تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 08
از۔ طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
❤️❤️❤️
واپس جانے کے لیے مڑنے لگی تو نظر ساحر پہ گئی۔
اس کے سر پہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ایک ہاتھ بھی فریکچر تھا۔ ایمان ساحر کو دیکھ کر ہمیشہ تکلیف میں مبتلا ہو جاتی۔
ساحر کے پاس رکھی چیز پہ بیٹھ کر ایمان نے ساحر کو دیکھا۔
آپ کب اٹھیں گے مجھے آپ کو اس طرح دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ آپ تو میری ہی مدد کے لیے آئے تھے مگر آپ کے ساتھ کیا ہو گیا۔ آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں نہ اب اٹھ بھی جائیں دل نہیں بھرا آپ کا ریسٹ کر کر کے۔
زیادہ لیٹنا بھی صحت کے لیے اچھا نہیں ہو تا آپ کو بتا یا نہیں کیا کسی نے۔
ایمان کے لہجے میں معصومیت ہی معصومیت تھی۔
بولتے بولتے اس کی نظر ساحر کے ہاتھ پہ پڑی۔
ساحر اس کی بات سن رہا تھا اس کے ہاتھ میں حرکت ہوئی تھی۔
آپ مجھے سن رہے ہیں ؟ ایمان نے پوچھا مگر سب حرکت رک چکی تھی۔ ایمان کو مایوسی ہوئی۔
اگر آپ مجھے سن رہے ہیں تو پلیز میری بات مان لیں نہ اٹھ جائیں نہ ٹھیک ہو جائیں میرے بھائی بہت
گلٹ میں ہیں۔ آپ ٹھیک ہو جائیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایمان نے کہہ کر اس کا ہاتھ دیکھا مگر اب بھی حرکت نہیں ہوئی۔
ایمان مایوسی سے اٹھ کر واپس جانے لگی۔ ایک آخری نظر پلٹ کر اس نے ساحر کو دیکھا پھر واپس چلی گئی۔
ایمان کے جانے کے بعد ساحر نے اپنے ہاتھوں کو دوبارہ حرکت دی۔ وہ سن رہا تھا اس کا دماغ ہوش میں
آگیا تھا مگر آنکھیں کھلنے سے انکاری تھیں نہ باڈی صحیح سے ہل سکتی تھی۔
اس نے ایمان کو اپنے قریب محسوس کیا تھا۔ اس کی باتیں سنی تھیں۔ وہ معصوم لڑکی اسے کھینچ رہی تھی اس دنیا میں واپس کھینچ رہی تھی اور اس نے بھی تو آنا ہی تھا اپنی ایمان کی خاطر اپنی محبت کی خاطر رات کا آخری پہر تھا۔ ریان کی تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی جب اسے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ ریان فوراً جاگا تھا۔
اس نے مرحا کو دیکھا جو سوتے میں سبک رہی تھی۔
مرحا اٹھو پلیز آنکھوں کھولو۔
ریان نے اسے پکارا۔
با با ماما ! بند آنکھوں سے اس کے منہ سے بس یہی الفاظ نکلے تھے وہ بھی ریان بمشکل سن پایا تھا۔
مرحا بچہ اٹھو پلیز ایک بار اپنے ماما بابا کو دیکھ لو۔
ریان نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیر اتو اس نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔
مرحا کو ہوش میں دیکھ کہ ریان نے شکر ادا کیا تھا۔
ماما بابا ! مرحا کے منہ سے ایک بار پھر وہی الفاظ نکلے تھے۔
مرحا میری بات غور سے سنو۔ دیکھو ہم اس دنیا میں آئے ہی جانے کے لیے ہیں نہ۔ جو بھی یہاں آتا ہے اسے واپس تو جانا ہوتا ہے مگر سب کا ایک الگ الگ وقت ہے۔ تمھارے ماما بابا کو وقت وہی تھا تو وہ چلے گئے۔ اور تمھارے ماما بابا اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہونگے کیونکہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو جلدی
اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ تم مجھے بتاؤ کیا تمھارے پیر نٹس نے تمھیں کبھی رونے دیا ہے ؟
ریان کے پوچھنے پر اس نے نم آنکھوں کے ساتھ نہ میں گردن ہلائی۔
تو پھر تم خود بتاؤ کیا تمھیں اس طرح دیکھ کر انہیں خوشی ہو گی اس آخری سفر میں تم انہیں ایسے تکلیف دو گی۔ کیا انہیں اچھا لگ رہا ہو گا تمھیں اس طرح اپنا حال خراب کرتے دیکھ۔ تم ان کے لیے دعا کرو
ان کو پڑھ کے بخشو ا بھی انہیں اس چیز کی ضرورت ہے۔
ریان کی باتوں نے مرحا کی سسکیاں تو روک دی تھیں مگر اس کے بہتے آنسو نہیں رکے تھے۔
کہاں ہیں وہ لوگ۔
مر جانے ہمت کر کے پوچھا۔
صبح انکی تدفین کرنی ہے ابھی سرد خانے میں ہی ہیں۔
ریان نے بتایا تو وہ اٹھ کے بیٹھ گئی۔
مجھے ان کے پاس جانا ہے یہ آخری وقت ان کے ساتھ گزارنا ہے۔
مرحا کے کہنے پر ریان نے ہاں میں گردن ہلائی۔
پہلے وعدہ کرو مر حا خود کو سنبھالو گی انہیں تکلیف نہیں دو گی۔
ریان نے مرحا سے وعدہ لیا۔
میں بس ان کے پاس بیٹھوں گی مجھے یہ لمحہ دوبارہ کبھی نصیب نہیں ہو گا۔
ریان مرحا کو لے کر سرد خانے میں آیا۔
مر جانے خود کو بہت مشکل سے کنٹرول کیا ہوا تھا۔ آنکھوں سے آنسوں مسلسل بہہ رہے تھے۔
ان کے پاس پہنچ کر ریان نے ان کے چہروں پر سے کپڑا اٹھایا تو مر جانے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیاں رو کی تھیں۔
یہ وقت کتنی اذیت بھر اتھا مر جاہی سمجھ سکتی تھی۔
مرحا اپنے بابا کے سرہانے کھڑی نم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
بابا آپ کے بنا تو میں کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی آپ نے مجھے اس دنیا میں کیوں تنہا کر دیا میں کیسے فیس کروں گی اس دنیا کو۔ آپ کہتے تھے نہ یہ دنیا بہت ظالم ہے اب مجھے اس دنیا کے ظلم سے کون بچائے گا۔
میرے پاس آپ دونوں کے سوا تھا ہی کون میں تو بے سہارا ہو گئی بابا۔ مگر میں اچھی بیٹی بنوں گی آپ کی مجھ سے جڑی ہر خواہش پوری کروں گی میں رو کر آپ کو ہرٹ نہیں کروں گی آپ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ٹرپ جاتے تھے نہ میں آپ کو نہیں ٹر پاؤں گی بابا میں نہیں ٹر پاؤں گی۔
کہتے کہتے مرحا ایک بار پھر ٹرپ ٹرپ کے رونے لگی تھی۔ ریان نے اسے اس وقت اکیلا چھوڑا تھا تا کہ وہ اپنا دل ہلکا کر سکے لیکن مرحا کے آنسو اسے اپنے دل پہ گرتے محسوس ہوئے۔ اس کے الفاظوں کی ٹرپ وہ محسوس کر سکتا تھا۔
ماما ایم سوری میں نے آپ کو بہت تنگ کیا ہے نہ بابا کے ساتھ مل کر ۔ آپ دنیا کی بیسٹ ماما ہو میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں ماما آپ کی تربیت پہ کبھی انگلی نہیں اٹھنے دوں گی بڑی ہو جاؤں گی بہادر بنوں گی کسی
سے نہیں ڈروں گی۔ آپ اور بابا مجھے جیسا دیکھنا چاہتے تھے ویسی بن جاؤں گی۔
اور پھر الفاظ دبی دبی سسکیوں میں بدل گئے تھے۔ نہ جانے کتنی دیر وہ بیٹھی روتی رہی مگر ریان نے اسے نہیں روکا تھا ابھی اس کا رونا ہی اس کے لیے ٹھیک تھا۔ ریان دور کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا تھا جو دیکھنے میں ہی بہت تکلیف دہ تھے۔
کتنی ہی دیر مرحا اپنے ماں باپ سے باتیں کرتی رہی ریان نے اسے بالکل نہیں روکا تھا مگر اب صبح کا وقت ہو چکا تھا ان کے دفنانے کی تیاری کرنی تھی شایان اور احتشام صاحب تیاری کر چکے تھے شاہ میر کو بھی ریان نے بلوالیا تھا۔
ریان مرحا کے پاس آیا۔
مرحا انہیں لے جانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔
ریان کے کہنے پہ مر جانے ریان کو دیکھ کر نہ میں گردن ہلائی۔
تو ریان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں لیا۔ مر حا کا نازک سا ہاتھ ریان کے مضبوط ہاتھوں میں چھپ سا گیا۔
مرحا انہیں تکلیف ہو گی اب بس اور وقت نھیں سنبھالو خود کو میں ہوں تمھارے ساتھ۔
آپ ؟؟ مر جانے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
ہاں میں ہوں تمھارے ساتھ تمھارے بابا سے وعدہ کیا ہے میں نے تمھارا خیال رکھوں گا حفاظت کروں گا۔
ریان کی باتوں پہ مر حا حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی۔
ریان کی باتوں نے مرحا کو الجھایا تھا۔
بابا سے وعدہ کیا ہے ؟ آپ ملے تھے میرے بابا سے ؟ کب ملے آپ کیا بول رہے تھے میرے بابا۔
مر جانے ریان سے پوچھا۔
ریان نے مرحا کے لبوں پر انگلی رکھی۔ ابھی نہیں بعد میں کریں گے یہ باتیں ابھی جو کام ضروری ہے وہ کریں گے او کے۔
ریان کے کہنے پہ مر حا خاموش ہو گئی۔
ریان مرحا کو باہر لایا تو وہاں احتشام صاحب شایان شاہ میر کے ساتھ موجود تھے۔
مرحا کو دیکھ کر احتشام صاحب آگے آئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
بیٹا تمھارا دکھ بہت بڑا ہے ہم سمجھتے ہیں ماں باپ کو کھو دینا انسان جو توڑ دیتا ہے مگر تم پریشان نہیں ہو ہم سب ہیں تمھارے ساتھ۔
احتشام صاحب نے شفقت سے کہا۔ مرحا نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا پھر نظریں جھکا لیں۔
دوسری طرف شاہ میر مرحا کو اس حال میں دیکھ کر شو کڈ تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ لڑکی مرحا ہو سکتی ہے۔
مرحا کی نظر اب تک شاہ میر پہ نہیں پڑی تھی جبکہ شاہ میر تو نظریں ہٹانا ہی بھول گیا تھا۔
کیا ہوا ایسے کیوں گھور رہا اس کو بھائی نے دیکھا نہ تو کلاس ہو جائے گی۔
شایان نے شاہ میر کے کان میں سرگوشی کی۔
شایان اس لڑکی کے پیرینٹس کی ڈیتھ ہوئی ہے ؟ شاہ میر نے تصدیق چاہی
ہاں بیچاری ابھی عمر ہی کیا ہے ایمان کے ساتھ کی لگتی ہے مجھے تو۔ شایان نے کہا۔
لگتی نہیں ہے وہ ہے ایمان کے ساتھ کی ایمان کی دوست ہے مرحا جسے وہ بے بی ڈول بول رہی تھی ایمان کی نیو کالج فرینڈ۔
شاہ میر کے کہنے پر شایان جو جھٹکا لگا تھا۔ ریان بھی اس کی بات سن چکا تھا۔
کیا تم شیور ہو یہ ایمان کی دوست ہے۔
ریان نے شاہ میر سے پوچھا۔
جی بھائی میں ملا ہوں اس سے ایمان نے ملوایا تھا یہ وہی لڑکی ہے۔
شاہ میر نے مر حاجو کو دیکھ کہ جواب دیا جو بے خیالی میں بینچ پہ بیٹھی تھی۔
دو دن میں کیا سے کیا ہو گئی تھی وہ کہاں وہ لڑکی جس سے ٹکراکر شاہ میر کے دل کی دینا بدلی تھی۔
کہاں یہ گم سم چہرہ سوجی آنکھیں الجھے بال۔ مرحا کو اس حال میں دیکھ کر شاہ میر کا دل دکھا تھا اس کی
آنکھوں سے گرتے آنسو شاہ میر کا دل چیر رہے تھے۔
آج اس کی محبت اتنی تکلیف میں تھی اور اسے خبر تک نہ ہوئی۔ شاہ میر کا دل چاہا کہ جا کر اس سے بات کرے مگر اس وقت وہ اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اسے چھوڑ کر باقی انتظام دیکھنے لگا۔ آخر کار تدفین کر دی گئی۔ مرحا کے ماں باپ ہمیشہ کے لیے اس کی آنکھوں سے دور ہو گئے۔ وہ دور کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ آج اسکا دل خالی ہو چکا تھا نہ کوئی خواہش بچی تھی نہ کوئی آرزو بس ویرانی تھی۔
اس نے دور کھڑے ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ان کے لیے دعا کی۔ دعا کے بعد اس نے ریان کی طرف دیکھا جو اس وقت اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑ ا تھا۔ شاہ میر کو دیکھ کر اسے ڈاوٹ ہوا تھا جیسے وہ پہلے ملی ہو اس سے مگر اس وقت وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی کیفیت میں نہیں تھی۔
اس مشکل وقت میں اگر ریان اس کے ساتھ نہ ہوتا تو وہ کیسے کرتی سب کچھ ریان کا ساتھ اس وقت اس کے لیے کسی کرامت سے کم نہیں تھا۔
مر جانے ریان کو دیکھ کر سوچا۔
ریان سب کے ساتھ مرحا کے پاس آیا تو وہ گم سم کھڑی تھی۔
مر جابیٹے آپ ہمارے ساتھ چلو ہمارے گھر ۔
احتشام صاحب نے مرحا کے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ چونکی۔
نہیں انکل آپ لوگوں نے جو میرے لیے کیا ہے وہ کوئی کسی کے لیے نہیں کرتا۔ اس مشکل وقت میں آپ لوگوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے اگر آپ لوگ نہیں ہوتے تو پتہ نہیں میں سب کچھ کیسے سمبھالتی۔
آپ کا بھی بہت شکریہ آپ اس مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے۔
مرحا نے احتشام صاحب کے بعد ریان کو مخاطب کیا۔
اس میں شکریہ کی بات نہیں ہے پر بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں تم ابھی گھر چلو ہمارے ساتھ اور پریشان نہیں ہو وہاں میری ماما اور میری بہن ہے۔ تم بنا جھجھک چل سکتی ہو۔
ریان نے اسے سمجھایا تو احتشام صاحب نے بھی ہامی بھری۔
ٹھیک ہے پر کیا آپ پہلے مجھے میرے گھر لے کے جاسکتے ہیں۔ مجھے پہلے اپنے گھر جانا ہے۔
مرحا کے کہنے پر ریان نے ہامی بھری۔
ٹھیک ہے بابا آپ لوگ گھر جائیں میں مرحا کو اس کے گھر لے جارہا ہوں پھر ہم لوگ گھر پہ ملتے ہیں۔ ماما اور دادا جان کو بھی سب بتا دیے گا۔
ریان کہہ کر مر حا کو لے کر چلا گیا۔ باقی سب گھر کے لیے نکل گئے۔ شاہ میر کو اس نے پہچانا ہی نہیں تھا نہ شاہ میر نے اسے مخاطب کیا تھا۔ لیکن اس بات نے شاہ میر کا دل دکھایا تھا۔ وہ تو اس کے چہرے کو دن رات اپنی آنکھوں میں بسایا ہوا تھا لیکن مرحا تو اسے بھول چکی تھی۔ مگر شاہ میر کو اس سے کوئی شکایت نہیں تھی مرحا اس وقت جس کنڈیشن میں تھی وہ نا قابل بیان تھی۔
احتشام صاحب شایان شاہ میر کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے تو سب لوگ ان کے انتظار میں تھے۔
بابا جان آپ لوگ آگئے کہاں تھے آپ دو دن سے گھر بھی نہیں آئے بھیو بھی گھر نہیں آرہے تھے۔ بھیو کہاں ہیں وہ ابھی بھی نہیں آئے۔
ایمان احتشام صاحب کے گلے لگتے ہوئے بولی
ارے میر ابچہ ہمیں اتنا یاد کر رہا تھا۔
احتشام صاحب نے کہا تو ایمان نے انہیں معصومیت سے دیکھ کر گردن ہلائی
احتشام صاحب نے ایمان کے سر پہ بوسا دیا۔
بابا بھیو کہاں ہیں کب آئیں گے وہ۔
ایمان نے سوال کیا۔
بیٹا وہ آجائے گا تھوڑی دیر میں ایک مہمان کو لے کر۔
احتشام صاحب کے کہنے پر سب لوگ انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
وہ بچی ابھی ٹھیک نہیں ہے کوئی ہے بھی نہیں اس کا یہاں اس لیے فی الحال وہ ہمارے ساتھ رہے گی۔
احتشام صاحب نے بتایا۔
یہ تم لوگوں نے اچھا کیا سمینہ بیٹا اس کے لیے کمرہ تیار کر وادو۔
ذو الفقار صاحب کے کہنے پر سمینہ بیگم نے جلدی سے مرحا کے لیے کمرہ تیار کرنے کا بولا۔
ایمان اب تک کنفیوز تھی اسے اس سارے معاملے کا پتہ نہیں تھا۔
بھائی کون آرہا ہے کس کی بات ہو رہی ہے کیا ہوا ہے ؟
اپنی دوست کو سنبھال لینا گڑیا اسے تمھاری بہت ضرورت ہے۔ شاہ میر اتنا کہہ کر کمرے میں چلا گیا۔
کیا مطلب ہے اس بات کا بابا کیا ہوا پلیز مجھے بتائیں۔
ایمان نے تجس سے پوچھا۔
احتشام صاحب نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
ایمان پریشانی سے سب سنتی رہی۔
پر بابا بھائی کہہ کے گئے اپنی دوست کو سنبھال لینا کیا مطلب کو نسی دوست کو۔
ایمان نے سوال کیا۔
وہ لڑکی کوئی اور نہیں مرحا ہے ایمان تمھاری دوست جسے تم دو دن کا نٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔
شایان کے کہنے پہ ایمان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
اس کی دوست کتنی مشکل میں تھی کیا قیامت ٹوٹی تھی اس پہ۔
ایمان میر ابچہ آپ ایسے روگی تو مر حاکو کون سنبھالے گا اسے تمھاری ضرورت ہے اس کا کوئی اپنا نہیں ہے مگر دوستی کارشتہ بہت خاص ہو تا دوستی انسان کو ہر غم سے دور لے آتی ہے۔ اچھی اچھی دوائیاں وہ کام نہیں کر سکتیں جو دوستی کر دیتی ہے۔ اچھا دوست تو وہی ہوتا ہے نہ جو آپ کو ہر غم سے دور لے آتا
ہے۔ تم بھی لے آؤ گی نہ اسے ہر غم سے دور ؟ www.tabna
احتشام صاحب نے ایمان کو پیار سے سمجھایا تو اس نے اپنے آنسو پہنچے اور ہاں میں گردن ہلائی۔
احتشام صاحب نے ایمان کو پیار کیا اب بس مر حا کے آنے کا انتظار تھا۔
ریان مرحا کو اس کے گھر کی طرف لایا لیکن اسپیڈ میں واپس گاڑی ریورس کر کے دوسرے روڈ پہ لے آیا۔
ریان کی یہ جلد بازی مرحانے بھی نوٹ کی۔
کیا ہوا آپ نے واپس کیوں لے لی۔
تمھارے چھچھورے کزنز تمھارے گھر کے سامنے موجود ہیں۔
ریان کے کہنے پہ مرحا حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
یقینا وہ اس کی بات نہیں سمجھی تھی۔
کیا مطلب ہے ؟
مرحانے سوال کیا تو ریان نے اس کا چہرہ دیکھا۔
بجھا بجھا چہرہ سوجی ہوئی آنکھیں لیکن اس حالت میں بھی وہ کسی کو بھی اپنا اسیر کر سکتی تھی۔
ریان نے اس سے نظریں چرائی۔
یہ لڑکی اس کے دل کی دیوار کو نرم کرہی تھی۔
تمھارے کزنز ہیں گاؤں کے وہ لوگ موجود ہیں۔ tan
ریان کے کہنے پہ مر حا کو حیرانی ہوئی کیا وہ اس کے بارے میں سب جانتا تھا۔
آپ کو کیسے پتہ ان کے بارے میں۔ آپ میرے بارے میں اتنا کچھ کیسے جانتے ہیں۔
مرجانے سوال کیا تو ریان نے اسے ساری بات تفصیل سے بتادی۔
ریان کی باتیں سن کر مر حا کا دل بہت بری طرح دکھا تھا کہاں اس کے بابا ہمیشہ اپنے اپنوں کی تعریفیں کرتے رہتے تھے اور کہاں یہ لوگ جنہیں انکی موت سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔
مر حاتم رو نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا یہ لوگ تمھارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ میں ہوں نہ تمھارے ساتھ۔
تمھارے بابا جب ہسپتال میں آخری سانسیں لے رہے تھے تب انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمھاری حفاظت کروں اور تمھیں یہ بھی کہوں کہ کچھ بھی ہو جائے گاؤں واپس نہیں جانا۔
اس کے باوجود بھی گاؤں جاکر ان لوگوں کو تم لوگوں کی ڈیتھ کا بتا کر آیا تھا مگر ان کا ری ایکشن مجھے پریشان کر گیا تھا اسے لیے میں نے تمھاری ڈیتھ کا جھوٹ بولا۔ ان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ میں پوری ہسٹری تو نہیں جانتا وہ تمھیں پتہ ہو گی مگر میں تمھاری حفاظت ضرور کروں گا۔
ریان کی بات سن کر مر جانے گہری سانس لی۔
یہ ساری کہانی ہمارے گاؤں جانے پہ شروع ہوئی۔
مر حاریان کو سب بتائی گئی جسے سن کر ریان الجھ گیا تھا۔
ہمارے ایکسیڈنٹ سے دو دن پہلے ہم گاؤں گئے تھے۔ میں پہلی دفع گئی تھی جبکہ بابا 16 سال کے بعد گاؤں گئے تھے۔
جب ہم وہاں پہنچے تو سب ہم سے بہت خوشی سے ملے تھے۔
لیکن پھر اگلے دن دادی صاحب نے بابا سے کہا کہ وہ میری شادی میرے چاچا کے بیٹے حاشر سے کر دیں۔ بابا نے ان سے کہا کہ وہ میری مرضی کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔ جب انہوں نے مجھے اس رشتے کا بتایا تو میں نے منع کر دیا مجھے ڈاکٹر بننا تھا۔ اس سب کا میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔
پھر اچانک کچھ دیر بعد بابا نے کہا سامان پیک کرو ہم واپس جارہے ہیں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔
جب ہم واپس جانے لگے تو بابا کی اور دادی صاحب کی تلخ کلامی ہوئی تھی بابا ناراض تھے کہ دادی صاحب نے انہیں نہیں بتایا کہ انکا ہو تا شرابی ہے وہ اتنے برے لڑکے کے لیے انکی بیٹی مانگ رہی تھیں پھر انہوں نے بابا سے ہر رشتہ توڑ دیا۔ اور کہا کہ وہ واپس کبھی گاؤں نہ آئیں۔
پھر ہم گاؤں سے نکل گئے۔ راستے میں ہی بابا کی گاڑی کے بریک فیل ہو گئے اور پھر وہ ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ مرحانے پوری تفصیل بتائی۔
ریان الجھا تھا اگر وہ لوگ ہر رشتہ ختم کر چکے تھے تو مر حا سے انہیں کیا غرض تھی کیا صرف اپنے پوتے کے لیے یا پھر کوئی اور وجہ بھی تھی۔ اور اچانک گاڑی کہ بر یک فیل ہو جانا کیا یہ صرف حادثہ تھا یا پھر معاملہ کچھ اور تھا۔ ریان نے اس سب کی انویسٹیگیشن کروانے کا سوچا۔
اچھا تم پریشان نہیں ہو اس معاملے کو بھی دیکھ لیں گے۔ ابھی ہم میرے گھر چلتے ہیں یہاں میں تمھیں رات میں یا پھر کل لے کر آؤں گا تم ان لوگوں کی نظروں میں نہیں آنی چاہیے ہو۔
ریان کی بات سمجھ کر مر جانے ہامی بھر لی تھی لیکن ایسے کسی کے گھر جانا اسے عجیب لگ رہا تھا۔
تم پریشان نہیں ہو وہاں کوئی ایسا ہے جسے دیکھ کر تمھیں اکیلاپن فیل نہیں ہو گا۔
ریان کی بات پر مر جانے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
کون ہے ایسا وہاں ؟
مرحا کے پوچھنے پر ریان کے لب مسکرائے۔
ابھی بتاؤں یا سپینس رکھوں۔
ریان نے پوچھا تو مر جانے اسے غور سے دیکھا۔
وہ بے حد شاندار پر سنلٹی کا مالک تھا۔ اس پر اس کی مسکراہٹ اسے دلفریب بنارہی تھیں۔ مرحانے نظریں جھکائی۔
آپ کی مرضی ہے چاہیں تو بتادیں چاہے تو نہ تائیں
مرحانے معصومیت سے کہا۔
استغفر اللہ یہ معصومیت مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔
ریان نے ہلکی آواز میں کہا۔
ریان مرحا کو لے کر گھر کے اندر داخل ہوا۔ مرحا بہت زیادہ نروس تھی یوں کسی غیر کے گھر آنا اسے بہت زیادہ عجیب لگ رہا تھا۔
وہ لوگ اندر داخل ہوئے تو سب ہی لوگ ہال میں موجو د تھے۔
مرحا نے ایک نظر سب کو دیکھا۔ ایک آدمی اور دو لڑکوں کو وہ پہچانتی تھی وہ صبح سے ہی ریان کے
ساتھ تھے اسکے بابا اور بھائی جبکہ تین چہرے اس کے لیے بالکل نئے تھے۔
آجاؤ بیٹے اندر آؤ۔
مرحا کو کنفیوز دیکھ کر احتشام صاحب نے محبت سے اسے اپنے پاس بلایا۔
مرحا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے پاس پہنچی۔
یہ سمینہ بیگم ہیں ریان کی ماما اور یہ میرے بابا ہیں ریان کے دادا جان اور یہ ہمارے گھر کا چھوٹا شرارتی بیٹا ہے شہیر ۔
احتشام صاحب نے سب کا تعارف کروایا تو اس سب سے پہلے دادا جی کو سلام کر کے انکا ہاتھ چوم کر
ماتھے سے لگایا اور یہی انہوں نے سمینہ بیگم کے ساتھ کیا۔
ریان نے باغور اس کی یہ حرکت دیکھی تھی جو اس کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔
سمینہ بیگم نے اسے اپنے گلے سے لگایا۔
کیسی ہو بیٹا تم پریشان بالکل نہیں ہونا اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔
سمینہ بیگم نے محبت سے اسکا ماتھا چوما تھا۔
وہ مسکر ا بھی نہ سکی۔
ماما اپنی شہزادی کو تو بلائیں۔
ریان نے کہا تو مر جانے ریان کی طرف دیکھا جو دور کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں چرائی۔
سمینہ بیگم سے دونوں کی نظروں کی آنکھ مچولی چھپی نہیں رہ پائی تھی۔
میں بلاتا ہوں ایمو کو۔
شہیر کہہ کر جانے ہی لگا تھا کہ ایمان سیڑھیوں سے اترتی نیچے آئی۔
مرحا ایمان کو دیکھ کر شو کڈ رہ گئی تھی۔
اسے اب سمجھ آیا شاہ میر اسے دیکھا دیکھا کیوں لگا تھا۔
ایمان بھاگتی ہوئی اس کے سامنے آکرر کی تو مر حا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
ایمان نے مرحا کو گلے لگایا تو مرحا ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
مرحا کا رونا جہاں شاہ میر کے لیے اذیت بنا تھا وہی ریان نے بھی درد سے آنکھیں میچ کی تھیں۔ اس لڑکی کے آنسوریان کو تکلیف دیتے تھے۔
شاہ میر سے دیکھا نہیں گیا تو وہ نہ محسوس انداز میں باہر گارڈن کی طرف چلا گیا جبکہ ریان دور کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔
ایمان نے بہت مشکل سے مرحا کو چپ کروایا تھا۔
مر حامیری جان دیکھو ایسے نہیں روتے بس چپ ہو جاؤ پلیز اللہ تعالیٰ تمھیں صبر دے پلیز سنبھالو خود کو۔
مرحا کی سسکیاں پورے بال میں گونج رہی تھیں۔
ایمان نے مرحا کو اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا۔
ریان چلتا ہوا آکر مرحا کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا۔
جہاں سب کے لیے یہ منظر حیرت انگیز تھاوہی مرحانم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
مرحا کیا سمجھایا تھا میں نے تم ایسے رو کر اپنے پیریٹس کو ہی تکلیف دے رہی ہو یقین کرو کوئی ماں باپ نہیں چاہتے اپنی اولاد کو اتنی تکلیف میں دیکھنا۔ کیا تم پیار نہیں کرتی ان سے اگر کرتی ہو تو تم رو گی نہیں نہ اپنا حال خراب کرو گی بس ان کو پڑھ کر بخشو۔
ریان نے مرحا کو سمجھایا۔
ما ما مر حا کے لیے کھانے کا انتظام کر دیں اس نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے۔
ریان کہہ کر سب سے نظر چراتا اپنے روم میں چلا گیا۔
❤️❤️❤️
0 Comments
Post a Comment