تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 15

از۔"طوبیٰ صدیقی"


°°°°°°


❤❤❤


چلو کیفے ٹیریا چلتے ہیں تم سب سے بات کرتی ہے۔


ریان کہہ کر سب کو لے کر کیفے ٹیریا چلا گیا۔


مجھے پتہ ہے مرحا اور مجھے لے کر تم لوگوں کے دلوں میں بہت سارے سوال ہیں اور ان سوالوں کا بس ایک جواب ہے میں محبت کرتا ہوں مرحا سے۔ میں نے گھر کے بڑوں سے اور ساحر سے ہمارے رشتے کے لیے بات کر لی ہے۔


ریان نے جتنے آرام سے انکے سر پہ دھما کہ کیا تھاوہ تینوں اتنی ہی بے یقینی سے ریان کو دیکھ رہے تھے۔


بات اتنی آگے بڑھ گئی تھی اور ان لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگا۔


شاہ میر نے کرب سے آنکھیں بیچی تھیں۔


وہ اس وقت ریان پر کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس کا آنکھیں میچنا اور آنکھوں کی تکلیف ایمان سے چھپ نہیں پائی تھی۔ 


بھیو بہت غلط بات ہے آپ نے کچھ بتایا بھی نہیں اتنی اچانک سے سب کر بھی لیا اور مرحا اسے پتہ ہے وہ بھی محبت کرتی ہے آپ سے۔


ایمان نے ایکسا نیٹیڈ ہو کر پوچھا۔


ایمان کی بات پر ریان نے سرد آہ بھری۔


مرجانے ابھی تک تو اظہار نہیں کیا الٹا مجھ سے شرماتی گھبراتی پھرتی ہے۔


وہ بھی چاہتی ہے بھائی آپ کو۔ اس کی آنکھوں میں آپ کو دیکھ کر جو سکون آتا ہے آپ کو دیکھ کر اس کے چہرے پہ جو مسکان کھلتی ہے وہ صاف ظاہر کرتی ہے اس کے دل میں بھی آپ کے لیے فیلینگز ہیں۔


شاہ میر نے ریان کی بات پہ کہا تو ایمان نے شاہ میر کو دیکھا۔


کچھ تھا جو ایمان کو کھٹکا تھا۔


ہاں شاید۔ خیر تم لوگوں کو پتہ ہی ہے مرحا کی سالگرہ ہے اگلے ہفتے تو میں نے اس کے لیے سر پرائز پارٹی رکھنے کا سوچا ہے۔ زیادہ لوگ نہیں ہونگے صرف ہم سب گھر والے اور شیری کی فیملی۔ اور اسے


پارٹی میں ، میں مرحا کو پر پوز کرنے کا سوچ رہا ہوں۔


پھر دادا جان خود ساحر سے با قاعدہ رشتہ مانگ لیں گے۔


مگر اس سب کی تیاری میں مجھے تم سب کی مدد چاہیے۔


میں مرحا کے لیے اس کا یہ بر تھڑے بہت اسپیشل بنانا چاہتا ہوں۔


ریان نے اپنی پلینگ بتائی تو تینوں نے اس کی مدد کرنے کی ہامی بھری۔


ویسے ایک سرپرائزنگ نیوز اور ہے میرے پاس۔


ریان نے کہا۔


کیا نیوز ہے بھیو بتائیں جلدی سے۔


ایمان نے بے چینی سے کہا۔


اس ویک اینڈ پہ بابا کے دوست ہیں سہیل صفدر شاہ وہ آرہے ہیں ڈنر پہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ۔


ریان کے اتنا کہنے پہ تینوں نے سوالیہ نظروں سے ریان کو دیکھا تو اس نے مسکراہٹ دبائی۔


وہ اپنی بیٹوں کے لیے شایان شاہ میر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


وااات


ایمان شایان شاه میر تینوں ایک آواز ہو کر چیچنے تھے۔


ریان بھائی یہ کیا بول رہے ہیں آپ ابھی سے یہ سب۔


ہاں بھائی ۔ ابھی سب کی کیا ضرورت ہے میں اس سب کے لیے بالکل راضی نہیں ہوں۔


شایان شاہ میر دونوں قدمے کی کیفیت میں بولے۔


ارے کون سا ابھی شادی ہو رہی تم لوگ دیکھو ملو پسند آجائیں تو ٹھیک ورنہ کوئی زبردستی نہیں ہے۔


ریان نے سمجھایا مگر وہ دونوں ہی با ضد تھے۔ وہ ان چکروں میں ابھی نہیں پڑنا چاہتے تھے۔


جبکہ ان دونوں کی شکلیں دیکھ دیکھ کر ایمان کا ہنس ہنس کر براحال ہو رہا تھا۔ 


مر حاشہیر کے ساتھ اپنا بنایا اسکیچ فریم کروانے آئی تھی۔ اتنے ٹائم سے اسے موقع ہی نہیں لگ رہا تھا۔


آج فائینلی اس نے فریم بنوالیا تھا۔


مجھے یقین نہیں آرہا مر حا یہ سچ میں آپ نے بنایا ہے۔


شہیر ستائشی نظروں سے مرحا کے اسکیچ کو دیکھ رہا تھا جس پر اس نے بہت مہارت سے ایمان کا چہرہ بنایا تھا۔


یہ میں نے کافی ٹائم پہلے بنالیا تھا مگر حالات ایسے تھے کہ دے ہی نہیں پائی اب دوں گی ایمان کو۔


مرجانے مسکرا کر کہا۔


مرحانے فریم پیک کروایا اور پھر شہیر کے ساتھ واپس سب کے پاس جانے لگی۔


شاپ سے نکلنے کے بعد مرحا کو ایسا لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔


اس نے پلٹ کر دیکھا مگر وہاں اسے کوئی نہیں دیکھا۔


ابھی تھوڑا آگے اور جاکے مرحا کو پھر کسی کی نظر میں خود پہ محسوس ہو ئیں۔


اس نے پھر پلٹ کر دیکھا تو اس کی پیروں سے جیسے جان نکل گئی۔


مرحا کے کچھ فاصلے پر حاشر اور ساحل کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔


مرحا کے اوسان خطا ہو گئے۔ ان لوگوں کو مرحا کے زندہ ہونے کا پتہ لگ گیا تھا۔ شہیر بھا گو جلدی۔


مرحانے شہیر سے کہا اور لمحہ ضائع کیے بغیر تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔ مرحا کو دیکھ کر شہیر بھی اس کے پیچھے بھاگا تھا۔


مرحا بار بار مڑ کر دیکھ رہی تھی کہیں وہ لوگ پیچھے نہ آرہے ہوں۔ مرحا کو ڈرا ہوا دیکھ کر شہیر بھی گھبرا گیا تھا۔


بھاگتے ہوئے مرحا سامنے سے آتے شخص سے ٹکرائی۔


نہیں۔ نہیں پلیز مجھے جانے دو مجھے چھوڑ دو۔۔


مر ہزار و قطار روتے ہوئے بولے۔


مر حا کیا ہوا ہے کیا بول رہی ہو دیکھو میری طرف دیکھو میں ہوں ریان۔


ریان کی آواز سن کر مرحا کی جان میں جان آئی۔


وہ وہاں پہ اوپر وہ۔۔


مرحا سے بولا تک نہیں جارہا تھا۔


اچھا تم ریلکس ہو جاؤ سب ٹھیک ہے او کے سب ہیں یہاں پریشان نہیں ہو۔


ریان نے مرحا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھاما اور اسے ریلکس کرنے کی کوشش کرنے لگا جب کہ اس نے اشارے سے شایان شاہ میر کو آس پاس دیکھنے جو کہا۔ مگر ان دونوں کو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ مجھے گھر جانا ہے۔


مرحا کے کہنے پہ سب نے ہامی بھری تھی۔ شاہ میر مرحا کی ایسی حالت دیکھ کر بے چین ہو گیا تھا اس کی نظریں مسلسل آس پاس کے لوگوں پر تھیں مگر اسے ایسا کچھ نظر نہیں آیا جس سے مر حاڈری ہو۔


ریان سب کو کے کر مال سے نکل گیا۔


ہاں ماں صاحب وہ چوکیدار ٹھیک بول رہا تھا مر حازندہ ہے اس لڑکے نے ہم سے جھوٹ بولا تھا۔ میں اس لڑکے کا پتہ کرواتا ہوں کون ہے یہ ہیرو جس نے ہم سے پنگا لینے کی جرت کی ہے۔ حاشر نے کال ملا کر اماں صاحب کو خبر دی اور آگے کا لائحہ عمل طے کیا۔ مرحا اسے کسی بھی حال میں چاہیے تھی۔


ریان نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے باہر روکی۔ تم سب جاؤ جا کر بیٹھو کھانا آرڈر کرو۔ شاہ میر بیٹا تم دیکھ لینا سب۔


ریان نے شاہ میر کو مخاطب کر کے کہا اور مرحا کو آگے آکر بیٹھنے کو کہا۔ مرحا اس وقت بھی بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی۔


شاہ میر سب کو اندر لے کر چلا گیا تو مر حا آکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔


مرحا کیا ہوا ہے تم کیوں اتناڈر گئی ہو کسی نے کچھ بولا تھا تمہیں۔ ریان نے بہت پیار سے مرحا سے پوچھا تو اس نے ریان کو سب بتا دیا۔


وہاں میرے پیچھے حاشر لالا اور ساحل لالا کھڑے تھے وہ مجھے بہت غصے سے دیکھ رہے تھے ریان انہیں پتہ لگ گیا میں زندہ ہوں وہ لوگ مجھے بھی نہیں چھوڑیں گے اور میرے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں وہ لوگ۔ ان دونوں کی آنکھوں میں بہت غصہ تھار یان وہ لوگ مجھ تک پہنچ جائیں گے۔


مرحا کی بات سن کر ریان بھی پریشان ہوا تھا مگر مرحا پہ اپنی پریشانی ظاہر کر کے وہ اسے مزید خوفزدہ نہیں کر سکتا تھا۔


مرحا میری طرف دیکھو۔ ریان نے مرحا کا ہاتھ تھام کر اس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔


میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کوئی تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اگر کسی نے ایسا سوچا بھی نہ تو میں اس زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔


میرے ہوتے ہوئے تمھیں کوئی غلط نظر سے دیکھے تمھیں نقصان دے میں قبر کھودنے میں وقت نہیں لگاؤں گا اس کی۔


ریان کی باتوں میں جنون تھا۔


مر حاریان کے ساتھ مطمئن تو ہو گئی تھی مگر اس کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا۔ وہ اب اپنی زندگی میں کچھ بھی برا نہیں چاہتی تھی۔


ارے سلمان بھائی ہڈیاں جڑی آپ کی یا نہیں۔


سامنے کھڑے شخص نے سلمان کا مزاق اڑا یا تو وہ غصے سے اسے گھور نے لگا۔


زیادہ بکو مت۔ اس سب کا حساب تو میں کر کے رہوں گا۔ راجا بھائی تو کہہ رہے تھے تم ان کے خاص آدمی ہو مگر تم نے تو ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا ہے۔


سلمان نے نقاہت سے کہا تو سامنے کھڑا شخص قہقہہ لگا کر ہنسا۔


با بابا ارے سلمان تم نے کیا اپنی طرح سمجھ لیا ہے۔ میں اس کام میں پچھلے چھ سال سے ہوں۔ جلد بازی ہمارا اسٹائل نہیں ہے۔ مجھ سے کام لینا ہے تو صبر تو رکھنا ہو گا ہم ایسے ہی شکار نہیں کرتے بہت پلاننگ کے ساتھ شکار کرتے ہیں۔


سامنے کھڑے شخص نے کہا تو سلمان بلکا سا ہنسا۔


ہہ دیکھ لیتے ہیں کیا کر لیتے ہو تم بھی۔


ہاں ہاں دیکھ لینا ویسے تمھاری معلومات کے لیے بتادوں کہ تمھاری محبوبہ آج مال میں دیکھی تھی۔ قسم سے کیا مست ہیں ہے۔ دیکھ کر ہی بندے کی طبیعت خوش ہو جائے۔


کیا سچ کہہ رہا ہے وہ واقعی تجھے دیکھی تھی۔


سلمان نے سنجیدگی سے پوچھا۔


ارے ہاں ہاں دیکھی تھی۔ رک دیکھاتا ہوں۔


سامنے کھڑے شخص نے اپنا موبائل نکالا اور کچھ تصویریں سلمان کے آگے کیں۔


اس شخص کے موبائل میں ایمان کی الگ الگ اینگل سے لی ہوئی کئی تصویریں تھیں۔ تصویروں کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ ساری تصویر میں چھپ کر لی ہیں۔


یہ ساتھ میں لڑکی کون ہے۔


سلمان نے سوال کیا تو سامنے والے شخص کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


یہ بھی کمسن کلی ہے۔ تیری محبوبہ کی دوست ہی ہے۔ قسم سے یہ بھی کسی سے کم نہیں ہے مگر اس لڑکی کا ابھی سوچنا بھی مت ابھی اس لڑکی سے بہت سے حساب کتاب نکلتے ہیں۔ ہاں اس کے بعد چاہو تو اس


کو تمھیں دے سکتا ہوں میں۔ مگر بھاری رقم لگے گی اس کی بھی۔


ہاں ہاں ٹھیک ہے دے دوں گا بھاری رقم بھی پہلے میری محبوبہ مجھ تک پہنچا پھر اس حسینہ کو۔ سلمان نے کمینگی سے کہا۔


سمرین مجھے بہت خوشی ہوئی تم آگئیں۔


اتنا ٹائم ہو گیا تھا ملے اور مجھے تو میری پیاری سی عمل کی بھی بہت یاد آرہی تھی۔


سمینہ بیگم نے عمل کے گال چوم کر کہا۔


سمرین بیگم اور عمل حیدر آباد میں رہتے تھے۔ جب بھی وہ لوگ سمینہ بیگم کے گھر آتے تو مہینہ بھر رک کر جاتے تھے۔ ایک وقت تھا جب عمل سمینہ کو اپنے ریان کے لیے بہت پسند تھی مگر اب ریان مرحا کو پسند کرتا تھا تو ان کے لیے اپنے بیٹے کی خوشی پیاری تھی۔ مرحا ویسے بھی بہت پیاری اور گھلنے ملنے والی لڑکی تھی۔ انہیں اپنے بیٹے کی پسند پہ ناز تھا۔


ارے ہم تو آگئے مگر بچے کہاں ہیں نظر ہی نہیں آرہے۔


سمرین بیگم نے پوچھا۔


ارے سب زرا شاپنگ پہ گئے ہوئے ہیں۔ آتے ہی ہونگے ہیں۔


سمینہ بیگم کے بولتے ہی باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔


لو آگئے بچے۔


سمینہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔


ارے آگیا میر اشہزادہ۔


ریان شایان شاہ میر شہیر ایمان اور مر حاکو لے کر شاپنگ سے واپس آیا تو خالہ جانی اور انکی بیٹی عمل گھر پہ موجود تھیں۔


اسلام و علیکم خالہ جانی کیسی ہیں آپ۔ ریان سمیت باقی سب بھی ان لوگوں سے ملے۔


مر حاوہی دروازے کے پاس رک گئی تھی تو ریان نے مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ نئے چہرے دیکھ کر کنفیوز ہوئی تھی۔


ریان نے واپس مرحا کے پاس آکر اس کا ہاتھ تھاما اور اندر لے آیا۔


ریان کا کسی لڑکی کا ہاتھ تھامنا عمل کی آنکھوں میں چھا تھا وہی سمرین بیگم نے ناگواریت سے یہ دیکھا تھا۔


مرح ان سے ملو یہ میری خالہ ہیں اور یہ ان کی بیٹی ہے عمل۔


اور خالہ جانی یہ مرحا ہے ایمان کی دوست۔


ریان نے تعارف کروایا تو سمرین بیگم اور عمل زبر دستی کی مسکراہٹ کے کر اس سے ملے۔


یہ ایمان کی دوست سے زیادہ تو آپ کی دوست لگ رہی ہے ریان۔


عمل نے ریان سے کہا تو وہ مرحا کو دیکھ کر مسکرایا۔


میری صرف دوست نہیں ہے بہت کچھ ہے یہ میرے لیے۔ میرا اور اس کا رشتہ دوستی سے بھی اوپر کا ہے۔


ریان کے اس اعتراف نے سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری تھی۔ مر حاشو کڑی ریان کو دیکھے گئی آج اس نے سب کے سامنے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اس کے لیے کیا ہے۔


شاہ میر کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ تھی وہی ریان کی بات نے عمل کا منہ بند کر دیا تھا۔


مر حاتم اپنے روم میں جاؤ۔ ریسٹ کرو۔


ریان نے مرحا سے کہا تو وہ خاموشی سے اپنے روم میں چلی گئی۔


مرحا کو کیا ہوا کتنی خوش گئی تھی اب اتنی اداس کیوں لگ رہی ہے۔


سمینہ بیگم نے فکر مندی سے کہا۔


کچھ نہیں ماما اس کی طبیعت خراب ہو گئی تھی ریسٹ کرے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔


ریان نے بتایا تو سمینہ بیگم پریشان ہوئی تھیں۔


میں دیکھتی ہوں اسے کوئی دوا و غیرہ دے دیتی ہوں۔ سمینہ بیگم کہہ کر مرحا کے کمرے کی طرف چلی گئی جبکہ سمرین بیگم کو ان کا انداز بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔ انہیں مرحا کے لیے سب کی اتنی فکر خاص کر ریان کا اس سے اتنا کلوز ہونا کھڑکا تھا۔


عمل آپی آپ اتنے دن بعد آئی ہیں آپ نے کہا تھا آپ جلدی آئیں گی۔


ایمان نے عمل کے برابر میں جگہ بنائی۔یار کاموں میں الجھ گئی تھی آنے کا موقع ہی نہیں لگ پایا۔


عمل جواب ایمان کو دے رہی تھی مگر اس کی نظریں بار بار ریان پر اٹھ رہی تھیں جو اپنے بھائیوں سے پتہ نہیں کون سی گفتگو میں لگا تھا۔ ریان نے ہمیشہ کی طرح عمل کو بالکل اہمیت نہیں دی تھی مگر اس کا مرحا کو اہمیت دینا عمل کو چنگاری لگا گیا تھا۔


سب باتوں میں مصروف تھے جب سمینہ بیگم کے چیخنے کی آواز آئی وہ چھیچ کر ریان کو بلارہی تھیں۔ ان


کی آواز سن کر سب ہی او پر مرحا کے کمرے کی طرف بھاگے تھے۔


سمینہ بیگم کی آواز پر سب لوگ ہی مرحا کے کمرے کی طرف آئے تھے۔


ریان دیکھو مر حابے یوش ہو گئی ہے بہت تیز بخار بھی ہو رہا ہے۔


ریان کے کمرے میں پہنچتے ہی سمینہ بیگم نے ریان سے کہا۔


ریان تیزی سے مرحا کے پاس آیا۔


مرحا۔۔ مرحا آنکھیں کھولو پلیز۔ مرحا


ریان نے مرحا کا گال تھپتھپایا مگر بے سود۔


میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں بھائی۔


شاہ میر کہہ کر تیزی سے کمرے سے نکلا تھا۔


عمل کو شاہ میر کا انداز بھی عجیب لگا تھا۔ سب کو ہی مرحا کی فکر ہو رہی تھی۔ مگر ان دونوں کے چہرے کے تاثرات ہی الگ تھے۔


شاہ میر نے روم سے باہر آکر ڈاکٹر کو کال کی اور انہیں جلدی گھر پہنچنے کا بولا۔


ریان مرحا کے پاس بیٹھا مسلسل اس کی ہتھیلی مسل رہا تھا۔ مرحا کا وجود اس وقت تیز بخار میں تپ رہا تھا۔


مرحا کا بے ہوش ہو جاناریان کی جان لبوں پہ لے آیا تھا۔


عمل کو ریان کا یہ اند از بالکل اچھا نہیں لگا تھا وہ تو کبھی کسی لڑکی کی پرواہ نہیں کرتا تھا ایمان کے علاوہ تو


کوئی لڑکی اس کے کبھی قریب نہیں رہی تھی اب اس کا مر حاکی اتنی فکر کرنا عمل کو ناگوار گزرا تھا۔


مرحا اٹھو نہ پلیز میری جان اٹھ جاؤ۔


ایمان مرحا کے برابر میں بیٹھی اسے پکار رہی تھی۔


شیر از ساحر کو لے کر گھر پہنچا۔ ریان نے شیر از اور ساحر کی ملاقات کروادی تھی تا کہ وہ اس کیس کے


متعلق تمام معاملات ساحر سے ڈسکس کر سکے۔


تھینک یو شیر از تمہیں میرے لیے یہاں تک آنا پڑا۔


ساحر نے شیراز سے کہا تو وہ مسکرایا۔


ارے اس میں تھینکس کی کوئی بات نہیں یار مگر ہاں اگر میں نہیں آتا تمہیں خود آنا پڑتا اور غلطی سے


تمہیں کچھ ہو جاتا نہ تو تمھارا ہونے والا بہنوئی میری جان مشکل میں ڈال دیتا۔


شیر از کی بات پہ ساحر نے قہقہہ لگایا۔


دونوں اندر آئے تو ہال میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔


لگتا ہے سب سو گئے ہیں۔


شیر از نے کہا۔


تب ہی سیڑھیوں سے شاہ میر تیزی سے نیچے اتر تا دیکھا۔


اسلام و علیکم شیری بھائی۔


ساحر بھائی آپ ٹھیک ہواب۔


شاہ میر نے دونوں کو مخاطب کیا۔


ہم ٹھیک ہیں تم کیوں اتنی جلدی میں ہو اور پریشان بھی لگ رہے ہو سب خیریت ہے نہ۔


ساحر نے شاہ میر کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔


وہ مرحا بے ہوش ہو گئی ہے اسے بخار ہے بہت تیز میں ڈاکٹر ماویٹ کر رہا ہوں وہ آتے ہونگے۔


شاہ میر نے بتایا تو ساحر بے چین ہو گیا۔


اچانک سے کیا ہو گیا مر حاکو وہ تو بالکل ٹھیک گئی تھی نہ ۔ مجھے اس کے پاس جانا ہے۔


ساحر کہہ کر اوپر کی طرف جانے لگا تو شیری اس کے پیچھے جانے لگا۔


ساحر اب اپنے سہارے بالکل ٹھیک چل رہا تھا مگر پھر بھی وہ لوگ اس کے معاملے میں احتیاط سے کام لے رہے تھے۔


ساحر روم میں داخل ہوا تو عمل اور سمرین بیگم نے اسے دیکھا۔


ریان کیا ہوا ہے مرحا کو سب ٹھیک تو ہے نہ اچانک اتنی طبیعت کیسے خراب ہو گئ


ساحر ریان کے پاس پہنچ کر بولا۔


پتہ نہیں یار کیا ہو گیا ہے مرحا کو مجھے خود کچھ سمجھ نہیں آرہا۔


ریان نے کہا۔


شاہ میر ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو سب لوگ مرحا کے پاس سے دور ہوئے تا کہ ڈاکٹر اسے چیک کر سکے۔


انہیں بہت تیز بخار ہے اور یہ اس کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی ہیں۔ آپ لوگ ان کے سر پہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھیں تا کہ ان کا بخار کم ہو جائے۔ ان کا بخار کم ہو گا تو انہیں ہوش بھی آجائے گا۔


باقی میں ایک انجیکشن لگارہا ہوں اور میڈیسن دے رہا ہوں جب انکو ہوش ہو جائے تو یہ میڈیسن کھلا دیے گا۔


اور کل ایک بار آ رہا ہیں میں چیک اپ کروا لیے گا۔


ڈاکٹر نے ہدایت دی تو ریان نے ہاں میں گردن ہلائی۔


شاہ میر ڈاکٹر کو واپس چھڑ نے چلا گیا تو سمینہ بیگم نے سب کو اپنے کمروں میں جانے کا کہہ دیا۔


چلو تم سب بھی اب جا کر سو جاؤ مر حا کے پاس ایمان رک جائے گی۔ سمینہ بیگم نے سب سے کہا تو ریان تیزی سے کمرے سے نکل کر گیا۔


شایان شهیر سمرین بیگم جاچکے تھے جبکہ ساحر سمینہ بیگم اور عمل وہی موجود تھے جب ریان ٹھنڈا پانی اور پٹیاں لے کر آیا اور مرحا کے پاس بیٹھ گیا۔


ریان آنی نے سب کو جاکر ریسٹ کرنے کا بولا ہے یہ کام ایمان بھی کر سکتی ہے۔


عمل ریان کی فکر پر سلگ کر بولی۔


تم اپنے کام سے کام رکھا کو عمل میرے معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔


ریان نے سختی سے کہا تو سمینہ بیگم نے اسے آنکھیں دیکھائیں۔


ریان تم بھی جاؤ کمرے میں ایمان کرلے گی یہ ۔


سمینہ بیگم نے ریان کو سمجھایا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔


ما ما مر حا کا بخار تھوڑا کم ہو جائے پھر چلا جاؤں گا مجھے اس کی فکر ہی ستاتی رہے گی۔


ریان نے جواب دیا تو عمل اس کی بات پہ غصے سے کمرے سے نکل گئی۔


اسے مرحا سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ وہ ایک عرصے سے ریان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور یہ کل کی آئی لڑکی نے ریان کو اپنے قابو میں لے رکھا تھا۔


عمل کا غصے سے دماغ خراب ہو رہا تھا مگر وہ ریان کو ایسے ہی تو کسی کا ہونے نہیں دے سکتی تھی۔ وہ اسے حاصل کر کے ہی رہے گی کوئی بھی لڑکی آکر اس کے ریان کو چھین نہیں سکتی تھی۔


عمل دل ہی دل میں سوچ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔


سهیل صاحب اس وقت اسٹڈی روم میں موجود تھے جب ڈور لوک ہوا۔


سبیل صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


آجائیں میری شہزادیوں۔


سہیل صاحب نے محبت سے دورازے پر کھڑی اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھا۔


نور العین اور قرۃ العین میں ان کی جان بستی تھی۔


نور العین سہیل صاحب کی بڑی بیٹی تھی۔


سمجھدار ، نرم مزاج، سادگی پسند۔ نور اپنے بابا کے ساتھ انکا بزنس سنبھال رہی تھی ساتھ ساتھ اپنی


تعلیم بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔


اس سے چار سال چھوٹی تھی قرۃ العین۔ جسے پیارے سب عینی بولتے تھے۔


عینی کا مزاج نور کے مزاج سے بالکل مختلف تھا۔


سخت مزاج، غصے کی تیز ، منہ پھٹ اور نڈر۔


جب سہیل صاحب کی بیگم کا انتقال ہوا اس وقت نور سات سال کی تھی جبکہ عینی کی عمر تین سال تھی۔


نور عینی کے لیے اس کی ماں کی طرح تھی۔


سہیل صاحب نے اپنی بیٹیوں کو بہت محبت سے پالا تھا۔


مگر اب کافی ٹائم سے ان کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی تھی اوپر سے جو بیماری ڈاکٹر ز نے انہیں بتائی تھی اس کے بعد انہیں اپنی بیٹیوں کی اور بھی زیادہ فکر ہونے لگی تھی۔


سہیل صاحب کے دماغ میں ٹیومر تھا جس کی وجہ سے انکی حالت کبھی کبھی بہت زیادہ خراب ہو جاتی تھی۔ ایسی میں انہوں نے جلد سے جلد اپنی بیٹیوں کی شادی کرنی تھی اپنی زندگی میں وہ اپنی بیٹیوں کو ہنستا بستاد یکھنا چاہتے تھے۔


ڈیڈ آپ نے بلایا تھا۔


نور آکر ان کے ساتھ بیٹھی تو عینی بھی آکر سہیل صاحب کی دوسری طرف بیٹھی۔


ساری باتیں چھوڑیں پہلے یہ بتائیں دوا کیوں نہیں کھائی ہے اب تک آپ نے۔


عینی نے غصے سے سامنے ٹیبل پہ پڑی دو اٹھائی۔


ارے بھئی بھول گیا کام میں مصروف ہو گیا تھا لائیں میں ابھی کھا لیتا ہوں۔


سہیل صاحب عینی کے ہاتھ سے دوا کے کر کھانے لگے۔


یہ آپ نہ اپنی بھولنے کی بیماری کم کر دیں آپ ہمیشہ ہی دوا کھانا بھول جاتے ہیں۔


عینی نے ناراضگی سے کہا۔


ڈیڈ عینی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے آپ دوا نہیں کھائیں گے ٹائم پہ تو کسے ٹھیک ہونگے۔ نور نے پیار سے سمجھایا تو وہ مسکرائے۔


❤❤❤


جاري ہے