تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 18
از۔"طوبیٰ صدیقی "
°°°°°°
❤️❤️❤️
وہ ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا روڈ پہ تو بس اسے ہسپتال لے جانے کے چکر میں یہ خراب ہو گئی۔ میں چینج کر لیتا ہوں۔
ساحر سب سے نظریں چراتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
سب مرحا کو لے کر ویسے ہی پریشان تھے اس لیے ساحر پہ کسی کا زیادہ دھیان نہیں گیا۔
ایمان نے اس کا نظریں چرانا نوٹ کیا تھا۔
ساحر نے کپڑے تبدیل کیسے اور باہر ہال میں چلا گیا جہاں ذوالفقار صاحب کے ساتھ احتشام صاحب شعیب صاحب اور سمینہ بیگم بیٹھی تھیں۔
سبیل صاحب کے سامنے اتنا کچھ ہو گیا تھا مگر انہوں نے سب کی کنڈیشن کو سمجھا تھا بلکہ ریان کو شاباشی بھی دی جس طرح وہ مرحا کی ڈھال بن کر کھڑا ہوا تھا۔ دونوں کو بہت ساری دعائیں دے کر وہ لوگ بھی کچھ دیر پہلے ہی گئے تھے۔
ساری ینگ پاڑی چھت کی طرف چلی گئی تھی۔ عمل نے خود کو کمرے میں بند کیا ہوا تھا۔
انکل مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
ساحر ذوالفقار صاحب اور احتشام صاحب کے سامنے بیٹھ کر مخاطب ہوا۔
بیٹا بات تو ہمیں بھی تم سے کرتی ہے۔
احتشام صاحب نے کہا تو وہ سمجھ گیا یقینا ریان سب سے اس کے اور ایمان کے بارے میں بات کر چکا ہے۔
جی انکل بولیے کیا بات کرنی ہے آپ کو۔
ساحر نے تمہید باندھی۔
ریان نے بتایا، تم ہماری ایمان کو پسند کرتے ہو اور اس سے شادی کے خواہشمند ہو۔
ذوالفقار صاحب نے کہا تو اس ہامی بھری۔
جی دادا جان مجھے بھی آپ سے ایمان کے لیے ہی بات کرنی تھی۔ میں ایمان کو پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
ساحر نے کہا۔
بیا تم جانتے ہونہ وہ ذاکر بنا چاہتی ہے۔
احتشام صاحب نے کہا تو ساحر مسکرایا۔
میں جانتا ہوں انکل اور یقین کریں ایمان کو ڈاکٹر بنے دیکھنا اب میری خود کی بھی خواہش ہے۔
میں اس کے خوابوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا۔ میں صرف اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ رخصتی کے لیے جیسے آپ لوگوں کو اور ایمان کو مناسب لگے تب رکھ لیں گے۔ میں ایمان کا اور اپنارشتہ مضبوط
کرنا چاہتا ہوں۔ اپنی محبت کو جائز نام دینا چاہتا ہوں۔ وہ ڈاکٹر بنے اپنا خوب پورا کرے مجھے اس بات پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔
انکل آنٹی میں ایمان کو ہمیشہ خوش رکھوں گا اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں گا۔ یہ میر اوعدہ ہے پر پلیز آپ اپنی ایمان مجھے دے دیں۔
ساحر نے التجا کی۔
بیٹا تم گاؤں میں رہتے ہو ایمان وہاں کیسے ایڈ جسٹ کرے گی۔
شعیب صاحب نے کہا۔
ہاں بیٹا اور تمھاری حویلی والے کیسے ہیں یہ ہم سب نے ہی دیکھ لیا ہے۔
ذوالفقار صاحب نے کہا۔
میں ایمان کو گاؤں میں نہیں رکھوں گا آپ لوگ مطمئن رہیں۔ ویسے بھی وہاں میرا بھی کوئی نہیں ہے۔ جو کچھ ان سب نے میرے تایا جان اور ماں کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد میں ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا۔
تا یا جان کا بزنس مرجانے میرے نام کر دیا ہے۔ ان کا بزنس سنبھالنا ہے مجھے تو گھر بھی شہر میں ہی لوں گا۔ ایمان کو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔
ساحر نے کہا تو سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
ساحر ہمیں تمھارا رشتہ ایمان کے لیے قبول ہے۔ اور تمھاری گارنٹی تو ویسے بھی ریان لے چکا ہے اور وہ کبھی ایمان کے لیے غلط فیصلہ نہیں کرتا۔
ہم چاہتے ہیں ایک بڑے پیمانے پہ تمھارا اور ایمان کا نکاح کر دیں۔ مگر رخصتی ایمان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہو گی۔
ذوالفقار صاحب نے اپنی بات مکمل کی۔
ساحر کی خوشی کا تو جیسے کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا۔ آج اس کی اتنی بڑی خواہش پوری ہو گئی تھی۔
دادا جان میرے پاس ایک بہتر آئیڈیا ہے۔
ریان کہتا ہو اہال میں داخل ہوا۔
ہاں ہاں بتاؤ۔
ذوالفقار صاحب نے کہا تو ریان نے مسکرا کر ساحر کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
دادا جان آپ لوگوں نے شایان شاہ میر کا کیا سوچا ہے کیا ان لوگوں کے لیے نور اور عینی کارشتہ قبول ہے۔
ریان نے سوال کیا۔
میں سچ کہوں تو مجھے نور اور عینی بہت پسند آئیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سمینہ بیگم نے کہا تو احتشام صاحب اور شعیب صاحب نے بھی ہاں کر دی تھی۔
دادا جان جب ان دونوں کا رشتہ قبول ہے تو پھر ایک کام کرتے ہیں نہ۔ سہیل انکل ویسے بھی ان کی شادی جلد سے جلد چاہتے ہیں تو کیوں نہ ہم پہلے ان دونوں کا نکاح کر دیں اور اس میں ایمان کی منگنی بھی۔
میری ایک ہی بہن ہے اور میں اس کے سارے فنکشنز کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی بھی ارمان میرے ہوتے ہوئے ادھورا نہیں رہ سکتا۔
ریان کی بات ساحر کو بھی ٹھیک لگی تھی۔ ایمان کا کوئی فنکشن ادھورا نہیں رہنا چاہیے اسے اس کے حصے کی ساری خوشی ملنی چاہیے۔
ریان کی بات پہ سب کے چہروں پہ مسکراہٹ آئی۔
تو پھر ٹھیک ہے دو دن کے بعد شایان شاہ میر کا نکاح اور ایمان کی منگنی رکھتے ہیں اس کے کچھ ٹائم کے ایمان اور ساحر کے نکاح کے ساتھ ساتھ ریان اور مرحا کا بھی نکاح کر دیتے ہیں۔
بعد کیوں ساحر بیٹا منظور ہے۔
ذوالفقار صاحب نے ساحر سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر ہامی بھری۔
جیسا آپ کو ٹھیک لگے دادا جان۔
ساحر نے کہا۔
دادا جان کی بات پر ریان کے چہرے پر دنیا جہاں کی خوشی آسمائی تھی
بس تو پھر ٹھیک ہے کل ہی سہیل صاحب سے بات کر لیتے ہیں۔ اور ریان تمہیں ایمان سے بھی بات کرتی ہے۔ یہاں تو سب فائنل ہو گیا مگر ایمان کی رائے بھی لو۔
احتشام صاحب نے کہا تو ریان مسکراتا ہوا ایمان کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
وہ جانتا تھا اسے ایمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے اسے اپنی بہن پہ اتنا مان تھا کہ وہ اپنے بھائی کی بات نہیں نالے گی مگر ریان اس پہ اپنا فیصلہ تھوپنا نہیں چاہتا تھا۔ اسے اپنی بہن کی خوشی بہت عزیز تھی۔
مر حاہم دونوں نہ شایان بھائی اور شاہ میر بھائی کی شادی پہ نہ سیم ڈریسنگ کریں گے۔ ایک جیسے کپڑے جوتے اور میک اپ اور ہیئر اسٹا ئلز بھی سیم سیم کتنا مزہ آئے گانہ ۔
ایمان نے ایکسائیڈ ہو کر کہا تو مر جانے ہاں میں گردن ہلائی۔
ہاں ڈن ہم دونوں بالکل سیم لگیں گے۔ بہت مزہ آئے گا۔
مرحانے بھی جوش سے کہا۔
ایمان اور مرحا دونوں شاہ میر اور شایان کی شادی کے لیے بہت پر جوش تھیں۔ ابھی انہیں یہ تو نہیں پتہ تھا کہ شادی کب ہے بس یہ پتہ تھا کہ عینی اور نور کے ڈیڈ جلدی شادی چاہتے ہیں۔
وہ دونوں بیٹھی اپنی پلینگ کر رہی تھیں جب ریان کمرے میں آیا۔
ایمان مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
ریان نے ایک نظر مسکرا کر مرحا کو دیکھا پھر ایمان سے مخاطب ہوا۔
مر حاریان کی بات سن کر روم سے جانے لگی تو ریان نے مرحا کا راستہ روکا۔
مرحا کنفیوز سی اسے دیکھنے لگی۔
میں نے ایمان سے ضروری بات کرنی ہے مگر میں نے یہ تو نہیں کہا کہ اکیلے میں کرنی ہے۔
ریان نے مرحا کو واپس بیڈ پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ ایمان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
بھیو کیا بات کرنی ہے بتائیں۔
ایمان نے ریان سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر ایمان کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
ایمان کیا تم مجھے یہ اجازت دیتی ہو کہ میں تمھاری زندگی کے بارے میں فیصلہ لے سکوں۔
ریان کے پوچھنے پہ ایمان مسکرائی۔
بھیو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے آپ جانتے ہیں نہ آپ کا ہر فیصلہ میرے لیے پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ آپ میرے لیے کوئی بھی فیصلہ کے سکتے ہیں کیونکہ مجھے پتہ ہے آپ مجھ سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔
ایمان نے محبت سے کہہ کر ریان کے سینے پہ سر رکھا۔
ریان نے مسکر اگر اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔
ایمان میر ابچہ میں نے اور گھر کے بڑوں نے مل کر تمھارا رشتہ پکا کر دیا ہے۔
ریان نے کہہ کر ایمان کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔
ایمان کنفیوز ہوئی تھی۔
بھیو شادی۔۔۔
ایمان نے مجھکتے ہوئے پوچھا۔
نہیں ابھی شادی نہیں۔ گھر کے بڑوں نے ڈیسائیڈ کیا ہے کہ دو دن کے بعد شاہ میر اور شایان کا نکاحکر دیا جائے اور اس میں تمھاری منگنی بھی۔ پھر کچھ ٹائم کے بعد تمھارا نکاح اور ساتھ میں تمھاری دوست کا بھی۔
ریان نے کہہ کر مر حا کو ونک کیا تو وہ بھی حیرانگی سے دیکھنے لگی۔
میر انکاح مگر کس سے یہ سب کب ہوا۔
مرحانے پریشانی سے پوچھا۔
مرحا کی بات پر ریان نے مسکراہٹ چھپائی
تمہیں لگتا ہے کہ میں کسی کو تم سے نکاح کرنے دوں گا یہ حق تو صرف میرا ہے۔
ریان کی بات پہ مر حار یلیکس ہوئی۔
او آپ مزاق کر رہے تھے۔ شکر۔
مرحا کے منہ سے بے ساختہ نکلا تو ریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
میں مزاق نہیں کر رہا۔
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
دو دن بعد شاہ میر شایان کا نکاح ہے اور ایمان کی منگنی ساحر کے ساتھ۔
اور کچھ ٹائم کے بعد ایمان اور ساحر کے نکاح کے ساتھ ہمارا بھی نکاح ہے۔
ریان نے ایمان اور مرحا کے سر پہ دھما کہ کیا۔
کیا کچی لالا کا نکاح ہے وہ بھی ایمان کے ساتھ۔
مر جانے خوش ہوتے ہوئے کہا تو ریان نے اسے گھورا۔
لڑکی میں نے یہ بھی کہا ہے کہ ساتھ ہمارا بھی نکاح ہے۔
ریان کی بات پر مرحا کے چہرے پر سرخی بکھری تھی۔ اس نے اپنی نگاہیں جھکائیں۔
اور ریان حیدر مرحا کی اس ادا پہ واری صدقے جاتا تھا۔
بھیو ساحر سے نکاح۔۔
ایمان نے ملکی آواز میں پوچھا۔ ایمان بہت چاہتا ہے وہ تمہیں۔ بہت خوش رکھے گا ساحر میری گڑیا کو۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو تم بلا جھجھک مجھے منع کر سکتی ہو بچہ میں تم پہ اپنا فیصلہ تھوپنا نہیں چاہتا۔ ریان نے ایمان کو اپنے ساتھ لگا کر کہا۔
ریان نے ہاں میں گردن ہلائی
بھیو اپنی زندگی کے سارے فیصلوں کا حق میں نے آپ کو دیا ہے بچپن سے۔
آپ نے میرے لیے یہ سوچا ہے تو سوچ سمجھ کر ہی سوچا ہو گا۔ مجھے آپ کے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا نہ آج نہ آگے کبھی۔
ایمان کی باتوں نے ریان کو مان بخشا تھا۔ اسے اپنی بہن پہ فخر تھا۔
مرحا مسکرا کر ریان اور ایمان کو دیکھ رہی تھی۔
مرحا جانتی تھی ایمان میں ریان کی جان بستی ہے۔ ایمان ریان کے لیے اس کے اپنے بچے کی طرحہے۔
ریان نے مرحا کو اشارے سے اپنے قریب بلایا تو اس نے ریان سے نظریں چرائیں جس پہ ریان کے چہرے پہ خوبصورت تجسم بکھر تھا۔ یہ شخص مرحا کے لیے اس کا سب کچھ بن چکا تھا۔ ریان کے بنامر حا اپنی زندگی تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اظہار نہیں کرتی تھی مگر ریان اس کے لیے بہت عزیز تھا۔
دادا نے اگلے روز ہی سب کو جمع کر کے شاہ میر اور شایان کے نکاح کا بتا دیا تھا ساتھ ایمان اور ساحر کی منگنی کا بھی سر پرائز دیا تھا جس سے ذوالفقار صاحب کے گھر کی خوشیاں دوبالا ہو گئیں تھیں۔
ذوالفقار صاحب نے یہ بھی سب پر واضح کر دیا تھا کہ وہ ساحر اور ایمان کا جلد نکاح بھی کر دیں گے ساتھ ساتھ ریان اور مرحا کو بھی ہمیشہ کے لیے ایک کر دیں گے۔
اس فیصلے سے جہاں سب خوش تھے وہی عمل اور سمرین بیگم کا غصہ ساتویں آسمان پہ تھا۔
عمل کا تو سوچ سوچ کر دماغ خراب ہو گیا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے مرحا اور ریان کو الگ کرے۔
بچوں تم سب شام میں نکاح کی تیاری کے لیے شاپنگ پہ چلے جاؤ اور شایان شاہ میر تم دونوں الگ الگ جاکر عینی اور نور کو پک کرو گے وہ دونوں بھی تم لوگوں کے ساتھ جائیں گی۔
کمینہ بیگم نے کہا تو سب نے ہامی بھر لی تھی۔
سمینہ کیا تمھارے بچوں کے ساتھ عمل بھی جا سکتی ہے۔
سمرین بیگم نے سمینہ بیگم کو دیکھ کر کہا۔
ارے بالکل میں نے سب بچوں کو بولا ہے سب میں عمل بھی تو شامل ہے۔
سمینہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا۔
ایمان مر حاشایان اور شہیر بیٹھے نکاح کی تیاری کی ڈسکشن کر رہے تھے ریان اور ساحر دونوں الگ بیٹھے
کسی سیریس ٹاپک پر مصروف تھے جبکہ شاہ میر چپ چپ تھا۔
وہ گہری سوچوں میں گم تھا۔
اس نے نور کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ اس نے کچھ نھیں چھپایا تھا اس نے بتادیا تھا کہ وہ مرحا کو پسند کرتا اور وہ اسے وہ محبت کبھی نہیں دے پائے گا جو اس نے مرحا سے کی ہے۔
میر نے کہا تھا کہ نور اپنے ڈیڈ کو اس رشتے کے لیے منع کر دے مگر نور کی مجبوری سن کر شاہ میر کچھ بول نہیں پایا۔
اسے اندازہ نہیں تھانوں کے ڈیڈ اتنے بڑی بیماری میں مبتلا ہیں۔
ان دونوں میں یہ معاہدہ طے پایا کہ وہ سب کی خوشی کے لیے نکاح کر لیں گے مگر نور کبھی اس سے کوئی امید نہیں لگائے گی۔
نور نے بھی شاہ میر سے کہہ دیا تھا کہ جب تک اس کے ڈیڈ زندہ ہیں وہ تب تک یہ رشتہ نبھالے۔ بعد میں چاہے وہ نور کو چھوڑ دے اسے کوئی اعتراض نہیں۔
شاہ میر یہی سب سوچ رہا تھا جب ریان نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔
کہاں کھوئے ہو شاہ میر میں آواز دے رہا ہوں تم سن ہی نہیں رہے۔
ریان نے کہا تواسے اپنی غائب دمانی کا احساس ہوا۔
کچھ نہیں بھائی بس ایسے ہی۔
آپ بتائیں کیا بول رہے ہیں۔
شاہ میر نے مسکرا کر کہا۔
میں یہ کہہ رہا ہوں کہ شام میں چھ بجے تک سب ریڈی رہنا جانے کے لیے اور تم دونوں عینی اور نور کے ساتھ ہمیں مال میں ہی جوائن کرنا ٹھیک ہے۔
ریان نے سب سے بول کر شاہ میر اور شایان کو خاص طور پر مخاطب کر کے کہا تو سب نے ہامی بھری۔
نور بیٹا مینی کہاں ہیں۔
سہیل صاحب نے نور سے پوچھا۔
بابا اپنے روم میں ہو گی۔
مینی عینی
نور نے جواب دیا اور ساتھ ساتھ عینی کو آواز بھی لگائی۔
ارے بابا آگئی آگئی کیا جلد بازی ہے۔
عینی نور کے کمرے میں آتے ہوئے بولی تو سہیل صاحب وہی موجود تھے۔
ارے واہ ڈیڈ آپ بھی نہیں ہیں آفس سے کب آئے آپ ۔
عینی سهیل صاحب سے گلے لگتے ہوئے بولی۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آیا ہوں بیٹا آپ دونوں تیار ہو جاؤ شاہ میر اور شایان آرہے ہیں آپ دونوں کو لینے۔ نکاح کی شاپنگ کے لیے وہ سب لوگ ایک ساتھ جارہے ہیں تو سمینہ بھابی نے کہا ہے کہ آپ دونوں بھی ان کے ساتھ چلو۔
سہیل صاحب نے تفصیل بتائی تو نور نے مسکرا کر ہامی بھری جبکہ عینی کو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی ایمان مرحا اور شہیر سے اچھی دوستی ہو گئی تھی تو اسے ساتھ جانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
ٹھیک ہے ڈیڈ میں ریڈی ہو جاتی ہوں۔
عینی کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
سہیل صاحب بھی نور کو تیار ہونے کا کہ کر اپنے روم میں چلے گئے۔
نور کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔
کل جو باتیں شاہ میر نے اس سے کی تھیں اس کے بعد اپنی شادی کو لے کر اس ساری خوشی مدھم پڑگئی تھی۔
ایک سائینڈ وہ پہلے بھی نہیں تھی مگر ایک انجانی سی خوشی اسے بھی تھی۔ مگر کل سے اس کی خوشیاں پھیکی پڑ گئی تھیں۔
وہ ایک انسان کی زندگی میں شامل ہونے جارہی تھی جو پہلے سے ہی کسی اور سے محبت کرتا ہے۔ مگر
اسے یہ شادی کرنی تھی اپنے ڈیڈ کی خاطر۔
نور آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتی جانے کے لیے ریڈی ہونے لگی۔
شایان کیا پاگل ہو گئے ہو تم معینی کو شاپنگ کے لیے اس پہ لینے جاؤ گے۔
شاہ میر نے شایان کو اپنی اسپورٹس بائیک نکالتے دیکھ کر پوچھا۔
ہاں تو کیا ہوا اتنی اچھی تو ہے میری بائیک اس پہ جانے پر کیا مسئلہ ہے۔
شایان نے کندھے اچکائے۔
شاہ میر نفی میں سر ہلاتا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نور کے گھر کی طرف چل دیا تھا۔
مینی ڈارلنگ بہت شوق ہے نہ تمہیں مجھ سے شادی کرنے کا تم میری زندگی جہنم بناؤ گی تو میں بھلا پیچھے کیسے رہ سکتا ہوں آج تمہیں بائیک کی ایسی رائڈ دونگانہ کے تمھارے ہوش اڑ جائیں گے۔
شایان نے مسکرا کر دل میں سوچا۔
مگر وہ یہ بھول گیا وہ قرۃ العین شاہ ہے اسے پریشان کرنا شایان حیدر کے بس کی بات نہیں ہے۔
اسلام وعلیکم انکل کیے ہیں آپ طبیعت کیسی ہے آپ کیا۔ شاہ میر سہیل صاحب سے بغل گیر ہوتے ہوئے بولا ۔
بس بیٹا کرم ہے رب کا۔ آؤ نہ بیٹا بیٹھو۔
سہیل صاحب نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔
نہیں انکل پھر کبھی ابھی جلدی میں ہوں آپ کو تو پتہ ہے لڑکیاں شاپنگ میں کتنا ٹائم لگاتی ہیں اس لیے
جلدی نکلنا ہے تا کہ وقت پہ واپس آسکیں۔
آپ نور کو بلا دیں۔
شاہ میر نے کہا۔
ہاں بیٹا میں بلاتا ہوں۔
سہیل صاحب کہہ کر جانے لگے تو نور سیڑھیوں سے اترتی دیکھائی دی۔
لو آگئی نور
سہیل صاحب کے کہنے پہ شاہ میر نے نظر اٹھا کر دیکھا۔
ڈارک پر پل کلر کی گھٹنوں تک آتی شرٹ کے ساتھ وائٹ کل کا پلازو اور اس پہ وائٹ اور پر پل کلر کا
دوپٹہ سلیقے سے لیے نور کا چہرہ میک اپ سے پاک تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ نور بہت خوبصورت تھی۔ اس کے چہرے کے نقوش اس کی ماں میں ملتے
تھے۔
شاہ میر نے اسے دیکھ کر مسکرایا تو اس نے بھی مسکرا کر سلام کیا۔
چلیں۔
شاہ میر نے پوچھا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔
وہ دونوں سہیل صاحب سے مل کر جانے لگے تو عینی نیچے اتر کر آئی۔
جیجو بہت غلط بات ہے آپ اپنی سالی سے ملے بنا ہی جارہے ہیں۔
عینی نے شاہ میر کو مخاطب کیا تو وہ رک کر مسکرانے لگا۔ نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے کیسی ہو تم عینی۔
میں بالکل ٹھیک ہوں جیجو آپ لوگ جائیں اب جلدی سے لیٹ ہو جائیں گے۔ آپ کے بھائی کو تو احساس ہی نہیں ہے وقت کی قدر ہی نہیں کرتے جناب۔ دیکھیں آپ آپی کو لینے آبھی گئے اور ان کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔
عینی نے شاہ میر سے کہا تو وہ زور سے ہنسا۔
سہیل صاحب اور نور نے نہ میں گردن ہلائی۔ اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
وقت کی قدر مجھے بھی ہے میڈم آپ ہلکے میں لے رہی ہیں مجھے۔
شایان گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
شایان کی بات پہ منی نے آنکھیں پہنچاتے ہوئے اسے دیکھا۔
اچھی بات ہے آپ آگئے۔ اب چلیں ہونے والے ہسبینڈ جی۔
عینی نے کہا تو شایان مسکرایا۔
ہاں ہاں چلو چینی میڈم تمہیں تو آج مزہ چکھاتا ہوں۔
شمایان نے دل میں سوچا۔
شایان شاہ میر نور اور عینی کولے کر نکلے تو سہیل صاحب نے دونوں کو ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
شاہ میر نور کو گاڑی میں بیٹھا کر لے گیا جب شایان نے بائیک لا کر عینی کے سامنے روکی۔
بیٹھ جاؤ گی نہ ڈرو گی تو نہیں۔
شایان نے عینی کو دیکھ کر پوچھا تو اس کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آئی۔
تم ابھی مجھے جانتے نہیں ہو شایان حیدر ہلکے میں تو تم نے مجھے لے لیا ہے۔
مینی کہہ کر آرام سے شایان کے پیچھے بیٹھی۔
شایان نے بائیک اسٹارٹ کی اور تیزی سے نکال کر روڈ پر ڈال دی۔
شایان بہت اسپیڈ میں بائیک چلا رہا تھا مگر عینی کو تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا ایسا لگ رہا تھا وہ اس سب کی عادی ہو شایان الجھ کر رہ گیا۔ وہ تو عینی کو مزہ چکھانے کا سوچ رہا تھا مگر یہاں تو وہ اتنی ریلیکس تھی۔
نور خاموشی سے بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔
شاہ میر کی نظر بار بار اس پہ اٹھ رہی تھی۔
نور کی آنکھوں کی اداسی وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا۔ کل اس کی باتوں نے نور کو بہت ہرٹ کیا تھا۔
نور تم ٹھیک ہو۔
شاہ میر نے پوچھا تو اس نے شاہ میر کو دیکھ کر مسکرا کر گردن ہلائی۔
میں جانتا ہوں کل تم بہت ہرٹ ہوئی ہو میری باتوں سے۔
شاہ میر کے کہنے پہ نور نے اپنی نظریں جھکا لیں۔
نور میں نے کل بہت سوچا اس سب کے بارے میں تمھارے جانے کے بعد بھی میرے دماغ میں یہی سب چلتا رہا۔ میں نے تمہیں کل سب کچھ اس لیے بتایا کیونکہ میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔
میں نے بہت سوچا۔ میں مرحا سے محبت کرتا ہوں مگر اس محبت کا کوئی حال نہیں ہے نہ کوئی مستقبل ہے۔ مر حاریان بھائی سے بہت پیار کرتی ہے اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے۔
دوسری طرف ریان بھائی کی محبت تو کسی سے بھی چھپی نہیں ہے۔ دیوانوں کی حد تک چاہتے ہیں وہ مرحا کو۔
ابھی دو دن پہلے جب مرحا بخار سے بے ہوش ہوئی تھی تو ریان بھائی کی حالت خراب ہو گئی تھی۔ وہ اتنے زیادہ پریشان ہو گئے تھے۔ پوری رات وہ مرحا کے سر پہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتے رہے۔ جب تک اسے ہوش نہیں آیا ان کی بے چینی ختم نہیں ہوئی۔ اور ان کا جنون تو تم نے بھی کل دیکھا ہو گا۔
میں ایک ایسی محبت کے لیے اپنی آنے والی زندگی کو خراب کر رہا ہوں جو لا حاصل ہے۔ مرحا مجھے کبھی بھی نہیں مل سکتی اور نہ میں اسے پانا چاہتا ہوں۔
نور میں کل جب نکاح نامے پہ سائن کروں گا تو مرحا کی محبت کو ہمیشہ کے لیے اپنے دل سے نکال دوں گا یہ وعدہ ہے میرا۔ اور تم سے بس ایک امید رکھتا ہوں تم اپنی محبت سے اپنی چاہت سے مجھے اپنی طرف مائل کر لوگی۔
آخری بات پر شاہ میر نے مسکرا کر نور کو دیکھا تو وہ مسکرا کر نظریں جھکائی۔
شاہ میر کی باتوں سے اسے اپنے دل میں سکون اتر تا محسوس ہوا۔ ہاں وہ شاہ میر کو اتنا پیار دے گی کہ وہ صرف اس سے محبت کرنے لگے گا۔
نور نے دل میں سوچا۔
شاہ میر کو بھی سکون ملا تھا وہ کل سے کشمکش میں مبتلا تھا۔ نور کو ہرٹ کرنا اسے بالکل اچھا نہیں لگا تھا اور
پھر اس نے فیصلہ کر لیا۔ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ ۔
شایان نے مال کے باہر بائیک روکی تو عینی بائیک سے اتر کر سامنے آئی۔ واپسی میں بائیک میں چلاؤں گی تمھارا بائیک چلانے کا انداز مجھے پسند نہیں آیا۔
عینی نے کہا تو شایان آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا۔
کیس ہو گیا اسے کیوں گھور رہے ہو۔
عینی نے کہا۔
تمہیں بائیک چلانی آتی ہے تم لڑکی ہو گیا ہو۔ میں اتنی تیز بائیک چلا کر لایا تمہیں پسند ہی نہیں آیا واہ۔
شایان کی بات پہ عینی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
واپسی میں جب میں چلاؤں گی نہ تب تمہیں خود پتہ لگ جائے گا کہ مجھے کیوں پسند نہیں آیا تمھارا بائیک چلانا۔
عینی نے اتراتے ہوئے کہا تو شایان اڈے دیکھ کر رہ گیا۔
اور کیا کیا آتا ہے تمہیں لڑکی۔
شایان نے گھور کہا۔
مجھے شوٹ کرنا بھی بہت اچھے سے آتا ہے بہت اچھا نشانہ ہے میرا کہو تو تمہیں شوٹ کر کے دیکھاؤں۔
عینی نے ہاتھ سے گن بناتے ہوئے شایان کے ماتھے پہ رکھی تو اس نے جھر جھری لی.
اس لڑکی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا اپنی ضد میں آکر جب وہ شادی کر سکتی تھی تو شوٹ کرنے میں اس نے کو نسا سوچنا تھا۔
شایان اور عینی مال میں داخل ہوئے تو ریان سب کے ساتھ انٹرنس پر ہی کھڑا تھا۔ شاہ میر اور نور بھی پہنچ چکے تھے۔
ایک کام کرتے ہیں شاہ میر تم نور کو لے کر اپنی شاپنگ کرو آرام سے ، شایان تم بھی عینی کو اپنے ساتھ لے جاؤ باقی میں ایمان عمل شہیر اور مرحا کو لے جارہا ہوں اس طرح ہم سب جلدی فری ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم جلدی فری ہو گئے تو رات کا ڈنر میری طرف سے۔
ریان کے کہنے پہ سب خوش ہو گئے تھے۔
شاہ میر نور کو لے کر چلا گیا جبکہ عینی کو کچھ بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی وہ خود ہی الگ ایک طرف چلی گئی تو شایان اس کے پیچھے بھاگا تھا۔
یہ لڑکی تو اسے لفٹ ہی نہیں کروارہی تھی۔
میڈم آپ میرے ساتھ آئیں ہیں شاید۔
شایان نے منہ بنا کر کہا تو وہ نفی میں گردن ہلاتی آگے چلی گئی۔
اختلف کہاں پھنس گئے ہو تم شایان
شایان نے خود سے کہا اور عینی کے پیچھے چل دیا۔
مینی ایک برائیڈل بو تیک شاپ میں داخل ہوئی جہاں ایک سے ایک خوبصورت برائڈل ڈریسز موجود تھیں۔
شایان کو عینی نے ایسے اگنور کیا ہوا تھا جیسے وہ اسے جانتی ہی نہ ہو۔
بات سنو یہ تم مجھے اگنور کیوں کر رہی ہو۔
عینی ایک ڈریس اپنے ساتھ لگا کر دیکھنے لگی تو شایان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف موڑ کر پوچھا۔
پہلی بات مسٹر شایان حیدر آئندہ مجھے ہاتھ لگانے کی غلطی غلطی سے بھی مت کرنا ہونے والے شوہر ہو ابھی ہوئے نہیں ہو آئی سمجھ اور دوسری بات یہ کہ میں اپنی شادی کی شاپنگ انجوائے کرنے آئی ہوں تو مجھے ڈسٹرب نہیں کرو۔ جہاں مجھے تمھاری سجیشن چاہیے ہو گی میں لے لوں گی اوکے۔
عینی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالتی شایان کا گال تھپتھپا کر دوسری طرف چلی گئی۔
شایان کے چہرے پہ بے ساختہ تبسم بکھرا۔
عینی میڈم اپنے لیے مشکلیں پیدا کر رہی ہو کل نکاح ہو جائے گا تم اپنے سارے حقوق میرے نام لکھ دو گی پھر بتاؤں گا میں تمھیں۔
شایان نے مسکرا کر سوچا۔
عینی کا یہ دبنگ انداز شایان کے دل پہ لگتا تھا۔ اس کی پر سنلٹی پہ اس کا یہ روعب جمانا اتر انا بہت جچتا تھا۔
نور نے ایک ڈریس اپنے ساتھ لگا کر شاہ میر کو دیکھا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔
نور نے وہ ڈریس واپس رکھ دی اور ایک دوسری ڈریس نکال کر شاہ میر کو دیکھا تو اس نے پھر منع کیا۔ نور اب کنفیوز ہونے لگی تھی۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
شاہ میر نے ایک نظر پوری شاپ پر ڈالی اور پھر مسکرا کر ایک ڈریس کی طرف آیا۔
لائٹ پنک شرٹ کے ساتھ گولڈن کلر کا خوبصورت سا لہنگا نکال کر اس نے نور کے ساتھ لگایا۔
نور نے ڈریس کو دیکھا جو بے انتہا خوبصورت تھا۔
نور کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ شاہ میر کی چوائس اسے پسند آئی تھی۔
کیسا لگا۔
شاہ میر نے پوچھا تو اس نے مسکر اگر ہاں میں گردن ہلائی۔
بہت خوبصورت ہے۔
نور نے کہا تو شاہ میر مسکرایا۔
یہ تم پہ بہت سوٹ کرے گا مجھے ایسے ہی لائٹ کلرز پسند ہیں۔
شاہ میر نے نور کو کہا اور ڈریس پیک کرنے کے لیے دے دی۔
نور کو خوشی ہوئی تھی وہ ہر چیز میں انٹرسٹ لے رہا تھا۔ آنے سے پہلے وہ بہت پریشان تھی مگر اب اس کی ساری پریشانی دور ہو گئی تھی۔
ریان یہ ڈریس کیسا ہے اچھا لگے گا نہ مجھ پہ تمھارا فیورٹ کلر ہے۔
ریان مرحا ایمان اور عمل کو لے کر شاپ میں آگیا تھا جبکہ شہیر الگ اپنی شاپنگ کر رہا تھا۔
0 Comments
Post a Comment