تیرا عشق مرہم سا ہے

 قسط نمبر 14

از۔ طوبیٰ صدیقی



°°°°°°


❤️❤️❤️


آپ کیوں بتائیں گے سب کو پلیز نہیں تائیے گا سب بولیں گے ہم نے جھوٹ بولا۔


مرجانے منہ بنا کر کہا تو ریان نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔


میں نے کہا تو تھا نہیں بتاؤں گا مگر بدلے میں کچھ چاہیے مجھے بھی۔


ریان کے کہنے پہ مر حا کی نظریں جھکی تھیں۔


تم چاہیے ہو مجھے ، بتاؤ دو گی خود کو مجھے۔


ریان نے مرحا سے کہا تو اس نے گھبرا کر دیکھا تھا۔ مگر پھر ریان کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں دوبارہ جھکا دی۔


آپ کیا کہنا چاہتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا میں خود کو دے دوں آپ کو کیا مطلب اس بات کا یہ کیسے ممکن ہے۔


مرحانے منمناتے ہوئے کہا۔


بالکل ممکن ہے۔ محرم بن جاو میری۔ ہمیشہ کے لیے میری ہو جاؤ۔ اپنے سارے حقوق مجھے دے دو۔ اپنا سائبان بنالو مجھے۔


ریان نے محبت پاش لہجے میں کہا تو مر جانے بے اختیار ریان کو دیکھا۔


وہ اسے ایسا کچھ کہے گا اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔ ریان کے جذبات جان کر مر حا اپنی دھڑکنیں سنبھالتی کچن سے بھاگ گئی۔


چلو بیٹاریان اب وقت آگیا ہے ماما سے بات کرنے کا۔ اب اور دوری نہیں چل سکتی۔


ریان خود سے کہتا اپنے سر پہ ہاتھ پھیر تا باہر چلا گیا۔


ہال میں ساحر موجود نہیں تھا۔


شاہ میر ساحر کہاں گیا۔


ریان نے شاہ میر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔


بھائی میں آپ کو ہی ڈھونڈ رہا تھا ساحر باہر گارڈن میں ہے کہ رہا تھا آپ کو بھیج دوں۔


شاہ میر نے ریان سے کہا تو ریان ہاں میں گردن ہلا تا باہر چلا گیا۔


جی جناب موسم کا مزہ لیا جا رہا ہے۔


ریان ساحر کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا تو ساحر نے مسکر اگر گردن ہلائی۔


کیا ہو ا تم کہہ رہے تھے ضروری بات کرنی ہے سب خیریت ہے۔


ریان نے ساحر سے پوچھا تو اس نے آئبر واچکا کر ریان کو دیکھا۔


یہ تو تم بتاؤ گے ۔ سب خیریت ہے یا نہیں۔


ساحر کے اس طرح کہنے پہ ریان الجھا۔


کیا مطلب میں سمجھا نہیں تمھاری بات کو۔


ریان نے نا سمجھی کا اظہار کیا۔


میں مرحا کی بات کر رہا ہوں ریان۔


ساحر نے مرحا کا نام لیا تو ریان بھی سیریس ہو گیا۔


کھل کے بولو ساحر۔


ریان نے کہا تو ساحر نے گردن ہلائی۔


مرحا کو لے کر تمھاری فکر ، تمھارا چوری چوری مرحا کو دیکھنا، اس کی مسکراہٹ پر خود بھی مسکرانا یہ


سب کیا چل رہا ہے اب تم بھی کھل کے ہی جواب دو۔


ساحر کی بات پر ریان نے آنکھیں بند کر کے کھولیں اور گہری سانس لی۔


ساحر میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔


میں چاہنے لگا ہوں مرحا کو۔ محبت ہو گئی ہے مجھے اس سے۔ ان سمپل ورڈز میں مرحا سے شادی کرنا چاہتا ہوں ساحر


میں نے اپنی لائف میں کبھی کسی لڑکی کو جگہ نہیں دی مگر مر حاکب میرے دل میں بس گئی مجھے پتہ نہیں چلا۔ آج وہ میرے لیے اتنی ضروری ہو گئی ہے کہ اس کے بنا جینے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔


ریان نے اپنے جذبات سچ سچ ساحر کے سامنے کھول دیے تھے۔


تو پھر کیا سوچا ہے آگے کا۔ کیا مر حا جانتی ہے سب۔۔


ساحر نے ریان سے پوچھا تو اس نے کندھے اچکائے۔


وہ میرے جذبات کو سمجھ کر بھی نہیں سمجھ رہی۔ میں صاف الفاظوں میں اسے بول چکا ہوں میری محرم بن جاؤ مگر وہ بنا جواب دیئے چلی گئی۔


ریان کی بات پہ ساحر مسکرایا۔


وہ بہت معصوم ہے ریان ہے۔ وہ ابھی ان جذباتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں بھی تمھارے لیے پسندیدگی دیکھی ہے۔ تم پہلے اپنے پیریٹس سے بات کرو اگر تمھاری محبت سچی ہے تو اس محبت کو جائز نام دو میں مرحا کا بھائی ہوں اس کا ہاتھ خود تمھارے ہاتھ میں سونپوں گا۔


ساحر کی باتوں نے ریان کے دل میں ڈھیروں سکون اتارا تھا۔ وہ آج ہی اپنے ماما بابا اور دادا جان سے بات کرنے کا اراد رکھتاتھا۔


میں آج ہی بات کرتا ہوں۔


اب تم بھی بتا سکتے ہو مجھے اپنے دل کی باتیں۔


ریان نے ساحر کو جانچتی نظروں سے دیکھ کر کہا۔


کیا مطلب ہے۔


ساحر انجان بنا۔


ایمان مجھ سے کچھ نہیں چھپاتی ساحر وہ کسی کے اتنے کلوز نہیں ہے جتنے میرے ہے۔


تم نے اپنی جان پر کھیل کر اسے بچایا۔ اس کی خراب کی ہوئی شرٹ تمھارے لیے قیمتی ہے اس کے


ہاتھوں کی چھاپ تمھارے دل پہ لگی ہے۔


ریان کی بات سن کر ساحر بے چینی سے اسے دیکھنے لگا۔


تمھاری بہن کیا میرے جذبات پورے گھر میں نشر کرتی پھر رہی ہے۔


ساحر نے پریشانی سے کہا تو ریان نے قہقہہ لگایا۔


پورے گھر میں نشر نہیں کر رہی پر وہ مجھ سے کچھ نہیں چھپاتی۔ اب تم بتاؤ محبت کرتے ہو میری بہن


ریان کے پوچھنے پہ ساحر کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔


محبت۔۔ عشق کرتا ہوں میں تمھاری بہن سے۔ جنون ہے وہ میرا۔ میری رگوں میں بہتے خون کی


طرح ہے وہ۔ میں نے اپنی ایک ایک سانس ایمان کے نام کر دی ہے۔


میں ماما بابا سے تمھارے اور ایمان کے بارے میں بھی بات کروں۔


ساحر کے اظہار پر ریان نے کہا تو ساحر نے نہ میں گردن ہلائی۔


ابھی نہیں ابھی مجھے گاؤں جاتا ہے کچھ ضروری کام کے لیے وہاں سے آکر میں خود تمھاری بہن کا ہاتھ


مانگوں گا۔ ابھی اس سے پہلے ایک کام ہے جو نمٹانا ہے مگر میں گاؤں جانے سے پہلے تمھارے اور مرحا کے بارے میں فیصلہ کر کے جانا چاہتا ہوں۔


دیکھوریان مرحا کافی ٹائم سے یہاں ہے بنا کسی رشتے کہ تم کچھ بھی کر لو لوگ باتیں بناتے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں مرحا اس گھر میں ایک جائز رشتے سے رہے۔


 ابھی مرحا کو میں اپنے ساتھ گاؤں بھی نہیں لے جا سکتا اور نہ اسے اکیلا چھوڑ سکتا ہوں اس کی جان پہ کوئی رسک نہیں لے سکتا اور مرحا کے معاملے میں تمھارے علاوہ میں کسی پہ بھی بھروسہ نہیں کر سکتا۔


ساحر نے ریان سے کہا تو ریان اس کی بات سمجھ کر ہاں میں گردن ہلائی۔


میں آج ہی بات کرتا ہوں تم مرحا سے بات کرو اس کی خوشی میرے لیے اپنی خوشی سے زیادہ امپورٹنٹ ہے۔


ریان نے ساحر سے کہا تو اس نے ہامی بھری۔


اسے گاؤں جانے سے پہلے مرحا کی زندگی کا بہترین فیصلہ کرنا تھا تا کہ کل کو اس کے اپنے حویلی والے بھی مرحا پہ کبھی انگلی نہ اٹھا سکیں۔


جس طرح ریان نے مرحا کو سنبھالا تھا اس کا خیال رکھا تھا ساحر کی نظر میں مرحا کے لیے ریان سے بہترین فیصلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔


ماما آپ فری ہیں۔


ریان نے کمرے میں جھانکا جہاں سمینہ بیگم الماری کے پاس کھڑی کپڑے رکھ رہی تھی۔ ہاں بیٹا بولیے کوئی کام تھا۔


سمینہ بیگم اپنا کام چھوڑ کر ریان کی طرف متوجہ ہوئیں۔


جی ماما کچھ بات کرتی ہے آپ دادا جان کے روم میں آجائیں۔


ریان کہہ کر دادا جان کے روم کی طرف چلا گیا۔


سمینہ بیگم بھی جلدی سے اپنا کام نمٹا کر ریان کے پیچھے چلی گئیں۔ ریان نے انہیں دادا جان کے کمرے میں بلایا تھا مطلب کوئی ضروری بات تھی۔


ذوالفقار صاحب کے کمرے میں اس وقت احتشام صاحب شعیب صاحب اور سمینہ بیگم موجود تھیں۔


سب ریان کو دیکھ رہے تھے جو بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ تلاش کر رہا تھا۔


آپ سب مجھے ایسے تو نہیں دیکھیں۔ میں کنفیوز ہو رہا ہوں۔


ریان نے بے چارگی سے کہا تو دادا جان مسکرائے۔


بیٹا آپ خود کنفیوز ہو رہے ہیں یا ہمیں کر رہے ہیں اب بول بھی دیں کیا بات ہے پچھلے پندرہ منٹ سے آپ کچھ کہتے کہتے رک رہے ہیں۔


دادا جان نے کہا تو ریان نے گہری سانس لی۔


اد کے۔۔ وہ مجھے آپ سب کو کچھ بتانا ہے۔


ریان کے کہنے پہ سب نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔


محبت ہو گئی ہے مجھے۔ شادی کرنا چاہتا ہوں میں۔


ریان کی بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آئی۔


ارے بھئی مبارک ہو ہمارا ہوتا اپنے خول سے باہر نکل آیا۔


دادا جان نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو ریان مسکرادیا۔


بیٹالڑ کی کون ہے یہ تو بتاؤ کس کی قسمت جاگی ہے۔


شعیب صاحب نے کہا۔


اور کون ہو گی وہ لڑکی مرھا ہے۔ ہے نہ ریان۔


سمینہ بیگم نے کہا تو ریان نے مسکرا کر اپنی ماں کو دیکھا۔ بھلا کیسے ممکن تھا ماں اپنے بچے کے جذبات نہ پڑھ پائے۔


ریان نے ہاں میں گردن ہلائی تو سب بہت خوش ہوئے۔


رما تھوڑے ہی کام میں سب کو عزیز ہوگئی تھی کی ما شاء اللہ خوش رہو بیٹا مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اور ایک بات مجھے بھی آپ لوگوں کو بتانی ہے۔


بابا ہمارے بہت اچھے دوست ہیں سبیل صفدر شاہ۔


ان کی دو بیٹیاں ہیں۔


بیگم کا کافی عرصہ پہلے انتقال ہو گیا ہے وہ اپنی بیٹوں کے لیے اچھا رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہوں نے شایان اور شاہ میر کو دیکھا تھا ایک بار پارٹی میں تو اپنی بیٹوں کے لیے انہوں نے دبے الفاظ میں ہمارے بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔


اب ماشاء اللہ ریان بھی شادی کے لیے تیار ہے تو میں سوچ رہا ہوں اگر آپ سب کو ٹھیک لگتا ہے تو انہیں کل ڈنر پہ بلا لیتے ہیں۔


آپ سب بھی مل لیں گے ان کی بچیوں سے اور وہ بھی ایک بار سب سے مل لیں گے۔ اگر دونوں طرف سے پسندیدگی کا اظہار ہو جاتا ہے تو ریان کے ساتھ ساتھ شایان شاہ میر کا رشتہ بھی پکا کر دیتے ہیں۔


احتشام صاحب نے پوری بات بتائی تو ذو الفقار صاحب نے خوشی سے ہامی بھری۔


یہ تو اچھا ہو جائے گا تم بلالو سن لوگوں کو مگر کل نہیں ویک اینڈ پہ بلاؤ تا کہ سب لوگ ہی گھر میں موجود رہیں۔


ذوالفقار صاحب کے کہنے پہ سب مسکرادیے۔


ریان هم با قاعدہ تمھارے لیے ساحر سے مرحا کا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں تم بتاؤ کب کریں ہم بات آج ہی کر لیں۔


ذوالفقار صاحب نے کہا تو ریان نے نہ میں گردن ہلائی۔


وہ دراصل میں پہلے خود مر حاکو پر پوز کرنا چاہتا ہوں ایک ہفتے بعد اس کی سالگرہ ہے میں اس کے لیے کچھ اسپیشل کرنا چاہتا ہوں۔ اور اس میں اسے پر پوز کروں گا۔


ریان کی بات پہ سب کے چہروں پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔


دیکھ رہے ہیں بابا اپنے لاڈلے کو کہاں اس سب سے دور بھاگتے تھے اور کہاں اب یہ سب کر رہے ہیں۔ سمینہ بیگم نے ریان کو چھیڑ اتو وہ مسکرایا۔


ماما آج سے پہلے مرحا بھی تو نہیں ملی تھی۔ وہ لڑکی میرے وجود کا حصہ بن گئی ہے کب کیسے کیوں یہ سب میں نہیں جانتا بس مجھے اتنا پتہ ہے میرے سارے جذبے میری چاہت میر اسکون سب اس سے جڑ گیا ہے اس کے بنا میری زندگی ادھوری ہے میری ہر خوشی ادھوری ہے۔


ریان کے ایک ایک الفاظ میں مرحا کے لیے بے انتہا محبت تھی۔ 


یار ایمان پلیز تم بولونہ میں کیسے بولوں گی ان کو


مرحال اتنی دیر سے ایمان کی منتیں کر رہی تھی۔ اسے شاپنگ کے لیے جانا تھا جس کے لیے اس نے پہلے شایان شاہ میر جو بولا تھا مگر سب نے یہی کہا کہ ریان کو بولے وہ لے کر چلے۔


اب ایمان کو بولا تو وہ ریان کے پاس خود جانے کے بجائے مرحا کو بھیج رہی تھی۔


یار ایمان جب تمھاری بات نہیں مانیں گے تو میری کیسے مان لیں گے تم پلیز بولونہ۔


مرحانے ایمان سے کہا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔


ارے مرحا آپ بولو گی بات الگ ہو گی ریان بھائی ایمان کے ساتھ جانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہونگے کیونکہ ایمان اتنا گھوماتی ہے اتنا گھوماتی ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ بھائی ایک بار گئے تھے اس کے بعد سے وہ ایمان کے ہاتھ میں کارڈ پکڑا دیتے ہیں اور پھر ہم لوگ پیتے ہیں۔


شاہ میر نے منہ بنا کر کہا۔


ہاں شاہ میر بھائی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ایمو خود تو خوار ہوتی ہیں ہم تینوں کو بھی کرتی ہیں۔ آپ خود جاکر ریان بھائی سے بولو۔


شہیر نے کہا۔


ہاں مرحا تمھیں ریان بھائی کبھی بھی منع نہیں کر سکتے۔ میں تو سوچ رہا ہوں کہ ہم سب ہی چلتے ہیں


شاپنگ کے بعد باہر ہی ڈنر کرتے ہیں پھر ایک لانگ ڈرائیو پر چلیں گے۔


شایان نے کہا تو سب نے ہامی بھری مرحا کو تھک ہار کر خود ہی جانا پڑا۔


بھائی اور مرحا ساتھ میں کتنے اچھے لگتے ہیں نہ۔


ایمان نے مسکرا کر کہا تو شایان اور شہیر نے ہامی بھری جبکہ شاہ میر صرف زخمی سی مسکراہٹ لیے ایمان کی بات سنتار ہا۔


مر جانے ریان کے روم کے دروازے کے باہر آکر اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر گہری سانس لی۔


آج سے پہلے وہ کبھی ریان کے روم میں نہیں گئی تھی اسے ڈر بھی لگ رہا تھا اور نروس بھی ہو رہی تھی۔


ریان کی لو دیتی نظروں کو وہ بہت اچھے سے سمجھتی تھی۔ اب تو وہ صاف الفاظوں میں اس سے کہہ چکا تھا کہ اسے اس کا ساتھ چاہیے۔


مرحانے روم کا ڈور ناک کیا۔


آجاؤ کھلا ہے دروازہ۔


ریان کی اندر سے آواز آئی تو مر جانے ڈور ناب گھو میا تو دروازہ کھل گیا۔


میں اندر آجاؤں۔


ریان بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا مر حاکی آواز سن کر نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔


تمھیں میرے روم میں آنے کے لیے پر میشن کی ضرورت نہیں ہے ٹیڈی بیئر تم پورے حق سے آسکتی ہو یہاں۔


ریان نے کہا تو مر حا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائی کمرے میں آئی۔


ریان بھی اپنا کام چھوڑ کر مر حا کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔


کوئی کام تھا۔


ریان کے پوچھنے پہ مر جانے فورا گردن ہلائی۔


پہلے یہ بتاؤ روم کیسا لگا تمھیں۔


ریان نے مرحا سے پوچھا تو وہ کنفیوز سی اسے دیکھنے لگی مگر ہر بار کی طرح ریان کی نظریں اسے نظریں جھکانے پر مجبور کر گئیں۔


مرحا کے نظریں جھکانے پر ریان کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔


اچھا بتاؤ کیا کام ہے۔


ریان نے اس پر ترس کھا یا وہ اسے کنفیوز نہیں کرنا چاہتا تھا۔


وہ شاپنگ پہ جانا ہے آپ لے چلیں گے۔ مجھے کچھ سامان چاہیے۔


مر جانے مدھم آواز میں کہا۔


اس میں پر میشن کی کیا بات ہے آپ تو حکم کریں ہم تو آپ کے حکم کے غلام ہیں۔


ریان نے نے محبت سے کہا تو مر جانے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔


ٹھیک ہے پھر ہم لوگ تیار ہو جاتے ہیں۔


مرحا کہہ کر جانے کے لیے پلٹی تو ریان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


مرحا کیوں بھاگتی ہو مجھ سے۔ کوئی شک ہے تمھیں مجھ پہ میری فیلینگز پہ تم یہ تو نہیں سمجھتیں میں


تمھارے ساتھ ٹائم پاس کر رہا ہوں۔


ریان نے مرحا سے پریس انداز میں پوچھا۔


نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ بس میں۔۔۔


مرحا کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے۔


ریان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔


مرحا مجھ سے بھا گامت کرو محبت کرتا ہوں میں تم سے قسم کھا کہ کہتا ہوں تم مجھ سے دور ہوئیں تو میں مر جاؤں گا۔


ریان کی بات پر مر جانے اپنے ہاتھ اس کے لبوں پہ رکھا۔


آنکھوں میں بے اختیار نمی آئی۔


میں زندگی میں بہت کچھ کھو چکی ہوں ریان اب جو کچھ میرے پاس ہے میں وہ نہیں کھونا چاہتی آئندہ مرنے کی بات مت کرے گا۔ خوف آتا ہے مجھے اس سے۔


مرحانے بھیگے لہجے میں کہا اور ریان کو حیرت میں چھوڑ کر چلی گئی۔


مرجانے اس سے یہ تو نہیں کہا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے مگر اس نے جو کہا اس سے ریان اس کے جذ باتوں کو اچھے سے سمجھ گیا تھا۔


ریان کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔


مرحا کا دور بھاگنا نظریں چرانا یہ سب اس کی شرم و حیا تھی۔ ریان سمجھ گیا تھا مر حا کے دل کا حال بھی اس کے دل کے حال سے جدا نہیں ہے۔


یا سر حویلی لوٹا تو اس وقت سب جگہ خاموشی کا راج تھا۔ آج پہلی بار اسے بہت زیادہ دیر ہو گئی تھی۔


ساحر نہیں تھا اس کے اوپر ذمہ داریاں بڑھ گئیں تھیں۔


وہ حویلی کے اندر جانے لگا تو آج پھر اسے اس اندھیرے میں کھانے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے اماں صاحب حویلی کے دوسرے حصے میں جاتی دیکھی ان کے ہاتھ میں ٹارچ تھی جس کی مدد سے وہ راستہ دیکھتی چل رہی تھیں۔


یا سر کو کچھ عجیب لگا۔


وہ تھوڑا آگے ان کے پیچھے گیا۔


یا سر آج پہلی بار اس طرف آیا تھا۔ اماں صاحب نے اس طرف آنے کی اجازت کسی کو نہیں دی تھی۔


مگر یہاں اس سنسان حصے میں اماں صاحب کا کھانا کے کر جانا یا سر کو الجھا گیا تھا۔


ایسا کون تھا اس حصے میں جس کے لیے وہ کھانا لے جارہی تھیں۔


یا سر چار دن سے اس چیز پر نظر رکھے ہوئے تھا۔


مگر یہ اس کا وہم نہیں تھا آج مسلسل چوتھے روز بھی اماں صاحب اس جگہ کھانا لے جارہی تھیں۔


یا سر نے پہلے سوچا کہ ان کے پیچھے جائے مگر اتنا اند خیر تھا اس طرف کہ اس کی ہمت نہیں ہو سکی۔ اور پھر اس جگہ کو ہمیشہ یہ کہہ کر سنسان رکھا گیا تھا کہ وہاں اثرات ہیں۔


یا سر نے دل سے دعا کی تھی کہ ساحر آجائے جلد سے جلد آجائے۔


کچھ تو بہت عجیب تھا مگر کیا تھا یہ تو ساحر ہی پتہ کر سکتا تھا۔


ریان گاڑی میں بیٹھا سب کا انتظار کر رہا تھا۔


شایان آگر ریان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا۔


مرحا ایمان شہیر اور شاہ میر پیچھے بیٹھے۔


ریان بیزار ہوا جس کے لیے وہ اس خواری والے کام کے لیے راضی ہو ا تھا وہ پیچھے بیٹھ گئی تھی۔ ریان


نے مررسیٹ کر کے مرحا کے فیس کی طرف کیا تا کہ وہ اسے دیکھ تو سکے۔


شایان نے اس کی یہ حرکت نوٹ کی تھی۔ اسے اپنے بھائی پر ترس آیا۔


مر حاتم آگے آجاؤ میں پیچھے بیٹھوں گا۔


شایان کی بات پر ریان نے آئیبر و آچکا کر اسے دیکھا تو وہ مسکرا کر پیچھے جا بیٹھا اور زبر دستی مرحا کو آگے بیٹھایا۔


ریان کی جان میں جان آئی تھی۔


وہ لوگ مال پہنچے تو ریان کا موبائل بجنے لگا۔ گھر سے کال آتی دیکھ اس نے فورا کال اٹھائی۔


ہیلو ریان۔ ساحر بول رہا ہوں۔


ہاں ساحر بولو سب خیریت ہے۔


ساحر کی آواز سن کر ریان نے جواب دیا۔


ہاں خیریت ہے تم سے بس یہ کہنا تھا کہ ایمان کا ساتھ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چھوڑ ناوہ کہیں بھی جائے کسی بھی شاپ پہ جائے تو وہ اکیلی نہ ہو۔ میں اس پر رسک نہیں لے سکتا۔


ساحر کی ایمان کے لیے فکر دیکھ کر ریان مسکرایا۔


تم فکر نہیں کرو یہ بات میں نے شایان شاہ میر کو بول دی ہے وہ ایک لمحے کے لیے بھی ایمان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔


رمیان کی بات پہ ساحر کو تلی ہوئی۔


ریان کال سن کر واپس آیا تو سب اندر چلے گئے۔


سنو۔ اگر میں کہوں کہ ساری شاپنگ میری پسند سے کرنا تو تم کرو گی۔


ریان نے مرحا کے قریب سر گوشی کی تو اس نے ریان کو دیکھ کر بے اختیار ہاں میں گردن ہلائی جو ریان کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ بکھیر گئی۔


ریان نے ساری ڈریسز مرحا کے لیے اپنی پسند کی لی تھی۔


مر حا کوئی ڈریس اپنے لیے پسند کرتی تو نظریں خود ریان کی طرف اٹھتی تھیں۔


ریان اشاروں ہی اشاروں میں اسے ہاں نہ کا جواب دے رہا تھا۔


ریان نے اس کے لیے ایک بھی ویسٹرن ڈریس نہیں لی تھی۔ جو بھی ڈریسز تھیں سب دیسی تھیں۔


فراک لانگ کر تیاں۔ ہر ڈریس میں ایک چیز سیم تھی اور وہ تھے چوڑی دار پا جائے۔


ریان نے جو بھی پسند کیا تھا اس میں یہی چیز وہ فوکس کر رہا تھا۔ اور کلر ز بھی اس نے سارے برائٹ لیے تھے جو مر جانے پہلے بہت ہی کم پہنے تھے۔


مر حادو ڈریسز میں ہی ریان کی پسند سمجھ گئی تھی۔


آپ لوگوں نے نوٹ کیا بھائی نے کتنی صفائی سے مرحا کو اپنے پسند کی شاپنگ کروائی ہے۔


ایمان نے اپنے بھائیوں کے کان میں سر گوشی کی۔


ہاں میں نے دیکھا بھائی کو لگ رہا ہے ہمیں کچھ دیکھ ہی نہیں رہا۔


شایان نے مسکرا کر کہا۔


کیا دیکھ رہا ہے تم لوگوں کو ہم۔


ریان ان کے سر پہ سوار سوال کرنے لگا تو چاروں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔


ریان نے نہ میں گردن ہلائی۔


ریان نے شہیر سے کہا تو وہ فوراً مر حا کے پاس چلا گیا۔


❤️❤️❤️