تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 16

از۔"طوبیٰ صدیقی


 

°°°°°°


❤️❤️❤️


ان کی دونوں بیٹیاں آگ اور پانی کی طرح تھی۔


ایک پانی کی طرح جتنا ٹھنڈ امزاج رکھتی تھی دوسری آگ کی طرح اتناہی گرم مزاج رکھتی تھی۔


اچھا بابا خیال رکھوں گا میں آئندہ۔


سبیل صاحب نے ہتھیار ڈالے۔


مجھے آپ دونوں سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔ میں نے آپ دونوں کی زندگی کا فیصلہ کرنا ہے اور مجھے امید ہے آپلوگ مجھے مایوس نہیں کریں گی۔


سہیل صاحب کی بات پر دونوں نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔


ن کے انداز پہ سہیل صاحب مسکرائے۔


بیٹا میری بیماری کا آپ لوگوں کو پتہ ہی ہے میں چاہتا ہوں اپنی زندگی میں ہی آپ دونوں کو صحیح ہاتھوں


اید میں آپ سونپ پر دوں۔ شروع ہو گئے


جی ڈیڈ آپ ایسی باتیں کیوں سوچ رہے ہیں۔


عینی اور نور دونوں نے خفگی سے اپنے باپ کو دیکھا۔


نور عینی ہم زندگی کی حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے۔ اور میری زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس زندگی کے کچھ ہی دن بچے ہیں۔ آپ دونوں سے میں نے اپنی بیماری نہیں چھپائی تھی صرف اس لیے کہ آپ لوگ وقت سے پہلے ہر چیز کے لیے تیار رہیں۔ بیٹا میں جو بھی کر رہا ہوں بہت سوچ سمجھ کر کرہا ہوں۔ یہ سمجھ لیجیے کہ یہ میری آخری خواہش ہے۔


بابا!


سہیل صاحب کی بات پہ نور اور عینی تڑپ گئی تھی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔


سہیل صاحب نے دونوں کو گلے سے لگایا۔ ان کی خود کہ آنکھیں نم ہو گئیں تھیں مگر وہ حقیقت پسند انسان تھے وہ حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے تھے۔


مجھے یقین ہے میری بیٹیاں مجھے مایوس نہیں کریں گی۔


سہیل صاحب کے کہنے پہ دونوں نے ہاں میں گردن ہلائی تھی۔


اس ویک اینڈ پہ ہمیں ہمارے دوست کے گھر جانا ہے۔ ان کے بیٹوں کو میں نے آپ دونوں کے لیے پسند کیا ہے۔ آپ لوگ ان لوگوں سے ملو سمجھو وہ دونوں لڑکے آپ دونوں کے لیے بہترین ثابت ہونگے۔


سہیل صاحب کی بات پہ نور اور عینی نے کوئی جواب نہیں دیا مگر وہ اپنے ڈیڈ کی بات ٹال نہیں سکتی تھیں اگر وہ اپنے ڈیڈ کو خوشی دے سکتی تھیں تو وہ ضرور دیں گی۔ دونوں نے فیصلہ کیا تھا۔


ریان کافی دیر تک مرحا کے سر پہ پٹیاں رکھتا رہا۔ تین چار گھنٹے کے بعد جا کر مرحا کی طبیعت میں بہتری آئی تو اس نے آنکھیں کھولیں۔


مرحانے اپنے برابر میں سوتی ایمان کو دیکھا تو اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آئی۔


لیکن جب نظر اس کے پاس کرسی پہ بیٹھے ریان پر پڑی تو وہ جھٹکا کھا کر اٹھی۔


ریان کرسی پہ بیٹھا اپنا سر بیڈ پر رکھے سورہا تھا۔


ریان ریان ! آپ یہاں ایسے کیوں سو رہے ہیں۔


مرھانے ریان کو پکارا تو اس نے آنکھیں کھول کر مر حا کو دیکھا۔


مر حامیری جان تم ٹھیک ہو نہ اب بخار تو نہیں ہے دیکھاؤ۔


ریان فکر مندی سے بیڈ پہ مر حا کے پاس بیٹھ کر اس کا بخار چیک کرنے لگا۔


میں بالکل ٹھیک ہوں آپ اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں۔


مرحا نے کنفیوز ہو کر ریان سے کہا تو اس نے مرحا کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔


تم پریشان ہونے کی بات کر رہی ہو میری جان جارہی تھی تمہیں اس حال میں دیکھ کر۔ تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتیں مرحا میری کیا حالت ہو گئی تھی تمہیں بے ہوش دیکھ کر۔ ریان کی باتوں فکر کے ساتھ ساتھ محبت بھی چھلک رہی تھی۔


اب میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نہیں ہوں۔ کچھ نہیں ہوا مجھے۔


مرجانے اسے سمجھایا۔


تمہیں کچھ ہو بھی نہیں سکتا مر حاجب تک میں زندہ ہوں تمہیں کبھی کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ تم اپنے کزنز سے مت ڈرو مجھے پتہ ہے یہ سب تمھارے ڈر کی وجہ سے ہوا ہے۔ مرحا مجھ پہ بھروسہ ہے نہ۔


ریان نے مرحا سے سوال کیا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔


تو بس صرف مجھ پہ بھروسہ رکھو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا میں وعدہ کرتا ہوں اب تمہیں ایک لمحے کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ تمھارا سایا بن کر تمھارے ساتھ رہوں گا۔


ریان کی باتوں نے مرحا کے لبوں پہ خوبصورت تبسم بکھیرا تھا مرحا کے ڈمپل نمایاں ہوئے تو ریان کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ آئی۔


اچھا ابھی آپ پلیز جائیں نہ ایسے اچھا نہیں لگتا آپ اتنی رات کو میرے کمرے میں ہیں یہ اچھی بات نہیں ہے۔


مرحا کی بات پر ریان نے مسکراہٹ چھپائی۔


تو میرے کمرے میں آجاو نہ ہمیشہ کے لیے۔ میری دھڑکنوں کو میری بے تابیوں کو سکون دے دونہ۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے کتنا مشکل ہے تمھارے بغیر رہنا۔


ریان نے مدھم لہجے میں کہا تو مرحا کی پلکیں جھک گئیں۔ شرم سے اس کا چہرہ لہو چھا گانے لگا۔ دل کی دھڑکنوں نے شور مچایا۔


مر حاتم ایسے کر کے مجھ پہ ظلم کر رہی ہو میں بتا رہا ہوں بہت مہنگا پڑے گا تمہیں اس طرح شرمانا


گھبرانا۔ ابھی تو میں نے ایسا کچھ کیا بھی نہیں کہ تم مجھ سے شرماؤ۔


ایک بار نکاح ہو جانے دو اس کے بعد میں تمہیں شرمانے کا پورا پورا موقع دوں گا۔


ریان پلیز جائیں نہ آپ۔


مر جانے ریان کی باتوں پہ بہت مشکل سے کہا تھا۔


ریان اس کو اور تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر کے کمرے سے چلا گیا۔


ریان کے جانے کے بعد مرحا کے چہرے پر پیاری سی۔ مسکان کہلی تھی۔


ام ام ام !


مرحانے ایمان کی آواز پہ اپنی آنکھیں زور سے بیچ کر کھولیں تھیں۔


اس نے ایمان کی طرف دیکھاتو وہ اسے دیکھ کر مسکرارہی تھی۔


ایمان کی مسکراہٹ نے مرحا کو شرمانے پہ مجبور کر دیا۔


ہائے میرے بھائی اتنے رومانٹک ہیں۔


ایمان کی بات پر مر جانے اسے آنکھیں دیکھائیں تو وہ ہننے لگی اور مر حاکو زور سے گلے لگایا۔


تم پیار کرتی ہو بھائی ہے۔


ایمان نے مرحا کو دیکھ کر پوچھا تو وہ مسکرائی۔


میں نہیں جانتی ایمان مگر ان کا ساتھ اچھا لگتا ہے مجھے۔ وہ میرے قریب ہوتے ہیں تو مجھے کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ وہ میرے ساتھ اس وقت سے ہیں جس وقت مجھے سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ریان بہت اچھے ہیں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرنے لگیں گے۔


مطلب تمھیں بھائی سے پیار نہیں ہے۔


مرحا کی بات سن کر ایمان نے مصنوعی گھورتے ہوئے پوچھا۔


ایمان میں کیسے سمجھاؤں تمہیں میں خود اپنے جذبات نہیں سمجھ پارہی۔ ہاں مگر مجھے ریان پسند ہیں۔


مرحا کے اقرار پر ایمان مسکرائی۔


میری دل سے دعا ہے اللہ تعالیٰ تم دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ خوش رکھے۔


مر جانے ایمان کی دعا پہ دل میں آمین کہا۔


اچھا ایمان میری بات بتاؤ۔۔!


مرحانے ایمان کو دیکھ کر پوچھا تو اس نے آنکھوں کے اشارے سے پوچھنے کو کہا۔


تمہیں میرے لالا کیسے لگتے ہیں۔


مرحا کے سوال پر ایمان سوچنے لگی۔


وہ بہت اچھے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے نہ انہوں میری عزت بچائی تھی۔ وہ بہت بہادر ہیں بہت اچھے ہیں۔ ایمان نے ایمانداری سے جواب دیا۔


ایمان تم میری بھابی بن جاؤ۔


 جتنی آرام سے بولا ایمان نے اتنی ہی حیرت سے اسے دیکھا۔


ایمان کے ایسے دیکھنے پہ مرحا مسکرائی۔


وہ بہت چاہتے ہیں ایمان تمہیں۔ کوئی کسی کے لیے ایسے ہی اپنی زندگی خطرے میں نہیں ڈالتا۔ ان کے


دل میں تمھارے لیے وہی جذبات ہیں جو ریان کے دل میں میرے لیے ہیں۔


مرحا کی باتوں پر ایمان کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ وہ ساحر کے جذ باتوں کو سمجھتی تھی مگر انجان بنتی تھی۔


اسے اندازہ نہیں تھا ساحر کے جذ باتوں کی خبر مرحا کو بھی ہو گی۔


مرحا میں نے انہیں کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا ہے۔


میں ان کی عزت کرتی ہوں۔ وہ میرے لیے بہت قابل احترام ہیں۔ وہ اچھے بھی ہیں۔ دیکھنے میں بھی بہت ہینڈ سم ہیں بالکل ہیرو ٹائپ۔ ہر لڑکی ایسا ہی تو لڑکا مانگتی ہے مگر میں نے انہیں کبھی اپنے ساتھ تصور نہیں کیا مر حا۔


تمھارے اور بھائی کی سچویشن الگ ہے۔ اور میری سچویشن الگ ہے۔ میری فیملی نے مجھے ہر طرح کی آزادی دی ہے اس بھروسے کے ساتھ کہ میں انکا ر کبھی نہیں جھکنے دوں گی۔ اس لیے ساحر کے لیے اپنے دل میں جذبات رکھ کر میں اپنی فیملی کو دھو کہ نہیں دے سکتی۔ میں نے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق اپنے پیر سیٹس کو دیا ہے اور اسپیشلی ریان بھیو کو۔ 


کیونکہ مجھے پتہ ہے وہ میرے لیے بہترین فیصلہ کریں گے ہمیشہ۔ میں ان سے انکا یہ حق یہ مان نہیں چھین سکتی۔ میں اپنے بھیو کی پسند سے ہی شادی کروں گی۔ اور جب بھیو کی پسند سے شادی کرنی ہے تو دل کسی اور سے کیسے لگا سکتی ہوں۔ 


بھیو جس سے کہیں گے نا میں آنکھ بند کر کے شادی کر لوں گی مرحا اور جس سے میری شادی ہو گی میرے دل پہ بھی صرف اس کی حکومت ہو گی۔ اور رہی بات تمھاری توریان بھیو گھر میں سب سے بات کر چکے ہیں ساحر سے بھی۔ انہوں نے سب کو بتا دیا ہے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔


مر حاجو ایمان کی باتیں بہت غور سے سن رہی تھی اس کی آخری بات پر منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔


ایمان کو اس کے ریکشن پہ ہنسی آئی۔


کیا مطلب کیا بول رہی ہو ایمان۔


مرحانے پریشانی سے پوچھا۔


بدھو تمہیں کیا لگ رہا ہے بھیو کیا ٹائم پاس کر رہے ہیں بیٹا جی وہ تمہیں اپنا بنانے کی پوری پلاننگ کرے ہوئے ہیں۔ 


ایمان کی بات پہ مر جا گھبرائی تھی۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ ریان سب کو بتا چکا ہے۔


ساحر جو مر حا کو دیکھنے آرہا تھا ایمان کی ساری باتیں سن چکا تھا۔


اسے ایمان کی سوچ پہ ناز تھا۔ اسے اپنی پسند پہ ناز تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا اب وہ ایمان سے فاصلہ بنا کر رکھے گا۔ وہ اس پہ ایک انگلی بھی نہیں اٹھنے دے گا۔ اس کامان کبھی نہیں ٹوٹنے دیگا۔ پہلے اس نے سوچا تھا کہ گاؤں سے آکر وہ سب سے بات کرے گا مگر اب وہ ایمان کے پیریٹس سے جلد ہی ایمان کے لیے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔


صبح ہوتے ہی ساحر سب سے پہلے ریان کے پاس گیا۔


ریان مجھے کچھ بات کرنی ہے۔


ساحر نے ریان کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا۔


ہاں ہاں تو اندر آؤ نہ وہاں کیوں کھڑے ہو۔


ریان نے بالوں کو سیٹ کرتے ہوئے کہا۔


ساحر کمرے میں آیا تو ریان نے کمرہ لاک کیا۔ اس وقت اس کی خالہ جانی اور عمل گھر پہ موجود تھیں وہ نہیں چاہتا تھا ان کو کسی بھی معاملے کی بھنک بھی پڑے۔ ان دونوں ماں بیٹی کی حرکتوں سے وہ بہت اچھی طرح واقف خاد ہاں بولو کیا ہوا۔


ریان ساحر کے سامنے بیٹھ گیا۔


ریان مجھے ایمان کو لے کر تمھاری فیملی سے بات کرنی ہے۔


ان شارٹ تمھاری بہن کا ہاتھ مانگنا ہے۔


ساحر نے کہا تو ریان نے سمجھ کر ہاں میں گردن ہلائی۔


ایک کام کرتا ہوں پہلے میں خود سب سے بات کرتا ہوں ان کو تمھارا پیغام پہنچاتا ہوں۔ اس کے بعد تم بات کرنا۔


ریان نے ساحر سے کہا تو اس نے ہامی بھری۔


ٹھیک ہے تم بات کر لو مگر میں گاؤں جانے سے پہلے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ رخصتی کے لیے جتنا ٹائم تم لوگوں کو چاہیے ہو گا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔


میں جانتا ہوں ایمان ڈاکٹر بنا چاہتی ہے میں اس کے خوابوں میں کبھی رکاوٹ نہیں بنوں گا۔


پر جانے سے پہلے میں اس کا اور اپنار شتہ مضبوط کرنا چاہتا ہوں ریان۔


ریان نے گردن ہلا کر ہامی بھری۔


ٹھیک ہے میں سب سے ڈسکس کر لیتا ہوں مگر ایک بات یاد رکھنا ساحر ایمان میں جان بستی ہے ہماری


اگر اس کو تمھاری طرف سے کوئی بھی تکلیف ملی نہ تو تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔


ریان نے اسے وارن کیا۔


میں ایمان کی طرف آنے والی ہر تکلیف کو جڑ سے اکھاڑ نے کہ ہمت رکھتا ہوں۔ ایمان کو اپنی ذات سے تکلیف دینے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔


میں وعدہ کرتا ہوں اس کی حفاظت اس کی خوشی سب سے پہلے ہونگے میرے لیے۔


ساحر نے کہا تو ریان مسکرایا۔ وہ جانتا تھا ساحر اس کی بہن سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ ایمان کو ہمیشہ خوش رکھے گا مگر وہ بھی تو بھائی تھانہ بہن کے معاملے میں آنکھ بند کر کے تو بھروسہ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس نے ساحر کو دارن کیا تھا۔


ڈور ٹوک ہوا تو دونوں خاموش ہو گئے۔


ریان نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے مر حاکھڑی تھی۔


ڈارک گرین کلر کی گھٹنوں سے تھوڑی نیچے آتی شرٹ کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ اور اس پہ ہم رنگ دوپٹہ جو اس نے کندھے کی ایک طرف ڈالا ہوا تھا۔ بال بالف پونی میں قید تھے باقی کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔ ریان اسے نظر بھر کر دیکھے گیا۔


مرحا نے ریان کے پسند کیے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے جس نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیے تھے۔


بیوٹیفل " ریان کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔ 


وہ ساحر لالا سے بات کرنی ہے وہ آپ کے کمرے میں ہیں شہیر نے بتایا۔


مرجانے مجھجھکتے ہوئے کہا۔ ریان کی نظرمیں ہمیشہ کی طرح اسے کنفیوز کر رہی تھیں۔ ہاں آجاو اندر ہی ہے۔


ریان نے اسے راستہ دیا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر آئی۔


ماشاء اللہ میری گڑیا تو بہت پیاری لگ رہی ہے۔


ساحر نے مرحا کو دیکھ کر کہا جو اس لک میں بہت الگ لگ رہی تھی۔


ساحر کے کہنے پہ مرحا مسکرائی۔


ریان ساحر کے ساتھ جگہ بنا کر بیٹھ گیا تو مر حا ان دونوں کے سامنے بیٹھی۔


بولو میر ایچہ کیا ہو اسب ٹھیک ہے طبیعت ٹھیک ہے نہ اب۔


ساحر نے مرحا سے پوچھا تو اس ہاں میں گردن ہلائی۔


میں ٹھیک ہوں لالا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔


لالا بابا کی کمپنی مسلسل لوس میں جارہی ہے۔ میں اس قابل نہیں ہوں کہ کچھ بھی سنبھال سکوں۔ میں نے آفس جا کر بھی دیکھا تھا مگر یہ سب میری سمجھ سے باہر ہے میں یہ سب نہیں سنبھال سکتی۔ لالا بابا نے بہت محنت سے یہ بزنس اسٹارٹ کیا تھا۔ میں نہیں چاہتی کہ بابا کی کمپنی کا مزید لوس ہو۔ اس لیے میں چاہتی ہوں اب سے آپ بابا کی کمپنی سنبھالیں۔ میں بابا کی پوری کمپنی آپ کے نام کر رہی ہوں


آپ ہی اسے سنبھال سکتے ہیں۔


مر جانے اپنی بات کہہ کر ساحر کو دیکھا جو پریشان لگ رہا تھا۔


مر حامیر ابچہ میری گڑیا میری بات سنو۔ تایا جان کی کمپنی پہ تمھارا حق ہے تم اسے میرے نام نہیں کرو میں ویسے ہی سارا کام سنبھال لوں گا اس کے لیے تمہیں کمپنی میرے ہینڈ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔


ساحر نے مرحا کو سمجھانا چاہا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔


نہیں لالا اس سب کے حقدار آپ ہیں آپ اس کمپنی کو اپنا وقت دیں گے اپنی ایفرٹس دیں گے تو اس پر حق بھی آپ کا ہی بنتا ہے۔ پلیز آپ انکار نہیں کریں میں نے پیپرز تیار کروانے کا بول دیا ہے۔ یہ سب اب سے آپ کا۔ آپ اس کمپنی کے اونر ہیں۔


مر حاتم بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو ریان تم سمجھاؤ اسے۔


ساحر نے ریان کو دیکھ کر کہا تو اس نے ساحر کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔


ساحر مرحا بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ مجھے اس کا فیصلہ ٹھیک لگ رہا ہے۔


تم خود سوچو مرحا کو ابھی اس چیز کی سمجھ نہیں ہے وہ بزنس نہیں سنبھال سکتی۔ مرحا بھولی ہے معصوم ہے۔ اس کے لیے یہ سب بہت زیادہ مشکل ہے اور تمہیں خود اندازہ ہے بزنس میں معصومیت نہیں چلتی۔


مرحا کی بات مانو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔


ریان نے ساحر کو سمجھایا مگر وہ کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن مر جانے ہار نہیں مانی۔


دو گھنٹے کی طویل بحث کے بعد جا کر مر جانے ساحر کو راضی کر ہی لیا۔


مرحا ساحر اور ریان سے بات کر کے کمرے سے نکلی تو سامنے سے آتی عمل نے اس کا راستہ روکا۔


کیا کر رہی تھیں تم ریان کے کمرے میں۔


عمل نے سوال کیا تو مر حا کو اس کا اند از عجیب لگا۔ وہ میں ریان سے۔۔


تم ریان سے دور رہو سمجھیں۔ ریان میرا ہے میں تمہیں اس کے آس پاس نہ دیکھوں۔


مرحا کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی عمل نے اسے دوٹوک لہجے میں کہا۔


آپ یہ سب کیا بول رہی ہیں۔ ریان آپ کے کیسے ہیں۔


مرحا کو عمل کا میر اریان کہنا بر الگا تھا۔


میں تمھاری جوابدہ نہیں ہوں۔ ریان میری محبت ہے۔ آئی تو مجھے ویسے بھی اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں۔ اور تمہارے ساتھ جو ہو اوہ پتہ لگا مجھے افسوس ہو اسن کر مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ریان سے چپک ہی جاؤ۔ اس کی ہمدردی کو اپنے سر چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔


عمل کی باتوں سے مر حا کا دل بہت بری طرح دکھا تھا۔ وہ اپنے آنسو چھپاتی کمرے میں جا کر بند ہو گئی۔ عمل کا یہ انداز بہت زیادہ برا تھا۔ مرحا اس سب کی عادی نہیں تھی اور وہ اسے کس طرح کی لڑکی سمجھ رہی تھی۔ ریان اس کا کیسے ہے ریان نے خود اس سے کہا تھا کہ وہ محبت کرتا ہے اس سے تو کیا وہ سب کچھ ہمدردی میں کر رہا تھا۔ اگر سمینہ آنٹی عمل کو بہو بنانا چاہتی ہیں تو ریان اسے کیوں لڑکا رہا ہے اس سب میں۔


مرحا کا سر درد سے پھٹنے لگا۔ آنسوؤں سے پورا چہرہ بھیگ گیا تھا۔


اگر تو عمل سچی ہوئی اور یہ سب صرف ریان کی ہمدردی ہوئی تو وہ کبھی عمل اور ریان کے بیچ نہیں آئے گی۔


مر جانے دل میں سوچا۔


نور عینی آبھی جاؤ بیٹا ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔


سہیل صاحب نے آواز لگائی تو نور بھاگتی ہوئی آئی۔


میں آگئی بابا۔


نور نے کہا تو سہیل صاحب نے اسے دیکھ کر شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔


لائٹ پنک کلر کی پیروں تک آتی فراک پہنے میک اپ کے نام پر صرف اس نے آنکھوں میں کاجل ڈالا تھا اور ہلکی سی لپ اسٹک لگائی تھی۔ نور بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔


بیٹا مینی کہاں رہ گئی ہے۔


سہیل صاحب نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے ایک بار پھر عینی کو آواز لگائی تو وہ اپنے کپڑوں سے الجھتی نیچے آئی۔


عینی اتنی دیر لگادی۔


نور نے ایک نظر اسے دیکھا تو اسے ہنسی آئی۔ اس نے کبھی ایسی ڈریسنگ نہیں کی تھی وہ بہت زیادہ انکفر ٹیبل ہو رہی تھی۔


عینی نے بھی پیروں تک آتی بلیک کلر کی لانگ فراک پہن رکھی تھی۔


کالا رنگ عینی پہ ہمیشہ سے بہت جچتا تھا اس لیے نور نے خاص طور پہ یہ ڈریس منگوائی تھی ورنہ اس کی بہن کا بھروسہ نہیں تھا وہ جینز شرٹ پہن کر جانے لگتی۔


کیا یار آپی کیسے ہینڈل کر لیتی ہو یہ سب آپ مجھ سے نہ تو یہ فراک سنبھل رہی ہے اور نہ یہ دو پٹہ ۔


عینی نے منہ بنا کر کہ تو سہیل صاحب کو فنی آئی۔


بیٹا آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں اس ڈریس میں - سهیل صاحب نے کہا تو عینی نے منہ بنایا۔


آپ مجھے مکھن نہیں لگائیں سب سمجھتی ہوں میں۔ ابھی تو میں نے یہ پہن لی ہے لیکن آپ ان لوگوں کو بول دیے گا میں ایسی ڈریسنگ نہیں کیا کروں گی۔ 


عینی کی بات پر سہیل صاحب مسکراتے ہوئے گاڑی کی طرف چلے گئے جبکہ نور نے عینی کے دوپٹے کو


پن لگا کر اچھے سے سیٹ کیا تا کہ وہ مینی کے پیروں میں نہ آئے۔


اب چلو با با ویٹ کر رہے ہیں۔


نور کہتی ہوئی عینی کو گاڑی کی طرف لے گئی۔


وہ دونوں بیٹھیں تو سہیل صاحب نے گاڑی اسٹارٹ کر کے احتشام صاحب کے گھر کے راستے پر ڈالی۔


نور سہیل صاحب سے باتیں کرتی ہوئی جارہی تھی جبکہ عینی کھڑکی سے باہر ٹھنڈی ہوا کے مزے لے رہی تھی۔


اسے خبر بھی نہیں تھی کہ آج اسے زندگی کا کتنا بڑا جھٹکا لگنے والا ہے


سمینہ بیگم ساری تیاری ہو گئی ہے نہ وہ لوگ آتے ہی ہونگے ۔


احتشام صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔


جی جی آپ بالکل فکر نہیں کریں سب تیاری ہو گئی ہے۔


با با بلا رہے تھے میں زرا ان کی بات سن لوں۔


سمینہ بیگم نے کہا۔


ہاں بابا نے مجھے بھی بلایا ہے۔ میں بھی وہی جارہا تھا۔


احتشام صاحب بھی سمینہ بیگم کے پیچھے ہی ذولفقار صاحب کے کمرے کی طرف چلے گئے۔


بابا آپ نے بلایا تھا۔


احتشام صاحب اور سمینہ بیگم کمرے میں آئیں تو شعیب صاحب اور ریان کے ساتھ ساتھ شاہ میر اور شمایان بھی موجود تھے۔


کیا بات ہے سب خیریت تو ہے نہ بابا۔


احتشام صاحب نے کہا تو دادا جان نے ریان کو دیکھا۔


بابا مجھے آپ سب سے بات کرنی ہے۔


ریان نے تمہید باندھی۔


مجھے آپ سب سے ایمان کے بارے میں بات کرتی ہے۔


ایمان کے ذکر پہ سب کنفیوز سے ریان کو دیکھنے لگے سوائے دادا جان کے۔


با با ماما میں ایمان کے رشتے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔


ریان کی بات پر احتشام صاحب اور سمینہ بیگم پریشان ہوئی۔


یہ تم کیا بول رہے ہو ریان ایمان کے رشتے کے بارے میں تم ابھی سے کیسے سوچ سکتے ہو۔


احتشام صاحب نے پریشانی سے کہا۔


با با آپ ایک بار میری بات سن لیں پھر فیصلہ کریے گا۔


بابا ایمان مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے میں اس کے لیے کبھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں کروں گا جس سے اسے کوئی تکلیف ہو۔


ساحر ایمان سے محبت کرتا ہے۔ اور اس کی محبت ہمارے سامنے ہے۔ اس نے ایمان کی خاطر اپنی زندگی داؤ پر لگادی تھی۔ ہم نے اس کے ساتھ کیا نہی کیا اسے موت کے گھاٹ اتارنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی ہم نے مگر اس نے ہمیں اس لیے معاف کر دیا کیونکہ ہم ایمان کے بھائی ہیں۔


ہم اس دن لیٹ ہو چکے تھے۔ اگر ساحر نہیں ہوتا تو ہم نے تو کھو دینا تھا ایمان کو۔


وہ بہت محبت کرتا ہے بہت چاہتا ہے ایمان کو۔


میں نے ہمیشہ سے اپنی بہن کے لیے ایسے ہی ساتھی کی دعا کی ہے جو اس سے محبت کرے اس پہ ایسے ہی جان چھڑ کے جیسے ہم چھڑکتے ہیں۔ اور یقین کریں ماما با با ساحر سے بہتر ایمان کے لیے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔


ریان تمھاری ساری باتیں ٹھیک ہیں ساحر اچھا لڑکا ہے کم عمر ہے اچھا دیکھتا ہے اخلاق کا بھی بہت اچھا ہے مگر ایمان اس کا کیاریان وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے تم یہ بات کیسے بھول سکتے ہو کیا تمھیں یاد نہیں ہے ڈاکٹر بننے کا خواب اس نے تمھارے اور میرے کہنے پہ سجایا تھا۔ ہم اسے خواب دیکھا کر اس میں رکاوٹ کیسے بن سکتے ہیں۔


احتشام صاحب نے ریان کو سمجھایا۔


بابا ایمان کا کوئی خواب ادھورا نہیں رہے گا وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے تو ضرور بنے گی۔ ساحر نے خود کہا ہے وہ ایمان کے خوابوں کے بیچ نہیں آئے گا وہ ابھی صرف نکاح کرنا چاہتا ہے رخصتی جب ہم چاہیں گے ایمان چاہے گی تب ہو گی۔


ریان نے بات مکمل کی تو دادا جان نے احتشام صاحب اور باقی سب کو مخاطب کیا۔


تم سب مجھے بتاؤ کیا ایمان کی پڑھائی کے علاوہ منع کرنے کی کوئی وجہ ہے تم میں سے کسی کے بھی پاس۔


دادا جان نے سب کو دیکھا مگر کسی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔


نہیں بابا اور اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے۔"


جی با با ساحر ہر حساب سے اچھا لڑکا ہے "


" ہم تینوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے دادا جان اور ویسے بھی ریان بھائی نے یہ بات ایسے ہی نہیں کی


وہ بہت سوچ سمجھ کر بول رہے ہونگے اور ایمان کے لیے بھائی کا کوئی بھی فیصلہ بھی غلط نہیں ہوتا۔ "


شایان شاہ میر شعیب صاحب کے ساتھ ساتھ سمینہ بیگم کو اور احتشام صاحب کو بھی کوئی خاص وجہ


سمجھ نہیں آئی تھی۔


ٹھیک ہے لیکن ہم ساحر سے خود بات کریں گے بابا۔


احتشام صاحب نے کہا تو ریان نے مسکرا کر ہامی بھری۔


اب ساحر نے سب کو پکا والا منا ہی لینا تھا وہ جانتا تھا۔ ساحر اور ایمان کو لے کر اس نے سب سے بات کر لی تھی مگر اب ایمان سے بات کرنی تھی وہ اپنی بہن کے ساتھ زبر دستی نہیں کر سکتا تھا۔


ارے سہیل صاحب آئیے آیئے کیسے ہیں آپ۔


سہیل صاحب اپنی بیٹیوں کو لے کر گھر میں داخل ہوئے تو احتشام صاحب اور شعیب صاحب نے مسکر ا کر انکاو میلکم کیا۔


بابا یہ ہیں میرے بہت خاص دوست سہیل صفدر شاہ


اور یہ انکی بیٹیاں۔


احتشام صاحب نے تعارف کروایا تو نور اور عینی نے سب کو سلام کیا۔


سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔


ریان ڈرائنگ روم میں جانے لگا تو عمل سامنے سے آکر اس سے ٹکرائی۔


ریان نے عمل کو پکڑ کر سنبھالا تھاور نہ وہ زمین پر گرتی۔


مگر یہ نظار امر جانے اوپر سے کھڑے ہو کر صاف دیکھا تھا۔


وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی پیچھے دھکیلتی کمرے میں بند ہو گئی۔


کیا مسئلہ ہے عمل تم سے اپنی آنکھوں کا استعمال نہیں ہوتا۔ پیچھے ہٹو۔


ریان نے غصے سے کہہ کر عمل کو جھٹکے سے چھوڑا اور وہاں سے نکل گیا۔


ریان کے جانے کے بعد عمل نے مسکرا کر اوپر دیکھا جہاں وہ مر حا کو کھڑا دیکھ چکی تھی۔


عمل نے مرحا کے دل میں غلط فہمی کا بیچ تو کل ہی بو دیا تھا مگر آج اس کی اس حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کر اتھا۔


تمہیں تو میں بہت آسانی سے ریان کی زندگی سے نکال پھینکوں کی مر حابس تم دیکھتی جاؤ۔ تم خود اپنے


آپ کو ریان سے دور کرتی جاؤ گی اور تمہیں خبر بھی نہیں ہو گی۔


عمل نے شیطانی مسکراہٹ سے سوچا اور ریان کے پیچھے ہی ڈرائینگ روم میں چلی گئی۔


ایمان مرحا کہاں ہے بلا کر لاؤا ہے ۔ کب سے نہیں دیکھی وہ۔


ریان نے کچن سے نکلتی ایمان کو بولا تو وہ مسکرا کر مر حا کے روم میں چلی گئی۔


سبیل یہ ہے میرا بڑا بیٹاریان


ریان روم میں داخل ہوا تو احتشام صاحب نے مسکر اکر ریان کا تعارف کروایا۔


احتشام صاحب با قاعدہ اٹھ کر ریان سے ملے۔


ان کو کون نہیں جانتا ان کے اصول اور انصاف کے چرچے تو آج تک سب کی زبانوں پر ہیں۔ تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی بیٹا۔


سہیل صاحب واقعی میں ریان سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔


عمل بھی روم میں آکر سمینہ بیگم اور سمرین بیگم کے درمیان بیٹھی۔


یہ میری پیاری چہیتی بھانجی ہے عمل۔


سمینہ بیگم نے کہا تو وہ مسکرائی۔


ارے ہماری عمل کو تو سمینہ مجھ سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے۔ عمل سمینہ کو اتنی پسند ہے کہ وہ تو اس کو اپنی بہو بنانے کی خواہش رکھتی ہے اپنے ریان کے لیے۔


سمرین بیگم کی بات پر سب انہیں دیکھ کر رہ گئے۔


عمل شرمائی دوسری طرف ریان کی ماتھے پر بل پڑے۔


ریان کی نظر دروازے پر کھڑی مرحا پہ پڑی جس کی آنکھوں کی اداسی وہ دور سے بھی محسوس کر سکتا تھا۔ یقینا وہ ساری بات سن چکی تھی مگر ریان اپنے اور مرحا کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں آنے دے سکتا تھا۔

خالا جانی نے بالکل ٹھیک کہا ماما کو عمل میرے لیے بہت پسند ہے اور عمل واقعی اچھی لڑکی ہے وہ کسی بھی لڑکے کو پسند آسکتی ہے۔

ریان کی بات پہ عمل کی مسکراہٹ گہری ہوئی وہی سب ریان کی بات پر کنفیوز ہوئے۔ مرحا کا وہاں کھڑے رہنا مشکل ہو گیا وہ واپس جانے کے لیے مڑی۔

مگر مجھے نہیں۔ اب دل کا تو کچھ کیا نہیں جا سکتا نہ اب میرا ادل کہیں اور آگیا تو بھلا ماما بھی کیا کر سکتی ہیں۔

ریان نے اپنی بات مکمل کی تو مر حار کی اور پلٹ کر ریان کو دیکھا جو اس کی طرف آرہا تھا۔

ریان نے مرحا کے سامنے ہاتھ پھیلا یا تو اس کے کنفیوز ہونے پر ایمان نے مرح کا ہاتھ ریان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

ریان مرحا کا ہاتھ پکڑ کر روم میں لایا تو سب کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔

اس سے ملیے انکل یہ ہے مرحا ، مرحا آصف خان۔ میری پسند میری محبت۔

ریان کی باتوں نے مرحا کے دل کا سارا شک دھو ڈالا تھا۔ اسے اپنے دل میں سکون اتر تا محسوس ہوا۔

آنکھوں کی اداسی پل میں دور ہوئی۔

سہیل صاحب بہت غور سے مرحا کو دیکھنے لگے ۔ انہیں لگا انہوں نے مرحا کو کہیں دیکھا ہوا ہے۔ پھر اپنے دماغ پر زور ڈال کر وہ جھٹکا کھا کر اٹھے۔

بیٹا آپ آصف اور لیس خان اور رمشاء کی بیٹی ہونا.

سہیل صاحب کی بات پر سب حیرت سے انہیں دیکھنے لگے۔ مرحا بھی کنفیوز تھی وہ اس کے بابا ماما کو

جانتے تھے۔

مر جانے گردن ہاں میں ہلائی۔

ادمائی گاڈا مجھے انکے انتقال کا پتہ لگا تھا بہت زیادہ افسوس ہوا مجھے۔ مگر آپ کہاں غائب ہو گئی تھیں بیٹا اور یہاں کیسے۔