تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 07
از۔ طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
💖💖💖
ریان بیٹا پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہو جائے گا فی الحال تو اس بچی کے رشتہ داروں کا پتہ کرو میتوں کو ان کے ورثاء کے حوالے تو کرنا ہو گانا۔ احتشام صاحب نے کہا تو اسے خیال آیا اس سب کے بارے میں تو وہ سوچ ہی نہیں رہا تھا۔
بابا شاید اس کے رشتہ دار گاؤں میں ہیں۔ ڈیتھ سے پہلے مرحا کے ڈیڈ نے مجھے کہا کہ اس کا خیال رکھنے کے لیے اس کی حفاظت کرنے کے لیے اور یہ بھی کہ کچھ بھی ہو جائے مرحا واپس گاؤں نہ جائے۔ ریان نے بتایا تو احتشام صاحب بھی پریشان ہوئے تھے۔
ریان ہم مرحا کو وہاں نہیں بھیجیں گے وہ ویسے بھی ابھی ٹھیک نہیں ہے تم خود جاؤ اس کے گاؤں کا پتہ کرو اور ان لوگوں کو بتاؤ اس حادثے کا مگر اگر اس کے ڈیڈ کو کچھ ایشو تھے تو فی الحال تم ان لوگوں کو مرحا کے بارے میں نہیں بتانا۔
احتشام صاحب کی بات اسے ٹھیک لگی تھی اس نے ابھی مرحا کے گاؤں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کا ایڈریس وہ پولیس سے لے چکا تھا۔
بابا میں ابھی ہی نکلتا ہوں واپسی آتے آتے رات بہت ہو جائے گی یہاں میں شایان کو بلا رہا ہوں آپ لوگ پلیز مرحا کا خیال رکھیے گا۔
ریان کے کہنے پہ احتشام صاحب نے ہامی بھری۔ انہوں نے ریان کو ایمان کے علاوہ کبھی کسی لڑکی کے لیے پریشان نہیں دیکھا تھا۔
شایان ریان کی کال آتے ہی نکل گیا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ ساحر کے پاس اس وقت شہیر موجود تھا۔
ایمان ساحر کے روم کی طرف آئی۔ شہیر نے اسے دیکھ کر اندر آنے کا اشارہ کیا تو وہ آہستہ آہستہ چل کے بیڈ کے قریب آئی۔
کیا ہوا ایمو اس وقت یہاں ہو سب ٹھیک ہے کیا نیند نہیں آرہی ڈاکٹر نے آپ کو آرام کرنے کے لیے بولا ہے نہ۔
شہیر کی فکر مندی پر ایمان مسکرائی۔ ہر وقت لڑنے جھگڑنے چھیڑنے والا اس کا بھائی اس کی کتنی پروا کرتا تھا۔
ایمان کو شہیر پہ پیار آیا۔
میں ٹھیک ہوں شہر بس انہیں دیکھنے آئی تھی۔
ایمان نے ساحر کی طرف اشارہ کیا جو بے سود بستر پہ پڑا تھا۔
یہ بہت بہادر ہیں جیسے تم لوگ ہمیشہ میری حفاظت کرتے ہو انہوں نے بھی ویسی ہی حفاظت کی میری۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جان دے دیں گے مگر مجھ پہ کوئی تکلیف نہیں آنے دیں گے۔
ایمان کی باتوں سے شہیر کے دل میں ساحر کے لیے احترام و عزت اور بڑھ گئی تھی۔ اس نے دل سے دعا کی تھی کہ ساحر جلدی سے ٹھیک ہو جائے۔
ایمان نم آنکھوں سے ساحر کو دیکھنے لگی۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا وہ بہت پر کشش شخصیت کا مالک تھا۔ چہرے پہ گھنی مونچھیں اور داڑھی اس کی شخصیت کو اور جاذب نظر بناتی تھی۔
اسے دیکھ کر کوئی بھی لڑکی اپنا دل ہار سکتی تھی۔ لیکن سب سے خوبصورت اس کا دل تھا جس نے ایمان کے دل میں بھی ایک انجانہ سا احساس پیدا کر دیا تھا جس سے ایمان خود بھی انجان تھی۔
ایمو آپ اب سو جاؤ طبیعت خراب ہو جائے گی نہ ورنہ۔
شہیر نے کہا تو ایمان نے ہاں میں گردن ہلائی۔
آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں ساحر پلیز جلدی ٹھیک ہو جائیں۔
اپنے دل میں ایمان نے ساحر کو کہا تھا۔
آج یہ انجان شخص ایمان کے لیے بہت اہم ہو گیا تھا۔
ایمان واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اس امید کے ساتھ کہ جلد ہی وہ ساحر کو اپنے سامنے بالکل ٹھیک پائے گی۔
ریان لمبی ڈرائیو کے بعد گاؤں پہنچا تھا۔ لال حویلی اپنی شان و شوکت لیے کھڑی تھی۔ ریان نے حویلی دیکھ کے ہی اندازہ لگالیا تھا کہ مرحا کا تعلق کتنے بڑے لوگوں سے ہے۔
حویلی کے باہر گاڑی روکی تو سامنے سے آتے یا سر نے ریان کو دیکھ کر اس کی طرف قدم بڑھائے۔
جی آپ کون ہیں کس سے ملنا ہے آپ نے۔ یاسر نے ریان سے پوچھا۔ ریان کی ڈریسنگ دیکھ کر اس نے اندازہ لگایا تھا کہ یقینا وہ شہر سے آیا تھا۔
کیا آصف اور لیس خان یہیں رہتے تھے۔ ریان نے یا سر سے پوچھا۔
جی یہ انکی ہی حویلی ہے مگر وہ شہر میں رہتے ہیں یہاں انکی والدہ اور بھائی رہتے ہیں۔
ریان نے ہاں میں گردن ہلائی۔
آپ ان کے سب گھر والوں کو بلا کر لے آئیں مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے۔
ریان نے یا سر سے کہا تو وہ ریان کو حویلی کے اندر لے آیا۔
آپ یہاں بیٹھیں میں بلاتا ہوں سب کو ۔ یا سر کہہ کر چلا گیا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہاں اماں صاحب کے ساتھ ساتھ امجد ماجد مزمل ساحل اور حاشر موجود تھے۔
کہو لڑ کے کون ہو تم کیا بات کرنی ہے تم نے۔
اماں صاحب نے کہا تو ریان نے ایک نظر سب کو دیکھا۔
صبح آصف صاحب اور انکی بیوی رمشاء کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا ہے۔ انکی ڈیڈ باڈیز ہسپتال میں موجود ہے۔
ریان نے اپنی بات مکمل ہونے پر سب کے چہرے دیکھے۔ وہاں کسی کے چہرے پر کوئی افسردگی نہیں تھی۔
اماں صاحب ماجد اور امجد نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
اچھا !! افسوس ہوا۔۔
اماں صاحب نے مصنوعی افسردگی کا اظہار کیا۔
ریان کو یہ سب حیرت انگیز لگا تھا۔
ارے او ہیر واس حسینہ کا تو بتاؤ اس کا کیا ہوا اگر بچ گئی تو ہمیں لا دو۔
حاشر نے کمینگی سے کہا تو مزمل اور ساحل نے قہقہہ لگایا۔
مرحا کے لیے اس طرح کی بات سن کر ریان کا خون کھول گیا تھا۔ مگر اپنے آپ پر کنٹرول کرنا اس وقت ضروری تھا۔
حاشر اپنا منہ بند رکھ۔ بیٹا تم مر حا کا بتاؤ وہ کہاں ہے کیسی ہے۔
ماجد نے حاشر کو آنکھیں دیکھا کر ریان سے پوچھا۔
ریان کے دماغ میں آصف صاحب کے الفاظ گونجے۔
کچھ بھی ہو جائے حویلی واپس نہ جائے "
ریان کو دل سے آواز آئی یہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں۔
بولو بیٹا مر حاکیسی ہے کہاں ہے وہ۔
اماں صاحب نے پوچھا۔
ہاں وہ مر حاوہ اسکی حالت تشویشناک ہے اس کی جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں ڈاکٹر نے کہا ہے اس کے
پاس کچھ گھنٹے ہیں بس۔
ریان نے جیسے تیسے بہانہ بنایا تھا۔
ریان نے مرحا کو ان لوگوں سے دور رکھنا تھا۔
اچھا اچھا۔۔ خیر وہ ہمارے اب کسی کام کی نہیں ہے جب وہ بھی مر جائے تو تینوں کو دفنا دینا۔
اماں صاحب نے بے مروتی سے کہا تو ریان بس انہیں دیکھ کر رہ گیا۔ کیا یہ سچ میں آصف صاحب کی ماں
تھیں۔ نہیں یہ ماں ہو ہی نہیں سکتیں مائیں ایسی تو نہیں ہوتیں۔
ریان کے دل نے گواہی دی۔
جیسی آپ لوگوں کی مرضی آپوگ ان کے گھر والے تھے آپ لوگوں کو بتانا ضروری تھا۔ اب جیسا آپ کو ٹھیک لگے۔
ریان کہہ کر رکا نہیں وہاں سے نکل گیا۔
اپنی گاڑی کے پاس پہنچا تو یا سر تیزی سے اس کی طرف آیا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں وہ ساری بات سن چکا تھا۔
صاحب یہاں بڑے صاحب کے اپنے ہوتے ہوئے بھی اپنے نہیں ہیں۔ ان کے صرف ایک اپنے ہیں ساحر لالا وہ پتہ نہیں کہاں ہیں ان سے رابطہ نہیں ہو پارہا۔
ٹھیک ہے تم یہ میرا نمبر رکھو تمھارے ساحر لالا آجائیں تو ان کو کہنا مجھ سے بات کر لیں۔
ریان نے اپنا نمبر یا سر کو دیا اور واپس چلا گیا۔
شایان کو ریان نے ہسپتال بلا لیا تھا تا کہ وہ احتشام صاحب کے ساتھ موجود رہے۔
مرحا کو اب تک ہوش نہیں آیا تھا۔ اس کی طرف سے احتشام صاحب بہت پریشان تھے۔ وہ معصوم سے بچی اس وقت جس تکلیف میں تھی اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔
شایان احتشام صاحب کے کھانے پینے کے لیے کچھ لینے گیا تھا۔ اسے اندازہ تھا انہوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ایسے میں انکی طبیعت خراب ہو سکتی تھی۔
شایان کینٹین سے سینڈوچ اور جوس لیا۔ وہ واپس مڑا ہی تھا کہ پیچھے کھڑی لڑکی سے ٹکرایا اور جوس اس لڑکی کے کپڑوں پہ جا گرا۔
شایان سٹپٹا یا اسے اندازہ نہیں تھا اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔
یہ یہ کیا کر اتم نے میرے سارے کپڑے خراب کر دیے آنکھیں ہیں بٹن ہیں دیکھتا نہیں ہے کیا۔ سامنے کھڑی لڑکی نے اسے سنایا۔
بلیک جینس پہ لائٹ پر پل ٹاپ پہنے شولڈرز سے تھوڑے نیچے آتے بالوں کو کھولے ہائی ہیلز پہنے گوری رنگت والی لڑکی انگریز لگتی تھی۔
ایم ریلی سوری مجھے پتہ نہیں تھا آپ پیچھے کھڑی ہیں۔ غلطی سے ہو گیا یہ ۔
واؤ غلطی سے ہو گیا۔ دماغ کہاں تھا جو پتہ ہی نہیں لگا پیچھے کوئی کھڑا ہے۔
اگر ان آنکھوں کا استعمال نہیں کر سکتے تو کسی ضرورت مند کو ڈونیٹ کر دو۔ ساری ڈریس خراب کر دی میری۔ ایڈیٹ۔ ہنہہ۔
او ہیلو میڈم زرا تمیز سے آپ بد تمیزی کر رہی ہیں میں نے جان کر آپ کے اوپر جوس نہیں نہیں گرایا ہے جو آپ اتنا شار مچارہی ہیں۔
اس لڑکی کے سنانے پر بھی شایان نے بہت تمیز سے اسے کہا۔
اپنی کیا کر رہی ہو یار اٹس اوکے وہ سوری بول رہا ہے نہ چپ ہو جاؤ۔
ابھی وہ کچھ اور کہتی کہ اس کی دوست نے آکر اسے چپ کروایا اور ایکسکیوز کر کے وہاں سے لے گئی۔
شایان سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔
کیا ہے منیشا کیوں رو کا مجھے دماغ ٹھیک کرتی میں اسکا۔
اپنی نے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
اور و پاگل پتہ بھی ہے وہ کون ہے۔ سید شایان حیدر۔ ہماری ہی یونی میں پڑھتا ہے تمھیں اندازہ بھی ہے نا جانے کتنی ہی لڑکیاں مرتی ہیں اس پہ اور اس کے کزن پہ۔
اس پہ مرتی ہیں اس میں ایسا ہے ہی کیا جو لڑکیاں مرتی ہیں نہ جان ہے نہ جہان ہے۔
اپنی کہ کہنے پہ منیشا نے صدمے سے اسے دیکھا جو اتنے ہینڈ سم لڑکے کو ایسے بول رہی تھی۔
تم تو رہنے ہی دو ہر ایک کو جوتے کی نوک پر جو رکتی ہو تمہیں کہاں پسند آئے گا کوئی۔
منیشا نے کہا تو اپنی کے کب مسکرائے تھے۔
اب مسکراؤ نہیں چلو ہسپتال میں بھی سین کرینٹ کر دیا لے کر۔
منیشا اپنی کو لے کر باہر کی طرف چلی گئی۔
با با کچھ کھالیں آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔
شایان نے احتشام صاحب کو سینڈوچ پکڑایا۔
ڈاکٹر ان کی طرف آیا تو وہ لوگ کھڑے ہو گئے ۔
دیکھیں سر ڈیڈ باڈیز کا انتظام جلد سے جلد کر لیں زیادہ ٹائم تک ہم ہسپتال میں نہیں رکھ سکتے۔
ڈاکٹر کی بات سمجھ کر احتشام صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی۔
ڈاکٹر میر ابیٹا گیا ہوا ہے ان کی فیملی میں سے جلد ہی کوئی نہ کوئی آجائے گا۔ احتشام صاحب کے کہنے پہ ڈاکٹر چلے گئے تھے۔
بابا آپ یہ کھائیں میں بھائی سے پوچھتا ہوں کب تک آئیں گے۔
شایان نے ریان کا نمبر ملایا جو پہلی ہی بیل پر اٹھا لیا گیا۔
ہاں شایان بولو۔
بھائی ڈاکٹر کہہ رہے ہیں ڈیڈ باڈیز زیادہ ٹائم نہیں رکھ سکتے آپ کی ملاقات ہوئی ان کے گھر والوں سے۔
شایان نے ریان کو بتایا۔
ہاں میں مل لیا ہوں ان لوگوں سے اور افسوس ہی ہو رہا ہے کیوں گیا تھا میں خیر میں بس تھوڑی دیر میں
پہنچ رہا ہوں پھر بات کرتا ہوں۔
ریان نے کہہ کر کال کاٹ دی۔
بابا بھائی راستے میں ہی ہیں آرہے ہیں۔ شایان نے احتشام صاحب کو بتایا۔
ریان واپسی پہنچنے والا تھا کہ ایک انجان نمبر سے کال آنے لگی۔ کچھ سوچ کر ریان نے کال اٹھائی۔
ہیلو صاحب میں یا سر بول رہا ہوں حویلی میں آپ نے مجھے نمبر دیا تھا نہ۔
یا سر نے یاد دلایا۔
ہاں بولو کیا ہو ا ساحر لالا آگئے تمھارے۔
ریان نے پوچھا۔
نہیں صاحب مجھے آپ کو یہ بتانا تھا کہ اماں صاحب نے اپنے دونوں پوتوں ساحل اور حاشر کو بھیجا ہے
آپ کے پیچھے ہسپتال۔ انہیں مرحابی بی کے معاملے میں شک ہے۔ صاحب جی کچھ بھی ہو جائے آپ ان لوگوں کو مرحابی بی کی لاش بھی نہیں دیجئے گا۔ یہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں کچھ بھی غلط کر سکتے ہیں۔
یاسر کی بات سن کر ریان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
تم پریشان نہیں ہو یا سر میں سب سنبھال لوں گا۔
ریان نے یاسر کو تسلی دی۔ جبکہ غصے سے اسکی رگیں تئی تھیں۔ یہ لوگ اتنے گھٹیا تھے اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔
نہیں وہ مر حاتک ان لوگوں کو نہیں پہنچنے دے گا وہ مرحا کی حفاظت کرے گا اپنی آخری سانس تک وہ مرحا پہ ایک آنچ بھی نہیں آنے دے گا۔
ریان نے خود سے عہد کیا۔
بابا آپ پتہ تو کریں کب تک آئیں یہ لوگ واپس۔ رات بھی گھر نہیں آئے پتہ نہیں وہاں سب ٹھیک ہے بھی یا نہیں۔
سمینہ بیگم نے ذوالفقار صاحب کو چائے کا کاپ تھماتے ہوئے کہا۔
بیٹا تم پریشان نہ ہو میری بات ہوئی ہے کچھ دیر پہلے احتشام سے ابھی اس بچی کو ہوش نہیں آیا ہے اور اس کے والدین کے جنازے وغیرہ کا بھی انتظام کرنا ہے۔ ریان چاہتا ہے کہ وہ بچی ایک آخری دیدار کرلے اپنے ماں باپ کا لیکن اگر آج بھی اسے ہوش نہیں آیا تو پھر مجبوراً کل صبح انہیں دفنانا پڑے گا۔
ذوالفقار صاحب نے تفصیل بتائی تو سمینہ بیگم افسردہ ہو گئیں۔
بے چاری بچی مجھے تو بہت افسوس ہو رہا ہے بابا ابھی عمر ہی کیا ہے اس کی اور اتنا بڑا غم مل گیا بے چاری بچی کو۔
انہوں نے افسوس سے کہا۔
ہاں بھئی چھوٹی عمر میں ماں باپ کی جدائی کا غم بہت بڑا ہے ہم اس بچی کی تکلیف کا اندازہ بھی کہاں کر سکتے ہیں بس دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے جلدی صحت یاب کرے اور اسے صبر دے۔
ذو الفقار صاحب کی دعا پر سمینہ بیگم نے دل سے آمین کہا تھا۔
حاشر اور ساحل ہسپتال کا ایک ایک کمرہ تلاش کر رہے تھے۔ انہیں شک تھا کہ مرحا کے بارے میں ریان نے ان سے جھوٹ بولا ہے۔
ایکسکیوز می۔ میں کافی دیر سے آپ لوگوں کو دیکھ رہا ہوں آپ کسی پیشنٹ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
ایک ڈاکٹر نے ان کے قریب رک کر پوچھا۔
ہاں کل صبح ایک ایکسیڈنٹ کا کیس آیا تھا نہ ہم انہیں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
ساحل نے کہا۔
کل صبح ایک کار ایکسیڈنٹ کا کیس آیا تھا جس میں ایک آدمی ایک عورت اور ایک لڑکی تھی کیا آپ اس
کا پوچھ رہے ہیں ؟
ڈاکٹر نے تصدیق چاہی۔
جی جی ہم اس کا پوچھ رہے ہیں۔ آپ بتائیں گے وہ کہاں ہیں۔
حاشر نے فوراً ہامی بھری۔
آپ لوگ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو کنفرم کر کے بتاتا ہوں۔
ڈاکٹر ان دونوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔
ریسیپشن پہ جاکے ڈاکٹر نے ڈیٹیلز چیک کی۔
کل کے ایکسیڈنٹ میں تینوں لوگ فوت ہو گئے ہیں۔ ان کی شناخت آصف اور لیس خان رمشاء آصف
خان اور مرحا آوف خان کے نام سے ہوئی ہے۔ کیا یہی لوگ تھے ؟
ڈاکٹر نے ایک بار پھر تصدیق چاہی۔
جی یہی لوگ تھے کیا یہ تینوں ہی نہیں بچے۔؟
ساحل نے پوچھا
نہیں سرایم ریلی سوری بٹ تینوں کی ہی ڈیتھ ہو چکی ہے اور اگر آپ ان کے رشتہ داروں میں سے ہیں تب بھی آپ نے آنے میں دیر کر دی ابھی کچھ دیر پہلے ہی ان کی تدفین کروادی گئی ہے۔
ڈاکٹر کے کہنے پہ ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
کس قبرستان میں یہ ہی بتا دیں۔
حاشر نے پوچھا۔
سوری سر ہسپتال کے باہر کے معاملات میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے لیکن جو ایکسیڈنٹ کے ٹائم انہیں
لائے تھے یہ سب معاملات انہوں نے ہی دیکھے ہیں۔
اچھا ٹھیک شکریہ۔
ڈاکٹر کے کہنے پہ دونوں ہسپتال سے باہر نکل آئے۔
حاشر نے اماں صاحب کو کال ملائی ۔
اماں مر گئے تینوں تدفین ہو گئی ہے تینوں کی جان چھٹ گئی ہماری سب سے۔
حاشر نے خوشی سے بتایا۔
ہم بس آرہے ہیں واپس جشن کی تیاریاں کرو اب سب کچھ ہمارا ہے۔
حاشر نے کہہ کر کال کاٹ دی۔
دونوں واپس گاؤں کے لیے نکل گئے۔
مسٹر ریان آپ باہر آجائیں وہ لوگ جاچکے ہیں۔
ڈاکٹر نے اسٹوریج روم کا دروازے کھول کر کہا۔
مرحا کے بے جان وجود کو اپنی باہوں میں اٹھائے ریان نے اسے خود میں چھپایا ہوا تھا۔
ڈاکٹر کے کہنے پر ریان ایمان کو واپس اس کے روم میں لایا اور بہت احتیاط سے اسے بستر پہ لٹایا جیسے وہ کوئی کانچ کی گڑیا ہو اور ہلکی سی بے احتیاطی سے ٹوٹ جائے گی۔
شایان اور احتشام صاحب نے ریان کو کبھی کسی لڑکی کی اتنی فکر کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ایمان کے علاوہ اس نے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی تھی۔ مرحا پہلی لڑکی تھی جو ریان کے تنے پاس تھی اور نہ وہ تو ہمیشہ لڑکیوں کو خود سے سو آنچ کے فاصلے پر رکھتا تھا۔
تھینک یو سونچ ڈاکٹر آج آپ کی مدد کے بناسب گبر ہو سکتا تھا۔
ریان نے ڈاکٹر سے کہا۔
اٹس مائی پلیجر مسٹر ریان یہاں کسی کی زندگی کا سوال تھا مجھے آپ کی مدد کرنی ہی تھی۔
ڈاکٹر نے سرخم کر کے کہا۔
(کچھ گھنٹے پہلے)
ریان تیزی سے مرحا کے روم کی طرف آیا تھا جہاں احتشام صاحب اور شایان پہلے سے موجود تھے۔ کیا ہو اریان بیٹا سب خیریت ہے نہ۔
احتشام صاحب نے فکر مندی سے پوچھا۔
بابا وہ لوگ مرحا کے خاندان والے بالکل اچھے نہیں ہیں انہیں کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ میں نے ان سے جھوٹ بولا ہے کہ مرحا کی حالت بھی تشویشناک ہے اسے کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ اس کے لیے بہت غلط باتیں سوچ رہے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے ان کو شک ہو گیا ہے میں نے جھوٹ بولا ہے وہ لوگ مرحا کو دیکھنے پیچھے آرہے ہیں۔
مرحا کو غائب کرنا ہو گا وہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں بابا اس کی زندگی برباد کر دیں گے۔
ریان نے احتشام صاحب کو بتایا تو وہ بھی پریشان ہوئے۔ روم میں موجود ڈاکٹر ساری بات سن رہا تھا۔ مسٹر ریان میں مدد کرتا ہوں آپ کی آپ ان کو لے کر اسٹوریج روم میں چھپ جائیں باقی میں سنبھال لوں گا اور آپ دونوں بھی کہیں آگے پیچھے ہو جائے گا۔
ڈاکٹر کے کہنے پر ریان نے ایک لمحے کی بھی دیر کیسے بنا مر حا کو اٹھایا اور اسٹوریج روم میں چھپ گیا۔ ساحل اور حاشر کے آنے پہ ڈاکٹر نے بہت عقلمندی کے ساتھ سارے معاملے کو ہینڈل کر لیا تھا۔ )
مسٹر ریان آپ لوگ میری بات مانے تو اب ڈیڈ باڈیز کو دفنانے کی تیاری کریں اتنے ٹائم میت کو روکے رکھنا انہیں تکلیف دینے کے برابر ہے۔ بس آج کا دن اور دیکھیں ورنہ کل صبح ہی آپ انکی تدفین کروا دیں۔
ڈاکٹر کے کہنے پہ ریان نے حامی بھری تھی۔
کاش مرحا اٹھ جائے تو وہ اس کو انکا آخری دیدار کروادے۔
ریان نے دل سے دعا کی تھی کہ مرحا کو ہوش ہو جائے ورنہ وہ ساری لائف اس تکلیف میں رہے گی کہ اس نے اپنے ماں باپ کو آخری بار دیکھا تک نہیں۔
صبح سے شام اور شام سے رات ہو گئی تھی مگر مر حا کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔ بسکچھ گھنٹے اور اس کے اٹھنے کا انتظار کر جا سکتا تھا ور نہ صبح تو لازمی تدفین کرتی تھی۔
جب سے یہ حادثہ ہوا تھا ریان نے کچھ کھایا تک نہیں تھا ایسے میں شایان اور احتشام صاحب کو اس کی فکر ہونے لگی تھی۔
بھائی آپ پلیز کچھ کھا لیں ایسے تو آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔
شایان نے سمجھایا تو ریان نے نفی کری۔
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے تم پریشان نہیں ہو میں ٹھیک ہوں۔ بس ایک بار مرحا کو ہوش آ جائے تو میں بھی سکون میں آجاؤں گا۔
ریان نے اپنا سر دیوار سے لگایا۔
میں نے تمھیں کبھی ایسے پریشان نہیں دیکھا بیٹا ایمان کے علاوہ ایسی فکر پہلے کبھی کسی کی نہیں کی تم نے۔
احتشام صاحب ریان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولے۔
بابا اس کے بابا نے آخری وقت میں مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں مرحا کی حفاظت کروں۔ آپ ہی بتائیں کیا مجھے اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔ وہ اس وقت کسی اذیت میں تو اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کاش مرحا میں اس کے لیے اس وقت کچھ کر پاتا مگر میں اسے تنہا بھی نہیں چھوڑوں گا اس کی حفاظت میری ذمہ داری ہے میں اسے دنیا کی ٹھوکروں کے لیے نہیں چھوڑوں گا بابا۔
سید ریان حیدر آج خود سے عہد کرتا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے مرحا خود کو زندگی کی دھوپ چھاؤں میں کبھی ایکلا نہیں پائے گی۔ پھر چاہے اس کی حفاظت کے لیے مجھے اپنی جان بھی کیوں نہ گوانی پڑ
جائے۔ سید ریان حید ر اپنی جان کی بازی لگا دیگا۔
ریان کی باتوں میں ایک عجیب سا جنون تھا ایک استحاق تھا۔
مگر آنے والا وقت ان کی زندگی میں کیا کیا نئے امتحان لانے والا تھا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ ایمان بستر پہ لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی۔ آج نیند تو جیسے کوسوں دور تھی۔ تھک ہار کے ایمان اٹھ کر بیٹھ گئی۔
کیا کروں اس ٹائم تو سب سو رہے ہو نگے دیکھتی ہوں کیا پتہ شاہ میر بھائی جاگ رہے ہوں۔
ایمان سوچتے ہوئے کمرے سے باہر نکلی۔ گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ چل کر وہ شاہ میر کے روم میں آئی تو اس کا روم خالی تھا۔
ارے ہاں بھائی تو آج ساحر کے پاس ہونگے۔
ایمان نیچے ساحر والے روم کی طرف آئی تو شاہ میر وہاں بھی نہیں تھا۔
یہ کہاں چلے گئے اتنی رات کو پتہ نہیں میرے تینوں بھائی کیا خفیہ کام کرتے ہیں جو آدھی آدھی رات کو بھی گھر سے غائب ہو جاتے ہیں۔
ایمان نے دل میں سوچا۔
💖💖💖
0 Comments
Post a Comment