تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 13
از۔ طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
❤❤❤
ریان کے کہنے پہ مر جانے اپنی مسکراہٹ دبائی۔
اچھا کسی کو بھی نہیں بتانا میں تو ابھی پورے گھر میں اسپیکر لے کر علان کرنے والی تھی۔
مرجانے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوئے کہا تو ریان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
مجھے تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مسئلہ تمھارے لیے بن سکتا ہے۔ بالکہ آؤ مل کر سب کو بتاتے ہیں۔
ریان کہہ کر مر حا کو اندر لے جانے لگا تو اس نے فورار یان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔
ریان نے اپنے آپ کو بالکل ڈھیلا چھوڑا ہوا تھا مر حا کے کھنچنے پر وہ ایک دم مرحا کے قریب رکا۔
دونوں کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔
آپ ایسا نہیں کریں گے میں تو مزاق کر رہی تھی پلیز کسی کو نہیں بتائے گا۔
مرحانے التجا کی تو ریان کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔
مجھے کیا ملے گا نہ بتانے پہ۔
ریان نے مرحا سے کہا تو اسے دیکھنے لگی۔
کیا چاہیے ہے آپ کو۔
مر جانے پوچھا تو ریان اپنے ہونٹ مرحا کے کان قریب لے کر گیا۔
مرحانے بے ساختہ آنکھیں میچ لیں۔
"تم"
ریان نے اس کے کان میں کہا اور اس کو مسکر اکر دیکھ کر اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
ریان کے تم کہنے پر مر جانے اسے دیکھا جو اسے مسکرا کر دیکھ کر اندر چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد مرحا کے چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ نے جگہ بنائی۔ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر مر جانے لمبی سانس لی اور ریان کے پیچھے اندر چلی گئی۔
پلر کے پیچھے شاہ میر نے ان دونوں کی ساری گفتگو سنی تھی۔
وہ تو مر حا سے محبت کرنے لگا تھا مگر یہ آج کیسا انکشاف ہو ا تھا اس پہ۔
ریان اور مرحا کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں۔
ریان کا یہ روپ شاہ میر کے لیے بالکل نیا تھا۔
تو کیاریان بھی محبت کا شکار ہو گیا تھا۔
آج شاہ میر حیدر کا دل کسی نے مٹھی میں کے کر مسل دیا تھا۔ وہ درد اور بے بسی کی انتہا پر تھا۔
اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا۔
شاہ میر کے دل کی دنیا پل میں اجڑ گئی تھی۔ وہ تو مر حا کے ساتھ نا جانے کتنے ہی حسین خواب سجا چکا تھا۔
شاہ میر کی آنکھ سے آنسو نکلا جسے اس نے بے دردی سے صف کیا۔
وہ مرد تھا بھلا مر د بھی روتا ہے کیا۔
ارے کیا بات ہے بھئی ابھی تک یہیں کھڑے ہو مجھے تو لگ رہا تھا تم نے ہارن دے دے کر میرے کانوں سے خون نکال دینا تھا۔
شایان آکر اس کے پاس کھڑا ہوا تو اس نے شایان کے سامنے خود کو کمپوز کیا۔
ارادہ کچھ ایسا ہی تھا اب چلیں یا یہیں رکتا ہے۔
شاہ میر کہہ کر باہر نکل گیا۔ آج ان دونوں نے اپنی اپنی اسپورٹس بائیک پر یونی جانا تھا۔
مرحا اور ریان ایک ساتھ ہال میں داخل ہوئے۔
بھیو آگئے۔
ایمان بھاگتی ہوئی آکر ریان کے گلے لگی تھی۔ اور ساتھ ساتھ مرحا کا ہاتھ بھی پکڑا تھا۔
چلو اچھا ہو ا تم لوگ آگئے آجاؤ ناشتہ کر لو۔
نہیں ماما ہم ناشتہ کر کے آئے ہیں۔
ریان نے سمینہ بیگم کو جواب دیا اور وہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ مرھا اور ایمان بھی سامنے بیٹھی تھیں۔
اچھا ہاں شیری کے گھر کر لی ہو گا۔ نہیں
مرحا کے منہ سے نہیں اور ریان کے منہ سے ہاں سن کر ایمان اور سمینہ بیگم دونوں کو دیکھنے لگی۔ ہاں نہیں یہ کیا بول رہے دونوں ناشتہ کیا بھی ہے یا نہیں۔
سمینہ بیگم نے تصدیق چاہی۔
آنٹی ہم نے ناشتہ کر لیا ہے۔
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
مرجانے جواب دیا تو سمینہ بیگم نے مسکرا کر گردن ہلائی۔
ارے ہاں ریان ساحر کو رات ہوش آگیا ہے تمھارے بابا اسی کے پاس ہیں۔
سمینہ بیگم کی بات سن کر ریان فورا ساحر کے روم کی طرف بھاگا تھا۔
آنٹی میں بھی دیکھنے جاؤں۔
مرحا نے پوچھا تو انہوں نے مسکر اگر اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اسے جانے کی اجازت دی تو وہ ایمان کے ساتھ اس کمرے کی طرف چلے گئی جہاں ساحر موجود تھا۔ اس نے اب تک اس کمرے میں جھانکا تک نہیں تھا۔ مگر اب جب وہ انسان ہوش میں تھا جس نے ایمان کو بچایا تھا مر حا کو اس سے ملنے کی خواہش جاگی تھی۔
ریان کمرے میں داخل ہوا تھا تو احتشام صاحب ساحر سے باتیں کر رہے تھے۔
ساحر نے ریان کو دیکھا تو ریان چل کر اس کے پاس آیا۔
ارے آو بیٹا ساحر کو ہوش آگیا ہے۔
احتشام صاحب ساحر کے پاس سے اٹھے تو وہ ان کی چھوڑی جگہ پر بیٹھ گیا۔
تم ٹھیک ہونا !
ریان نے ساحر سے پوچھا تو اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی گردن ہلائی۔
ہمیں معاف کر دو ساحر یہ سب غلط فہمی میں ہو گیا تھا ہم اتناڈر گئے تھے نہ ایمان کو لے کر بیس اس ٹائم
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی تھی بہت بڑی غلطی کر دی تھی ہم نے۔
ریان نے ساحر کے سامنے ہاتھ جوڑے تو اس نے فورا اسکے ہاتھوں کو تھاما۔
جو ہوا اسے بھول جاؤ۔ تمھاری جگہ میں ہوتا تو شاید ایسے ہی کرتا۔
ساحر نے ریان سے کہا تو وہ مسکرادیا۔
ساحر کو ٹھیک دیکھ کر ریان کے دل کا بوجھ اتر اتھا۔
مرحا کے پکارنے پر ریان ساحر اور احتشام صاحب نے مرحا کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لیے ساحر کو دیکھ رہی تھی۔
مرحا کو دیکھ کر ریان کھڑا ہوا جبکہ اس کے منہ سے لالا سن کر ریان پریشان ہو گیا تھا۔
مر حامیر ابچہ میری گڑیا۔
ساحر نے بے چینی سے اسے پکارا تو مر جا بھاگتی ہوئی آکر اس کے سینے پہ سر رکھ کر زار و قطار رونے لگی۔ ریان سمجھ گیا تھا ساحر ہی مرحا کے ساحر لالا ہیں جس کا ذکر یا سر نے اس سے کیا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ وہ ساحر ہو سکتا ہے۔ احتشام صاحب اور ایمان بھی شوکر تھے۔
مر حامیر ابچہ میں ٹھیک ہوں تم ایسے رو تو مت کیا ہو گیا گڑیا دیکھو تو ادھر ٹھیک ہوں میں۔
لا بابا ماما۔ وہ چلے گئے لا لا وہ چلے گئے۔
مرحا کے الفاظ سن کر ساحر نے جھٹکے سے مرحا کو اپنے سامنے کیا۔
کیا مطلب ہے۔۔ کہاں چلے گئے تایا جان اور ماں۔
بولو مر حاکیوں اس طرح رور ہی ہو کیا ہوا ہے تم پریشان کر رہی ہو مجھے۔
ساحر نے مرحا کے رونے پہ بے چینی سے پوچھا۔
با با ماما ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ گئے لالا۔ وہ فوت ہو گئے لالا میں یتیم ہو گئی لا لا میرے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا۔
مرحا کے الفاظ تھے یا خنجر ساحر کا دل چیر گئے۔
آسمان سر پہ اگر اتھا۔ وہ دو ہفتوں سے کوما میں تھا تو کیا دو ہفتوں میں اتنا کچھ ہو گیا۔
وہ بے یقینی سے مر حا کو دیکھے گیا۔
آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکلے۔
ریان نے آگے بڑھ کر ساحر کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ اور اسے شروع سے آخر تک سب بتاتا گیا جسے سن کر ساحر بری طرح ٹوٹ گیا تھا۔
مرحا مسلسل رورہی تھی۔ اس نے سنبھال لیا تھا خود کو مگر اپنے بھائی کا ساتھ پاکر وہ ایک دفعہ پھر بکھر گئی۔
ریان کو مرحا کے آنسوؤں سے بھرا چہرہ دل میں چبھا۔
ایمان نے آگے بڑھ کر مرحا کو سنبھالا اور پانی اس کے لبوں سے لگایا۔
ریان نے ساحر سے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا۔ اسے سب بتا دیا تھا جسے سن کر اس کا غصے سے برا حال تھا۔
مگر اس نے سوچ لیا تھا جس نے بھی اس کے تایا جان اور ماں کے ساتھ سب کیا ہے وہ انہیں چھوڑے گا نہیں۔ ریان نے بھی اس سے وعدہ کیا تھا وہ اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
ایمان نے مرحا کو سلاد یا تھاوہ دیسے بھی پوری رات کیا جاگی ہوئی تھی۔
مرحا اور ساحر کا رشتہ جان کر جہاں سب شو کڈ تھے وہی انہیں خوشی بھی تھی کہ مرحا کے پاس کم سے کم ایک بھائی کا ساتھ موجود ہے۔
تھینک یوریان تم نے اور تمھاری فیملی نے مرحا کے لیے جو بھی کیا ہے اس کے لیے میں ساری زندگی تمھارا احسان مند رہوں گا۔ مند گلے
مجھے شرمندہ مت کرو یار تھینکس کی بات نہیں ہے۔ مرحا جس تکلیف سے گزری ہے نہ وہ میں تصور
بھی نہیں کر سکتا۔ مگر ساحر اب اسے رونے نہیں دینا ہے۔ اسے ہمت دینی ہو گی حوصلہ دینا ہو گا یہ
کیس جتنا آسان لگ رہا ہے اتنا ہے نہیں۔ ابھی ہم صرف شک کی بنیاد پہ سب دیکھ رہے ہیں حقیقت تک پہنچنا ہے ہمیں۔
ریان کی بات سمجھ کر ساحر نے ہاں میں گردن ہلائی تھی۔ جس نے بھی یہ سب کیا تھا وہ اسے بخشنے والا تو نہیں تھا۔
شایان شاہ میر یونی پہنچے تو ہمیشہ کی طرح لڑکے لڑکیاں انہیں دیکھنے لگے۔
یہ نیا نہیں تھا یہاں کئی لڑکیاں تھیں جو ان دونوں پہ اپنا دل ہاری بیٹھی تھیں۔ اور لڑکے ان سے دوستی کرنے کے لیے مچلتے رہتے تھے مگر ان دونوں نے دوست نہیں بنائے تھے۔ بات چیت وہ سب سے کرتے تھے مگر دوست وہ صرف ایک دوسرے کے ہی تھے۔
شایان شاہ میر کھڑے دو لڑکوں سے باتیں کر رہے تھے۔ شایان کا فون بجا تو وہ کال سننے تھوڑا آگے آگیا۔
وہ بات کر ہی رہا تھا کہ ایک اسپیڈ میں آتی گاڑی پاس پڑے پانی پر سے اتنی اسپیڈ میں گزری کہ اس کی چھینٹیں شایان کے کپڑے خراب کر گئیں۔
شایان کال کاٹ کر ناگواری سے سامنے کار کو دیکھنے لگا جو تھوڑی آگے ہی رک گئی۔ لیکن اس سے نکلنے والی لڑکی کو دیکھ کر شایان کے ماتھے پر بل پڑے۔
کندھے سے تھوڑے لیے کھلے بال، ہائی ہیلز ، بلو جینز بلیک شرٹ پر لونگ کوٹ، چہرے پہ مغ مغرور سی مسکراہٹ لیے وہ لڑ کی شاہانہ چال چلتی شایان کے سامنے آکر رکی۔
سو مسٹر ایس وائی زیڈ تم نے میرے کپڑے خراب کیے تھے میں نے تمھارے کپڑے خراب کر دیے۔
حساب برابری مینی نے شایان کو دیکھ کر کہا تو شایان کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔ اس دن اس سے جو بھی ہوا تھا وہ غلطی سے ہوا تھا۔ مگر یہ لڑ کی شاید عقل سمجھ سے خالی تھی۔
مینی کہہ کر پلٹی تو شایان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تو وہ اس کے چوڑے سینے سے ٹکرائی۔
میں نے تمھیں سوری بھی تو کیا تھا میں سائیکو اب جب تک تم مجھے سوری نہیں کر تیں ایک انچ یہاں سے نہیں ہل سکتیں۔
عینی نے شایان سے دور ہونے کی کوشش کی مگر شایان کی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ اپنا آپ اس سے
چھوڑا نہیں پائی۔
شایان کے اتنے پاس وہ انکمفر ٹیبل ہوئی تھی جو اس کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔
شایان سمجھ گیا تھا اتنی مغرور اور ماڈرن دکھتی یہ لڑکی اندر سے عام سی لڑکی کی طرح ہے جو کسی لڑکے کے قریب آجانے سے گھبر اجاتی ہیں۔
سوری بولو ورنہ میں تمھیں ایسے ہی لیے کھڑارہوں گا بولو منظور ہے۔
شایان نے اسے ٹیز کیا تو اس نے گھور کر شایان کو دیکھا جبکہ چہرے پر گھبراہٹ واضح تھی۔
چھوڑو مجھے جان سے مار دوں گی میں تمھیں۔
عینی نے دھمکی دی تو شایان ۔ مسکرایا۔
پہلے خود کو چھڑوا تولو پھر جان بھی کے لینا۔
شایان نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا۔
شاہ میر جو دور سے یہ سب دیکھ رہا تھا بھاگ کر شایان کے پاس آیا کیونکہ ایک دو اسٹوڈنٹس اسے دیکھ رہے تھے بلا وجہ اسکینڈل بن سکتا تھا۔
شایان چھوڑ دے اسے اسٹوڈنٹس دیکھ رہے ہیں بات بڑھ جائے گی۔
شاہ میر نے شایان کو کہا تو اس نے آس پاس دیکھا ایک دو اسٹوڈنٹس باقاعدہ رک کر اسے دیکھ رہے
تھے۔ اسے اپنی پر واہ نہیں تھی لیکن اس لڑکی پہ وہ کوئی انگلی نہیں اٹھنے دے سکتا تھا۔
شایان نے عینی کا ہاتھ چھوڑا تو اس نے غصے میں آکر شایان کے اوپر پاس پڑی خالی پانی کی بوتل اٹھا کر پھینکی اور غصے سے اسے گھورتی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد شایان دل کھول کر ہنسا تھا۔
کیوں ہنس رہا ہے بھائی انسلٹ کر کے گئی ہے۔
شاہ میر نے کہا تو شایان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
یار یونی میں آج تک جو بھی لڑکی ٹکرائی وہ ہم پہ فلیٹ ہو جاتی ہے پہلی بار کوئی تیز دھاری دار چھری جیسی لڑکی ٹکرائی ہے بیچ میں مزہ آگیا۔
شایان نے کہا تو شاہ میر بھی ہنس پڑا وہ شایان کی بات سے مکمل اتفاق کرتا تھا۔
اچھا چل میں زر الا ئبریری جارہا ہوں کچھ کام ہے تو کلاس اٹینڈ کر لینا۔
شاہ میر کہہ کر لائبریری کی طرف آگیا۔
اس کا دل بھر رہا تھا وہ صبح سے شایان کے سامنے خود کو کمپوز کر رہا تھا اب اس کی برداشت جواب دے رہی تھی۔
لائبریری میں آکر اس نے ایک کتاب اٹھائی اور سب سے کونے والی ڈیکس پہ بیٹھ گیا۔
دماغ میں مسلسل صرف صبح کا منظر چل رہا تھا۔
ریان اور مرحا کا اتنا قریب ہو ناریان کی آنکھوں سے چھلکتی محبت مر حا کا شر ما یا گھبر ایا روپ اور رات وہ
دونوں رات ایک ساتھ تھے۔ یہ سب سوچ سوچ کر شاہ میر کا سر بری طرح درد کرنے لگا تھا۔
وہ ریان کو جانتا تھا ریان کوئی دل پھینک عاشق نہیں تھا وہ ہمیشہ لڑکیوں سے در بھاگتا رہا تھا۔ ریان کی زندگی میں کبھی کوئی لڑکی جگہ نہیں بنا پائی تھی وہ جانتا تھا ریان کی فیلینگز سچی ہیں۔ دوسری طرف مرحا
ابھی اپنی زندگی کے اتنے بڑے امتحان سے گزری تھی۔ خوشیوں پہ حق تھا اس کا۔ وہ کوئی فلرٹ کرنے والی لڑکی نہیں تھی۔ وہ تو معصوم تھی۔
اگر مرحا بھی ریان کو چاہتی تھی تو بیچ میں شاہ میر کی فیلینگز کیسے آسکتی تھیں۔
وہ اپنے چکر میں مر حاجو کسی اور امتحان میں نہیں ڈال سکتا تھا۔
نہیں میں ریان بھائی اور مرحا کے بیچ کبھی نہیں آؤں گا۔ میری یکطرفہ محبت کبھی مرحا کے لیے یا بھائی کے لیے آزمائش نہیں بنے گی۔ اگر وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا مر حا سے محبت کرنے کا۔ مگر اپنے دل سے کسی کی محبت بھلا کیسے مٹائی جاسکتی ہے۔ مگر کچھ بھی ہو میں اپنے جذبات کبھی کسی کو پتہ نہیں لگنے دوں گا۔
شاہ میر نے فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ ریان اور مرحا کو ایک کر دے گا مر حا اب کبھی کسی غم سے نہیں گزرے گی۔ وہ ہمیشہ سے اس کے لیے قابل احترام تھی اور آگے بھی رہے گی۔ مگر محبت۔۔ ہاں اسے اپنی محبت کو دفنانا ہو گا۔ آج شاہ میر حیدر کی یکطرفہ محبت نے اس کے دل کو کرچیوں میں ٹور دیا تھا۔ اس کے دل کی دنیا بسنے سے پہلے ہی برباد ہو گئی تھی۔
ساحر میں نے اپنے دوست۔۔۔
ریان کہتا ہوا اندر آیا تو ساحر اپنے سہارے سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ تم کیا کر رہے ہو ساحر مجھے بلا لیتے یا کسی اور کو بول دیتے۔
ریان نے اسے واپس بٹھایا۔
یار میں پریشان ہو گیا ہوں تین دن ہو گئے مجھے ہوش میں آئے ایسا لگ رہا ہے میں اس بیڈ پہ قید ہو گیا ہوں۔ مجھے چلنا ہے اپنے سہارے پر۔
ساحر نے بے چارگی سے کہا تو ریان مسکرایا۔
میں سمجھ سکتا ہوں ایک جگہ پڑے پڑے بندہ بیزار ہو جاتا ہے۔ میرے پاؤں پہ کچھ سال پہلے فریکچر ہوا تھا تب دو ہفتے بیڈ پہ گزارنے پڑے تھے۔ شروع شروع میں تو میں نے سیریس ہی نہیں لیا اور پلستر چڑھے پاؤں سے چلتا رہا۔ تین دفعہ پلستر تبدیل کیا ڈاکٹر نے اینڈ میں دھمکی دی کہ اگر میں نے ریسٹ
نہیں کیا تو ایڈمٹ کر دیں تب مجھے مجبوراً ریسٹ کرنا پڑا۔
ریان کی بات پہ ساحر کو ہنسی آئی۔
ریان ساحر کو اپنے سہارے لے کر ہال میں آیا جہاں مرحا ایمان شہیر اور شایان بیٹھے پاستہ کھا رہے تھے۔
کیا ہو رہا ہے یہاں۔
ریان نے ساحر کو لا کر صوفے بٹھایا اور سب کو مخاطب کیا۔
بھیو ہم پاستہ کھارہے ہیں آپ تو نہیں کھائیں گے نہ۔
ایمان نے ریان سے پوچھا۔
نہیں بھئی میں یہ فضول چیزیں بالکل نہیں کھاتا۔
ریان نے کہا تو مر جانے اپنے منہ میں بانٹ لیتے ہوئے ریان کو دیکھا۔
لالا آپ کو دوں آپ کھائیں گے نہ پاستہ میں نے اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے بنایا ہے۔
مرحا نے ریان کو دیکھتے ہوئے پاستہ پلیٹ میں نکال کر ساحر کی طرف بڑھایا۔
بالکل میری گڑیا نے بنایا ہے میں تو ضرور کھاؤں گا۔
ساحر نے مرحا کے ہاتھ سے پلیٹ لی۔
ریان کو اپنی جلد بازی پہ غصہ آیا۔
آآآمیں سوچ رہا ہوں ٹیسٹ کرلوں سب اتنے مزے سے کھا رہے ہو ٹرائے کرنا چاہیے مجھے بھی۔
ریان کی بات پہ ایمان اور شایان نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا۔ انہیں ریان کے بدلتے انداز صاف نظر آرہے تھے۔
سوری بھیو سارا پاستہ تو ختم ہو گیا۔
ایمان نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
ریان نے سب کی پلیٹس دیکھی جو تقریبا خالی تھی سوائے مرحا کے۔
اس نے مرحا کے ہاتھ سے پلیٹ لی اور بائٹ لیا۔
ایمان شایان ن شہیر منہ کھولے اسے دیکھنے لگے جبکہ ساحر بہت دلچسپی سے ریان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا۔
ریان کی آنکھوں میں مرحا کے لیے جذبات تو وہ کل ہی دیکھ چکا تھا جب مرحا کے ہاتھ پہ گرم چائے گرمی۔
ایسا لگا تھا جیسے مرحا کے ہاتھ پہ نہیں ریان کے ہاتھ پہ چائے گری ہو۔ ابھی بھی ریان کی حرکتیں وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا۔
بھید آپ تو کسی کا جھوٹا نہیں کھاتے نہ ہی کسی کا یوز کیا ہوا اسپون پلیٹ یوز کرتے ہو۔
ایمان نے حیرانگی سے کہا تو اس نے ہاتھ روک کر سب کو دیکھا۔ سب اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
ہاں تو کیا ہو گیا۔ کبھی کبھی چلتا ہے۔
ریان کہہ کر ساحر کے برابر میں بیٹھ گیا۔
مرحا نے نظر اٹھا کر ریان کو دیکھا نہیں تھا بس اس کے حرکتیں مرحا کے دل کی دھڑکنیں لمحوں میں تیز کر دیتی تھیں۔
مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اکیلے میں۔
ساحر نے ریان کے کان میں سرگوشی کی تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔
مرحا پلیٹس لے کر کچن میں چلی گئی تو ریان بھی خالی پلیٹ کچن میں رکھنے کے بھانے سے مرحا کے پیچھے چلا گیا۔
شایان کی کال آگئی اور شہیر کو کوچنگ کے لیے نکلنا تھا تو وہ دونوں بھی چلے گئے۔
ہال میں صرف ایمان اور ساحر بچے تھے۔
ایمان مزے سے صوفے چوکڑی مار کے بیٹھی کولڈ ڈرنک کا سپ لے رہی تھی۔ اس کا دھیان ساحر کی طرف بالکل نہیں تھا۔
ساحر دلچسپی سے دشمن جان کو دیکھ رہا تھا جو ہر چیز سے بے نیاز بیٹھی تھی۔
اہم اہم ساحر نے گلہ کھنکار کر اپنے ہونے کا احساس دلایا تو ایمان نے ساحر کو دیکھا۔
جب کوئی ساتھ بیٹھا ہو تو اس سے باتیں کرنی چاہیں۔
ساحر نے ایمان کو نظروں کے حصار میں لے کر کہا تو وہ جلدی جلدی سیپ لے کر کولڈ ڈرنک کا گلاس میں سائیڈ پر رکھ کہ بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔
جی بتائیے کیا با تیں کروں آپ سے۔
ایمان کے اس طرح کہنے پہ ساحر کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
اچھا ایک بات پوچوں۔
ساحر نے ایمان کو دیکھ کر پوچھا تو اس نے گردن ہلائی۔
میں کیسا لگتا ہوں تمھیں۔
ساحر نے پوچھا تو ایمان مسکرائی۔
آپ بہت اچھے ہیں بہت بہت بہت زیادہ اچھے۔
بھیو کہتے ہیں جو لوگ آپ کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں وہ لوگ سب سے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں۔
ایمان نے مسکرا کر کہا تو ساحر نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر کر ہایا۔
ساحر کو کر ہاتا دیکھ ایمان تیزی سے اس کے پاس آئی۔
کیا ہوا آپ کو آپ ٹھیک ہیں۔
ایمان نے بے چینی سے کہا تو ساحر کے لب مسکرائے۔
تم نے اتنی تعریف کی ہے دل کی دھڑکنیں ایک دم تیز ہو گئیں دیکھو چیک کرو۔
ساحر نے کہتے ہوئے ایمان کا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھا۔
ساحر کی اس حرکت پر ایمان کا خود کا دل بے ترتیب ہو ا تھا۔
ایمان نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر ساحر نے اس کے ہاتھ پہ اپنی گرفت مضبوط کر دی۔
آپ پلیز چھوڑیں نہ کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔
ایمان نے بے چینی سے کہا تو ساحر نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔
کیا سوچیں گے سب۔
ساحر نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
سب سمجھیں گے ہم دونوں کا آپس میں کچھ۔۔ پلیز سمجھیں نہ ہاتھ چھوڑ دیں۔
ایمان کی بات پہ ساحر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔
میں چاہتا ہوں سب یہی سمجھیں جو تم سمجھ رہی ہو۔
ساحر نے کہا تو ایمان نے کنفیوز ہو کر ساحر کو دیکھا۔
لک کیا سمجھ رہی ہوں میں تو کچھ نہیں سمجھ رہی۔
ایمان نے نظریں چرائی۔
میں چاہتا ہوں تم میری فیلینگز کو سمجھو میری چاہت کو سمجھو مجھ پہ اعتبار کرو۔
ساحر کے الفاظوں سے ایمان الجھ گئی تھی۔
وہ کنفیوزی اسے دیکھنے لگی۔
جب کسی کے آنے کی آہٹ سے ساحر نے ایمان کا ہاتھ چھوڑا اور وہ بوتل کے جن کی طرح وہاں سے
غائب ہوئی۔
پاگل لڑکی کیسے سمجھاؤں اس کو نہیں رہا جارہا اس کے بنا۔
ساحر نے مسکرا کر سوچا۔
ریان دبے پاؤں کچن میں آیا۔ مرحا دوسری طرف منہ کیسے پانی پی رہی تھی اسے ریان کے آنے کا پتہ نہیں لگا تھا۔
آپ کے پیارے پیارے ہاتھوں میں تو جادو ہے جو چیز آج سے پہلے مجھے کبھی اچھی نہیں لگی آج وہ اتنی اچھی لگنے لگی۔
ریان نے مرحا کے پیچھے کھڑے ہو کر کان میں سرگوشی کی۔
ریان کی آواز اپنے قریب محسوس کر کے مرحا کی سانس اٹکی تھی۔ دھڑکنوں نے شور مچایا تھا۔
مرحا پلٹی نہیں کیوں کہ اگر وہ پلٹتی تو ریان کے سینے سے ٹکراتی۔
آپ پلیز جائیں نہ یہاں سے کوئی آجائے گا نہ۔
مرحا نے مدھم آواز میں کہا۔
چلا جاتا ہوں مگر پہلے یہ بتاؤ میں سب کو بتا دوں اس رات کو ہم لوگوں نے کیا کیا تھا۔
ریان کے کہنے پہ مر جانے پلٹ کر اسے دیکھا مگر ریان قریب ہونے کی وجہ سے اس نے ریان کے سینے
پہ ہاتھ رکھ کر اسے دور رکھنے کی کوشش کی۔
مرحا کو انکمفر ٹیبل دیکھ کر ریان نے خود دو قدم کی دوری بنائی تھی۔
وہ اپنی حدود جانتا تھا اور مرحا کو وہ نروس بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
❤❤❤
0 Comments
Post a Comment