تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 11

از۔ طوبیٰ صدیقی


 

°°°°°°


❤❤❤


ماریہ نے مرحا سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔


مرحا کو مار یہ بہت اچھی لگی۔


ہائے ریان واٹس اپ۔


شیر از کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ریان سے ملا۔


ہیلو مرحا بھا۔۔۔ اس سے پہلے شیر از اپنا جملہ مکمل کر تاریان نے اسے آنکھیں دیکھائیں تو وہ خاموش ہو گیا۔


شیری یہ مرحا ہے اور مرحا یہ شیر از ہے میرا اکلوتا دوست اور یہ اسکی وائف ماریہ ۔ ماریہ ایسی ہی ہے بہت زیادہ بولتی ہے۔ ڈونٹ مائنڈ۔


ریان نے کہہ کر مر حا کو ونک کیا تو وہ مسکرادی۔


ایک کام کرتے ہیں پہلے ڈنر کر لیتے ہیں پھر کام کی باتیں کریں گے۔ کھانا کھا کر تو نہیں آئے نہ میری پیاری سی بیگم نے اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے بہت پیار سے تم لوگوں کے لیے کھانا بنایا ہے۔ اگر


تم لوگوں نے نہیں کھایا تو حلق میں ڈانڈا ڈال کر کھلانا مجھے بہت اچھے سے آتا ہے۔


شیراز نے کہا تو ریان نے قہقہہ لگایا۔


اپنی پولیس گیری کے مظاہرے تم پولیس اسٹیشن تک ہی رکھو ہم کھانا کھا کر نہیں آئے ہیں ڈونٹ وری تمھاری وائف کی محنت ضائع نہیں ہو گی۔


ریان نے مسکرا کر جواب دیا۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ماریہ مرحا کو اپنے ساتھ کے جاؤ ہماری پرنس سے تو ملواؤ اور کھانا بھی لگوالو بھوک لگ رہی ہے آج جناب کی وجہ سے کھانا اتنا لیٹ ہو گیا۔


شیر از کی بات پر ریان نے اسے گھورا تو وہ مسکرادیا جبکہ مرحا کو ماریہ اپنے ساتھ کے گئی۔


میں نے جو کہا تھا وہ سب انتظام کر دیا.


مرحا کے جانے کے بعد ریان نے شیر از سے پوچھا۔


ہاں ہاں کر دیا مگر تم اب بھی یہی کہو گے کہ وہ صرف تمھیں اچھی لگتی ہے تم پسند کرتے ہو بس۔


شیر از نے ریان کو دیکھ کر کہا۔


ہاں تو اس میں تو کوئی جھوٹ نہیں ہے اچھی لگتی ہے پسند کرنے لگا ہوں اسے۔


میرے بھائی یہ جو آپ کو ہو گئی ہے نہ اسے محبت کہتے ہیں۔ تم جو کرنے جارہے ہو وہ سب کسی کو پسند کرنے پر نہیں محبت کرنے پر کرتے ہیں اس کی اتنی زیادہ فکر کرنے لگے ہو اسے منانے کے لیے کیا کیا


کرنے کا سوچ رہے ہو اور کہتے ہو صرف پسند کرتا ہوں۔ ناکس جوک۔


ریان کی بات پہ شیر از نے کہا تو وہ مسکرادیا۔


یار دیکھ میں ابھی اس چیز کو نہیں سمجھا ہوں کہ مجھے اس سے محبت ہے یا نہیں ہے۔ میں اسے پسند کرنے لگا ہوں یہ بات میرے دل نے ایکسپٹ کی ہے تو تجھے بتا دی۔ جس دل نے کہار یان حیدر تمہیں مرحا سے محبت ہو گئی ہے اس دن بتادوں گا تجھے بھی۔


مگر ابھی میں خود شیور نہیں ہوں یار نو لڑکی مجھے صرف ایک ہفتہ پہلے ملی ہے اس کے لیے میں کیسے کہہ دوں کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ اور یقین کر جس دن مجھے مرحا سے محبت ہو گئی نہ اس دن دنیا کا کوئی انسان مجھے مرحا سے الگ نہیں کر سکے گا میں مرحا کو کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گا۔ وہ چاہے یا نہ چاہے اسے میرا ہونا پڑے گا۔ لیکن اگر محبت ہوئی تو۔ ابھی مجھے بس وہ اچھی لگتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔


ریان کی بات پر شیر از نے بھی ہتھیار ڈال دیے ریان سے اس بحث میں وہ نہیں جیت سکتا تھا۔ ریان سے اس بحث میں وہ نہیں جیت سکتا تھا اس کا نظریہ الگ تھا اس کے حساب سے کسی کو دیکھتے ہی اس سے محبت نہیں ہو سکتی۔ ریان یہ باتیں دماغ سے سوچتا تھا یہ سمجھے بنا کہ جب دل ایک بار کسی کو اپنا بنالے تو پہلی نظر کی محبت کیا کسی سے آواز سن کر بھی محبت ہو جاتی ہے۔ دل جب کسی کو اپنامان لے پھر دنیا قدموں میں ہو فرق نہیں پڑتا۔


ماریہ مرحا کولے کے ایک روم میں آئی جو بے تحاشہ خوبصورتی سے سجا ہو ا تھا۔ پورا کمرہ پنک کلر کا تھا جس میں باربی پرنٹ کا پورا فرنیچر بہت خوبصورتی سے سیٹ تھا۔ بیڈ کے پاس بنی اسٹیڈی ٹیبل پر تین سال کی پیاری سی بچی بیٹھی ڈرائنگ کرنے میں مصروف تھی۔


عیشو گڑیا دیکھیں مہمان آگئے۔


ماریہ نے اسے پکارا تو اس نے گردن موڑ کے دیکھا۔


گھنگریالے بالوں میں دو پونی بنائے دو دھیار حکمت والی گول مٹول سے بچی بے تحاشہ خوبصورتی سمیٹے ہوئے تھی۔


مرحا کو بچی بہت پیاری لگی۔ سب سے زیادہ اس کی کنچی آنکھیں کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھیں۔


ہیلو!


اس بچی نے مرحا کو ہیلو کیا تو وہ گھنٹوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی۔


ہیلو عیسشو کیسی ہو آپ۔


مر جانے اس کے ہاتھ پہ پیار کرتے ہوئے پوچھا۔


میں ٹھیک ہوں۔


عیشا نے جواب دیا۔ تو مر جانے اس کے گال چومے۔


چلو عیشو ڈیڈ بلا رہے ہیں ڈنر کریں گے نیچے ریان چاچو بھی آئے ہیں۔


ماریہ نے کہا تو عیشاریان کا نام سن کر فورا اپنے بابا کے پاس بھاگ گئی جہاں ریان موجود تھا۔


یان چاچو !


عیشا بھاگتی ہوئی آکر ریان کی گود میں چڑہی تھی۔


ارے میر ابچہ میری پرنس کیسی ہے.


ریان نے عیشا کے گال چومے۔


عیشو ٹھیک ہے۔ چلو دلدی ماما بلا رہی ہیں پیچ ترنا ہے نہ۔


عیشا نے معصومیت سے کہا۔ ویسے تو وہ بہت صاف بولنے لگی تھی مگر اس کے کچھ الفاظوں میں اب بھی تھوڑی تتلاہٹ تھی۔


عیشو میری جان پنج دو پہر میں کرتے ہیں رات میں تو ڈنر کرتے ہیں نہ۔


ریان نے پیار سے کہا اور اسے ڈائمینگ ٹیبل کی کرسی پہ بٹھا دیا اور خود مرحا کے برابر میں بیٹھ گیا۔ ماریہ


کچن سے آئی تو سب ایسے ہی بیٹھے تھے۔


چلیں شروع کریں ریان بھائی۔ مر حالو تم بھی کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔


ماریہ نے دونوں سے کہا۔


ماریہ کے کہنے پہ مرحا مسکرائی تو اس کے گالوں پہ ڈمپل پڑے جو عیشا بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔


چاچو آپ کی وائف بہت ٹیوٹ (کیوٹ ) ہیں.


عیشا کے کہنے پہ جہاں ریان نے سٹپٹا کر سب کو دیکھا وہی مرحا کانوالہ حلق میں اٹکا اور اسے زور دار پھندا لگا۔


مر جابری طرح کھانسنے لگی۔


مر حاتم ٹھیک ہو یہ لو پانی پیو۔


ریان نے پانی کا گلاس لے کر جلدی سے اس کے لبوں سے لگایا۔ مرحا کی آنکھوں سے پانی آنے لگا تھا۔


مرحا یہاں اوپر دیکھوا بھی ٹھیک ہو جائے گا۔


ریان کی فکر مندی دیکھ کر ماریہ اور شیر از دونوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔


میں ٹھیک ہوں۔


ریان اس کے پاس کھڑا تھا جس سے وہ کنفیوز ہوئی تھی۔ آپ کھانا کھائیں میں سچ میں ٹھیک ہوں۔


مر جانے ریان کو تسلی دی لیکن وہ مطمئن نہیں ہوا۔


ریان میرے بھائی ٹھیک ہے اب وہ آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہے مرحا سے زیادہ تو تمھاری حالت خراب ہو گئی۔


شیر از نے ریان کو چھیڑا تو مر حاجھینپ گئی اور ریان نے اسے گھوری سے نوازا اور اپنی جگہ پہ بیٹھ گیا۔


کھانا کھانے کے بعد شیر از مرحا اور ریان کو لے کر اسٹڈی روم میں چلا گیا تا کہ مرحا سے اس کیس کی ساری انظار میشن لے سکے۔


اد کے سو مس مرحا میں آپ سے جو بھی کچھ پوچھوں گا اس کا آپ صحیح جواب دیں گی بنا ہچکچائے بنا ڈرے۔ گاٹ اٹ۔


شیر از نے مرحا سے کہا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔


شیر از کالہجہ اس کا اند از اب بالکل بدل چکا تھا۔ سخت کڑک آواز تھوڑی دیر پہلے والے شیر از کی نہیں لگ رہی تھی۔


مرحا کو اب سمجھ آیا سب اسے کھڑوس کیوں بول رہے تھے۔


شیر از : تو مس مرحا یہ بتائیے کہ جب آپ لوگ گاؤں سے نکلے تھے تب آپ کی گاڑی ٹھیک تھی۔


مرحا: ہم گاؤں سے نکلنے کے بعد کافی آگے آگئے تھے تب بابا نے کہا کہ گاڑی کے بریک فیل ہو گئے ہیں۔


براز: گاؤں آتے ٹائم آپ کی گاڑی میں کوئی براہلم تو نہیں تھی کوئی گاڑی کا کام کروایا گیا تھا۔ آن


مرحا: نہیں۔۔ بابا نے گاؤں جانے سے کچھ ٹائم پہلے ہی نیو گاڑی لی تھی۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے۔ شیر از : آپ کے بابا کی گاؤں میں کسی سے کوئی دشمنی وغیرہ تو نہیں تھی۔


مرحا: بابا سولہ سال کے بعد گاؤں گئے تھے۔ دشمنی کا مجھے نہیں پتہ مگر میں نے ماما بابا کو بہت بار یہ کہتے سنا تھا کہ دادی صاحب بابا کو پسند نہیں کرتیں جس وجہ سے وہ گاؤں نہیں جاتے۔ ابھی بھی ساحر لالا


نے بتایا تھا کہ گاؤں کے حالات خراب ہیں اس لیے بابا گاؤں گئے تھے۔


شیر از : گاؤں جا کر وہاں کسی سے کوئی جھگڑا ہوا تھا۔


مرحا: دادی صاحب سے تلخ کلامی ہوئی تھی وہ چاہتی تھیں کہ میری شادی کر دیں بابا انکے پوتے سے لیکن میں نے منع کر دیا تھا۔ پھر اچانک بابا نے جانے کا بول دیا واپس جاتے ہوئے پتہ لگا کہ وہ لڑ کا شرابی تھا بابا کی اس بات پر دادی صاحب خفا ہو گئیں اور کہا کہ اب ان کا حویلی والوں سے کوئی رشتہ نہیں ہے


تو وہ کبھی اپنی شکل نہ دیکھائیں۔


مرحا کی باتوں پہ شیر از سوچ میں پڑ گیا تھا۔


مرحا ایک آخری سوال


آپ کے بابا کی پراپرٹی ہے گاؤں میں


شیراز کے سوال پر مرحا کے دماغ میں دھما کہ سا ہوا۔ اس نے ساحر کے منہ سے سنا تھا کہ گاؤں کے حالات خراب ہیں اور بابا ہی ٹھیک کر سکتے کیونکہ ان کا زیادہ حق ہے۔ تو کیا یہ سب اس وجہ سے ہوا۔ مرحا کو سوچ میں دیکھ شیر از نے اس کے آگے چٹکی بجائی۔ مرحانے ایک دم اسے دیکھا۔


بتائیے مرحا آپ کے بابا کی پراپرٹی تھی وہاں۔


مر جانے گردن ہاں میں ہلائی۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ہمارے گاؤں کا سارا نظام حویلی والوں سے چلتا ہے۔ گاؤں کے معاملات لوگوں کی زندگی کے فیصلے سب حویلی والے کرتے ہیں اور حویلی میں اس وقت دادی صاحب کا راج چلتا ہے۔ میں نے ساحر لالا کو کہتے سنا تھا کہ گاؤں کے حالات خراب ہیں گاؤں کے لوگوں کو بابا کی ضرورت ہے وہ ہی سب ٹھیک کر سکتے ہیں۔ یہ بات جب میں نے ماما سے پوچھی تھی کہ بابا سب کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ دادا صاحب کی وشیعت کے مطابق بابا کا گاؤں اور حویلی پہ حصہ 70 فیصد ہے باقی کا دس فیصد ماجد چاچا سائیں دس پر سنٹ امجد چاچا سائیں اور دس پر سنٹ رملہ پھوپھو سائیں کے نام ہے۔ مگر پھو پھو سائیں سولہ سال سے لاپتہ ہیں۔ بابا نے معلوم کروانے کی کوشش بھی کی تھی مگر ان کو بس اتنا پتہ لگا تھا کہ وہ کسی کو پسند کرتی تھیں اور اس کے ساتھ ملک سے باہر چلی گئی ہیں اس کے بعد سے حویلی میں ان کا نام کوئی نہیں لیتا۔


مرجانے تفصیل بتائی تو شیر از نے کچھ سوچ کر سر ہلایا۔


پھوپھو غائب ہیں مطلب ان کا بھی دس پرسنٹ امجد ماجد نے پاس چلا گیا اس کے بعد بھی آصف


صاحب کا حصہ زیادہ ہوا۔


تو کیا یہ سب پراپرٹی کے پیچھے کیا گیا۔


ریان جو اتنی دیر سے خاموشی سے سب سن رہا تھا شیر از کو دیکھ کر بولا۔


ہو سکتا ہے کچھ بھی ہو سکتا خون سفید ہو چکے ہیں دولت جائیداد کے پیچھے لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔


شیر از نے کہا تو ریان نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔


مجھے کچھ بتانا ہے۔


مرحا کے بولنے پر ریان اور شیر از دونوں نے اسے دیکھا۔


بولو کیا بتانا ہے۔


شیر از نے کہا تو مر جانے بولنا شروع کیا۔


میری پچھلی سالگرہ پہ بابا نے گاؤں کی ساری پراپرٹی میرے نام کر دی تھی۔


مرحا کی بات پہ شیر از ایک دن سیدھا ہوا۔


مرحا کیا یہ بات حویلی والے جانتے ہیں۔


شیر از نے بے چینی سے پوچھا۔


مجھے نہیں پتا اگر تو یہ سب پراپرٹی کے پیچھے ہوا ہے تو بابا کی ڈیتھ کے بعد انہیں پتہ لگ گیا ہو گا کہ یہ


سب میرے نام ہے مگر ان لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ میں زندہ ہوں۔


مرحا کی بات پہ ریان پریشان ہوا۔


انہیں پتہ ہے تبھی وہ تمھاری شادی اپنے پوتے سے کردار ہی 

تھیں۔


ریان کے بولنے پہ مر جانے اسے دیکھا۔


ریان ٹھیک کہہ رہا ہے۔ تمھاری شادی حویلی کے کسی بھی لڑکے سے ہوتی تو ساری پراپرٹی ویسے ہی حویلی والوں کے پاس آجاتی لیکن جب تمھارے بابا نہیں مانے تو انہوں نے راستے سے ہٹانا بہتر سمجھا۔


شیر از کی باتوں پر مرحا کی آنکھیں نم ہوئی۔


انکو پراپرٹی چاہیے تھی تو مانگ لیتی نہ میرے ماما بابا سے بڑھ کر تو نہیں تھی میں خود سب کچھ انہیں دے


دیتی۔ اس سب کے لیے انہوں نے میرے ماما بابا کو ہی مجھ سے دور کر دیا۔


شیر از نے ریان کو بیٹھے رہنے کا بول کر پاس رکھ پانی کا گلاس اٹھا کر مر حا کو دیا۔


مرحا تمھارا سارا اسٹیٹمنٹ لے لیا ہے میں نے اور یہ کیس میرے پاس ہے تو فکر نہیں کرو تمھارے ماما بابا کو انصاف ضرور ملے گا تم نے بس ہمت سے کام لینا ہے او کے۔


شیر از کی بات پہ مر جانے ہاں میں گردن ہلائی۔


ایمان سونے کے لیے لیٹی تو ایسا لگا جیسے اسے کسی نے پکارا ہو۔


وہ چونک کر اٹھ کر بیٹھی مگر کوئی نہیں تھا۔ اس نے پھر سونے کی کوشش کی مگر ایک بار پھر ایسا ہی احساس ہو ا جسے کوئی اس کا نام لے رہا ہو۔


ایمان کو اب نیند تو آنی نہیں تھی۔


وہ بیڈ سے اتری اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ ایک بار پھر پکارے جانے کا احساس ہوا تو اس کے قدم خود بخود ساحر کے کمرے کی طرف اٹھے تھے۔


اس ٹائم پتہ نہیں کیوں اسے ساحر کو دیکھنے کی خواہش جاگی تھی۔


وہ چلتی ہوئی کرے تک آئی تو کمرے میں شہیر کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ بیڈ کے قریب آئی تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔


ساحر آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔


ائی۔۔ مان۔ ساحر نے مدھم سی آواز میں اسے پکارا تھا۔ تو کیا اسے ساحر کی آواز سنائی دے رہی تھی مگر وہ تو اتنی ہلکی آواز میں بول رہا تھا کہ پاس لیٹے شہیر کو اس کی آواز نہیں آئی تھی۔ کچھ تو عجیب تھا۔ آپ اٹھ گئے۔ آپ ٹھیک ہو گئے۔


ایمان بے چینی سے اس کے قریب آئی تو ساحر کے لب ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اور اس نے


سر کے اشارے سے اپنے ٹھیک ہونے کا بتایا۔


ایمان نے زور زر سے شہر کو آواز دی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔


کیا ہوا ایمو سب ٹھیک ہے آپ ٹھیک ہو 


شہیر نے بے چینی سے پوچھا تو ایمان نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا۔


افففف بدھو انکو ہوش آگیا۔


ایمان کے کہنے پہ شہیر نے ساحر کی طرف دیکھا جو اسے گھور کر دیکھ رہا تھا۔


ارے ہاں واڈا نہیں تو ہوش آگیا۔


شہیر نے خوشی سے کہا۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


شہیر جاؤ جلدی بھیو کو اور باقی سب کو بلا کر لاؤ نہ۔


ایمان کے بولنے پر شہیر بیڈ سے چھلانگ لگا تا باہر بھاگا تھا۔


ائی۔ مان۔ ساحر نے ایک بار پھر ایمان کو پکارا تو وہ ساحر کے قریب جاکر کھڑی ہوئی تا کہ اس کی بات سہی سے سن سکے۔


جی بولیں میں سن رہی ہوں آپ کو۔


ایمان نے ساحر سے کہا۔


تم مجھ ۔۔ ایک ہون۔۔ نا۔ تم ۔۔ ھین کچ کچھ ہوات۔۔ تو نہیں ۔۔ن۔۔ نا


الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ساحر کے منہ سے ادا ہوئے تھے۔


میں بالکل ٹھیک ہوں کچھ بھی نہیں ہوا مجھے۔ مگر آپ کو میری وجہ سے اتنی تکلیف اٹھانی پڑی اس کے لیے ایم سوری پلیز آپ میرے بھائیوں سے غصہ نہیں ہوئے گا وہ بہت اچھے بس اس دن حالات ایسے بن گئے کہ غلط فہمی ہو گئی آپ میرے بھائیوں کو معاف کر دیجیے گا میں آپ کے سامنے ریکوئسٹ کرتی ہوں۔


ایمان نے ہاتھ جوڑ کر ساحر سے کہا تو وہ تڑپ گیا۔ ایمان کو اپنی بات منوانے کے لیے اس کی منتیں کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں تھی وہ تو خود اس کا ہر حکم سر آنکھوں پر رکھنا چاہتا تھا۔


اس سے پہلے ساحر کچھ بولنے کی کوشش کرتا شہیر کے ساتھ سارے گھر والے کمرے میں داخل ہوئے۔


ایمان پیچھے ہو کر کھڑی ہو گئی۔


شایان شاہ میر اس کے قریب آکر اسے دیکھنے لگے۔


تم ٹھیک ہو۔ کہیں درد تو نہیں ہو رہا کچھ بولنے کی کوشش کرو۔


شایان نے بے چینی سے بولا۔


م۔ میں ٹھ۔۔ یک ہوں۔


ساحر نے لفظ ٹوڑ توڑ کر ادا کیے۔


اس کو ٹھیک دیکھ کر سب نے شکر ادا کیا تھا۔


میں ریان کو بھائی کو فون کر تا ہوں۔


شاہ میر نے موبائل نکالا تو احتشام صاحب نے اسے روک دیا۔


نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے وہ صبح آئے گا عیشا اور ماریہ نے ان لوگوں کو روک لیا ہے ریان نے مجھے کال کر کے بتادیا تھا۔


احتشام صاحب کی بات پر شاہ میر نہیں ہاں میں گردن ہلائی۔


سب ہی لوگ تھوڑی تھوڑی باتیں ساحر سے کر رہے تھے ایمان بس پیچھے کھڑی ساحر کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔


ساحر سب سے بات کرتے ہوئے ایک نظر ایمان پر ڈال رہا تھا جو دور کھڑی اس کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔


ساحر کا دل بے ترتیب دھڑکا تھا۔ ایک تو دشمن جان سامنے کھڑی تھی اوپر سے اس کا مسکرا کر دیکھنا ساحر کے دل کو ڈھیروں سکون دے رہا تھا۔


دوسری طرف ایمان بہت خوش تھی اس نے کسی سے کوئی شکایت نہیں کی اس کے بھائیوں کو بھی اچھے سے جواب دے رہا تھا ساحر کے چہرے پہ غصہ نہیں تھا وہ مطمئن لگ رہا تھا اور یہی بات ایمان کو پر سکون کر گئی تھی۔


مرحا سے سارے سوال جواب ہونے کے بعد ریان نے مرحا کو ماریہ کے پاس بھیج دیا تھا۔


دیکھ ریان مرحا کی لائف بھی خطرے میں ہے اگر تو یہ سب پراپرٹی کے لیے ہے اور انہیں کیسے بھی پتہ لگ گیا کہ مرحازندہ ہے تو وہ لوگ کچھ نہ کچھ تو کریں گے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔


شیر از نے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا۔


ان لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ مرحا زندہ ہے۔


ریان کے کہنے پہ شیر از نے ریان کو دیکھا تو ریان نے اسے مرحا کے گھر کے چوکیدار کے بارے سب بتایا۔


مجھے پورا یقین ہے شیری اس نے ان لوگوں تک یہ خبر پہنچادی ہو گی۔


پھر تمہیں بہت محتاط رہنا ہو گا تم کہو تو مر حاکے لیے سیکورٹی اریج کروا دیتا ہوں۔


شیراز نے ریان کو مشورہ دیا۔


میرے ہوتے ہوئے مرحا کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا شیری۔ مرحا کو کسی نے گندی نظر سے دیکھا یا پھر اس کو تکلیف دینے کی کوشش کی تو قسم کھا کے کہتا ہوں اس انسان کو چیر کے رکھ دوں گا۔ وہ پہلے ہی بہت بڑی تکلیف سہ چکی ہے اب اور نہیں۔ اگر میرے ہوتے ہوئے بھی اس کو کوئی تکلیف دے سکا تو لعنت ہو میری محبت۔۔۔


ریان بولتے بولتے ایک دم خاموش ہو ا تھا۔ لمحہ ٹھر گیا۔ اس کی زبان سے خود وہ اعتراف ہو گیا جس سے وہ بھاگ رہا تھا۔ 


ریان نے شیر از کی طرف دیکھا جو اسے گہری مسکراہٹ کر ساتھ دیکھ رہا تھا۔


ریان نے ایک دم آنکھیں میچ لیں۔ جذبات میں آکر اس کے دل نے قبول کر لیا تھا کہ اسے محبت ہے اس معصوم لڑکی سے جس نے ریان کا دل بدل دیا تھا۔ اس کے دل نے اعتراف کر لیا تھا حادثے میں ملی


وہ پیاری سی لڑکی ریان کو دل و جان سے زیادہ عزیز ہو گئی تھی۔ جس کے لیے ریان جان دے بھی سکتا ہے اور لے بھی سکتا ہے۔


اب تم مجھے ایسے تو مت دیکھو یار۔


شیراز کے مسکرا کر دیکھنے پہ ریان نے چڑ کر کہا۔


نہیں نہیں آپ بولیں جناب آپ بولیں نہ وہ مجھے بس اچھی لگتی ہے صرف پسند کرتا ہوں ایک ہفتے کی ملی لڑکی سے محبت تھوڑی ہو جاتی ہے بولیں بولیں یہ سب میں سنا چاہتا ہوں۔


شیر از نے ریان کے بولے گئے الفاظ دوبارہ بولے تو وہ اسے گھورنے لگا اور گھورتے گھورتے ہی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ نے جگہ بنائی۔


اچھا ٹھیک ہے نہ ہو گئی محبت اس سے کیا کروں اب دل پہ تو کسی کا زور نہیں چلتا نا۔


ریان کے کہنے پہ شیر از نے پاس پڑا کشن اٹھا کر ریان کو مارا۔


اور جو میں کب سے بکواس کرے جارہا تھا تب سمجھ نہیں آرہی تھی تجھے۔


شیر از نے گھورتے ہوئے کہا تو ریان مسکرایا۔


اب یہ سب چھوڑ جو میں نے کرنے کو کہا تھا وہ کیا یا نہیں۔


ریان نے پوچھا تو شیر از نے سر جو جھکایا۔


جی جناب آپ نے جو جو کہا تھا وہ سب ارینج کر دیا ہے آپ کی یہ ڈیٹ بہت اچھی اور بہت رومانٹک رہے گی۔


پاگل کوئی ڈیٹ پر نہیں لے کر جارہا بس اسے منانے کے لیے کر رہا ہوں یہ سب اور ایک بات میری جان کھول کر سن لے اگر غلطی سے بھی تیرے منہ سے یہ بات میرے گھر والوں کے سامنے نکلی نہ تو جان سے مار دوں گا تجھے۔


ریان نے دھمکی دی تو شیر از نے قہقہہ لگایا۔


ارے ہاں آپ کا تو امیج خراب ہو جائے گا نہ کہ لڑکیوں سے دور بھاگنے والا ریان حیدر ایک لڑکی کے لیے کیا کیا کر رہا ہے۔ شیر از نے مزاق اڑایا۔


تو کر تارہ اپنی بکو اس میں مر حا کولے کے نکلوں ویسے ہی ہمیں بہت زیادہ دیر ہو جائے گی واپسی میں۔ ریان کہہ کر جانے کے لیے کھڑا ہوا تو شیراز نے بھی ہامی بھری اسے واقعی واپسی میں بہت لیٹ ہو جانا تھا۔


ریان باہر آیا تو مرحا عیشو کے ساتھ گول گول گھوم رہی تھی۔


اس کی کھلکھلاہٹ ریان نے آج پہلی بار سنی تھی۔


وہ بنا پلک چھپکے اسے دیکھتا گیا۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


اس کا دل ہی نہیں کیا کہ وہ مرحا کو اس وقت ٹوکے ۔ آج اتنے دن کے بعد مرحا کے چہرے پر کچی مسکراہٹ تھی جس نے ریان کے دل کو سکون بخشا تھا۔


خود پہ کسی کی نظریں محسوس کر کے مر حار کی اور مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں ریان کھڑا مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔


مرحا ایک دم جھینپ گئی۔


چلیں دیر ہو رہی ہے۔


ریان نے مرحا سے کہا تو اس نے ہامی بھری۔


یان چاچو آپ اب تب آؤ گے۔ پرتی گرل کو لے کر ۔


عیشو نے معصومیت سے پوچھا تو ریان نے اس کے دونوں گال چومے۔


میں جلدی ہی آوں گا پریٹی گرل کو لے کر ۔ ریان نے ایک نظر مرحا کو دیکھ کر عیشو کو جواب دیا تو وہ خوش ہو گئی۔


مرحا پریشان نہیں ہو نا ہم سب ہیں تم بالکل اکیلی نہی نہیں ہو۔


شیراز نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ مرحا مسکرائی۔


بات سن میں تو کہتا ہوں آج ہی پر پوز کر دے اچھا موقع ہے۔


❤❤❤