تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 10
از۔ طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
❤️❤️❤️
ریان نے مرحا کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو اس نے فوراً آنسو صاف کیے۔
تصویر کو صوفے پر رکھ کر وہ اپنے روم کی طرف آئی۔
ریان وہی روم کے دروازے پر کھڑا اسے دیکھنے لگا۔
مر جانے ایک بڑا سا بیگ نکالا اس میں اپنا سامان ڈالنے لگی۔
ریان نے مرحا کے روم کو ایک نظر دیکھا۔
لڑکیوں کی پسند کی طرح اس کا کمرہ پنک کلر کا نہیں تھا۔
لائٹ پر پل کلر کی دیواریں اور سارا فرنیچر وائٹ کلر کا تھا۔ اس نے اندازہ لگایا تھا مر حا کا کمرہ کہیں سے بھی بے ترتیب نہیں تھا ایک ایک چیز اپنی جگہ پہ تھی۔
کمرے میں ایک کونے پہ ایک بڑا سا ٹیڈی بیئر رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ کئی قسم کی ڈولز رکھی ہوئی تھیں۔ ایک طرف اسکیچنگ کا سامان تھا۔
تم اسکیچنگ کرتی ہو ؟
ریان کے پوچھنے پہ مر جانے اس کو دیکھ کر گردن ہلائی تھی۔
مر حا سارا سامان پیک کر کے دوسرے روم میں آئی جہاں موسیقی کا سامان موجود تھا۔
مرجانے اس روم کو ایک نظر بھر کر دیکھا۔
ابھی کچھ دن پہلے تک تو وہ اپنے بابا کے ساتھ اس روم میں بیٹھ کر سنگنگ کرتی تھی۔ کیا اچھا وقت اتنی جلدی گزر جاتا ہے۔
مر جانے دل میں سوچاتھا۔ ریان کو یہ سب دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ ایسا ہی ایک روم اس نے ایمان کی خواہش پہ اپنی چھت پہ بنا رکھا تھا جہاں ہر ویک اینڈ پہ شاہ میر کے ساتھ سنگنگ کرتا تھا۔
لگتا ہے تمھارے بابا بہت اچھی سنگنگ کرتے تھے۔
ریان کے کہنے پہ مرحا کے لب مسکرائے۔
جی بابا اور میں یہاں بیٹھ کر سنگنگ کرتے تھے۔
مرحا کی بات پہ ریان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
کیا واقعی تم بھی سنگنگ کرتی تھی۔
ریان کو حیرت میں دیکھ کر اس نے مسکرا کر اپنا گٹار اٹھایا۔
مر جانے گٹار بجایا تو ریان کو یقین کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ بہت اچھا گٹار بجارہی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا۔
ریان بے ساختہ مسکرایا تھا۔ اسے اتنی خوشی کیوں ہوئی وہ نہیں جانتا تھا مگر اسے اچھا لگا تھا۔
مر جانے ایک ڈائری نکالی اور دو نمبر نکال کر ریان کی طرف بڑھائے۔
ریان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
یہ میرے ماموں جان اور لالا کا نمبر ہے۔ آپ ان پر کال ملا کر مجھے دیں گے پلیز۔
مرحا کی بات پر اس نے ہاں میں سر ہلا کر پہلے ساحر کا نمبر ملا کر مرحا کو دیا۔
کال نہیں لگ رہی پتہ نہیں لالا کہاں ہیں۔
مرحا کیا تمھارا سگا کوئی بھائی ہے تم نے بتایا کیوں نہیں۔
ریان کے کہنے پہ مر جانے نہ میں گردن ہلائی۔
وہ میرے چاچا سائیں کے بیٹے ہیں جانے سے پہلے وہ ہمارے ساتھ تھے ہمیں جس دن گاؤں جانا تھا اس دن ان کی کینیڈا کی فلائٹ تھی۔ مگر اس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا پتہ نہیں لالا کہاں ہیں۔
مرحا نے تفصیل بتائی۔
اچھا یہ دوسرا نمبر کس کا ہے۔
ریان نے پوچھ کر نمبر ڈائل کیا۔
یہ ماموں جان کا نمبر ہے وہ یہیں گھر کے پاس رہتے ہیں مگر آتے ہوئے میں نے دیکھا انکا گھر بند تھا
انہوں نے مامی جان اور آرزو کو لے کر ورلڈ ٹور پہ جاتا تھا پتہ نہیں وہ چلے گئے ہیں یا ہیں۔
مرحا کی بات پر ریان کو تسلی ہوئی کم سے کم کوئی تو اس کا رشتہ تھا۔
نمبر بند جارہا ہے۔ کسی اور کا نمبر ہے انکے گھر میں ہے۔
ریان نے کہا تو مر جانے نہ میں گردن ہلائی۔
نہیں آرزو کا نمبر میرے موبائل فون میں تھا مگر وہ تو ایکسیڈنٹ میں ٹوٹ گیا۔
آپ اس نمبر پر ایک واٹس ایپ میسیج چھوڑ دیں جب ماموں جان دیکھے گئے تو کال کر لیں گے۔
ریان نے مرحا کی بات سمجھتے ہوئے مرحا کے نام سے ایک میسج کر دیا تھا۔
اب چلیں!
ریان نے پوچھا تو مر جانے ہاں کری۔
مرحا آگے جانے لگی مگر اس کا پاؤں کو ٹیبل سے زور سے ٹھو کر لگی۔
مر حادھیان سے ادھر آؤ یہاں بیٹھو۔
ریان پریشان ہو ا تھا۔ مرحا کو صوفے پہ بٹھا کر خود اس کے قدموں میں بیٹھ کر اس کا پاؤں دیکھنے لگا۔
یہ ۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں پلیز آپ چھوڑیں میں ٹھیک ہوں۔
اس کے اس طرح قدموں میں بیٹنے سے مر ابو کھلائی تھی۔
تمھارے پاؤں میں لگ گی یار مجھے دیکھا درد ہورہوگانہ ہیں۔
ریان کے لہجہ میں اس کے لیئے فکر صاف جھلک رہی تھی مگر مرحا کو اس طرح اس کا قدموں میں بیٹھ جانا اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ اس سے بڑا تھا اس کے لیے بہت قابل احترام تھا اس کی جگہ قدموں میں ہر گز نہیں تھی۔
ریان میں بالکل ٹھیک ہوں نہیں لگی مجھے پلیز آپ پریشان نہیں ہوں آپ انھیں آپ کی جگہ قدموں میں نہیں ہے۔
مرجانے جذبات میں آکر کیا کہا تھا اسے خود سمجھ نہیں آئی پھر اپنی ہی کہی بات پر نظریں اپنے آپ جھکی تھیں۔
ریان کے لبوں پہ بھر پور مسکراہٹ آئی۔
مر جانے پہلی بار اسے اس کے نام سے بلایا تھا۔ اسے اپنا نام اتنا پیارا آج سے پہلے کبھی نہیں لگا تھا۔
پھر کہاں ہے میری جگہ۔
ریان نے مرحا کو دیکھ کر پوچھا جو کنفیوز سی نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
ریان کے پوچھنے پر مر جانے ریان کو دیکھا جو بہت دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
دونوں کی نظریں ملی تھیں۔
دو دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں۔ یہ لمحہ اتنا سحر انگیز تھا کہ دونوں اس لمحے میں قید ہو گئے۔ بولو کہاں ہے میری جگہ ۔
ریان کے ایک بار پھر پوچھنے پہ مر حاہوش میں آئی اور جلدی سے اس کے پاس سے ہٹی تھی۔ شرم سے اس کے چہرہ سرخ ہوا تھا۔
ریان مسکراہٹ دبا کر اٹھاوہ اسے اور کنفیوز نہیں کرنا چاہتا تھا۔
بیچ بیچ چلیں سس سب انتظار کر رہے ہونگے۔
مرجانے ٹوٹے لفظوں میں کہا تو ریان نے اس کے انداز میں جواب دیا۔
حج جی بیچ چلیں۔
ریان کے ایسے کہنے پہ مرحا اپنی مسکراہٹ چھپاتی باہر نکل آئی تھی وہی ریان کے چہرے پہ بھی زندگی سے بھر پور مسکراہٹ تھی۔
ریان نے اس کے لیے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا تو وہ بنا اس کی طرف دیکھے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ جبکہ ریان
نے بھی اسے مزید پریشان نہیں کیا تھا۔
صاحب آپ مرحابی بی کو کہاں لے جا رہے ہیں۔
اسفند یار نے ریان سے پوچھا تو ریان کی ایک گھوری اس کی زبان کو بریک لگا گئی۔
تمھاری بی بی ہاسٹل میں رو رہی ہیں جب تک اس کے لالا نہیں آجاتے جب وہ آجائیں گے تب تمھاریبی بی بھی آجائیں گی۔
ریان کہہ کر گاڑی تیزی سے وہاں سے نکال کر لے گیا۔
آپ نے لالا سے جھوٹ کیوں بولا۔
مرحا نے ریان سے پوچھا۔
تمھارے یہ لالا مجھے مسٹر گڑ بڑ لگ رہے ہیں اس لیے۔
مرحا نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ اسفند لالا پچھلے سات سال سے ہمارے ہاں کام کر رہے ہیں۔ وہ کیوں کوئی گڑبڑ کریں گے۔
مر جانے ریان کو سمجھانا چاہا۔
مر حامیری بات غور سے سننا اور اپنے دماغ میں اچھی طرح یہ بات بٹھا لینا تمھیں فائدہ ہو گا۔
مر حاجب تک ماں باپ ساتھ ہوتے ہیں نہ تب تک اس دنیا کے رنگ الگ ہوتے ہیں لیکن جب سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے نہ تو یہ دنیا اصل رنگ دکھاتی ہے۔ تمھیں بھی اس بات کا اندازہ بہت جلد ہو جائے گا۔ تمھیں اپنے قریبی لوگ ایسے ملیں گے جو تمھیں پہلے چاہتے ہوں گے مگر اب ان کا انداز ہی الگ ہو گا۔
تھا۔ ماں باپ کے مرنے پہ تو اپنے خون کے رشتے بھی رنگ بدل لیتے ہیں یہ تو پھر تمھارے گھر کا ملازم تھے
یاد رکھنا سانپ کو دودھ پلانے سے اس کے اندر کا زہر نہیں مر جاتا۔ اس لیے اب سے کسی پہ بھی فوراً بھروسہ نہیں کرنا چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو چاہے تمھارے ماموں ہوں یا تمھارے ساحر لالا یا چاہے میں ہی کیوں نہ ہوں۔ اور دوسری چیز کسی کو بھی اپنی کمزوری نہیں دینا۔ کیا چیز تمھیں توڑ سکتی ہے تمھیں کمزور کر سکتی ہے یہ کسی کو پتہ نہیں لگنے دینا۔
ریان نے اسے زندگی کا سب سے اہم پہلو سمجھایا تھا۔
ریان کی بات پر مرحا مسکرائی۔
آپ بہت اچھی باتیں کرتے۔ میں آپ کی یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔
مرحا کے کہنے پہ ریان مسکرایا تھا۔
گڈ گرل ویسے تم ناراض نہیں ہو مجھ سے۔
ریان نے مسکراہٹ دبا کے پوچھا تو مر جانے واپس اپنے گالوں کو پھولا کر چہرہ پھیرا۔ مطلب وہ ابھی بھی ناراض تھی۔
مرحا کی حرکت پر ریان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
فکر مت کرو تمھیں کیسے منانا ہے یہ میں نے سوچ لیا ہے کل صبح تک تمھاری ساری ناراضگی دور ہو جائے گی۔
ریان نے مرحا کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے سوچا۔
اس کے دل نے اعتراف کر لیا تھا مرحا اسے پسند ہے وہ اچھی لڑکی ہے معصوم دنیا جہاں کی چالاکیوں سے دور۔ ہاں اس کی معصومیت نے ریان حیدر کے دل کی دیوار کو پکھلا دیا۔ وہ ریان حیدر جو لڑکیوں سے دور بھاگتا تھا مگر یہ معصوم لڑکی اس کے دل میں جگہ بن گئی تھی۔ وہ محبت کا دعویدار تو نہیں تھا مگر
اس بات کو اس نے دل سے قبول کیا تھا کہ وہ مر حا کو پسند کرنے لگا تھا۔
ریان مرحا کو لے کر گھر پہنچا تو سب لوگ ان کے منتظر تھے۔ لیں آگئے جناب!
ایمان نے ریان کو دیکھ کر کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا۔
مرحا بھی وہی صوفے پر سب کے ساتھ بیٹھ گئی تو ریان آکر اس کے برابر میں بیٹھا جس سے مر جانروس ہوئی۔ وہ نامحسوس انداز میں ریان سے فاصلے پہ ہوئی مگر یہ نہ محسوس انداز ریان نے محسوس کر لیا تھا۔
وہ اس سے گھبراتی تھی شرماتی تھی یہ احساس ہی بہت خوبصورت تھا۔ ریان کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے مگر وہ بہت خوبصورتی سے اپنی مسکراہٹ چھپا گیا۔
ریان کوئی پر اہلم تو نہیں ہوئی کوئی تھا تو نہیں وہاں۔
احتشام صاحب نے پوچھا۔
بابا ابھی تو وہاں کوئی نہیں تھا مگر مجھے چوکیدار پہ شک ہو رہا ہے اس کا اند از تشویش والا تھا اور مجھے نہیں
لگا کہ اسے اپنے مالک کی ڈیتھ سے کوئی خاص فرق پڑا ہے۔
ریان کی بات پر احتشام صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی۔
ایمان ریان کے برابر میں آکر بیٹھی تو ریان نے مرحا کی طرف ہو کر ایمان کے لیے جگہ بنائی۔
ریان اور مر حاکو دیکھ کر سمینہ بیگم مسکرائی۔
کیا بات ہے ماما آپ ایسے کیوں مسکرارہی ہیں۔
شایان نے انہیں مسکراتا دیکھ پوچھا۔
کچھ نہیں بس ان دونوں کو دیکھ رہی ہوں مرحا اور ریان کتنے اچھے لگ رہے ہیں نہ ایک ساتھ۔
سمینہ بیگم کے کہنے پہ شایان نے بھی ان دونوں کو دیکھا۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا وہ دونوں بہت خوبصورت لگتے تھے ایک ساتھ۔
ماما ابھی آپ بہت آگے کی سوچ رہی ہیں بھائی نے سن لیانہ تو کیا ہو گا پتہ ہے نہ۔
شایان نے آنکھ دبا کر کہا تو سمینہ بیگم نے اس کے ہاتھ پہ چپت لگائی۔
ایمو ایمو ایمو۔۔۔۔
سب بیٹھے تھے جب شہیر بھاگتا ہوا آیا۔
کیا ہو گیا شہیر اتنا شور کیوں مچارہے ہو۔
ریان کی آواز پر شہیر کو بریک لگی۔
بھائی بات ہی ایسی ہے۔ آج شام میں ایمان کا رزلٹ آچکا ہے جس کی انہیں خبر بھی نہیں ہے۔
کیا اااا۔ ایان جوک کم کر لی تھی۔
وہ کیسے بھول گئی تھی آج اس کا رزلٹ آنا تھا۔
ایمان ریلکس بچہ ابھی چیک کر لیتے ہیں۔ شاہ میر جاؤ جلدی سے لیپ ٹاپ لے کر آؤ اور رزلٹ چیک کرو۔
ریان کے کہنے پہ شاہ میر اپنا لیپ ٹاپ لینے چلا گیا۔
مرحاپتہ نہیں کیا ہو ا ہو گا مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے۔
ایمان نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کہا تو اس نے اسے حوصلہ دیا۔
اچھا ہی ہو گا پریشان نہیں ہو ایمان۔
ارے مرحا آپ ان کو نہیں سمجھائیں ہر بار اچھے مار کس لیتی ہیں پھر بھی ایسے ہی ڈرتی رہتی ہیں۔ ڈونٹ ٹیک اٹ سیر لیں۔
شہیر کی بات پر مرحا مسکرائی۔ اس کے گالوں کہ ڈمپل نمایاں ہوئے۔
اس کی مسکراہٹ دیکھ کر ریان کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ آئی۔
ایمان انشاہ میر نے افسردہ کی آواز میں کہا تو ایمان رونے والی ہو گئی۔
بھائی پلیز بتائیں نہ کیا ہوا ہے کیا آیا رزلٹ۔
ایمان نے روتی ہوئی شکل بنا کر پوچھا۔
شاہ میر نہیں تنگ کروا بھی کے ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔
ریان نے کہا تو شاہ میر نے مسکراہٹ چھپائی۔
بس ہو ہی گئی ہیں پاس جیسے تیسے۔
شاہ میر نے افسردگی سے کہا تو ایمان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
کتنی غلط بات ہے آپ اسے کیوں پریشان کر رہے ہیں ادھر دیکھائیں مجھے۔
مرحانے شاہ میر کو ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔ ایمان کو اپنے ساتھ لیتے ہوئے آگے بڑھ کر شاہ میر کے آگے سے لیپ ٹاپ اپنے آگے رکھا۔
مرحا کا یہ نداز سب کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیر گیا۔ اسے اپنی دوست کے آنسو برداشت نہیں ہوئے تھے۔
دیکھو کتے اچھے گریڈ سے پاس ہوئی ہو اور ایسے ہی رونے لگ گئی ہو۔
مرحانے ایمان کے سامنے اسکرین کی تو وہ خوشی سے چیخ اٹھی۔
سب لوگ بہت خوش تھے۔
ریان نے ایمان کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔
اب ایمان ہم سب کو ٹریٹ دے گی۔
ریان بھائی کے پیسوں سے۔
شاہ میر نے ٹریٹ کا کہا تو شایان نے اس کی بات مکمل کی جس پر سب کے قہقہے گونجے تھے۔
کتنا اچھا لگتا ہے خوشیوں سے بھر اگھر ۔ اپنوں کا ساتھ انسان کو کتنا پر سکون کر دیتا ہے۔
مر جانے دل میں سوچا کچھ دن پہلے وہ بھی کتنی خوش تھی اس کے ماں باپ اس کے ساتھ تھے اور ساحر
نے بھی تو آکر ایک بھائی کی کمی کو پورا کر دیا تھا۔ لیکن آج اس کے ماں باپ بھی اس سے دور ہو چکے تھے اور ساحر سے بھی رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔
مرحا کو گم سم دیکھ شاہ میر نے ریان کو اشارہ کیا اس کا اشارہ سمجھ کر ریان نے مرحا کو دیکھا جو کھوئی کھوئی سی تھی۔
مر حاتم بھی اپنے پڑھائی شروع کرو اب ایک ہفتے کا ویسے ہی لوس ہو گیا ہے ایمان اور تم اس منڈے سے کالج جاؤ اور اپنی اسٹڈیز پر فوکس کرو۔
ریان نے مرحا سے کہا تو اس نے ریان کی بات پر نہ میں گردن ہلائی۔
مجھے میڈیکل نہیں پڑھنا۔
مرحا کی بات پہ سب لوگ خاموش ہو گئے۔
کیوں نہیں پڑھنا تم تو ڈاکٹر بنا چاہتی تھیں نہ ایمان نے بتایا تھا۔
ریان نے ایمان کو دیکھ کر کہا۔
ایمان نے ریان کی بات پہ ہاں میں گردن ہلائی۔
میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی یہ میری اپنی خواہش تھی مگر بابا چاہتے تھے میں بزنس پڑھوں تا کہ ان کا بزنس سنبھال سکوں۔ میں اپنے بابا کے لیے بزنس کی پڑھائی کرنا چاہتی ہوں۔ بابا نے بہت محنت سے اپنا بزنس سیٹ کیا تھا میں انکی محنت کو مٹی میں ملنے نہیں دے سکتی۔
مرحا کی آنکھوں میں نمی آئی جسے اس نے فوراً صاف کیا تھا۔ ہاں اب وہ رونا نہیں چاہتی تھی اس کے ذمہ بہت سے کام تھے اس نے رو رو کر خود کو بالکان نہیں کرنا تھا بلکہ بہادری سے ہر سچویشن کو فیس کرنا تھا۔
مرحا کی بات سن کر سب کو خوشی ہوئی تھی۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے میں کل ہی تمھارا کسی بہت اچھے کالج میں ایڈمیشن کروادیتا ہوں۔
ریان نے مرحا کو دیکھ کر کہا تو وہ مسکرائی۔
اس سے پہلے مجھے ایک فیور اور چاہیے کیا آپ مجھے کل بابا کے آفس لے جاسکتے ہیں۔
مرحا کے کہنے پہ ریان نے مسکرا کر ہامی بھری۔
اچھا چلو اب تم دونوں کھانا تو کھالو ہم سب کھا چکے ہیں۔
سمینہ بیگم نے کہا تو ریان نے من نے تو نے منع کر دیا۔ rah نہیں ماما مجھے مر حا کو لے کر ابھی کہیں جانا ہے ۔ جاتا ہے۔
ریان کی بات پر مرحا کنفیوز سی اسے دیکھنے لگی۔
اس ٹائم کہاں جاتا ہے۔
احتشام صاحب نے پوچھا۔
بابا انسپکٹر شیراز کے پاس ایکسیڈنٹ کیس کے سلسلے میں وہ مرحا سے ملنا چاہتا ہے ابھی اسکا میسج آیا ہے کہ
وہ فری ہے اور آپ کو پتہ نہ وہ کھٹروس کتنی مشکل سے وقت دیتا ہے۔
ریان نے تفصیل بتائی۔
ہاں بھئی تمھارا کھٹروس اکلوتا دوست۔
احتشام صاحب نے کہا تو ریان مسکرایا۔
انسپکٹر شیر از اور ریان ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے انکی دوستی بھی بہت گہری تھی۔ لیکن پھر ریان اور شیر از کی فیلڈ ز الگ ہو گئیں مگر ان کی دوستی بر قرار رہی۔
ایک روز شیر از کو ایک لڑکی سے انتہا کا عشق ہو گیا مگر اس لڑکی کے پیرینٹس اس کی پولیس کی نوکری کی وجہ سے اس کے رشتے کے لیے نہیں مان رہے تھے۔ تب ریان نے اس کی بہت مدد کی تھی۔ اس کی شادی صرف ریان کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی تھی اور تب سے ریان اور شیر از کی دوستی اور بھی گہری کو گئی۔
ریان نے مرحا کا کیس انسپکٹر شیراز کے ہینڈ اوور کرنے کی درخواست کی تھی جو کہ منظور ہو گئی تھی۔ مرحا کے معاملے میں وہ صرف انسپکٹر شیر از پر ہی بھروسہ کر سکتا تھا۔
کونسا کیس میں نے آپ کو بتایا تو تھا ہماری گاڑی کے بریک فیل ہوئے تھے۔
مر جانے ریان کو دیکھ کر کہا تو اس نے گہری سانس لی۔
مرحا تمھاری گاڑی کے بریک فیل نہیں ہوئے تھے کیے گئے تھے۔ یہ ایک مرڈر پلاننگ تھی جو کامیاب رہی۔ مجھے ڈاؤٹ تھا اس لیے میں نے اس کیس کی تحقیقات کروائی تھی اور اس سے یہ کلیئر ہو گیا کہ یہ کوئی ایکسیڈنٹ نہیں تھا سوچی سمجھی ایک سازش تھی۔
ریان کی بات پر مرحا کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔
اس کے ماں باپ کا قتل کیا گیا تھا وہ بے موت مارے گئے تھے۔ مرحا کا صبر ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔
آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے تو سمینہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔ انکا آنچل ملتے ہی مرحا ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
سب کی آنکھیں وہاں تم ہو چکی تھیں۔ شاہ میر سے اس کی تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی دوسری طرف ریان کا بھی یہی حال تھا۔
بھائی ان ظالموں کو چھوڑیے گا نہیں انہیں ایسی سزا دلوائے گا کہ انکی عقل ٹھکانے آجائے۔
شاہ میر نے ریان سے کہا تو اس نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر ہامی بھری۔
ریان مرحا کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
مر حامیری طرف دیکھو میری بات سنور ریان نے مرحا سے کہا تو اس نے روتے ہوئے ریان کو دیکھا۔
اس طرح رونے سے تم خود کو کمزور کر دو گی تمہیں اپنے ماں باپ کے قتل کا مقدمہ لڑنا ہے ابھی اور وہ ایسے نہیں لڑا جائے گا تمھیں اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے بنا کسی خوف کے بنا کسی ڈر کے۔ میں تمھارے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں تم سے تمھارے ساتھ ہوئے اس ظلم کا بدلہ ضرور لوں گا۔ جس نے بھی یہ سب کیا ہے اسے بخشوں گا نہیں۔
ریان کی باتوں کو سمجھ کر مرحا نے خود کو سنبھالا تھا۔ ہاں اسے لڑنا تھا اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو وہ آزادی سے رہنے نہیں دے گی اسے انتقام لینا تھا۔
اگر ریان نہ ہوتا تو اسے کبھی پتہ ہی نہیں لگ پاتا کہ اس کے ماں باپ کو قتل کیا گیا تھا۔ کبھی کبھی آپ کے خون کے رشتے آپ کے لیے وہ نہیں کر پاتے جو ایک اجنبی کر دیتا ہے۔
مرحا نے ریان کو دیکھ کر سوچا جو خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔
میں جانتا ہوں میں بہت ہینڈ سم ہوں کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے میڈم۔
ریان کی بات پر مرحا مسکرائی تھی۔
تھینک یو آپ بہت اچھے انسان ہیں آج اگر آپ نہیں ہوتے تو پتہ نہیں میرا کیا ہوتا۔
مرحا کی بات پر ریان کے عنابی لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
مجھے جان کر خوشی ہوئی میں اچھا ہوں بٹ ٹرسٹ کی مرحا میں اتنا اچھا صرف تمھارے لیے ہوں۔
ریان کی بات پہ مر جانے بے ساختہ اسے دیکھا۔
کیوں ! مر جانے ریان کو دیکھ کر پوچھا۔
ریان نے گاڑی کو بریک لگائی۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں۔
مجھے نہیں پتہ مرحا میں خود بھی نہیں جانتا مجھے نہیں پتہ کیوں میں تمھارے لیے اتنا اچھا ہوں کیوں مجھے تمھاری فکر ہوتی ہے آج تک میں نے کبھی کسی لڑکی کو اپنے اتنے قریب نہیں رہنے دیا جتنا قریب تم رہنے لگی ہو۔
ریان نے اپنے دل کی تمام باتیں مرحا سے کر دیں تھیں۔
ریان نے اپنے جذبات مرحا کے سامنے بیان کیے تو اس کی نظر میں خود بخود جھک گئیں۔ دل کی دھڑکن
اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی تھی۔
اب تم ایسے شرماؤ گی تو میں تو جان سے جاؤں گا۔
ریان نے کہا تو مر جا گاڑی سے باہر دیکھنے لگی ۔
دل میں عجیب سی گدگدی ہوئی تھی۔ لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔ دل کی دنیا بدلی تھی۔ ایک خوشگوار سے احساس نے دل میں جگہ بنائی تھی۔
ریان نے مسکرا کر دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
مرحا کا شرمانا اس کے دل کو اور بے قرار کر گیا تھا۔ مسکراہٹ اس کے لبوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی۔
محبت نے دونوں کے دلوں میں پہلا قدم رکھ دیا تھا۔
ریان نے ایک گھر کے باہر گاڑی روکی۔
آجاؤ امر حا کی سائڈ کا دور کھول کر اس نے مرحا کو باہر آنے کا کہا تو وہ گاڑی سے باہر نکلی۔
مجھ پہ بھروسہ کرتی ہو.
ریان کے اچانک پوچھنے پر مر جانے ہاں میں گردن ہلائی۔
کتنا بھروسہ کرتی ہو۔
ریان نے دوبارہ پوچھا۔
شاید سب سے زیادہ خود سے بھی زیادہ۔
مر جانے بے ساختہ کہا۔
تو بس گھبرانا نہیں پریشان نہیں ہو نا میں ساتھ ہوں تمھارے بس وہ جو بھی کچھ پوچھے اسے بتا دینا باقی سارا کام میرا ہے میں سب سنجال لوں گا۔ ..
ریان نے کہہ کر مر حا کو اندر چلنے کا اشارہ کیا تو وہ اس کے پیچھے چل دی۔
ریان اور مر جاگھر میں داخل ہوئے تو ایک لڑکی نے انکاو یکم کیا۔
اسلام و علیکم ریان بھائی کیسے ہیں آپ کافی دن بعد چکر لگا۔ اسلام و علیکم ۔ آپ کیسی ہیں مر حا۔ سوری
سوری اپنا انٹر و تو میں نے دیا ہی نہیں۔ میر انام ماریہ ہے۔ ماریہ شیر از۔
❤️❤️❤️
0 Comments
Post a Comment