تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 06

از طوبیٰ صدیقی



°°°°°°


❤❤❤


اسلام و علیکم میری گڑیا کیسی ہے۔


احتشام صاحب ایمان سے ملنے آئے تھے آج ایمان کی چھٹی ہو جاتی تھی اور وہ ساحر کے بارے میں بھی ڈاکٹر سے اپڈیٹ لینا چاہتے تھے۔


و اعلیکم السلام بابا جان۔ ایمان ان کے گلے لگی نہ چاہتے ہوئے بھی ایمان کی آنکھ سے آنسو نکلا تھا۔


میرا بچہ ٹھیک ہے اب اور یہ رونا کیوں ہم میری گڑیا تو بہت اسٹر ونگ ہے نہ ایسے نہیں روتے اللہ نے کرم کیا ہے۔


ایمان نے اپنے آنسو صاف کیے۔


بابا بھیو کہاں ہے صبح سے نہیں دیکھ رہے۔ ریان کی غیر حاضری نوٹ کر کے ایمان نے پوچھا۔


بیٹے آفس کا کچھ ضروری کام تھا وہ اسی سلسلے میں گیا ہے آجائے گا۔


بس ابھی گھر چلیں گے میں زر اڈا کٹر سے مل کر آتا ہوں۔ احتشام صاحب ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔


احتشام صاحب ڈاکٹر کے پاس آئے جہاں شایان اور شاہ میر پہلے سے موجود تھے۔


اسلام و علیکم ڈاکٹر وہ لڑکا کیسا ہے کچھ بہتری ہے ؟


واعلیکم السلام دیکھیں سر وہ کومہ میں ہیں بہتری بس ان کے ساتھ یہ ہے کہ ان کی جان بچ گئی ہے باقی وہ جب کومہ سے باہر آئیں گے تب پتہ لگے گا۔ ڈاکٹر نے احتشام صاحب جو تفصیل بتائی۔


اچھا ڈاکٹر صاحب اگر ہم اسے گھر لے جائیں تو کوئی پرابلم کی بات تو نہیں ہو گی۔ وہاں سب کی نگرانی میں اس کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے گا۔ سب ہر ٹائم موجود ہونگے کیونکہ یہاں ہر وقت کوئی بھی نہیں رک سکتا تو ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم اسے گھر لے جائیں۔


احتشام صاحب نے یہ فیصلہ سب لوگوں کی رائے کے مطابق لیا تھا۔


آپ کی بات ٹھیک ہے آپ لوگ انہیں لے جائیں لیکن ان کا بہت خیال رکھنا ہو گا آپ لوگوں کو آپ لوگ ایک وارڈ بوائے کو اپوائنٹ کر لیں اس سے آپ کو آسانی رہے گی۔


ڈاکٹر نے انہیں اجازت دی اور ڈسچارج پیپر ز تیار کروانے کا بھی بول دیا۔


اب ساحر کی دیکھ بھال وہ لوگ خود کرنے والے تھے اور انہیں یقین تھا اس سے ساحر جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔


شایان شاہ میر نے ساحر کے ڈسچارج کی زمہ دار لی۔ احتشام صاحب نے ریان کو کال کرنے کا سوچاتا کہ یہاں کے بارے آگاہی دے سکیں۔


ایمان اکیلی لیٹی تھی سوچوں میں گم تھی۔


آپ جو بھی ہیں جلدی سے ٹھیک ہو جائیں میں خود پرسنلی آپ کو تھینکس بولوں گی اور آپ کو گفت بھی میری دوست کہتی ہے تھینکس کے ساتھ گفٹ بھی ضروری ہوتا ہے۔ آپ بس جلدی سے ٹھیک ہو جائیں۔ اپنی سوچوں میں ساحر سے مخاطب ہو کر اس نے اپنے دل کی باتیں کی تھیں۔


آصف صاحب کار ڈرائیو کرتے ہوئے ایک دم پریشان ہوئے تھے۔ کیا ہوا آصف آپ اچانک اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں۔ رمشاء نے سوال کیا تو انہوں نے رمشاء کی طرف دیکھا اور پھر مرحا کو دیکھا جو باہر کے نظارے کر رہی تھی۔


رمشاء گاڑی کے بر یک کام نہیں کر رہے بریک فیل ہو گئے ہیں اسپیڈ بھی کم نہیں ہو پارہی۔


آصف صاحب کی بات سن کر رمشاء کے اوسان خطا ہو گئے جبکہ مرحانے بھی انکی بات سن لی تھے نے تھی۔


بابا جانی اب کیا ہو گا ہم کیا کریں۔ مر جانے روتے ہوئے پوچھا۔


مر حامیر ابچہ میری بات سنو غور سے جب میں تمھیں بولوں گاڑی سے کود جانا رمشاء آپ بھی کو د


جائے گا۔ آصف صاحب کی بات پہ رمشاء اور مرحا کے رونے میں تیزی آئی۔


یہ کیسی مصیبت ان لوگوں پر آپڑی تھی۔


نہیں آپ کیسی بات کر رہے ہیں آصف آپ کو چھوڑ کر ہم کیسے کو دسکتے ہیں۔


جی بابا جانی ہم ہم نہیں کو دیں گے۔


مرحا اور رمشاء نے نفی کی۔


دیکھو مر حامیری بات سمجھو تمھیں اپنے بابا کی قسم ہے مر حاجب میں بولوں تو کو د جانا بیٹا اپنے بابا کی خاطر کو د جانا۔ 


مر حازور زور سے رونے لگی۔ یہ کیسی مصیبت آگئی تھی ان پر۔


جی بابا میں راستے میں ہوں بس کچھ دیر میں پہنچ جاؤں گا۔ آپ بتائیں ڈاکٹر نے اجازت دے دی۔


ریان نے احتشام صاحب سے پوچھا۔


ہاں ریان ہم لوگ گھر کے لیے نکل گئے ہیں تم بھی گھر ہی آنا اور ساحر کو بھی ہم لے آئیں ہیں ساتھ ہی


ڈاکٹر نے اجازت دے دی۔


ٹھیک ہے بابا میں بس گھر پہنچتا ہوں۔


ریان نے کہہ کر کال کاٹ دی۔


مر حامیر ابچہ کو جاؤ مر حاتم ہیں بابا کی قسم ہے کو دجاؤ کچھ نہیں ہو گا تمھارے پیچھے ہم بھی کود جائیں گے۔


آصف نے مرحا سے کہا جو مسلسل روتے ہوئے نفی کر رہی تھی۔


بابا ہم ساتھ کو دیں گے پلیز آپ لوگ بھی ساتھ کو دیں گے۔


مرحا کی بات پہ آصف صاحب نے حامی بھری۔


لیکن وہ جانتے تھے یہ ممکن نہیں ہے اس لیے انہوں نے مرحا کی جان بچانی تھی۔


مرحا بیٹا جب میں بولوں تو کو د جانا ٹھیک ہے۔ آصف صاحب نے مرحا کو کہا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔


کود جاؤ مر حا جاؤ کو د جاؤ


آصف صاحب نے چلا کر کہا۔


مرحا نے نم آنکھوں سے اپنے ماں باپ کو دیکھا تھا آگے کیا ہونے والا تھا کوئی نہیں جانتا تھا مگر مرحا کا دل ڈر سے کانپ رہا تھا۔


جاؤ مر حاکو د جاؤ بیٹا پلیز کو دجاؤ۔


آصف صاحب کے کہنے پہ مرحا چلتی ہوئی گاڑی سے کود گئی۔


مرحا کے کو دتے ہی آصف صاحب کی گاڑی کے سامنے ایک گاڑی آئی جس سے بچانے کے چکر میں وہ سامنے والی گاڑی سے ہلکا سا ٹکرا کر دوسری طرف سے آتے ڈمپر سے ٹکرائی اور پلٹی کھا کر گری۔


مرحا کے کودنے پر اسے بہت چوٹیں آئی تھیں۔ سڑک پار گری مر جانے اپنے ماں باپ کو تباہ ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔


اس نے ہاتھ اٹھا کر اپنے ماں باپ کو پکارنا چاہا مگر اس کے منہ کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے درد سے


آنکھیں بند ہونے لگیں تھیں۔ اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔


ریان نے احتشام صاحب سے بات کر کے کال کاٹی تو سامنے سے آتی تیز رفتار گاڑی اس سے ٹکراتے ہوئے برابر سے آتے ڈمپر سے بری طرح ٹکرا کے پلیٹی۔ ریان تیزی سے اس گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔


ابھی جو ایکسیڈنٹ کیس آیا ہے اس میں جو لیڈی تھی وہ مر چکی ہیں جبکہ ساتھ جو آدمی تھے ان کی حالت تشویشناک ہے۔


ڈاکٹر کہہ کر جا چکی تھی جبکہ ریان کے پاس کہنے کو الفاظ ختم ہو گئے تھے۔


اس نے قدم اس روم کی طرف بڑھائے جہاں وہ شخص موجود تھا۔


ریان اندر آیا تو آصف صاحب ہوش میں بس مرحا مر جا پکار رہے تھے اور ڈاکٹر کو قریب بھی نہیں آنے دے رہے تھے۔


دیکھیں پلیز آپ کی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے ایسے نہیں کریں آپ ہمیں ہمارا کام کرنے دیں۔


ڈاکٹر نے سختی سے کہا تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ ان کی دل کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ کم ہوتی جارہی تھی۔


ریان ان کے پاس آیا۔


آپ کی بیٹی بالکل ٹھیک ہے اس کا علاج ہو رہا ہے پلیز آپ اپنا علاج کروائیں۔


ریان نے کہا تو آصف صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا۔


ریان آصف صاحب کے پاس پہنچا تو آصف صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


م م میری۔۔۔ بیٹی ۔۔۔ کلک کا۔۔ نخ خیال رکھنا۔۔ اور ۔۔۔ اسے کلک کہنا۔۔۔ کچھ ۔۔ بھ بھ بھی


ہو جائے۔۔۔ گا گاؤں واپس۔۔۔ ن ن نہ جائے۔۔ اس کلک کو بیچ بچا لینا ۔۔ ب ب بیٹا۔۔۔


آصف صاحب کی دل کی دھڑکن رک چکی تھی۔ ریان حیران پریشان انہیں دیکھ رہا تھا۔ الفاظ ختم ہو گئے۔ آصف صاحب اور رمشاء مر حا کو تنہا چھوڑ کر جاچکے تھے۔


سر ہی از نو مور ۔۔ ڈاکٹر کے کہنے پر ریان تھکے قدموں سے باہر آیا تھا۔ یہ کیا ہو گیا تھا اس سے۔ اسکی گاڑی کی ٹکر کی وجہ سے ان کی گاڑی ڈمپر سے ٹکرائی تھی۔ آج ریان بے بسی کی انتہا پر تھا۔ جب اس لڑکی کو پتہ لگے گا تب کیا ہو گا۔ ریان سوچتے ہوئے مرحا کے روم کی طرف آیا تو ڈاکٹر اسے چیک کر کے باہر آئیں۔


سر میں چوٹ آنے اور اسٹریس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی ہیں۔ ہم نے ٹریٹمنٹ کر دیا ہے انشاء اللہ بہتر ہو جائیں گی۔ کیا یہ بھی ایکسیڈنٹ میں زخمی ہوئی ہیں۔


ڈاکٹر کے پوچھنے پر ریان نے ہاں میں گردن ہلائی۔


بے چاری ان کے ساتھ جو تھے انکی تو ڈیتھ ہو گئی ہے۔ آپ پلیز ا نکے جاننے والوں سے رابطہ کریں ریان چلتا ہو امر حا کے پاس آیا اور ساتھ رکھی کرسی پہ بیٹھ گیا۔


معصوم سا بھولا بھالا سا چہرہ بالکل پر سکون تھا۔ دوائیوں کے زیر اثر مر حا اس وقت سورہی تھی۔ ریان کو مرحا پہ ترس آیا۔ ریان کے دماغ میں آصف صاحب کی باتیں گونجنے لگی اور پھر اس نے خود سے ایک وعدہ کیا اپنی آخری سانس تک مرحا کی حفاظت کا وعدہ۔


ایمان سے مل کر سب بہت خوش ہوئے تھے۔ ذوالفقار صاحب اور سمینہ بیگم کو بھی ایمان کے ساتھ ہوئے سارے معاملے کا پتہ لگ گیا تھا۔


ساحر کو احتشام صاحب نے نیچے والے گیسٹ روم میں شفٹ کروادیا تھا۔


سب لوگ نیچے ہال میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ شایان اور شاہ میر ساحر کے روم میں تھے۔


بابا وہ کیسے ہیں۔


ایمان نے گیسٹ روم کی طرف اشارہ کر کے پوچھا تھا۔


بیٹا اس کا نام ساحر ہے۔ شایان شاہ میر گئے تھے اس کے بارے میں معلومات لینے اسی جگہ جہاں اس کی گاڑی تھی مگر وہ گاڑی بھی شاید وہی لوگ لے گئے تھے۔ اس جگہ بس ایک چین اور والٹ ملا تھا جس پر ساحر خان لکھا تھا۔ والٹ بھی سارا خالی تھا اس لیے نام کے علاوہ کچھ بھی پتہ نہیں لگ سکا اب بس اس


کے ہوش میں آنے کا انتظار ہے پھر ی کچھ پتہ لگے گا۔


احتشام صاحب نے تفصیل بتائی


اللہ تعالیٰ اس کو صحت دے اس نے ہمارے گھر کی عزت بچائی ہے ہم احسان مند ہیں اس کے۔ ذوالفقار صاحب نے کہا تو سب نے انکی بات پر ہامی بھری۔


احتشام صاحب کا فون بجاتو ریان کی کال آتے دیکھ انہوں نے فورا کال اٹھائی تھی۔


ریان بیٹا کہاں رہ گئے ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔ مگر ریان کی بات پہ انکے ایکسپریشن سیر لیں ہوئے


تھے اس کی بات سن کر وہ فوراً کھڑے ہو گئے۔


اچھا میں پہنچتا ہوں۔


احتشام صاحب نے کہہ کر کال کاٹ دی۔


کیا ہوا احتشام کیا کہہ رہا تھا ریان۔ ذوالفقار صاحب نے پوچھا۔


کچھ نہیں بابا کچھ ضروری کام آگیا ہے۔


یہ کہہ کر احتشام صاحب رکے نہیں تھے انہیں جلد سے جلد ریان کے پاس پہنچنا تھا۔


ریان نے احتشام صاحب کو کال پر سب بتا دیا اب اس کا ارادہ پولیس والوں کے پاس جاتا تھا۔


اسلام و علیکم انسپکٹر صاحب وہ جو ایکسیڈنٹ کیس ہے اس کے۔۔


ارے مسٹر ریان آپ یہاں کیسے۔ کیسے ہیں آپ سب خیریت ہے۔


ریان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی انسپکٹر ریان کو پہچان گیا تھا۔


میں ٹھیک ہوں انسپکٹر صاحب آپ اس ایکسیڈنٹ کیس کو دیکھ رہے مجھے ڈیٹیلز بتائیں۔ ریان نے پوچھا۔


جی ریان صاحب بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے دو لوگ تو مر چکے ہیں ایک لڑکی بچی جس کا علاج چل رہا ہے۔ ڈمپر کی ٹکر سے کار کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ ڈمپر ڈرائیور کو ڈھونڈا جارہا ہے۔ باقی ہم اس لڑکی کا بیان لینے کے لیے رکے ہیں۔


انسپکٹر کی بات پر ریان نے ہاں میں گردن ہلائی۔


ان کی گاڑی میری گاڑی سے ٹکرا کر ڈمپر سے ٹکرائی تھی انسپکٹر صاحب۔


ریان کے کہنے پر انسپکٹر صاحب نے حیرت سے ریان کو دیکھا تھا۔


ریان سر آپ یہ کیا کہ رہے ہیں وہاں موجود لوگوں نے خود بتایا ہے کہ گاڑی ڈمپر سے ٹکرائی تھی اگر آپ کی گاڑی سے ٹکرائی بھی تھی تو اس بات کا کوئی گواہ نہیں ہے آپ کیوں خود کو اس کیس میں پھنسا رہے ہیں۔


انسپکٹر صاحب نے ریان کو سمجھایا۔


کوئی گواہ ہو یہ نہ ہو اللہ تو ہمارے ہر عمل کا گواہ ہے نہ۔ میری غلطی بے شک کسی نے نہ دیکھی ہو مگر اللہ نے تو دیکھی ہے نہ۔ اور سید ریان حید ر اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی پوری ہمت رکھتا ہے۔


آپ اس کیس میں میرا نام شامل کریں باقی اس لڑکی کو کچھ دیر میں ہوش آ جائے گا آپ لوگ بیان لے لیے گا۔


ریان کے کہنے پہ انسپکٹر نے پریشانی سے گردن ہاں میں ہلائی۔


دیکھ لیں ایک بار پھر سوچ لیں ریان صاحب آپ پھنس سکتے ہیں اس کیس میں اور جو بد نامی ہو گی وہ


انسپکٹر نے اسے سمجھانے کی آخری کوشش کی تھی۔


سید ریان حیدر کا انصاف سب کے لیے برابر ہے انسپکٹر صاحب یہ آپ بہت اچھے سے جانتے ہیں آپ سے جو کہا ہے آپ وہ کریں۔


ریان کہہ کر مر حا کے روم کی طرف چلا گیا۔


مسٹر ریان پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے وہ بہت ہائیپر ہو رہی ہیں پلیز آپ ان کے جاننے والے ہیں تو ان کے پاس جائیں۔


نرس کہہ کر ڈاکٹر کے پاس چلے گئی تھی۔ ریان نے مرحا کے روم کی طرف قدم اٹھائے۔


دیکھیں پلیز مجھے جانا ہے میرے ماما بابا وہ وہاں ہونگے ان کو ان کو بہت چوٹ آئی ہو گی پلیز یہ سب بعد میں کریے گا مجھے ابھی جانے دیں۔ 


ریان روم کے دروازے پہ پہنچا تو مرحا کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جس کو سن کر وہ چونکہ تھا۔


اسے لگے یہ آواز اس نے پہلے سنی ہے۔ وہ اندر آیا تو مر حا اپنے ہاتھ سے ڈرپ کھینچ کر نکال چکی تھی جبکہ نرس اس کو قابو کرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔


سر پلیز آپ سمجھائیں انہیں انکی طبیعت خراب ہو جائے گی ایسانہ کریں۔


نرس نے ریان کو دیکھ کر کہا تو وہ اس نے تیزی سے آکر مرحا کے دونوں ہاتھ پکڑے تھے۔


مرحا ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئی پھر اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔


پلیز مجھے ماما بابا کے پاس جانے دیں۔


مرحا نے روتے ہوئے ریان سے کہا۔


ریان کو اس کی آنکھوں میں آنسو کانچ کی طرح چھے تھے۔


وہ اس کی اپنی نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کی تکلیف سے ریان حیدر کا دل کرچیوں کی طرح ٹوٹا تھا۔


میں تمھیں لے کے جاؤں گا تمھارے ماما بابا کے پاس اگر تم ابھی صرف پندرہ منٹ سکون سے لیٹی رہیں تو ورنہ تمھیں کوئی تمھارے ماما بابا سے نہیں ملوائے گا آئی بات سمجھ اب بالکل خاموش ایک آواز نہ نکلے۔ نرس آپ لگائیں ڈرپ۔


ریان نے مرحا کو غصے سے ڈانٹا اور ساتھ ہی ساتھ نرس کو بھی اپنا کام کرنے کو کہا۔


مرحا کہاں عادی تھی سخت لہجوں کی وہ تو لاڈ پیار میں پلی تھی آج تک کسی نے بھی اس سے اس طرحبات نہیں کی تھی۔


ریان کی ڈانٹ پر مرحابے رونے لگی۔ اس کے منہ سے بہتہلکی آواز میں ریان نے بس ایک جملہ سنا تھا۔


کھڑوس بابا سے شکایت لگاؤ گی مجھے ڈانٹا۔


ریان اسے کیا بتاتا اسکی شکایتیں سننے والے تو بہت دور جا چکے تھے۔


انسپکٹر صاحب کے اندر آنے پہ ریان سائیڈ پہ ہوا جبکہ مرحاپولیس والوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی۔


بیٹا آپ ڈرو نہیں ہم بس آپ سے کچھ سوال کریں گے آپ ہمیں اس کا جواب دینا ہم چلے جائیں گے۔


انسپکٹر صاحب نے پیار سے کہا تو مر جانے نفی میں سر ہلایا۔ آپ میرے بابا سے جا کر پوچھ لیں جو پوچھنا ہے۔


مرحا کے کہنے پہ انسپکٹر نے ریان کی طرف دیکھا تو اس نے انہیں کچھ بھی بتانے سے منع کر دیا۔


ریان کے اشارے پر پولیس نے مرحا کو کچھ نہیں بتایا۔


بیٹا آپ کے بابا کو دوادی ہے نہ تو وہ ابھی سو رہے ہیں اس لیے آپ بتا دو آپ کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا۔ آپ بتاؤ گی تب بھی تو ہم اس کو پکڑیں گے جس نے ایکسیڈنٹ کیا ہے۔


انسپکٹر صاحب کی بات پہ مر جانے نہ میں گردن ہلائی۔


نہیں انکل ہماری گاڑی کا ایکسیڈنٹ کسی کی وجہ سے نہیں ہو اہماری اپنی گاڑی کے بریک فیل ہو گئے تھے جس کی وجہ سے بابا گاڑی سنبھل نہیں پائے تھے۔ مجھے بابا نے چلتی گاڑی سے کو دوا دیا تھا اور پھر انکی گاڑی ایک ڈمپر سے ٹکرائی تھی اس کے بعد کا مجھے نہیں یاد پلیز آپ مجھے میرے ماما بابا سے ملوادیں۔


انسپکٹر صاحب نے مرحا کا پورا بیان ریکارڈ کیا تھا۔ ریان کے دل میں سکون اترا تھا وہ جو کب سے اس گلٹ میں تھا کہ اس کی وجہ سے سب ہوا ہے مرحا کی باتوں نے اس کا سارا گلٹ دور کر دیا تھا۔


مرحا پھر رونے لگی تھی اسے بس اپنے ماما بابا کے پاس جانا تھا یہ وقت بہت مشکل تھا پتہ نہیں ان کی ڈیڈ بوڈی دیکھ کر مر جانے کیسے ری ایکٹ کرنا تھا۔ مرحا کے رونے پر ریان اس کے پاس آیا۔


ریان نے مرحا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو مر جانے اس کی طرف دیکھا۔


مرحا پلیز میری بات کو سمجھو دیکھو تمھاری ڈرپ بس اگلے دس منٹ میں ختم ہو جائے گی پھر میں خود تمھیں تمھارے ماما بابا کے پاس لے کے جاؤں گا۔ تم ایسے روگی اپنے آپ کو ہرٹ کرو گی تو میں تمھارے بابا کو کیا جواب دوں گا میں نے ان کی بیٹی کا خیال ہی نہیں رکھا ہم اب تم بالکل نہیں روگی بس صرف دس منٹ صبر کر لو پھر ہم چلتے ہیں اوکے۔


ریان نے بہت محبت سے مرحا کو سمجھایا۔ اس نے ایمان کے بعد آج تک کسی لڑکی سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔


مرحانم آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی پھر ہاں میں گردن ہلائی۔


ایک جادو ساتھ ریان کی آواز میں جو مر حا کو سوچوں سے دور لے آیا تھا۔


مرحا کے گردن ہلانے پر ریان نے اس کا ہاتھ چھوڑنا چاہا مگر مر جانے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا جیسے کوئی خوف اسے گھیرے ہوئے ہو کھو جانے کا خوف۔


مرحا کی کنڈیشن سمجھ کر ریان نے دوبارہ اس کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیا۔


دس منٹ گزر چکے تھے ڈرپ ختم ہوتے ہی مر جانے پر امید نظروں سے ریان کو دیکھا تو اس نے گہری سانس لی اور اسے اپنے ساتھ کے جانے لگا۔


آصف صاحب اور رمشاء کی باڈی ہسپتال کے سرد خانے میں تھی۔


ریان نے مرح کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ وہ بس اس کے ساتھ چلے جارہی تھی بنا کسی سوال جواب کے مگر ریان کے قدم جیسے بھاری ہو گئے تھے۔ آج ریان حیدر ڈر گیا تھا آنے والے لمحے سے وہ ڈر گیا تھا۔


چلتے چلتے اس اپنے قدم روکے تو مر حاجو اس کے ساتھ چل رہی تھی رک کر اسے دیکھنے لگی۔


مر حاتم بہت بہادر ہو نا تم نے ہمت نہیں بارنی ہے تم نے صبر سے کام لینا ہے او کے ۔


ریان نے ہمت جٹا کر کہا تو مر حا کو اس کی باتوں سے خوف آنے لگا۔


ک کی کیا مطلب ہے تم میں ماما بابا کے پاس ج ج جارہی ہوں نہ تو آپ ایسی باتیں ک ک کیوں کر رہے ہیں۔


الفاظ ٹوٹ کر مرحا کی زبان سے ادا ہوئے تھے۔ ریان نے کوئی جواب نہیں دیا بس اسے کے کر سرد خانے کی طرف آیا۔


مر حا کا دل بیٹھنے لگا وہ اسے یہاں کیوں لایا تھا ڈر کر اس نے ریان کے بازوں کو مضبوطی سے تھاما تھا۔ ریان اسے لے کے دوڈیڈ باڈیز کے پاس رکا تو مر حا کے قدموں سے جان نکل گئی۔ مرحاز زندگی اللہ تعالی کی امانت ہوتی ہے۔ اللہ کی امانت تھی اللہ نے لے لی۔


ریان نے کہا اور ان دونوں کا چہرہ مر حا کو دیکھایا۔ اور بس مر حا کا صبر یہی تک تھا۔


بابا۔۔ بابا آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے بابا آپ ایسے کیسے کر سکتے ہیں آپ اپنی گڑیا کو کس کے سہارے چھوڑ گئے ۔۔ ماما اٹھ جائیں پلیز اٹھ جائیں ماما بابا آپ کی بیٹی مر جائے گی آپ مجھے تنہا کیوں کر گئے ہیں پلیز اٹھ جائیں۔۔


مر حازار و قطار روئی تھی اس کی آواز اس کی سسکیاں ریان کو بھی تڑ پاگئی تھیں۔ بے شک ماں باپ سے بڑھ کر اس دنیا میں اور کچھ نہیں ہے مرحا کا غم بہت بڑا تھا۔


ریان نے مرحا کو کندھے سے تھاما تو وہ اسکے سینے سے سر ٹکا کر رونے لگی۔


مرحا پلیز سنجالو خود کو ایسے تم اپنے ماں باپ کو اور تکلیف دوگی پلیز خود کو سنبھالو۔


میں کیا سنبھالوں گی خود کو میرے ماں باپ مجھے تنہا کر گئے میر اواحد آسر اتھے ماما بابا میں بے آسرا ہو گئی میر اسب تباہ ہو گیا سب سب ک ک کچھ نتنت تباہ ۔۔ الفاظ رک گئے سسکیاں رک گئی۔


ریان جو مرحا کی کی بات سن رہا تھا اس کے خاموش ہونے پے اس کا چہرہ دیکھا۔ مرحابے ہوش ہو گئی تھی۔


ریان اسے باہوں میں بھر کے باہر بھاگا تو احتشام سرد خانے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ بابا جلدی سے ڈاکٹر کو بلائیں ریان کی بات سمجھ کر وہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلانے گئے تھے جبکہ ریان واپس اسے اس کے روم میں لے آیا تھا۔


احتشام صاحب کے ساتھ ڈاکٹر اندر داخل ہو ئیں تو وہ دونوں باہر آگئے۔


باہر آتے ہی ریان اپنے باپ کے گلے لگا تھا۔


با باوہ بہت تکلیف میں ہے بابا اس کے ماں باپ دونوں اس حادثے میں چلے گئے۔


احتشام صاحب نے ریان کو سمجھایا۔


ریان بیٹازندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے صبر سے کام لو سب ٹھیک ہو گا اور پولیہ کا کیا بنا۔


احتشام صاحب کے پوچھنے پر ریان نے انہیں ساری بات بتائی تو انہوں نے سکون کا سانس لیا تھا کہ ریان کا اس سب میں کوئی عمل دخل نہیں ہے مگر مرحا کے لیے انہیں بہت افسوس تھا۔ وہ معصوم بچی اس دنیا میں تنہا رہ گئی تھی۔


ڈاکٹر باہر آئی تو ریان اور احتشام صاحب ڈاکٹر کے پاس آئے۔


دیکھیں ان کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے جو حادثہ ان کے ساتھ ہوا ہے اس نے انکے دماغ پر بہت گہرا اثر کیا ہے وہ بہت زیادہ ڈ پر سیٹ ہیں۔ ابھی انہیں نہیں آیا ہے اور انکا بی پی بھی بہت لو ہو گیا ہے۔ آپ لوگ بس ان کا خیال رکھیں اس سب سے نکلنے میں انہیں بہت وقت لگے گا۔


ڈاکٹر جا چکی تھی ریان تھکے قدموں سے واپس بینچ پر بیٹھ گیا۔


احتشام صاحب نے ریان کو کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا تھا اس کی تکلیف اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔


❤❤❤