تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر   12

از۔ طوبیٰ صدیقی


 

°°°°°°


❤❤❤


شیر از نے ریان کے گلے ملتے ہوئے کان میں سرگوشی کی۔


بریک لگاؤ میری جان تم نے کہاوت نہیں سنی گرم گرم حلوہ کھانے سے منہ جل جاتا ہے۔ ابھی تھوڑا


صبر رکھو جب اسے پر پوز کروں گا تو تجھ سے ہی مشورہ لوں گا تو ان کاموں میں ماہر جو ہے۔


ریان نے بھی اس کے کان میں جواب دیا تو شیر از نے قہقہہ لگایا۔


شیر از اور ماریہ کو الوداع کہہ کر ریان مرحا کو لے کر نکل گیا مگر اس کا راستہ گھر جانے والے راستے سے مختلف تھا۔


مرجانے اسے دوسرے روٹ پر جاتا دیکھا تو وہ کنفیوز سی اسے دیکھنے لگی۔


گھر کا راستہ تو وہاں دوسرے روڈ سے ہے نہ پھر ہم کہاں جارہے ہیں۔


مرحا کے پوچھنے پر ریان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


بہت ضروری کام کے لیے جا رہے ہیں اس سے زیادہ ضروری کام اس وقت اور کوئی نہیں ہے۔


ریان کی بات پر مرحا کنفیوز ہوئی۔ لیکن ریان نے اس کی کنفیوژن دور نہیں کی۔


تقریبا آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ریان مرحا کو لے کر آبادی سے دور ایک علاقے میں پہنچا جہاں دو


گارڈز کھڑے تھے۔


ریان نے سوالیہ نظروں سے ریان کو دیکھا۔


ریان نے گاڑی سے اتر کر مرحا کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اپنا ہاتھ مرحا کے آگے پھیلایا۔


مرجانے کنفیوز ہو کر ریان کو پھر اس کے ہاتھ کو دیکھا پھر اپنا ہاتھ ریان کے ہاتھ میں دیا جسے اس نے مضبوطی سے تھام لیا۔


ہم کہاں آئے ہیں یہ تو بہت سنسان کی جگہ ہے یہاں تو جنگلی جانور بھی ہو سکتے ہیں ہم کیوں آئے ہیں یہاں۔


مرحا کے پوچھنے پہ ریان نے اسے ساتھ چلنے کا شارہ کیا تو وہ اس کا ہاتھ تھامے آگے آگئی۔


یہ لو گاڑی۔ شیر از صاحب کے گھر کے باہر کھڑی کر دینا۔


ریان نے اپنی گاڑی کی چابی گارڈ کو تھمائی تو وہ دونوں ریان کی گاڑی کی طرف چلے گئے۔


ریان نے مضبوطی سے مرحا کا ہاتھ تھاما ہو ا تھا۔


تھوڑا آگے آکر اس نے مرحا کا ہاتھ چھوڑا مگر اسے احساس ہی نہیں ہوا۔ مرحا کا سارا دھیان تو سامنے کے منظر پہ تھا۔


ایک بڑا سا درخت چھوٹی چھوٹی لائٹوں سے سجا ہوا تھا جیسے بہت سارے جگنوؤں کا جھرمٹ ہو ساتھ


ہی اس پہ کچھ لٹک رہا تھا جو دور سے سمجھ نہیں آرہا تھا۔ درخت سے تھوڑا آگے بیچ میں آگ جل رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی بیٹھنے کے لیے کرسیاں رکھی ہوئی تھی۔ اس کے پاس ہی ایک گٹار رکھا تھا ایک سائیڈ پہ دونئی سائیکلیں کھڑی تھی۔


مرحانے بے یقینی سے ریان کو دیکھا۔


مرحا کو حیرت میں مبتلا دیکھ کر ریان مسکرایا۔


ایک پیارا سائیڈی بیئر مجھ سے ناراض ہو گیا تھا۔ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا اپنے ٹیڈی بیئر کو کیسے مناؤں تو بس


ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے اپنے ٹیڈی بیئر کو منانے کی۔


ریان نے مرحا کے کان کے قریب سر گوشی کی۔


ریان کی بات پر مرحا کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے اور دونوں گالوں پہ ڈمپل گہر اہوا۔


ریان کے لیے اس کی ناراضگی اتنی معنی رکھتی تھی اس احساس نے ہی مرحا کے دل کو گد گدایا تھا۔ وہ تو اس سے اب ناراض بھی نہیں تھی لیکن ریان نے اسے منانے کے لیے کیا کچھ نہیں کر اتھا۔


مرحا چلتی ہوئی روشنیوں سے سجے درخت کے پاس آئی تو وہاں ایک بڑا سا کارڈ لٹک رہا تھا جس پہ بہت خوبصورتی سے "سوری مائی ٹیڈی بیئر "۔


مرحا کے لب مسکرائے تھے۔


ریان نے مرح کو منانے کے لیے اتنی تیاری کی تھی۔


مرحا مقناطیسی کیفیت میں تھی۔ اسے ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ ریان ایسا بھی کچھ کر سکتا ہے۔ اتنا میچور بندہ اس کی خوشی کے لیے اپنے مزاج کے خلاف جا سکتا ہے۔


آئی ایم سوری۔


ریان کی آواز پر مر جانے پلٹ کر دیکھا تو ریان کان پکڑے کھڑا اسے سوری بول رہا تھا۔


مرجانے مسکرا کر نہ میں گردن ہلائی۔


آپ نے یہ سب میرے لیے۔۔ مطلب یہ سب آپ نے کیسے کیا۔


مرحا کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ ریان کو کیا بولے۔


سب کچھ چھوڑو یہ بتاؤ تمھیں اچھا لگا یہ سب۔


ریان نے مرحا سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر ہاں کی۔


آؤ پھر یہاں بیٹھو۔


ریان نے مرحا کو کرسی پر بیٹھا یا اور خوود گٹار لے کر دوسری کرسی پہ بیٹھ گیا۔


تمھارے بابا تمھیں منانے کے لیے سنگنگ کرتے تھے نہ۔ میں تمھارے بابا کی جگہ کبھی نہیں لے سکتا


مگر تمھیں خوشی دینے کی چھوٹی سی کوشش کر سکتا ہوں۔


ریان کے کہنے پر مرحاکی آنکھوں میں بی آئی ۔ آہاں رونے کی نہیں ہو رہی ہے بالکل آنسو نہ نکلیں۔


ریان نے مرحا کو کہا تو اس نے فوراً اپنے آنسو پوچھے۔


مجھے نہیں پتہ تمھیں کسی ٹائپ کے گانے پسند ہیں بٹ میں زیادہ تر 90ء کے گانے کی گاتا ہوں پسند نہ بھی آئے تو سن لینا۔


ریان نے آنکھ دبا کر کہا تو مر حا مسکرادی۔ وہ اسے کیا بتاتی وہ تو اپنے بابا کے ساتھ خود پرانے گانے سنتے اور گاتے بڑی ہوئی ہے۔


ریان نے اپنی آنکھیں بند کی اور اپنی انگلیوں کو گٹار پہ حرکت دینا شروع کی۔


مرحا اس خوبصورت لمحے میں کھو گئی۔


ریان نے گانا شروع کیا تو مر جانے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے کانوں میں صرف ریان کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی۔


" تو تو ہے وہی دل نے جسے اپنا کہا


تو ہے جہاں میں ہوں وہاں اب تو یہ جینا تیرے بن ہے سزا


ہو مل جائیں اس طرح دو لہریں جس طرح


پھر ہوں نہ جدا ہاں یہ وعدہ رہا۔"


ریان نے گانا گاتے مرحا کی آواز سنی تو وہ آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا۔


اسے یقین نہیں آیا مر حا اتنا اچھا گاتی ہے اور وہ بھی اتنا پرانا گانا۔


" میں آواز ہوں تو، تو ہے گیت میرا


جہاں سے نرالا من مسیط میرا


ہو مل جائیں اس طرح دو لہریں جس طرح


پھر ہوں نا جد اہاں یہ وعدہ رہا"


مر جانے لائن مکمل کر کے ریان کو دیکھا جو اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔


مرحا کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ بکھری۔ ریان نے دوبارہ گانا شروع کیا۔ کسی موڑ پہ بھی نہ یہ ساتھ ٹوٹے میرے ہاتھ سے تیر ادامن نہ چھوٹے " اس نے مرحا کو دیکھا تو اس نے آگے کی لائن گنگنائی۔ کبھی خواب میں بھی نہ تو مجھ سے روٹھے میرے پیار کی کوئی خوشیاں نہ لوٹے " پھر ہوں نہ جد اہاں یہ وعدہ رہا تو ، تو ہے وہی دل نے جسے اپنا کہا تو ہے جہاں میں ہوں وہاں اب تو یہ جینا تیرے بن ہے سزا "


مل جائیں اس طرح دو لہریں جس طرح تجھے میں جہاں کی نظر سے چرالوں کہیں دل کے کونے پہ تجھ کو چھپالوں کبھی زندگی میں پڑے مشکلیں تو


مجھے تو سنبھالے تجھے میں سنبھالوں "


ہو مل جائیں اس طرح دو لہریں جس طرح


پھر ہوں نہ جد اہاں یہ وعدہ رہا"


گاتے گاتے ریان اٹھا اور مرحا کے سامنے اپنا ہاتھ کیا تو اس نے ریان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔


ریان اور مرحا ایک آواز ہو کر گنگنانے لگے اور ریان مرحا کا ہاتھ پکڑے اسے گول گھمانے لگا۔


یہ سب ایک حسین خواب کی طرح تھا۔


ریان نے اس گانے کے ذریعے اپنے دل کے تمام جذبات مرحا کے آگے رکھ دیے تھے۔


مرحا کو تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ریان نے اپنے جذبات اپنی محبت بیان کی ہے۔


مرا کی کھکھلاہٹ ریان کو سکون دے رہی تھی۔


یہی تو چاہتا تھا ریان مرحا کے چہرے پہ اپنے نام کی مسکراہٹ۔


مجھے آج سے پہلے سنگنگ میں کبھی اتنا مزہ نہیں آیا جتنا تمھارے ساتھ آیا۔ مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا تم


اتنا پرانا گانا گا سکتی ہو بلکہ مجھے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ تم گا سکتی ہو۔


ریان نے مرحا سے کہا۔


میں نے آپ کو بتا یا تو تھا میں بابا کے ساتھ سنگنگ کرتی تھی۔ میرے بابا کو بھی پرانے گانے پسند تھے وہ ہمیشہ پرانے گانے ہی گاتے تھے تو مجھے بھی وہی سب زیادہ پسند ہیں۔


مرحا کی بات پر ریان کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ یہ اس کی خواہش تھی کہ اس کی ساتھی اس کے ساتھ بیٹھ کر پرانے گانے گا سکے۔


اس کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔


آپ کو پتہ ہے یہ والا سونگ بابا ماما کے لیے گاتے تھے زیادہ تر ۔ بابا کہتے تھے اس گانے میں وہ سارے جذبات ہیں جو وہ ماما کے لیے رکھتے ہیں۔


اس گانے کے ذریعے آپ بہت خوبصورتی سے اپنی محبت کا اظہار کر سکتے ہیں۔


سچ کہتے تھے تمھارے بابا۔


ریان کی بات پہ مر حا ایک دم خاموش ہوئی۔


نگاہیں ریان کی طرف اٹھی جو سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔


دونوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی۔


مرحانے بے اختیار نظریں چرائی۔


ریان کی آنکھوں میں جو اس وقت تھا وہ مر حاکو کنفیوز کر رہا تھا۔


چاہت اپنائیت محبت سب اس وقت ریان کی آنکھوں سے جھلک رہی تھیں جس نے مرحا کو نظریں جھکانے پہ مجبور کیا تھا۔


تم ایسے کرو گی تو میرا کیا ہو گا مر حا۔


ریان نے مدھم لیجے میں کہا۔


کلک کیا کر اہم میں نے۔


مرحا کی زبان لڑکھڑائی تو ریان کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


سب تم نے ہی تو کیا ہے۔ سب کچھ تم نے ہی کیا ہے۔ اچھے خاصے بندے کو کن راہوں پے لے آئی ہو تم۔ میں ایسا کبھی نہیں تھا ہمیشہ لڑکیوں سے دور بھاگتا رہا ہوں۔ چڑ ہوتی تھی مجھے لڑکیوں سے پھر تم نے


آکر مجھے بدل دیا۔ میں تم سے دور نہیں بھاگنا چاہتا تم سے مجھے کبھی چڑ نہیں ہوئی۔


اپنا اسیر کیسے کر لیا تم نے مجھے۔ 


ریان کی باتوں میں دیوانگی تھی مر حادل تھامے اسے دیکھنے لگی۔


مگر ریان کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں دوبارہ جھک گئیں۔


لڑکی تم مجھے کہیں کا نہیں چھوڑو گی۔


ریان نے مسکرا کر اس پر سے نگاہیں ہٹائیں۔


بہت ہو امر حا محبت میں دوری برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے تمھیں تو جلد سے جلد اپنا بنانا پڑے


گا۔ اب یہ دوری میں برداشت نہیں کر سکتا تمھیں میرا ہونا پڑے گا۔


ریان نے دل میں سوچا۔


وہ جلد ہی اپنے ماما بابا کو مر حاکو لے کر اپنے جذبات بتانے کا ارادہ رکھتا تھا۔


مگر اس سے پہلے اس نے مرحا سے اس کے جذبات جاننے تھے۔ کیا وہ بھی اسے پسند کرتی تھی یا وہ صرف یکطرفہ محبت کا شکار تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا وہ جلد ہی مرحا کو شادی کے لیے پر پوز کر دے گا۔


وہ اپنے جذبات کو جائز نام دینا چاہتا تھا۔


مرحا کے دل میں بھی انجانے سے جذبات جاگے تھے۔ ریان اسے پسند تھا وہ کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہو سکتا تھا۔


مرحا کو وہ پسند تھا مگر محبت اس بارے میں کبھی اس نے نہیں سوچا تھا مگر آج مرحا کے دل کی دنیا بھی بدلی تھی۔


مگر دونوں ہی نہیں جانتے تھے محبت کرنے والوں کی راہوں میں تو سب سے زیادہ کانٹے ہوتے ہیں۔


محبت ایسے ہی نہیں مل جاتی محبت پانے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔


ہمیں اب چلنا چاہیے واپس جانے میں ویسے بھی ٹائم لگ جائے گا۔


ریان نے مرحا سے کہا تو اس نے ہامی بھری۔


ریان نے ایک سائیکل مرحا کو دی اور دوسری پر خود بیٹھ گیا۔


آپ کو آتی ہے سائیکل چلانا۔


مرحا نے پوچھا تو ریان نے آنبر واچکا کر مرحا کو دیکھا۔


میڈم میں اسپورٹس بائیک چلاتا ہوں یہ سائیکل کیا چیز ہے۔


ریان کی بات پر مر جانے اپنی ہنسی دبائی۔


دونوں نے شیراز کے گھر تک سائیکل پہ جانے تھا پھر وہاں سے گاڑی لے کر گھر پہنچنا تھا۔


ریان کا ارادہ مرحا کو راستے سے ہی ناشتہ کروانے کا تھا کیونکہ صبح کا ٹائم ہونے لگا تھا۔ جب تک وہ لوگ شیراز کے گھر پہنچتے روشنی ہونا شروع ہو جانی تھی۔ اور اس نے دیکھا تھا مر حا کو صبح جلدی اٹھنے کی عادت تھی۔


اور آج تو وہ پوری رات کی جاگی ہوئی تھی اب اس سب میں ریان اسے بھوکا تو نہیں رکھ سکتا تھا اسے پتہ تھا مر حا خود سے کبھی نہیں بولے گی کہ اسے بھوک لگی ہے اس کا انتظام ریان نے خود کرنا تھا۔


ریان نے مرحا کی یہ رات حسین بنادی تھی۔ مرحابے انتہا خوش تھی۔


اور اس کی خوشی اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔


ریان اور مرحا باتیں کرتے ہوئے اپنا سفر طے کرنے لگے۔ ان دونوں کو خبر بھی نہیں تھی کہ ان کے


لیے آنے والا وقت کیا مشکلات لانے والا ہے۔


ساحر کے کمرے سے سب جاچکے تھے۔ ساحر نے شہیر کو بھی اس کے کمرے میں واپس بھیج دیا تھا۔ اب وہ پہلے سے بہتر تھا۔


ساحر کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کب سے کومہ میں تھا بہت کچھ تھا جو اس کے دماغ میں چل رہا تھا۔ سب سے پہلے اسے یہ جاننا تھا کہ وہ کب سے یہاں ہے۔


تا یا جان ماں مرحا یا سر سب اس کے لیے پریشان ہو نگے۔


یہ سوچ آتے ہی اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہیں سکا۔


اس کی ہڈیاں اتنے دن ریسٹ پوزیشن میں رہنے کی وجہ سے اکثر گئی تھیں جنہیں ٹھیک ہونے میں وقت لگتا تھا۔


ساحر نے ایک بار پھر کوشش کی تو نازک سے ہاتھوں نے اسے تھام لیا۔


یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ ایسے آپ کے لگ سکتی ہے نہ کسی بات کی جلدی ہو رہی تھی آپ کو اگر کوئی


کام تھا تو کسی کو بلانا تھانہ اوپر سے شہیر کو بھی آپ نے بھیج دیا یہ کوئی اچھی بات ہوئی۔


ایمان نے ساحر کو ٹیک لگانے میں مدد دی ساتھ ساتھ ڈانٹ بھی لگائی۔


ساحر نے مسکرا کر دشمن جان کو دیکھا۔


سوری


ساحر نے کہا تو ایمان مسکرائی۔


اٹس اوکے کیا یاد کریں گے آپ معاف کیا مگر آئندہ ایسے نہیں کرے گا جب تک آپ بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتے اوکے۔


ایمان نے معصومیت سے کہا تو ساحر نے فور آہاں میں گردن ہلائی۔ اس کی مجال تھی وہ ایمان کی بات رد کرتا۔


آپ نے بھی معاف کر دیا نہ۔ میری اور میرے بھائیو کی وجہ سے جو بھی کچھ ہوا آپ کے ساتھ ہم شرمندہ ہیں۔


ایمان نے سر جھکا کر کہا تو ساحر نے اپنے ہاتھ سے ایمان نے کا چہرہ اوپر کیا۔


ایمان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔


ساحر کو تکلیف ہوئی۔


ساحر نے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔


جو۔ بھی۔ ہوا۔ اسے۔ بھول جاؤں میں۔ سمجھ سکتا۔ ہوں۔ وہ وقت۔ ہی۔ ایسا۔ تھا۔ اس۔ میں۔ کسی۔ کی۔ کوئی۔ غلطی نہیں۔ تھی۔ مگر ۔ تم۔ رو۔ کر۔ مجھے۔ تکلیف۔ دو گی۔ ایمان۔ تمھاری۔


آنکھوں۔ میں۔ آنسو۔ میرا دل توڑے رہے۔ ہیں۔ میں۔ تمھاری۔ آنکھوں۔ میں۔ آنسو۔ نہیں۔ دیکھ سکتا۔


ساحر نے آہستہ آہستہ اپنی بات مکمل کی تو ایمان بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھنے لگی۔


کیوں نہیں دیکھ سکتے میری آنکھوں میں آنسو کیوں آپ نے مجھے بچانے کے لیے خود کی جان خطرے میں ڈالی کیوں آپ مجھے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔


ایمان نے ایک ساتھ سارے سوال کر ڈالے تو ساحر مسکرایا۔


وجہ ۔ بتاؤں۔ گا۔ تو۔ یقین۔ کرو۔ گی۔ مجھ ۔ پہ۔


ساحر نے ایمان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔


ایمان نے ہاں میں گردن ہلائی۔ ہاں وہ کرتی اس پر یقین کوئی کسی انجان کے لیے ایسے ہی تو اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالتا۔ اسے ساحر پہ اعتبار تھا اس نے ایمان کو بے ابرو ہونے سے بچایا تھا وہ اس کی عزت کا محافظ تھا وہ کیسے نہیں کرتی یقین۔


تمھیں۔ ہماری۔ پہلی۔ ملاقات۔ یاد ہے۔ تمھیں۔ تم نے۔ میری۔ شرٹ۔ پہ۔ اپنے۔ انک۔


والے۔ ہاتھ ۔ چھاپ ساحر کی بات پر ایمان نے نظریں چرائیں - 

سوری وہ غلطی سے ہو ا تھا آپ مجھے ڈانٹوں نہ اس لیے میں وہاں سے بھاگ گئی۔


ایمان نے اعتراف کیا۔


میں۔ کیوں۔ تمھیں۔ ڈانٹتا۔ تم نے۔ وہ۔ ہاتھ۔ صرف۔ شرٹ۔ پر۔ نہیں۔ میرے۔ دل۔۔۔


ساحر کہتے کہتے ایک دم خاموش ہوا پھر ایمان کو کنفیوز نظروں سے دیکھنے لگا۔


ایمان۔ وہاں۔ اس جگہ ۔ جہاں۔ سب۔ ہوا۔ تھا۔ وہاں۔ میری۔ گاڑی کھڑی۔ تھی۔ اس۔ میں۔


میرا۔ بیگ۔ تھا۔ اس میں۔ سامان۔ تھا۔ میرا۔ وہ کہاں۔ ہے۔


ساحر کی بات سمجھ کر ایمان نے نہ میں گردن ہلائی۔


وہاں وہ جو لوگ تھے جنہوں نے مجھے اغوا کیا تھا وہ شاید آپ کی گاڑی کو لوٹ چکے تھے۔ آپ کے بارے میں پتہ کرنے کے لیے شایان بھائی شاہ میر بھائی گئے تھے آپ کی گاڑی کے پاس لیکن وہاں آپ کا خالی والٹ اور ایک پین ہی ملا تھا بس۔ آپ کا نام لکھا تھا ان دونوں چیزوں پہ تبھی ہمیں آپ کا نام معلوم ہوا۔


ایمان نے بتایا تو ساحر کے چہرے پہ ناگواری آئی۔


اس۔ میں۔ وہ شرٹ۔ تھی۔ جس۔ پہ۔ تمھارے۔ ہاتھ ۔ چھے۔ تھے۔


ساحر نے ماتھے پر بل ڈالے کہا تو ایمان کو اس کی دماغی حالت پہ شک ہوا۔ باقی سارا سامان چھوڑ کر وہ ایک خراب شرٹ کے لیے پریشان ہو رہا تھا۔ 


کوئی بات نہیں وہ تو ویسے بھی گندی ہو گئی تھی نہ۔


ایمان کے کہنے پہ ساحر کے ماتھے کی رگیں تئی تھیں۔


وہ گندی۔ نہیں۔ تھی۔ وہ بہت خاص تھی۔ میرے لیے۔ خبر دار۔ جو آئندہ۔ اس شرٹ۔ کو۔ گندمی بولا۔


ساحر نے سختی سے کہا تو ایمان کنفیوز ہو گئی۔


کیوں خاص ہے وہ شرٹ آپ کے لیے۔


ساحر کو غصے میں دیکھ ایمان نے مدھم آواز میں پوچھا تو ساحر مسکرایا۔


کیونکہ ۔ اس۔ پہ۔ تمھارے۔ ہاتھ۔ چھپے ہیں۔ اس دن۔ تم نے۔ اپنے۔ ہاتھ ۔ شرٹ۔ پر۔


نہیں۔ چھاپے۔ تھے۔ تمھارے۔ ہاتھوں کی چھاپ۔ نے۔ میرے۔ دل کو چھوا۔ تھا۔


ساحر کی بات پر ایمان آنکھیں چھوٹی کر کے سے دیکھنے لگی۔


آپ مجھے پاگل بنا رہے ہیں آپ کی معلومات کے لیے بتادوں میں فیوچر ڈاکٹر ہوں مجھے سب پتا ہے آپ


مجھے بچی سمجھ رہے ہیں کیا۔ ایسے تھوڑی ہوتا ہے دل پہ ہاتھوں کی چھاپ گئی تھی۔


ساحر کو ایمان کی معصومیت پہ ٹوٹ کر پیار آیا۔


اس کا ذہن اس وقت پیار محبت ان چیزوں سے بہت دور تھا۔ اس لیے وہ ساحر کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھی۔ اگر اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو ساحر کی بات پہ اپنا دل ہتھیلی پر رکھ دیتی۔


 مگر کوئی اور لڑکی ہو ہی کہاں سکتی تھی۔ ساحر نے تو اس معصوم سی لڑکی کو ہی اپنا دل دھڑ کن جان سب کچھ مان لیا تھا۔ کسی اور لڑکی کا بھلا اس کی ایمان کا کیا مقابلہ ہو سکتا تھا۔


تم۔ ابھی۔ نہیں۔ سمجھوں گی۔ مگر ۔ میں۔ چاہتا ہوں۔ تم۔ جلد۔ ہی۔ میری۔ بات۔ کا مطلب۔


سمجھ ۔ جاؤ۔ تمھارے لیے۔ آسانی ہو گی۔ اب۔ تم جاؤ۔ رات۔ بہت۔ ہو گئی۔ ہے۔ اس۔


وقت۔ کسی نے تمھیں۔ یہاں۔ دیکھ۔ لیا۔ تو۔ کوئی۔ کیا۔ سوچے ۔ گا۔


ساحر نے ایمان سے کہا تو اس نے گھڑی کی طرف نگاہیں گھمائیں جو چار کا ہندسہ کر اس کر کی تھی۔


ہائے اللہ جی اتنازیادہ ٹائم ہو گیا۔


میں چلتی ہوں آپ ریسٹ کریں گڈ نائٹ۔


ایمان کہہ کر تیزی سے کمرے سے بھاگ گئی۔


اس کے جانے کے بعد ساحر کے لبوں پہ زندگی سے بھر پور مسکراہٹ آئی۔


اس کا دل نہیں تھا ایمان کو بھیجنے کا اسے اچھا لگ رہا تھا ایمان کا باتیں کرنا۔ ایمان کی باتوں سے وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ بہت معصوم شرارتی اور باتونی لڑکی ہے۔ لیکن وہ ایمان کے کردار پہ کوئی انگلی نہیں اٹھنے دے سکتا تھا وہ اس کی عزت تھی وہ محافظ تھا اس کی عزت کا اپنے جذبات کی خاطر وہ اسے کوئی تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔


اس نے سوچ لیا تھا وہ کل ہی کسی طرح تایا جان اور ماں سے بات کر کے ایمان کا ہاتھ مانگنے کے لیے کہہ دے گا۔ یہ لڑکی اس کے دل میں دھڑکن بن کر دھڑکنے لگی تھی۔


ریان اور مر جانے ساتھ خوبصورت وقت گزارا تھا۔ سائیکلنگ کر کے وہ شیر از کے گھر تک آئے تھے جہاں انھیں فجر سے اوپر ٹائم ہو گیا تھا۔


ریان نے اپنی گاڑی کی پھر مرحا کو ایک ہوٹل لوکل ہوٹل سے ناشتہ کروایا۔


ریان کے لیے یہ پہلا ایکسپر ینس تھا وہ کبھی اس طرح لوکل جگہوں پہ نہیں آیا تھا مگر مرحا کے ساتھ کی وجہ سے وہ اس سب کو بہت انجوائے کر رہا تھا۔ دوسری طرف مرحا کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی


تھی کہ اپنے مزاج کے خلاف جا کر ریان نے اس کے لیے اتناسب کیا تھا۔


ناشتہ کر کے وہ لوگ واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے۔


مرحا پوری رات جاگنے کی وجہ سے گاڑی میں ہی سو گئی تھی۔


اسے سوتا دیکھ ریان نے گاڑی روک کر اس کی سیٹ تھوڑی پیچھے کریں تا کہ وہ کمفر ٹیبل رہے۔


ریان نے گاڑی چلاتے ہوئے ایک نظر مرحا پہ ڈالی۔


وہ بے تحاشہ خوبصورت تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا مگر ریان کو اس کی خوبصورتی نے متاثر نہیں کیا تھا وہ تو اس کے چہرے کی معصومیت پہ اپنا دل ہارا تھا۔


شایان جلدی آجاد یار لیٹ ہو رہے ہیں کتنا تیار ہو گے۔ اتنا وقت تو لڑکیاں بھی نہیں لگا تیں۔


شاہ میر ہال میں کھٹر اشایان کو آوازیں لگارہا تھا جو اب تک تیار ہو کر کمرے سے ہی نہیں نکلا تھا جبکہ شاہ میر ناشتہ کر کے بالکل ریڈی تھا۔


اتنی ٹینشنوں کی وجہ سے وہ یونیورسٹی نہیں جارہے تھے مگر اب چونکہ سب ٹھیک ہو گیا تھا تو انہوں نے بھی یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔


شاہ میر کی دسویں آواز پہ شایان کمرے سے باہر نکلا۔


بلو جینز پہ وائٹ کلر کہ ٹی شرٹ وائٹ جو گرز پہنے نیچے اترا۔ شایان کی طرح شاہ میر نے بھی سین ہی ڈریسنگ کی ہوئی تھی۔ ان دونوں کو دیکھ کر زیادہ تو لوگوں کو یہی لگتا تھا کہ وہ دونوں جڑواں ہیں۔ ایک تو ان دونوں کے چہرے کے نقوش بہت ملتے تھے دوسرا دونوں ہمیشہ ایک ہی جیسی ڈریسنگ کرتے تھے۔


سوری یار کیا کروں بالوں کو سیٹ کرنے میں ٹائم لگتا ہے نہ


شایان نے شاہ میر کو ونک کر کے کہا تو اس نے ایک نظر شایان کے بالوں کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔ میں باہر انتظار کر رہا ہوں تم دس منٹ میں باہر نہیں آئے تو میں اکیلا چلا جاؤں گا۔


شایان شاہ میر کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکلتا ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ ایمان بھی ناشتے کے لیے ابھی ہی اتر کر آئی تھی جبکہ شہیر پہلے سے ٹیبل پر موجود تھا۔


احتشام صاحب ساحر کے ساتھ ناشتہ کرنے چلے گئے تھے تاکہ اسے اکیلا پن فیل نہ ہو۔


ریان نے گھر کے باہر گاڑی روکی۔


مرحا اٹھ جاؤ گھر آگیا ہے۔


ریان نے مرحا کو جگایا تو وہ نیند بھری آنکھیں کھول کر ریان کو دیکھنے لگی۔


گھر آگیا آپ خود چلیں گی یا میں آپ کو اپنی باہوں میں اٹھا کر لے کے چلوں۔


ریان نے ونک کر کے پوچھا تو ریان کی بات سمجھ کر وہ جلدی سے گاڑی سے اتری۔ اس کی اسپیڈ دیکھ کر ریان کا قہقہہ چھوٹا۔


گھر کے اندر داخل ہو کر ریان نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کر اسے دیوار سے لگایا۔ اور اس کے سائیڈ پہ ہاتھ رکھ


کر اس کا راستہ لوگ کر دیا۔


مرحا کا سانس اٹک گیا۔ وہ سانس روکے ریان کو دیکھنے لگی۔


ریان اس کو دیکھ کر مسکرایا۔ اس کا گھر آیا ہو ا روپ ریان کو بھلا لگا۔


شاہ میر جو باہر آرہا تھا ریان اور مرحا کو ایسے دیکھ کر لمحے میں پلر کے پیچھے ہوا۔


ریان اور مرحا کو دیکھ کر شاہ میر کے دل میں چین ہوئی۔


ایک ریکوئسٹ ہے ٹیڈی بیئر۔


ریان نے مرحا سے کہا تو وہ ریان کو کنفیوز نظروں سے دیکھنے لگی۔


کل رات جو بھی ہوا میں نے جو بھی کچھ کیا ہے وہ تم گھر میں کسی کو بھی نہیں بتاؤ گی۔ ایمان کو بھی نہیں۔


❤❤❤