپ کیا تھا۔


ایمان کو بہت دکھ ہوا تھا بیچارے ساحر کی نیکی اس کے گلے پڑ گئی تھی۔


تم فکر نہیں کرو گڑیا میں سب ٹھیک کر دوں گا جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو گا اس کی ساری ذمہ داری میں لوں گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔


ریان نے ایمان کو تسلی دی تو اس نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔


یا سر صبح ہوتے ہی آصف صاحب کو ڈھونڈنے لگا تو اسے پتہ لگا وہ مرحا سے ضروری بات کرنے گئے ہیں یا سر انکا انتظار کرنے لگا۔


آصف صاحب مرحا کے سامنے بیٹھے الفاظ تلاش کر رہے تھے کہ کیسے اس سے یہ سب بات کریں جبکہ مر حا کو انکا انداز کھٹکا تھا۔


بابا جانی کیا بات ہے جس کے لیے آپ کو اتنا سوچنا پڑ رہا ہے۔


مرحا کے بولنے پر انہوں نے گہری سانس لی اور اپنی بات شروع کی۔


مر حامیر ابچہ تمھیں پتہ ہے تمھاری دادی جان ہم سے ہمیشہ ناراض رہی ہیں آج اتنے سالوں بعد سب


ٹھیک ہوا ہے تو تمھاری دادی چاہتی ہیں کہ ہم لوگ مضبوطی سے بندھ جائیں۔


آصف صاحب کی بات پر مرحا کنفیوز ہوئی۔


بابا آپ کا تو یہاں پہ اسٹروگ ریلیشن ہے پھر اس بات کا مطلب میں سمجھی نہیں۔


مرحا بیٹا تمھاری دادی چاہتی ہیں تمھیں حاشر کے نام سے منصوب کر دیں۔


آصف صاحب کی بات نے مرحا پہ حیرت کا پہاڑ تو ڑا تھا وہ حیران پریشان اپنے بابا کو دیکھ رہی تھی۔


بابا جانی یہ ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے یہ سب کیسے مجھے ابھی ڈاکٹر بننا ہے میرے خواب ہیں ابھی میں نے اس


سب کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔


آپ نے کیا کہا دادی جان کو کیا جواب دیا۔


بیٹا آپ کی مرضی کے بغیر میں کوئی جواب کیسے دے سکتا ہوں جیسا آپ چاہو گی ویسا ہی ہو گا۔ مرحا کی بات پہ آصف صاحب نے جواب دیا۔


بابا جانی آپ انہیں منع کر دیں میں ابھی اس سب کے لیے تیار نہیں ہوں۔


مر جانے کہا تو آصف صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کسی بھی قسم کی زبر دستی نہیں کر سکتے تھے۔


جیسا میر ابچہ چاہے۔ انہوں نے مرحا کے ماتھے پہ بوسا دیا اور کمرے سے چلے گئے۔


باہر ہی یا سر ان کا انتظار کر رہا تھا۔


آصف صاحب کو دیکھ کر اس نے زمینوں کے کام کے سلسلے میں انہیں ساتھ چلنے کو کہا وہ حویلی میں رہ کر کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا اگر کسی کو پتہ لگ جاتا تو پتہ نہیں وہ لوگ کیا کرتے اس لیے اس نے ساری بات آصف صاحب کو باہر بتانے کا سوچا۔


ساحر نے کہا تھا اس کے لیے سب سے خاص رشتہ آصف صاحب اور رمشاء بیگم کا ہے اور انہیں وہ کسی پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا۔ اگر ساحر یہاں ہوتا تو معاملات کچھ اور ہوتے مگر پتہ نہیں ساحر کہاں تھا


اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا تھا۔ ایسے میں اسے اپنا فرض نبھانا تھا۔


پھر چاہے اسے اپنی جان کیوں نہ دینی پڑے۔


یا سر آصف صاحب کو اپنے ساتھ ڈیرے پہ لایا اور ساری بات بتادی۔


بڑے صاحب آپ بیگم صاحبہ اور مرحابی بی کو لے کر چلے جائیں یہاں سے یہ سب جو محبت آپ کو جتائی جارہی ہے سب دھو کہ ہے حاشر بابا بالکل ٹھیک لڑکے نہیں ہیں۔ شراب پیتے ہیں کوئی کام نہیں کرتے کئی بار انہوں نے گاؤں کی بچیوں کو بھی چھیڑا ہے جس پہ ساحر لالا کی بہت بری لڑائی بھی ہوئی تھی حاشر بابا ہے۔


اگر ساحر لالا ہوتے تو وہ سب خود ہی سنبھل لیتے پر وہ پتہ نہیں کہاں ہیں آپ لوگ چلے جائیں یہاں سے صاحب جی ان لوگوں سے کوئی بعید نہیں کہ کیا کر دیں۔


یاسر کی باتوں سے آصف صاحب پریشان ہو گئے تھے اتنا بڑا دھو کہ ہو رہا تھا ان لوگوں کے ساتھ ان کے جذبات کے ساتھ کھیلا جا رہا تھا انہوں نے آج ہی واپس جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔


ٹھیک ہے یا سر میں آج ہی یہاں سے جارہا ہوں میرے لیے میری بیوی بچی سب سے پہلے ہیں۔ تمھارا بہت شکریہ یا سر تم نے وقت رہتے مجھے سب بتادیا تمھارا یہ احسان رہے گا مجھ پر۔


نہیں صاحب جی احسان کی کوئی بات نہیں ہے ساحر لالا کے پاس آپ لوگوں کا واحد رشتہ ہے جس سے انہیں ہمیشہ محبت ملی ہے اس لیے آپ لوگ میرے لیے بہت خاص ہیں میں آپ لوگوں کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دوں گا۔


یا سر کی بات پہ آصف صاحب مسکرائے۔


تم جیسا ساتھی ہر انسان کی زندگی میں ہونا چاہیے یا سر تم ہمیشہ اپنے لالا کا ایسے ہی ساتھ دینا۔ آصف صاحب نے یاسر کا کندھا تھپتھپایا تو اس نے اپنا سر ان کے آگے جھکایا۔


آصف صاحب نے حویلی آتے ہی رمشاء کو واپسی کا بول دیا تھا اور مرحا کو تیاری کرنے کا کہہ دیا تھا۔ ایسے اچانک کیا ہوا ہے آصف کچھ تو بتائیں مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔


رمشاء کی پریشانی پر انہوں نے رمشاء کو سب بتادیا۔ ساری بات سن کر رمشاء بھی پریشان ہو گئی تھیں۔


بس انہیں آج ہی یہاں سے واپس نکلنا تھا۔


اماں صاحب وہ تایا جارہے ہیں واپس آج ہی میں نے انہیں کہتے سنا کہ آج ہی کسی بھی حال میں واپس جانا ہے۔


مزمل نے آکے اماں صاحب کو بتایا تو انہوں نے ایک نظر امجد اور ماجد کو دیکھا جو بالکل پر سکون تھے۔


ہاں ٹھیک ہے جانے دو کوئی مسئلہ نہیں ہے اب ان کی مرضی ہے۔ جیسا وہ چاہیں۔


امجد نے کمینگی سے ہنستے ہوئے کہا۔ اب آگے جو ہونا تھا وہ امجد اور ماجد نے کرنا تھا۔


سامان پیک کر کے آصف صاحب رمشاء اور مرحا کو لے کر نیچے اماں صاحب کے پاس آئے۔


امان صاحب مجھے اجازت دیں مجھے واپس جانا ہو گا۔ وہاں میرا کام رکا ہوا ہے میں پھر کبھی آوں گا۔


آصف صاحب نے اماں صاحب کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔


کیا بات ہے آصف کل ہم نے تم سے اپنی پوتی کیا مانگی تم نے آج ہی واپسی کی راہ لے لی۔ نہیں کرنا تھا تو منع کر دیتے یہ واپسی جانا یہ کیا بات ہوئی۔


اماں صاحب نے خفگی سے کہا۔


جی اماں صاحب میں نہیں کر سکتا اپنی بیٹی کی شادی آپ کے پوتے سے میں ایک شرابی کے ساتھ اپنی بچی کی زندگی تباہ نہیں کر سکتا۔


آپ نے میری بچی کے لیے سوچنے سے پہلے اپنے پوتے کا نہیں سوچا کہ وہ کیسا ہے۔


آصف صاحب نے تحمل سے جواب دیا وہ کوئی بھی بدمزگی نہیں چاہتے تھے۔


ہائے ہائے تو صرف شراب ہی تو پیتا ہے وہ بھی کبھی کبھی اس میں ایسا کیا مسئلہ آگیا جو تم ایسے بول رہے ہو۔


اماں صاحب نے غصے سے کہا۔


اماں صاحب میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا بس میں جارہا ہوں اپنی بیوی اور بچی کو لے کر خدا حافظ۔


ہاں ہاں جاؤ بس یاد رکھنا آج کے بعد تم لوگوں کے لیے اس حویلی کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہیں۔


چلے جاؤ یہاں سے بد ذات تم محبت کے لائق ہی نہیں ہو۔


اماں صاحب غصے سے بولتی رہیں پر آصف صاحب رکے نہیں۔


رمشاء اور مر حا کو لے کر چلے گئے۔


‏ ان کے جانے کے بعد ماجد اور امجد اندر آئے تو ان کو دیکھ کر اماں صاحب کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ آئی۔


ہو گیا کام ؟ اماں صاحب نے پوچھا۔


ارے ہاں ہاں اماں فکر نہ کرو سب ہو گیا۔ تم آرام کرو بس۔


امجد نے کہا تو وہ مطمئن ہو گئیں۔


❤❤❤