تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 17

از۔"طوبیٰ صدیقی"

 

°°°°°°


❤❤❤


سبیل صاحب کی بات پہ اب بھی سب حیران پریشان تھے۔


انکل آپ مر حا کو اور اس کے پیر نٹس کو کیسے جانتے ہیں۔


ریان نے سوال کیا۔


بیٹا آصف صاحب میرے بہت پرانے دوست تھے اس وقت سے جب انہوں نے شہر آکر نیا نیا بزنس اسٹارٹ کیا تھا۔ میری اور انکی دوستی تو سترہ سال پرانی تھی۔


سہیل صاحب نے تفصیل بتائی۔ مرحا مسکرائی۔


آپ بابا کے دوست ہیں جن کو وہ صفی بولتے تھے۔


مرحا نے تصدیق چاہی تو وہ مسکرائے۔


جی بیٹا میں صفی ہی ہوں۔ اصل میں میری بیگم مجھے اس نام سے بلاتی تھیں۔ سہیل نام انہیں پسند نہیں تھا تو وہ صفدر کو شارٹ کر کے صفی بولتی تھیں۔ تمھارے بابا بھی مجھے چھیڑنے کے لیے اس نام سے بلاتے تھے۔


سبیل صاحب نے بتایا۔


بابا آپ کی بہت تعریف کرتے تھے آپ نے مشکل وقت میں ان کا بہت ساتھ دیا تھا۔


تو انہوں نے مسکرا کر مرحا کے سر پہ ہاتھ رکھا۔


مگر ریان بیٹا تمہاری پسند مطلب تم مرحا سے کب ملے اور وہ ایکسیڈنٹ وغیرہ۔


سہیل صاحب کے پوچھنے پر ریان نے انہیں ساری بات بتائی تو انہیں مرحا کے لیے بہت بر الگا۔


نور اور عینی کو بھی یہ پیاری سی لڑکی بہت اچھی لگی تھی۔


سہیل صاحب انشاء اللہ یہ ہمارے گھر کی سب سے بڑی بہو ہو گی۔


دادا جان نے مرحا کو اپنے پاس بٹھا کر کہا تو سب مسکرانے لگے مگر عمل اور سمرین بیگم کا تو غصے سے برا حال ہو گیا تھا۔ عمل کے دل میں مرحا کے لیے نفرت اور زیادہ گہری ہو گئی تھی۔ وہ تو اس کو ریان سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر یہاں تو سب الٹا ہو گیا تھا۔ ریان نے مرحا کو جو مان بخشا تھا اس کے بعد مرحا کا دل ریان کی طرف سے برا کرنا بہت مشکل تھا۔


لیکن عمل ایسے ہی بار نہیں مان سکتی تھی وہ ریان کو مرحا کے لیے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔


عمل نفرت بھری نگاہ سے مرحا کو گھور رہی تھی۔


سمینہ بیگم نور اور عینی کو اپنے پاس بٹھا کر ان سے باتیں کرنے لگیں جب شایان شاہ میر کمرے میں داخل ہوئے۔ om‏


شایان کو دیکھ کر عینی حیرت سے کھڑی ہو گئی جبکہ شایان کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ یہاں عینی کو دیکھ کر وہ بہت شوکڈ ہوا تھا۔ شاہ میر کو دونوں کو دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔


اب دیکھنا یہ تھا عینی کا ہاتھ کس کے لیے مانگا جاتا ہے اگر تو وہ شایان ہوا تو پھر شایان نے اپنی خیر منانی تھی۔


اس نے دل سے دعا کی تھی یہ آفت کی پڑیا اس کے متھے نہ لگے۔


شایان اور عینی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر شو کڈ تھے۔


کیا ہوا بیٹا سب ٹھیک ہے۔


مینی کے اچانک کھڑے ہو جانے پر سمینہ بیگم نے پوچھا تو وہ ہوش میں آئی اور جلدی سے واپس بیٹھ گئی۔


آجاؤ شاہ میر شایان یہاں بیٹھو۔


ریان نے دونوں کو بلا کر اپنے ساتھ بٹھایا۔


نور عینی بیٹا یہ ہے شایان اور یہ ہے شاہ میر ۔


اور بیٹا یہ نور العین ہے سہیل صاحب کی بڑی بیٹی۔ اور یہ قرۃ العین چھوٹی بیٹی۔


احتشام صاحب نے ان لوگوں کا آپس میں تعارف کروایا۔


بھئی مجھے آپ کے دونوں بیٹے بہت پسند ہیں۔ میں نے اپنی بیٹیوں کو بہت محبت سے پالا ہے مگر اب میری طبیعت کی وجہ سے میں اپنی بچیوں کی زمہ داری پوری کر دینا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ عینی اور نور سے جو بھی بات کرنا چاہیں کر لیں۔ پھر جیسا بھی آپ کو مناسب لگے بتا دیے گا۔


سہیل صاحب نے کہا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی۔


سہیل صاحب کی بات پہ احتشام صاحب نے آنے بابا شعیب صاحب اور سمینہ کو دیکھا اور ان کے اشاروں کو سمجھ کر سہیل صاحب کو مخاطب کیا۔


سہیل ہمیں تمھاری دونوں بیٹیاں بہت پسند ہیں۔


ہماری طرف سے تو ہاں ہی سمجھو مگر میں چاہوں گا بچے آپس میں ایک بار مل لیں۔


اگر بچے بھی راضی ہوتے ہیں تو ہمیں نور شاہ میر اور عینی اور شایان کے رشتے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔


احتشام صاحب کی بات پر سہیل صاحب خوش ہوئے وہی شایان اور عینی کے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔


شاہ میر کے اندر بھی ایک بے چینی تھی وہ اس سب کے لیے تیار نہیں تھا اسے ریان سے بات کرنی تھی۔ کسی بھی حال میں اسے اس رشتے سے انکار کرنا تھا وہ کسی لڑکی کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔


شمایان نے بھی ریان سے بات کرنے کا سوچا تھا۔


وہ عینی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا یہ لڑکی تو اسے دن میں تارے دکھا سکتی تھی۔ وہ اس آفت کو اپنے سر نہیں لے سکتا تھا۔


سب لوگ باتوں میں مصروف ہو گئے تو شایان شاہ میر نے ریان کو اشارہ کیا اور کمرے سے باہر چلے گئے۔


عینی اور نور مرحا اور ایمان کے ساتھ ایمان کے کمرے میں چلی گئی تھیں۔


عمل اس سب کے بعد اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی۔


ہاں بولو کیا ہوا تم لوگ اتنے پریشان کیوں ہو۔


میں یہ شادی نہیں کر سکتا۔


شایان شاہ میر نے ایک ساتھ کہا تو ریان نے ان دونوں کو آئبر واٹھا کر دیکھا۔


کوئی خاص وجہ ہے شاہ میر انکار کی.


ریان نے پوچھا تو اس نے نظریں چرائیں۔ وہ ریان کو اصل وجہ نہیں بتا سکتا تھا۔


بھائی میں ابھی اس سب کے لیے تیار نہیں ہوں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے میں کیسے سب سنبھالوں گا ابھی سے یہ سب میرے لیے مشکل ہو گا۔


شاہ میر نے کہا تو ریان نے سمجھ کر ہاں میں گردن ہلائی۔


پکا شاہ میر کوئی ایسی بات نہیں ہے جو مجھے پتہ ہونی چاہیے۔ تم کچھ چھپا تو نہیں رہے۔


ریان نے شاہ میر کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا تو اس نے نفی کی۔


نہیں بھائی اور کیا وجہ ہو گی۔


شاہ میر کے کہنے پہ ریان نے شایان کو دیکھا۔


تمھارے پاس کیا وجہ ہے۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


شایان نے ریان کے پوچھنے پر اسے اپنی اور عینی کے دونوں ملاقاتوں کے بارے میں بتا دیا۔


تم تو پورے ہی پاگل ہو شایان۔ اتنی سی بات پہ تم کسی لڑکی کو کیسے بج کر سکتے ہو۔


تم دونوں کے اعتراض قابل قبول نہیں ہیں۔


اس لیے یہ بچوں جیسی باتیں چھوڑو میں اپنے بھائیوں کو اتنا تو جانتا ہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو باخوبی نبھائیں گے۔


ریان نے دونوں کے کندھوں پہ ہاتھ رکھا اور واپس چلا گیا۔


شاہ میر پریشان ہو اتھا وہی شایان تو رو دینے کو تھا۔


یار شاہ میر میں اس آفت کی پڑیا سے شادی کیسے کر سکتا ہوں۔ وہ اتنا لڑتی ہے میری تولا کف ہی برباد ہو جائے گی۔ اللہ کرے وہ لڑکی خودی منع کر دے۔


شایان نے شاہ میر سے کہا۔


عینی کو کال سننے کے بھانے سے شایان سے بات کرنے آئی تھی اس کی باتیں سن کر اچھی خاصی چڑی تھی۔


مسٹر شایان حیدر آپ کو تو سبق سیکھنا پڑے گا۔


عینی نے دل میں سوچا اور شایان کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔


عینی کو دیکھ کر شایان کی زبان کو بریک لگی۔


آپ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے نہ۔


عینی نے مسکرا کر شایان سے پوچھا تو اس نے غور سے عینی کو دیکھا۔


نہیں میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اس سے بہتر ہے میں زہر کھالوں۔


شایان نے عینی کو دیکھ کر کہا۔


م تو ٹھیک ہے میں ابھی جاکر اس شادی کے لیے ہاں کر دیتی ہوں۔


عینی سے سکون سے شایان کو دیکھ کر کہا۔


ارے ایسے کیسے تمہیں تو منع کرنا چاہیے نہ تم بھی تو مجھے پسند نہیں کرتیں۔


شایان نے ماتھے پہ ڈال کر کہا تو عینی اس کو دیکھ کر مسکرائی۔


بالکل میں تمہیں بالکل پسند نہیں کرتی زہر لگتے ہو تم مجھے اور میں تو بابا کو اس شادی سے انکار بھی کرنے والی تھی مگر پھر میں نے تمھاری باتیں سنی۔ کیا کہہ رہے تم میں آفت کی پڑیا ہوں تمھاری زندگی برباد ہو جائے گی مجھ سے شادی کر کے ہم۔


اب تم دیکھتے جاؤ شادی تو میں تم سے ہی کروں گی اور اس کے بعد تمھاری زندگی کو جہنم بنانا میری زندگی کا مقصد ہو گا۔ تیار ہو جاؤ شایان حیدر! ارے نہیں نہیں میں بھلا تمہیں نام سے کیسے بلا سکتی ہوں سو


میرے ہونے والے شوہر جی بی ریڈی آپ کی زندگی میں نے عذاب نہیں کی تو میر انام بھی قرۃ العین شاہ نہیں۔


عینی شایان کو سنا کر واپس ایمان کے کمرے میں چلی گئی۔


شایان منہ کھولے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ وہ صرف ضد میں آکر اس سے شادی کرنے والی تھی۔ شایان نے اس لمحے کو کو ساجب اس نے عینی کو آفت کی پڑیا بولا تھا۔


عینی کے جاتے ہی اسے قہقہے سنائی دیے۔


شاہ میر کے ساتھ ساحر بھی ان سے تھوڑا دور کھٹر ازور زور سے ہنس رہا تھا۔


ساحر ہنستا ہو اشایان کے پاس آیا۔


ہاں ہاں ہنس لو فنس او بہت مزہ آرہا ہے نہ۔ یہاں میری زندگی اتنی مشکل میں پڑ گئی ہے اور تم لوگوں کے قتل میں ہورہے۔


شایان نے چڑ کر کہا۔


مجھے تمھارے لیے دل سے افسوس ہے شایان سچ میں بہت برا ہوا۔۔ نہیں نہیں بہت برا ہونے والا ہے تمھارے ساتھ ۔


ساحر نے ہنستے ہوئے شایان کا کندھا تھپتھپایا۔


بالکل یار یہ لڑکی تو بیچ میں تمہیں دن میں تارے دکھا سکتی ہے۔ شایان بیٹا تو تو گیا۔


شاہ میر نے بھی مزاق آڑایا تو وہ دونوں کو چھوڑ کر منہ بنا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔


شایان کہاں ہے شاہ میر وہ ایک بار مل کر بات کر لیتا تو اچھا رہتا۔


شاہ میر ڈرائنگ روم میں واپس آیا تو ریان نے اسے مخاطب کیا۔


بھائی مجھے نہیں لگتا وہ اب دوبارہ ملنا چاہے گا۔


شاہ میر نے اپنی ہنسی روک کر کہا تو ریان نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔


بھائی وہ اصل میں اس کی ملاقات ہو گئی ہے ابھی تو اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


شاہ میر نے بتایا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔


ٹھیک ہے پھر تم اور نور ایک بار مل لو۔


ریان نے شاہ میر کو دیکھ کر کہا تو اس نے کچھ سوچ کر ہامی بھری۔


وہ نور کو سب سچ بتادے گا۔ وہ بتادے گا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے۔ وہ نور کو کسی دھوکے میں نہیں رکھے گا۔ شاہ میر نے دل میں سوچا۔


سب سے اجازت لے کر ریان شاہ میر کے ساتھ ایمان کے روم کی طرف آیا۔


بتاؤ نہ مرحا کیسے لگتے ہیں تمھیں ریان بھائی۔


ہاں ہاں بتاؤ مر حامیرے بھیو کیسے لگتے ہیں تمہیں۔ ان کو دیکھ کر کچھ کچھ ہوتا ہے یا نہیں۔


اس سے پہلے شاہ میر اور ریان کمرے میں داخل ہوتے انہیں عینی اور ایمان کی آواز سنائی دی۔ یقینا وہ مرحا کو چھیڑ رہی تھیں۔


بس کر جاؤ تم دونوں تو میرے پیچھے ہی لگ گئی ہو میری شادی نہیں ہو رہی عینی بھائی آپ کی اور نور کی شادی ہے تو یہ سوال ہمیں آپ سے کرنا چاہیے۔


مرجانے تنگ آکر کہا تو عینی فرضی کالر کھڑا کرتی ہوئی بولی۔


دیکھو بھئی وہ تم لوگوں کا بھائی شایان مجھے بالکل پسند نہیں ہے کڑوا کر یلا نیم چڑھا۔ اتنا ریٹیٹیوڈ دکھا رہا


تھا میں شادی نہیں کروں گا زندگی خراب ہو جائے گی بلا بلا بلا۔


عینی کی بات پہ نور مرحا اور ایمان منہ کھولے اسے دیکھنے لگیں۔


عینی ہوش میں تو ہو تمھارے رشتے کی بات چل رہی ہے اس سے اور تم کیا کیا بول رہی ہو۔ ی ہے اس سے اور تم کیا کیا ہوا سے اور نور سے آنکھیں دیکھائیں۔


لڑکی بہت زیادتی ہے میر ابھائی بہت اچھا ہے۔


ایمان نے آنکھیں دکھا کر کہا۔


اد ہو دو میں تو ڈر گئی۔


ایمان کی آنکھیں دکھانے پر مینی نے مصنوعی ڈری ہوئی ہی آواز میں کہا تو سب کی ہنسی نکلی۔


ریان نے دروازہ نوک کیا تو عینی کی زبان کو بریک لگی۔


عینی آپ کے شایان کے لیے خیالات جان کر خوشی ہوئی امید ہے آپ دونوں ہمیشہ اب ایک دوسرے کا جینا حرام کرتے رہیں گے۔


ریان کی بات پر شاہ میر سمیت ایمان اور مرحانے بھی ہنسی روکی۔


جبکہ عینی نے امین کہا۔


نور آپ اور شاہ میر ایک دوسرے سے جو بھی بات کرنا چاہو کر لو۔ شادی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ ہے


ایک دوسرے کو لے کر کوئی بھی ڈاؤٹ ہو تو وہ کلیئر کر لو۔


شاہ میر جاؤ نور کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔


ریان نے شاہ میر کو اشارہ کیا تو شاہ میر نے نور کو دیکھ کر چلنے کے لیے راستہ دیا۔


نور کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوا۔ وہ بھلا کیا بات کرے گی اس سے۔ ہمت کر کے نور شاہ میر کے ساتھ چلی گئی۔‏


ریان بھائی۔


عینی نے ریان کو مخاطب کیا۔


جی بولیے۔


ریان نے مسکرا کر کہا۔


آپ نے یہ آفر مجھے تو نہیں دی میرا بھی تو رشتہ ہونے والا ہے۔


عینی کی بات پر مرحا اور ایمان کو ہنسی آئی۔ ریان نے بھی سر جھکا کر اپنی مسکراہٹ روکی تھی۔


آپ بولیے میں ابھی آپ کی اور شایان کی میٹنگ ارینج کروادیتا ہوں۔


ریان نے آفر دیا۔


ناٹ انٹر سند!


عینی نے اتراتے ہوئے جواب دیا تو اس بار ریان بھی اپنی ہنسی نہیں روک پایا۔ ریان بھی سمجھ گیا تھا یہ


لڑکی بہت باتونی اور منہ پھٹ ہے۔ شایان کے ساتھ اس کی جوڑی اچھی جمنی تھی۔


چلو نیچے چلتے ہیں۔


ایمان نے کہا اور عینی کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔


مرحا بھی اس کے پیچھے جانے لگی مگر ریان نے اس کا راستہ روک لیا۔


مرحا نے ریان کو دیکھا جو محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


راستہ دیں مجھے نیچے جانا ہے۔


مرجانے مدھم آواز میں کہا۔ ریان کے سامنے اس کی آواز ہمیشہ مدھم ہو جاتی تھی جبکہ ریان نے نوٹ کیا تھا اب وہ باقی گھر والوں کے ساتھ بہت نار ملی بات کرنے لگی تھی۔


تمھارے سارے راستے مجھ تک ہی آتے ہیں۔


ریان نے بھی اس کے لہجے میں جواب دیا۔


مرحا کی نظریں جھکیں۔ اس کاریان سے شرمانا گھبر اناریان کو اس کے اور قریب کر رہا تھا۔


تم نے مجھے تعریف کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ تمہیں اندازہ بھی ہے تم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو اس ڈریس میں۔


ریان نے محبت سے کہا تو مر حا کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔


اس سے پہلے ریان کچھ کہتا باہر سے آتی شور کی آواز نے دونوں کا دھیان کھینچا تھا۔


ریان شور سن کر کمرے سے باہر نکلا تو مر حا بھی اس کے پیچھے چلی گئی۔


ریان تیزی سے نیچے آیا۔ مرحا اس کے پیچھے ہی تھی مگر سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے بال میں کھڑے حاشر اور ساحل کو دیکھا جو زور زور سے پھینچ رہے تھے۔ مرحا کی آنکھوں میں خوف اتر اتھا۔ وہ


لوگ یہاں بھی پہنچ گئے تھے۔ مرحا کو آنے والے وقت سے خوف آنے لگا۔


ریان بھی اچانک ان دونوں کو وہاں دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو ا تھا۔ ان کی اتنی ہمت ہو گئی کہ وہ لوگ گھر تک آگئے۔


ریان نے سوچ لیا تھا اگر ان لوگوں کی وجہ سے مر حاہرت ہوئے تو وہ ان دونوں کو جان سے مار دیگا۔


ساحر گھر کے اندر داخل ہوا۔ یہ گھر اس نے شہر آکر تایا جان سے ملنے سے پہلے خریدہ تھا مگر وہ یہاں آہی نہیں سکا تھا۔


اب بھی جس ضروری کام سے آیا تھا اس کی خبر کسی کو نہیں تھی۔ ساحر لالا


ساحر کو اندر آتا دیکھ یا سر تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔


تم سچ میں میرے ساتھی ہو یا سر میرے ایک بار بلانے پر سب کچھ چھوڑ کر تم آگئے۔


ساحر نے یا سرے کہا تو وہ مسکرایا۔


لالا آپ کا دیا ہوا کام زیادہ ضروری تھا۔


یا سر نے کہا تو ساحر نے ہاں میں گردن ہلائی۔


کہاں ہے وہ۔


ساحر نے پوچھا تو یا سر نے سامنے بند کمرے کی طرف اشارہ کیا۔


ساحر ایک ہاتھ میں ایک بوتل اور دوسرے ہاتھ میں آرمی پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔ یاسر بھی


ساحر کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا اور کمرہ بند کر دیا۔


ساحر کرسی سے بندھے شخص کے سامنے آکر بیٹھا تو وہ کانپ گیا۔ سامنے آکر بیٹا تو وہ کانپ گیا۔


کیا حال ہیں اکرم۔ پہچانا مجھے۔


ساحر نے اکرم سے سوال کیا تو وہ گھبر اگر آگے پیچھے دیکھنے لگا۔


ساحر کے ہاتھ میں آری دیکھ کر اس کا دل بری طرح کا نپا تھا۔


بتاؤ اکرم تم نے مجھے پہچانا۔


ویسے تو تمہیں مجھے پہچان لینا چاہیے تمھارا ہاتھ توڑا تھانہ میں نے۔ کونسا ہاتھ تھا تمھارا یہ والا یا پھر یہ والا۔


ساحر نے باری باری اس کے ہاتھوں پہ آری رکھی۔


لک کیوں لائے ہو تقنت تم مجھے یہ ۔۔ یہاں۔


اکرم نے اٹک کر کہا تو ساحر نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔


ارے ارے تمھیں نہیں پتہ میں کیوں لایا ہوں تمہیں یہاں ہم ۔ بلکہ تمھارا سوال ہی غلط ہے کیوں کہ یہاں تو تم خود آئے تھے نہ۔ کیا سوچ کر آئے تھے تمہیں یہاں ایمان ملے گی ہم۔


ساحر نے غضب ناک آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا۔


اکرم سمجھ گیا تھا اس نے یہاں آکر بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔ اس تک یہ بات پہچانے والا سامنے بیٹھا آدمی ہی تھا کہ ایمان یہاں ہے۔ اکرم نے سوچا تھا کہ وہ ایمان کو لے جاکر را جا بھائی کو دے دیگا تو وہ


اس کا خاص آدمیوں میں شامل ہو جائے گا مگر اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ کسی کی سوچی سمجھی چال بھی ہو سکتی ہے۔


مجھ سے غلطی ہو گئی میں لالچ میں آگیا تھا مجھے معاف کر دو میں آئندہ اس لڑکی کا خیال بھی اپنے دماغ میں نہیں لاؤں گا۔


اکرم نے ساحر سے التجا کی تو ساحر نے قہقہہ لگایا۔


ہاہاہا۔ تمہیں لگتا ہے میں تمہیں اس قابل چھوڑوں گا کہ تم میری ایمان کا تصور بھی کر سکو۔ ویسے تمھارے ہاتھ کی ہڈی جڑ گئی نہ۔ کیوں توڑا تھا تمھارا ہاتھ میں نے کچھ یاد ہے تمہیں۔


ساحر نے اکرم سے پوچھا تو وہ کچھ بول نہیں پایا۔


تمہیں یاد ہونا چاہیے نہ۔ اچھا چلو یہ بتاؤ کون سا ہاتھ توڑا تھا میں نے تمھارا۔


سیدھا یا پھر الٹا۔


ساحر نے ایک بار پھر اس کے ہاتھ پہ آری رکھی۔


جلدی بتاؤ وقت نہیں ہے میرے پاس۔ دیکھو تم صحیح بتا دو گے تو میں تمھارے صرف ایک ہاتھ کو


تکلیف دوں گا اگر نہیں بتاؤ گے تو پھر مجھے تمھارے دونوں ہاتھوں کو نقصان دینا پڑے گا۔


اکرم کو اس وقت سامنے بیٹھا شخص پاگل لگ رہا تھا۔


یا سر یہ ایسے تو بتائے گا نہیں وقت ضائع کر رہا ہے یہ میرا۔


ساحر نے یا سر کو دیکھ کر کہا پھر گھور کر ا کرم کو دیکھا۔


تم ایسے نہیں مانو گے۔


ساحر نے غصے سے کہا اور آری اکرم کے ہاتھ پہ چلا دی۔


اکرم کی چیخ پورے گھر میں گونجی تھی۔


چپ چپ ایک دم چپ ایک آوز بھی آئی نہ تو اسی آری سے تمھاری زبان کاٹ کر گلی کے کتوں کے آگے ڈال دو گا۔


اکرم کے چھیننے پر ساحر نے اکرم کا منہ زور سے اپنے ہاتھ سے پکڑا۔


اکرم خوف سے ساحر کو دیکھنے لگا۔


یہ ہاتھ اٹھایا تھا تم نے میری ایمان پہ۔ تمھارے اس ہاتھ نے میری ایمان کو تکلیف دی تھی۔


ساحر نے کہہ کر ایک دو تین نا جانے کتنی بار آری اکرم کے ہاتھ پہ چلائی۔


درد ناک چیخوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔


یا سر ساحر کو اس روپ میں دیکھ کر حیران تھا۔


ایمان کو تھپڑ مارنے پہ ساحر نے اس انسان کا یہ حال کر دیا تھا نا جانے وہ سلمان کا کیا حال کرنے والا تھا جس نے ایمان پہ بری نظر رکھی تھی۔


اکرم کے ایک ہاتھ کا براحال کرنے کے بعد ساحر نے ایک اسپرے نکلا اور اس کا کیپ کھول کر بوتل میں رکھا ہوا تیز اب اس میں ڈالنے لگا۔


اکرم درد سے کر بارہا تھا۔ اس کا ہاتھ ساحر نے بری طرح زخمی کیا تھا۔


اب ساحر کو تیزاب کھولتا دیکھ اکرم پھر خوف سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا۔ پتہ نہیں اب وہ اس


کے ساتھ کیا کرنے والا تھا۔


ساحر نے اسپرے والی بوتل میں تیزاب ڈالا اور اس کو اکرم کے دوسرے والے ہاتھ کے آگے لایا۔


تمھارے اس ہاتھ کو میں نے اس لیے زخمی کیا کیوں کہ تم نے اس سے ایمان کو ہاتھ لگانے کی تکلیف دینے کی غلطی کی تھی۔ اب یہ جو دوسرا ہاتھ ہے نہ اسے اس لیے تکلیف ملے گی تاکہ یہ ہاتھ ایمان کی طرف کبھی اٹھ ہی نہ سکے۔


ساحر نے تیزاب والا اسپرے اکرم کے دوسرے ہاتھ پہ کر نا شروع کر دیا۔ اکرم کی چیخوں سے ایک بار پھر گھر گونج اٹھا تھا مگر آج ساحر تو جیسے بے حس بنا ہوا تھا۔


ساحر نے ایک ساتھ تیز اب اس کے ہاتھ پہ نہیں ڈالا تھا ہلکے ہلکے اسپرے کر کے وہ اسے اذیت دے رہا تھا۔ مگر یہ اذیت اس اذیت کے آگے کچھ نہیں تھی جو ایمان کو ملی تھی۔


ساحر اپنے کام میں مصروف تھا جب اس کے موبائل پہ بار بار کسی کے میسج آنے لگے۔


ساحر نے اپنا ہاتھ روک کر یا سر سے اس کا موبائل چیک کرنے کو کہا۔


لالا کسی شہر کے میں آرہے ہیں۔ دس میچ آگئے ہیں ایک ساتھ


یاسر نے کہا تو ساحر نے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر میسیج چیک کیا۔


شہیر کا میسج پڑھ کر ساحر کے ماتھے کی رگیں تئی تھیں۔


یا سر اس پہ نظر رکھنا۔


یا سر سے بس اتنا کہہ کر ساحر تیزی سے گھر سے نکلا تھا اسے جلد سے جلد ریان کے پاس پہنچنا تھا۔


ساحل اور حاشر نے گھر میں آتے ہی شور شرابا شروع کر دیا مگر ریان کو دیکھ کر وہ دونوں خاموش ہوئے۔


اور ہیر و تمہیں کیا لگا تھا تم ہم سے جھوٹ بولو گے تو ہمیں سچائی کا پتہ نہیں لگے گا۔ مرحا کہاں ہے باہر نکالو ا ہے۔ کس کی اجازت سے رکھا ہوا ہے تم نے اسے اپنے گھر میں۔


حاشر نے غصے سے ریان سے کہا تو وہ حاشر کے روبرو جا کر کھڑا ہو گیا۔


تو کون ہوتا ہے مرحا کے بارے میں سوال جواب کرنے والا ہاں اور تیری اتنی ہمت تو میرے گھر میں کھڑے ہو کر غنڈا گردی کرے گا۔


ریان نے اپنے سرخ انگارہ آنکھیں حاشر کی آنکھوں میں گاھڑھتے ہوئے کہا۔


ہمت کی بات تو رہنے دے بیٹا اپنی کزن کے کڈنیپنگ کے کیس میں اندر کرواسکتا ہوں تجھے سمجھا۔ اب


میرا راستہ چھوڑ اور مرحا کو بلا حاشر نے بھی ریان کو غصے سے جواب دیا -


ارے ارے ہماری پیاری کزن تو وہاں کھڑی ہیں۔ مرحابے بی وہاں کیوں کھڑی ہو دیکھو ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔


ساحل نے مرحا کی طرف قدم بڑھائے تو شاہ میر مرحا کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔


اگر اپنی سلامتی چاہتے ہو تو چپ چاپ یہاں سے دفع ہو جاؤ۔


شاہ میر نے ساحل کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔


اس سے پہلے ساحل اور شاہ میر آپس میں ہاتھا پائی شروع کرتے ریان نے پکڑ کر ساحل کو پیچھے دھکیلا۔


حاشر یہ لوگ ایسے نہیں مانیں گے۔ پولیس کو بلانا پڑے گا یہ لوگ شاید جانتے نہیں ہیں مرحا ابھی سترہ سال کی بھی نہیں ہوئی ہے وہ لوگ اسے زبردستی یہاں نہیں روک سکتے بلکہ مرحا خود بھی چاہے تب بھی وہ یہاں نہیں رک سکتی۔


ساحل نے سب کے اوپر ایک نظر ڈال کر کہا۔


مرجانے ریان کا بازو مضبوطی سے تھاما۔ خوف سے مرحا کا وجو د لرزنے لگا تھا۔


ریان کا دھیان فورا مر حا کی طرف گیا۔


مرحا۔۔ مرحا میری جان تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں یہاں سے کوئی بھی نہیں لے جاسکتا


تم ایسے ڈرو نہیں بچہ طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔


ریان نے مرحا کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔


ریان کا لہجہ ایک دم تبدیل ہوا تھا۔


یہ وہ ریان ہی نہیں تھا جو ابھی ان لوگوں سے اتنے غصے سے بول رہا تھا۔


مرحا کے لیے اس کے الفاظوں میں صرف فکر اور محبت تھی جسے دیکھ کر دور کھڑی عمل کی دل میں کانٹے چھے تھے۔


اللہ کرے یہ لوگ لے جائیں اس لڑکی کو میری جاں چھوٹ جائے گی پھر میں ریان کو کسی کا نہیں ہونے دوں گی۔


عمل نے دل میں سوچا۔


ارے ارے یہ تو محبت کا چکر ہے۔ اب سمجھ آیا یہ اتنی ہیرو گیری کیوں دیکھا رہا ہے۔ مگر افسوس اس کی ہیرو گیری کسی کام کی نہیں ہے۔ یہ مرحا کو یہاں نہیں روک سکتا اس کا مر حا کے ساتھ کوئی مضبوط رشتہ تو ہے نہیں۔


حاشر نے ہنستے ہوئے کہا۔


اپنی بکو اس بند کرو اور نکلو میرے گھر سے یہ کیا تما شال گا یا ہوا ہے۔


احتشام صاحب غصے سے چینے تو ساحل اور حاشر نے انہیں اوپر سے نیچے تک دیکھا۔


کیا بات ہے بھئی ہماری مر جانے تو یہاں بڑے چاہنے والے بنا لیے ہیں مگر اس سب کا فائدہ نہیں ہے۔ ارے اور انکل اپنی عمر کا خیال کرو اور چپ کر سائیڈ میں کھڑے رہو بلا وجہ تم پہ ہاتھ اٹھ گیا نہ تو آدھ مرے ہو جاؤ گے۔


ساحل نے بد تمیزی سے جواب دیا تو ریان نے آگے بڑھ کر اس کا گلہ دبایا۔


کیا بولا تو میرے بابا پہ ہاتھ اٹھائے گا تو ہاں میرے بابا کو آدھ مرا کرے گا تو۔ تیری ہمت بھی کیسے ہوئی ایسی بکو اس اپنے منہ سے نکالنے کی۔ میرے بابا تک یا مر حاتک پہنچنے سے پہلے ہی میں تیرے دونوں ہاتھ کی ہڈیوں کو اتنے ٹکڑوں میں توڑوں گا نہ کہ تو گن بھی نہیں پائے گا۔ ریان غصے سے اپنا آپا کھو چکا تھا جب حاشر نے سے زبر دستی ساحل سے الگ گیا۔


دیکھ ہیر و ہماری تجھ سے کوئی دشمنی نہیں ہے تیرے لیے بھی بہتر ہے ہم سے دشمنی نہیں پال اور مرحا کو ہمارے حوالے کر دے۔ وہ ابھی سترہ سال کی بھی نہیں ہوئی ہے تو اسے یہاں نہیں روک سکتا۔ ہم لوگ مر حالی حق رکھتے ہیں۔


کون ساحق اور کیسا حق ۔ کسی حق کی بات کر رہے ہو تم دونوں۔


حاشر نے ریان کو غصے سے کہا تو اسے اپنے پیچھے سے ساحر کی آواز سنائی دی۔


ساحل اور حاشر حیرت سے مڑے تو ساحر آنکھوں میں غصہ لیے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ ساحر لالا آپ یہاں پہ آپ تو کینیڈا میں تھے نہ 


حاشر نے اپنی حیرانگی چھپا کر پوچھا۔


میں کہاں تھا اور کہاں نہیں اس بات سے تم لوگوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے تم یہ بتاؤ مرحا پہ کس بات کا حق جاتا رہے ہو تم۔


ساحر نے حاشر کے روبرو آکر سوال کیا۔


ساحر کو دیکھ کر ریان تھوڑا ٹھنڈا پڑا تھا۔


جواب دو کو ناحق جتانے آئے ہو تم دونوں۔


ساحر نے اتنے غصے سے بولا کہ اس کی آواز کی گونج پورے گھر میں پھیلی تھی۔


لالا آپ کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے مرحا ہماری کزن ہے اور وہ ابھی اٹھارہ کی بھی نہیں وہ اپنے سگے رشتوں


کی سر پرستی میں رہ سکتی ہے کسی غیر کے نہیں۔


غیر لفظ بولتے ہوئے ساحل نے ریان کو دیکھا تھا جو اب بھی انہیں غصے سے گھور رہا تھا۔


ہاں بالکل اسے اپنے سگے رشے کی سر پرستی میں رہنا چاہیے اور وہ رہ رہی ہے۔


مر حامیری سر پرستی میں رہ رہی ہے اور میں مر حا کا بھائی ہوں۔


ساحر کی بات پر حاشر اور ساحل دونوں کو چپ لگ گئی تھی۔


ان دونوں کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ساحر یہاں موجود ہو گا۔ وہ تو اپنی من مرضیوں پہ اترے ہوئے

تھے کیونکہ انہیں یہی لگا تھا کہ ساحر کینیڈا میں ہے۔

مل گیا تم دونوں کو جواب اب نکلو ہمارے گھر سے اور خبر دار جو اس طرف دوبارہ اپنا رخ کیا تو۔ جان

سے مار دوں گا میں تم لوگوں کو۔

ریان نے غصے سے کہا تو حاشر چلتا ہوا ریان تک آیا۔

ابھی تو ہم جا رہے ہیں مگر یہ مت سوچنا کہ تم مرحا کو ہم سے بچالو گے۔ تمھاری آنکھ کے نیچے سے مرحا کو لے جائیں گے اور تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔

حاشر نے ریان کو دھمکی دی۔

اگر تم نے ایسا کیا تو ٹرسٹ میں تمھارا وہ حال کروں گا میں کہ تمھارے اپنے تمہیں پہچان نہیں پائیں گے۔

ریان نے بھی اتنے ہی غصے سے جو اب دیا۔

حاشر خاموشی سے ساحل کو لے کر چلا گیا۔

مر حامیر ایچہ سب ٹھیک ہے اب کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

ساحر نے مرحا کے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔

ساحر تمھاری شرٹ پہ یہ خون

ریان نے ساحر کی شرٹ پہ خون کے دھبے دیکھے تو ساحر نے غور کیا اس کی شرٹ اچھی خاصی خراب ہوئی تھی۔

یہاں پہنچنے کی جلدی میں وہ دھیان ہی نہیں دے پایا تھا۔ وہ تو شکر تھا کہ شہیر نے اسے میسج کر کے یہاں کے حالات کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ اس ٹائم ساحر اتنے تیزی میں نکلا تھا کہ اس نے اپنی خون والی شرٹ بھی چینج نہیں کی تھی۔