تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 19
از۔"طوبیٰ صدیقی"
°°°°°°
❤❤❤
عمل نے ڈریس لگا کر ریان سے پوچھا تو مر جانے گھور کر عمل کو دیکھا تھا مگر اس کا دھیان ریان کی طرف تھا۔
ریان مرحا کا گھور ناد یکھ چکا تھا۔ مرحا کو دیکھ کر اس نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
ہاں بہت اچھا ہے تم پہ اچھا لگے گا تمہیں ٹرائی کرنا چاہیے۔
ریان نے عمل سے کہا تو مر حاریان جو گھور کر رہ گئی۔
مرحا کو ریان کی یہ حرکت بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔
مرحامنہ پھلا کر دوسری طرف چلی گئی تو ریان مسکرایا۔ مرحا کا یہ جیلس روپ ریان کے دل میں اترا تھا۔
عمل تمہیں جو بھی پسند آئے تم لو میرے مشوروں کی ضرورت تمہیں نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی
مشورہ چاہیے تو ایمان ہے اس سے لے لو او کے۔
ریان عمل کو کہہ کر مر حا کے پیچھے چلا گیا ۔
عمل کو غصہ آیا تھا یہ لڑکی ریان کی ساری توجہ کھینچی ہوئی تھی۔
مرحامنہ پھلائے ڈریسز ادھر اُدھر کر رہی تھی جب ریان اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوا۔
ریان کی خوشبو تو دور سے پہچان سکتی تھی۔ اپنے پیچھے ریان کو محسوس کر کے مرحا کے ہاتھ ست پڑے تھے۔
میرے ٹیڈی بیئر کو غصہ آگیا۔
ریان نے محبت سے کہا۔
مجھے کیوں غصہ آئے گا۔ آپ جائیں اپنی کزن کے لیے ڈریس دیکھیں جا کر۔
مرحا نے منہ بنا کر کہانا چاہتے ہوئے بھی اس کی آواز میں نمی گھلی تھی۔
ارے میری جان میر ایچہ کیا ہو گیا۔
ریان نے مرحا کو اپنی طرف گھوما یا تو اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
بر الگا میرا عمل کو مشورہ دینا۔
ریان نے محبت سے مدھم آواز میں پوچھا تو مر جانے معصومیت سے گردن ہلائی۔
اچھا نہیں لگتا میری توجہ کسی اور کو ملے۔
ریان نے پھر سوال کیا تو مر جانے پھر ہاں میں گردن ہلائی۔
میری جان میری زندگی ریان حیدر صرف تمھارا ہے صرف اور مرحا آصف خان کا۔ میری توجہ تم پر سے کبھی نہیں ہٹ سکتی ان آنکھوں میں بسی ہوئی ہو تم اس دل میں صرف تمہاری حکومت ہے اور ریان حیدر پورا کا پورا تمھارے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس لیے اب ان آنکھوں میں آنسو نہیں آنے
چاہیے۔ تمھارے آنکھوں سے بہتے آنسو میرے دل پہ تیر کا وار کرتے ہیں مر حامیر اول چھلنی ہو جاتا ہے۔
ریان کی باتوں میں جنون تھا محبت تھی دیوانگی تھی۔
مرحا کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ بنائی تو اس کے دونوں ڈمپل چھکے۔
ریان نے پیار سے اس کے گال کھینچے تو وہ کھکھلا کر نہیں۔
عمل نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ریان کے لیجے میں مرحا کے لیے چھلکتی محبت نے عمل کے دل میں مرحا کے لیے نفرت اور بڑھادی تھی۔
نہیں مرحا نہیں تم میرے ریان کو مجھ سے نہیں چھین سکتیں۔ میں نے اس کی چاہت کے لیے سالوں انتظار کیا ہے۔ تم میرا انتظار برباد نہیں کر سکتیں تمہیں ہٹنا ہو گا ہمارے بیچ سے کسی بھی حال میں۔ چاہے زندہ رہ کر ہٹو یا مر کے ہٹو تمہیں ہٹنا ہو گا۔
عمل نے دل میں سوچا تھا۔ عمل کی نفرت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ مر حا کو جان سے مار دینا چاہتی تھی۔
ایمان اپنے لیے ڈریس سلیکٹ کر رہی تھی جب کسی نے ایک ڈریس اس کے آگے کی۔ واو و و یہ کتنی حسین ہے۔
ایمان نے ستائشی نظروں سے دیکھ کر ڈریس لی اور پلٹی تو ساحر اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ ساحر کو دیکھ کر ایمان نروس ہوئی۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔
ایمان نے مدھم آواز میں پوچھا۔
میری ہونے والی بیوی مجھے بنا لیے ہی شاپنگ پہ چلے گئی اس لیے مجھے بھی پیچھے پیچھے آنا پڑا۔
ساحر نے مسکرا کر کہا تو ایمان نے مسکراہٹ دبائی۔
ہاں تو آپ نے کیا کرنا تھا آکر ۔
ایمان نے انجان بن کر کہا تو ساحر نے اس کا ہاتھ تھاما۔
میں چاہتا ہوں میری ہونے والی بیوی میری پسند سے ساری شاپنگ کرے اپنی ہونے والی بیوی کو اپنے
پسند کے روپ میں دیکھنے کا خواہشمند ہوں میں۔
ساحر نے کہا تو ایمان نظریں جھکا گئی جبکہ ہاتھ مسلسل ساحر کے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
بیکار ہے یہ کوشش میری پکڑا اتنی کمزور نہیں ہے کہ تم مجھ سے دور جا سکو۔
ساحر نے اسے اپنے اور قریب کر کے کہا تو وہ گھبرائی تھی۔
می ی ی یہ مال ہے۔ پپ پلیز ہاتھ چھوڑیں۔
ایمان نے ہچکچاہتے ہوئے کہا تو ساحر نے اس کا ہاتھ چھوڑا۔
میری پسند کی شاپنگ تو کر سکتی ہو نہ۔
ساحر نے ونک کر کے پوچھا تو ایمان نے سوچنے والے انداز میں ماتھے پہ انگلی رکھی۔
کر سکتی ہوں بٹ آپ کی پسند مجھے بھی پسند آنی چاہیے۔
ایمان کے انداز پر ساحر کے لبوں پہ جاندار مسکراہٹ آئی۔
ساحر نے وہی ڈریس ایمان کے آگے کی۔
اب یہ نہیں بولنا کہ تمہیں پسند نہیں آیا۔ تم اسے حسین بول چکی ہو۔
اس پہلے ایمان کچھ کہتی ساحر نے فورا بولا تو ایمان مسکرائی۔
یہ اچھی ہے۔ میں یہ کل پہنوں۔
ایمان نے ساحر سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر ہاں کی۔ وہ تو خود چاہتا تھا کہ ایمان کل یہی ڈریس پہنے۔
سب لوگ کل کی تیاری میں مصروف تھے مگر کسی کو بھی خبر نہیں تھی کہ کل کا دن کس کے لیے کیسا ثابت ہو گا۔
یار عینی تم پچھلے دو گھنٹے سے مال میں گھوم رہی ہو کچھ بھی پسند نہیں آیا تمہیں اوپر سے میری بھی نہیں
سن رہیں کچھ تو میری پسند کالے لو۔
شایان نے چڑ کر عینی سے کہا۔
میں نے پہننا ہے یا تم نے۔
مینی نے شایان سے پوچھا۔
ظاہر ہے تم نے ہی پہننا ہے مگر ۔۔
اگر مگر کچھ نہیں جب مجھے پہننا ہے تو پسند بھی میری ہونی چاہیے نہ۔ ایک تو ویسے ہی دولہا میری پسند کا نہیں ہے اوپر سے ڈریس بھی اپنی پسند کی نہ لوں۔
شایان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی عینی نے شایان کو گھور کر کہا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
اوو و ہیلو میڈم مجھے بھی کوئی پسند کی دلہن نہیں ملی ہے سمجھیں ایڈ جسٹ کر رہا ہوں نہ میں بھی تو تم بھی خاموشی سے ایڈ جسٹ کرو۔
شایان نے گھور کر عینی کو کہا مگر وہ اس کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتی ایک اور شاپ میں چلی گئی۔
شایان بھی منہ بناتا اس کے پیچھے گیا۔
شایان شاپ میں کھڑ امینی کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سامنے ڈمی پہ لگے ڈریس پہ گئی۔
آف وائٹ اور گولڈن کلر کا خوبصورت ساڈر میں اسے عینی کے لیے پر فیکٹ لگا تھا مگر اسے پتہ تھا اگر وہ
مینی کو یہ لینے کا بولے گا تو وہ اس سے ضد لگا کر یہ ڈریس کبھی نہیں لے گی۔
شایان کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ مسکراتا ہوا عینی کے قریب آکر ہنسنے لگا۔
شایان کے ہننے پہ عینی نے اسے آئیبر و اٹھا کر دیکھا۔
کیوں دانت نکال رہے ہو کو نسا لطیفہ سن لیا ہے۔
عینی نے ڈریسز دیکھتے ہوئے اسے کہا۔
ارے کچھ نہیں میں تو یہ ڈریس دیکھ کر ہنس رہا ہوں کتنی بیکار ڈریس ہے اور ڈمی پہ ایسے لگائی ہے جیسے پتہ نہیں کتنی اچھی ہو۔
شایان نے ہنستے ہوئے کہا۔
شمایان کی بات پہ عینی نے وہ ڈریس دیکھی جو دیکھنے میں بے حد حسین تھی۔ آف وائٹ شرٹ گولڈن
کام سے بھری ہوئی تھی جبکہ لہنگا بھی آف وائٹ ہی تھا۔
عینی کو یہ ڈریس پسند آئی تھی۔
اچھا جی یہ ڈریس بری لگ رہی ہے۔ ٹھیک ہے پھر تو میں یہ ہی لوں گی۔
عینی نے شایان کو کہہ کر ڈریس پیک کرنے کا بول دیا۔
کیا ہو گیا ہے میں تم یہ ہو گی اپنی جیب ڈریں۔
شایان نے مصنوعی حیرانگی سے پوچھا تو عینی مسکرائی۔
بالکل جو تمہیں پسند نہیں ہو گا نا میں وہ سب کروں گی۔
عینی کے کہنے پر شایان نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
عینی کو اندازہ بھی نہیں تھا شایان نے کتنی آسانی سے اسے بیوقوف بنا دیا تھا۔
اپنے آپ کو دل ہی دل میں شاباشی دیتے شایان عینی کے پیچھے شاپ سے نکلا۔
شاپنگ سے فارغ ہوتے ہوتے ان سب کو بہت ٹائم ہو گیا تھا۔
سب کو ریان کا میسج مل گیا تھا کہ انٹرنس پر پہنچ جائیں۔
سب لوگ انٹرنس پر پہنچ گئے تھے بس ریان اور مرحا کا آنا باقی تھا۔
ریان مرحا کو لے کر انٹرنس کی طرف آرہا تھا جب راستے میں کئی لڑکے ایک جگہ کھڑے تھے۔
مر جانے ان کو دیکھ کر ریان کا بازو بہت مضبوطی سے تھاما تھا۔
یہ پہلی دفعہ نہی ہو ا تھا ریان نے نوٹ کیا تھا مر حالوگوں سے گھبرانے لگی تھی۔ اور یہ بات ریان کے لیے پریشانی کا سبب تھی۔ وہ مر حا کو کمزور نہیں بنانا چاہتا تھا۔
وہ جانتا تھا جو کچھ مرحا کے ساتھ ہوا ہے اس کے بعد وہ بہت حساس ہو گئی ہے مگر ایسے وہ کبھی زندگی
میں کوئی بھی سچویشن پینڈل نہیں کر پائے گی۔
ریان نے سوچ لیا تھا وہ مر حا کو کمزور نہیں بنے دیگا اسے مرحا کو سمجھانا ہو گا۔
ریان سوچتے ہوئے مرحا کا ہاتھ تھام کر انٹرنس کی طرف آگیا جہاں سب کھڑے ان دونوں کا ہی انتظار کر رہے تھے۔
شاپنگ کے بعد ریان سب کو فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر کروانے لایا تھا۔
یہ ڈنر اس نے خاص طور پر شاہ میر نور اور شایان عینی کی شادی کی خوشی میں سب کو دیا تھا۔
وہ لوگ آرام سے کھانا کھارہے تھے۔
شایان شاہ میر سے باتیں کرنے کے لیے ہلکا سامڑا تو عینی نے سب سے نظریں بچا کر شایان کے کھانے میں نمک ڈال دیا۔
عینی کی یہ حرکت کسی نے نہیں دیکھی تھی سوائے ساحر کے۔
عینی نے معصوم شکل بنا کر ساحر کو کچھ بھی بولنے سے منع کیا تو وہ مسکرا کر کھانا کھانے لگا۔
شایان نے اپنا کھانا شروع کیا تو پہلے بائٹ لیتے ہی اس نے اپنے برابر میں بیٹھی عینی کو گھور کر دیکھا جو
سکون سے اپنا کھانا کھانے میں مصروف تھی۔
اس کا کھانا اتنا کڑوا ہو گیا تھا کہ شایان سے ایک بائٹ بھی حلق سے نہیں اترا۔
سامنے رکھے ٹیشو با کس سے ٹیشو نکال کر شایان نے منہ سے بائٹ نکالا۔
یہ تم نے کیا ہے ہے عینی۔۔
شایان نے عینی کو گھور کر پوچھا۔
شایان کی آواز پہ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
عینی نے ہاتھ روک کر شایان کو دیکھا۔
اب میں نے کیا کر دیا۔
عینی نے شایان کو دیکھ کر پوچھا۔
تم نے میرے کھانے میں نمک ڈالا ہے نہ مجھے تنگ کرنے کے لیے۔
شایان کیا ہو گیا ہے وہ کیوں کرے گی ایسا۔
شایان کے بولنے پر ریان نے شایان کو گھورا۔
بھائی آپ نہیں جانتے اسے میں اسے بہت اچھے سے سمجھ گیا ہوں یہ لڑکی نہیں ہے چلتی پھرتی آفت کی پڑیا ہے۔
شایان نے غصے سے کہا تو عینی نے بھی غصے سے شایان کو دیکھا۔
یہ کیا تم مجھے آفت کی پڑیا آفت کی پڑیا بولتے رہتے ہو کل نکاح ہے ہمارا اور تم میری یہ رسپیکٹ کرتے ہو۔
عینی نے بھی شایان کو اسی کے لہجے میں جواب دیا۔
ساحر اپنی مسکراہٹ چھپا کر شایان اور عینی کی نوک جھوک دیکھ رہا تھا۔
دیکھا ریان بھائی اس لیے بولتی ہوں میں یہ مجھے بالکل نہیں پسند کڑوے کریلے کی طرح باتیں کرتے ہیں یہ مجھ سے۔
اور کیا کہہ رہے ہو تم میں نے اس میں نمک ڈالا ہے لاؤ ادھر دو مجھے یہ میں پورا کا پورا کھا کر دیکھاتی ہوں۔
مینی نے ریان سے بولتے ہوئے شایان کو گھور کر اس کے آگے سے پلیٹ اٹھائی اور بائٹ لینے لگی۔
عینی سکون سے بیٹھی شایان کی پلیٹ سے کھانا کھارہی تھی جبکہ شایان کے ساتھ ساتھ ساحر بھی حیران پریشان سا اسے دیکھ رہا تھا۔
عینی جتنے سکون سے کھارہی تھی کوئی نہیں کہہ سکتا تھا اس میں نمک تیز ہے۔
عینی نے پوری پلیٹ صاف کر کے شایان کے سامنے رکھی۔
خوش دیکھو ہوا کچھ مجھے۔ کو نس نمک تیز تھا اس میں اگر نمک تیز ہو تا تو میں کھا سکتی تھی اس کو۔ بس مجھے
پریشان کرنا ہے تم نے۔ میری امیج خراب کرنا چاہتے ہو نہ سب کی نظروں میں۔
عینی نے مصنوعی روتی شکل بنا کر کہا تو شایان سٹپٹا گیا۔
شایان بہت بری حرکت ہے کل تمھارا نکاح ہے اور تم ایسے بچوں جیسی حرکتیں کر رہے ہو سوری بولو عینی کو۔
ریان نے شایان کو ڈانٹا تو اس نے فورا مینی کو سوری کہا۔
سوری عینی مجھ سے ہی کوئی غلطی ہو گئی شاید۔
شایان نے کنفیوز ہوتے ہوئے کہا۔
ساحر حیران تھا اس لڑکی ایکٹنگ دیکھ کر۔ عینی نے اس کے سامنے شایان کی پلیٹ میں نمک ڈالا تھا مگر
پھر وہی کھانا اس نے اتنے سکون سے کیسے کھا لیا یہ ساحر کی بھی سمجھ سے باہر تھا۔
اسے شایان پر ترس آیا۔
کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا کہ عینی نے اتنا نمک والا کھانا کھایا ہے۔ یہ اس نے کیسے کیا یہ راز بھی شاید ہی کبھی کسی کو پتہ لگ سکے۔
ریان کیا میں ایمان کو اپنے ساتھ لے آوں گھر ۔
وہ لوگ واپس جانے لگے تو ساحر نے ریان سے پوچھا۔
یہ تو ایمان سے پوچھو اگر وہ جانا چاہے تو ضرور لے جاؤ۔
ریان نے ایمان کو دیکھ کر کہا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔
نہیں بھیو میں آپ کے ساتھ جاؤں گی میں کمفرٹیبل نہیں رہ پاؤں گی ان کے ساتھ۔
ایمان نے منمناتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں کوئی بات نہیں ایمان تم ریان بھائی کی گاڑی میں جاؤ ساحر بھائی آپ ایک کام کریں آپ عمل کو
لے جائیں ساتھ اپنے اچھا نہیں لگتا نہ آپ اکیلے جائیں گے۔
عینی نے ساحر کو دیکھ کر کہا تو وہ اس کی شرارت سمجھ گیا۔ یہ لڑکی بیچ میں بہت بڑی فلم تھی۔
عینی کی بات پر ایمان بے چین ہوئی تھی۔ عمل کی بونڈ نگ اس کے ساتھ اچھی تھی مگر اب وہ اپنے
ہونے والے شوہر کو عمل کے ساتھ اکیلے تو نہیں جانے دے سکتی تھی۔
بھیو میں کیا کہہ رہی تھی ساحر کے ساتھ میں چلی جاؤں عمل آپی کو آپ لے جائیں۔
ایمان نے فورا اپنا ارادہ بدلا تو ساحر نے مسکرا کر عینی کو دیکھا۔
آپ نے میرا اراز رکھا میں نے آپ کے لیے آسانی کر دی حساب برابر ۔
عینی نے ملکی آواز میں ساحر سے کہا تو اس نے مسکرا کر سرخم کیا۔
ریان مرحا اور عمل کو لے کر نکل گیا، شاہ میر بھی نور کو لے کر چلا گیا تھا۔
ساحر نے ایمان کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ بھجھکتے ہوئے بیٹھی۔ ساحر نے فرنٹ سیٹ سنبھالی اور گاڑی نکال کر لے گیا۔
تم نے یہیں رکنا ہے کیا چلو بھی اب۔
شایان نے عینی کو کہا تو اس نے شایان کے سامنے ہاتھ بڑھایا۔
بائیک کی چابی اور ہیلمیٹ دو۔
عینی نے شایان کو کہا تو اس نے نفی میں سر ہلا کر چابی اور ہیلمیٹ عینی کو دیا۔
اس سے بحث کرنے کا فائدہ تو تھا نہیں کرنا تو اس نے وہی تھا جو اس کا دل کہتا۔
معینی نے با تیک اسٹارٹ کی تو شایان پچھے بیٹھ گیا
عینی نے تیزی سے بائیک روڈ پر ڈالی۔
عینی آرام سے چلاؤ مجھے صحیح سلامت گھر پہنچنا ہے۔
عینی کی اسپیڈ دیکھ کر شایان نے عینی کو بیچ کر کہا۔
وہ شایان سے بھی ڈبل اسپیڈ میں بائیک چلا رہی تھی۔ ابھی اگر کوئی ٹریفک پولیس اہلکار دیکھ لیتا تو یقیناً شایان کی بائیک ہی ضبط کر لیتا۔
مینی مین روڈ پہ گاڑیوں کے بیچ سے آڑی ترچھی بائیک چلا رہی تھی وہ بھی اوور اسپیڈ میں۔
شایان نے تو کلمہ پڑھنا بہتر سمجھا پتہ نہیں وہ صحیح سلامت گھر پہنچ بھی پائے گا یا نہیں۔
یا اللہ کس گناہ کی سزا ملی ہے مجھے یہ ۔
شایان صرف دل میں ہی سوچا تھا اگر یہ بات عینی سن لیتی تو اسے بائیک سے گرانے میں وقت نہیں لگاتی
ساحر کے چہرے سے مسکراہٹ ایک لمحے کے لیے بھی جدا نہیں ہو رہی تھی۔ آج ایمان پورے حق سے اس کے ساتھ آئی تھی۔
خاص طور پر ایمان کا عمل کو اس کے ساتھ جانے سے روکنا ساحر کو ڈھیروں سکون دے گیا تھا۔ وہ بھی
اسے لے کر ابھی سے کچی تھی یہ بات ساحر کو بے انتہا خوشی دے گئی تھی۔
ایمان تم خوش ہونہ۔
ساحر نے ایمان سے پوچھا جو نروس سی بیٹھی اپنی انگلیوں سے کھیل رہی تھی۔ جی!
ایمان نے نا سمجھی سے پوچھا۔
تم ہمارے رشتے سے خوش ہونا۔
ساحر نے کھل کر اس سے پوچھا تو وہ نظر میں جھکا گئی۔
اس کا اس طرح شرمانا ساحر کو بے تاب کر گیا تھا۔
ساحر نے ایمان کے سامنے ہاتھ پھیلا یا تو اس نے کنفیوز ہو کر ساحر کو دیکھا۔
اب تو ہاتھ پکڑ سکتا ہوں کوئی نہیں دیکھ رہا۔
ساحر کی بات پر ایمان کے گالوں پر سرخی بکھر گئی۔
اس شرماتے گھبراتے اپنا ہاتھ ساحر کے ہاتھ پر رکھا تو اس نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھاما۔
ایمان میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔ بہت زیادہ سب سے زیادہ۔ میں بتا بھی نہیں سکتا کہ میں کتنا خوش ہوں تمہارا ساتھ پاکر۔
ساحر نے کہا تو ایمان کے چہرے پہ شرمیلی سی مسکراہٹ آئی۔
ساحر نے ایمان کا ہاتھ اپنے دل کے مقام پہ رکھا تو ایمان کی نظر میں اپنے آپ جھک گئیں۔
ایمان کا دل بے ترتیب دھڑ کا تھا اس کو اپنے دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دی۔
تم ایسے شرماؤ گی تو میں ابھی کہ ابھی نکاح کرلوں گا تم سے۔
ساحر کی بات پر ایمان نے اپنا چہرہ کھٹڑ کی کی طرف کر لیا۔
بے شک چاہے جانا کا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے۔
ایمان کو اپنی قسمت پہ رشک ہوا تھا۔
اللہ نے اس کے نصیب میں ایسا شخص لکھا تھا جو اس سے
بے انتہا محبت کرتا تھا۔
ایمان اس کی محبت پر اسی دن ایمان لے آئی تھی جس دن اس نے ایمان کو بچایا تھا اور کہا تھا وہ اپنی جان دے دیگا مگر اسے کوئی تکلیف نہیں ہونے دیگا۔
مگر اس نے اپنے دل کو زنجیروں میں قید کر رکھا تھا اس نے اپنے دل کو ساحر کی طرف کھینچنے سے باز رکھا تھا مگر اللہ نے اس کے نصیب میں ساحر کو لکھ کر اس کی زندگی میں ڈھیروں خوشیاں بھر دی تھیں۔
ساحر مسکر اکر ایمان کا مسکراتا چہرہ دیکھ رہا تھا جو کہیں کھوئی ہوئی تھی۔
ساحر نے سگنل پر گاڑی روکی تو ایک بچہ ہاتھوں میں گجرے لیے ساحر کی طرف آیا۔
لالا گجرے لے لو تازے تازے گجرے ہیں آپ کی وائف پہ اچھے لگیں گے لے لولا لا۔
بچے نے ساحر کے آگے گجرے کرتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے ساحر گجروں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ایمان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
آپ مجھے گجرے کل سب کے سامنے پہنائیں گے تو مجھے زیادہ خوشی ہو گی۔
ایمان کی بات پہ ساحر کے چہرے پہ زندگی سے بھر پور مسکراہٹ بکھری تھی۔
جیسا میری جان چاہے۔
ساحر نے مسکرا کر ایمان سے کہا تو وہ بھی مسکرادی۔
ایمان کی بات اس کے لیے اہمیت رکھتی تھی اس بات نے ایمان کو خوشی دی تھی۔
ساحر نے پیسے نکال کر اس بچے کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
تمھارے گھر میں کون کون ہے۔
لالا ماں ہے اور ایک بہن ہے۔
بچے نے کہا تو ساحر نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
یہ گجرے تم اپنی ماں اور بہن کے ہاتھوں میں پہنانا وہ خوش ہو جائیں گی۔
پیسے اس بچے کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا۔
بچہ بھی خوشی سے ان دونوں کو تا عمر خوشی سے ساتھ رہنے کی دعائیں دیتا چلا گیا۔
ساحر کے ایسے کرنے سے ایمان کو خوشی ہوئی تھی۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس کے
نصیب میں اتنا پیارا شخص لکھا تھا۔
مر حاریان کے ساتھ آگے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی جبکہ عمل کو ریان نے پیچھے بیٹھا دیا تھا شہیر کے ساتھ۔
ریان کی نظریں بار بار مر حا کی طرف اٹھ رہی تھیں۔
جس سے مرحا کے چہرے پہ سرخی چھا گئی تھی۔
ریان کی محبت جنون بن کر دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی۔
ریان کا بار بار مر حا کو دیکھ کر مسکرانا عمل سے چھپا نہیں تھا۔
عمل جلن کی انتہا پہ تھی.
مرحابے بی تمھیں تو میں ایسا سبق سیکھاوں گی تم زندگی بھر یاد رکھو گی۔ تیار ہو جاؤ کل تمہیں ریان کو چھینے کا پہلا ڈوز ملنے والا ہے۔
عمل دل ہی دل میں سوچتی کل کی پلاننگ کر رہی تھی۔ مرحا کو وہ ایسے ہی نہیں چھوڑنے والی تھی۔
مینی نے گھر کے باہر بائیک روکی تو شایان نے جلدی سے اتر کر عینی کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔
کیا پا گل ہو گئی ہو ایسے چلاتے ہیں بائیں۔ اگر کچھ ہو جاتا تو میرا نہ سہی اپنا تو خیال کرو تم۔
شایان نے عینی سے کہا۔
عینی کا چہرہ شایان کے چہرے بے حد قریب تھا جبکہ شایان کا اس طرح قریب آنا مینی کی زبان کو بریک لگا گیا تھا۔
وہ نروس ہوئی تھی۔
دونوں کی دھڑکنوں نے ایک ساتھ شور مچایا تھا۔
شایان کی نظریں عینی کے چہرے پر جمی تھیں جو اس کے قریب آنے پر نظریں چرارہی تھی۔
شایان جانتا تھا یہ ایک واحد طریقہ ہے عینی کو کنٹرول کرنے کا۔ شایان کی قربت سے اس کا گھبرانا اس کی بولڈ نہیں کو سائیڈ کر دیتا تھا۔
معینی کا گھبر انا بنتا بھی تھا آج تک کوئی لڑکا اس کے قریب نہیں آیا تھا۔ ایسے میں شایان کی قربت اس کو بو کھلا دیتی تھی۔
شایان کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔
اسے عینی کو کنٹرول کرنے کا طریقہ اچھے سے سمجھ آگیا تھا اور پھر کل تو ویسے بھی ان دونوں کا نکاح تھا اس کے بعد شایان سہی سے عینی کی عقل ٹھکانے لگانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
عینی کو مزید تنگ کرے بناوہ پیچھے ہوا تو عینی کا سانس بحال ہوا۔
عینی کا گھبر انا نظریں چرانا شایان کے دل میں انجانا سا احساس پیدا کر گیا تھا۔
وہ مسکراتا ہوا اندر چلا گیا تو عینی بھی خود کو نارمل کرتی اس کے پیچھے اندر گئی۔
عینی اندر آئی تو شایان شیر از
سے مل رہا تھا۔
شیراز کو دیکھ کر منی پانی
شیری بیٹا اس سے ملو یہ شایان کی ہونے والی وائف ہے عینی۔
احتشام صاحب نے عینی کا تعارف کروایا۔
شیر از بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔
شیر از کی مسکراہٹ بتارہی تھی کہ وہ مینی کو پہچان چکا ہے۔
عینی نے نہ محسوس انداز میں شیر از کو کچھ بھی بولنے سے منع کیا تو وہ اس کی بات سمجھ کر آنکھوں کے
اشارے سے شیر از نے اوکے کا سگنل دیا۔
اسلام و علیکم بھابی کیسی ہیں آپ۔
شیری نے مسکرا کر پوچھا تو عینی نے بھی مسکرادی۔
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔
عینی نے جواب دیا۔
عینی بیٹا یہ ریان کا دوست ہے۔
سمینہ بیگم نے بتایا تو اس نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی۔
ریان کے ساتھ ساتھ باقی سب لوگ بھی آگئے تھے۔
ریان شیری اور باقی سب لڑکوں کو لے کر الگ چلا گیا تھا کیونکہ وہ جو پلاننگ کر رہا تھا اس کے بارے
میں کسی کو بھی پتہ نہیں لگنا چاہیے تھا۔
شیری جو جو کہا تھا سب ہو گیا نہ ارینج۔
ریان نے شیر از سے پوچھا تو اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔
فکر نہیں کر و سب کچھ ہو گیا ہے جیسا تم نے بولا ہے سب ویسا ہی ہو گا۔
بھائی آپ بالکل بے فکر رہیں ساری تیاری ڈن ہے مر حا کا برتھ ڈے بہت زبر دست ہو گا۔
شایان شاہ میر نے کہا تو ریان مسکرایا۔
مرحا کی برتھ ڈے میں صرف پانچ دن رہ گئے تھے۔
ریان نے اس کے لیے بہت بڑا بر تھڑے سر پر ائر پلان کیا تھا اور اس میں وہ مرحا کو پر پوز کرنے والا تھا۔ بس اب مرحا کی برتھ ڈے کا انتظار تھا۔
سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔
کل کی تقریباً ساری تیاری مکمل تھی وقت کم تھا لیکن پھر بھی ریان ساحر اور شہیر نے مل کر سارے کام آسانی سے سنبھال لیے تھے۔ شایان اور شاہ میر کو ان لوگوں نے کوئی کام نہیں کرنے دیا تھا۔
ایمان اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی جب ریان نے اسے پکارا۔
ایمان بچہ مرحا تمھارے کمرے میں ہے
ریان نے پوچھا۔
جی بھیو آج وہ میرے کمرے میں سوئے گی۔
اچھا اس کو چھت پہ بھیجنا مجھے کام ہے۔
ریان نے ایمان سے کہا اور چھت کی طرف چلا گیا۔
ایمان مسکراتے ہوئے کمرے میں آئی تو مرحا کپڑے چینج کر کے شرٹ اور ٹراؤزر پہنے سونے کی تیاری کر رہی تھی۔
لو تم نے چینج بھی کر لیا۔
ایمان نے مرحا کو دیکھ کر کہا تو مر جانے ایک نظر گھڑی کو دیکھا۔
رات کا ایک بج رہا ہے بیٹا جی اب بھی چینج نہیں کرتی کیا۔
مرحابول کر اپنا تکیہ سیٹ کرنے لگی جب ایمان کی بات پر اس کے ہاتھ رکے۔
بھیو چھت پہ بلا رہے ہیں تمہیں کہ رہے ہیں کام ہے تم سے اہم اہم۔
ایمان نے مرحا کے کندھے سے کندھا نگر اگر کہا تو مر حا کا چہرہ بلش کرنے لگا۔
اس ٹائم کیوں بل رہے ہیں۔ اتنی رات ہو گئی ہے۔
مرحانے منمناتے ہوئے کہا۔
لڑ کی خبر دار میرے بھید کو زیادہ انتظار کروایا میں بہت بری والی نند بن جاؤں گی۔
ایمان نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر مصنوعی گھورتے ہوئے کہا تو مر حاکی ہنسی نکلی۔
اب ہنسو نہیں جاؤ یہ دو پٹہ اوڑھ لو کور ہو جائے گا۔
ایمان نے مرحا کو دو پٹہ دیا اور کمرے سے باہر نکالا۔
خود کو دوپٹہ میں چھپا کر مر حا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی چھت کی طرف چلی گئی۔
ریان چھت پہ رکھے جھولے پر بیٹھا چاند دیکھ رہا جب مرحا کی آہٹ پر اس نے مسکرا کر اس کی طرف
دیکھا۔
مرحانے خود کو چادر سے کور کیا ہوا تھا۔
ریان مسکرایا۔
مرحا اس کے قریب آئی تو ریان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ جھولے پر بیٹھایا۔
رات کی خاموشی تھنڈی ہوائیں اور چاند کی روشنی نے ایک الگ ہی دلفریب ماحول بنایا ہو اتھا۔
مرحا۔
ریان نے چاند کو دیکھتے ہوئے اسے پکارا۔
جی۔
مرحا کی مد هم ی آواز سنائی دی
مجھ سے محبت کرتی ہو۔
ریان کے اچانک سوال پر مرحا کی نظریں جھکیں۔
ریان مرحا کو دیکھ کر مسکرایا۔
میں جانتا ہوں کرتی ہو بے حد محبت کرتی ہو۔
ریان نے کہا تو مر حا کے چہرے پر مسکان کھلی۔
مجھے مر تاثر پتا دیکھ سکتی ہو مر حا۔
ریان کے اچانک اس طرح پوچھنے پہ مر جانے ریان کو دیکھا۔
آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں ریان۔
مرحا کی آواز میں نمی گھلی تھی۔
رو نہیں مرحا مجھے بتاؤ مجھے مر تا تر پتا دیکھ سکتی ہو۔
مرحا کی آنکھ سے بے ساختہ آنسو نکلا۔ مرجانے نہ میں گردن ہلائی۔
تمہیں پتہ تمھاری زندگی سے میری زندگی جڑی ہوئی ہے تم ہو تو میں ہوں اور تم نہیں ہو ئیں تو ریان حیدر بھی مر جائے گا۔
ریان کی بات پر مر جانے تڑپ کر اس کا نام پکارا۔
مرحا میں چاہتا ہوں میری محبت میر اساتھ تمھاری طاقت بنے کمزوری نہیں۔
میں ہر قدم پر تمھارے ساتھ ہوں مگر کبھی کوئی ایسا وقت آتا ہے جس وقت میں تمھارے ساتھ نہ ہوں اور تم پریشانی میں ہو تو تم کیا کرو گی مرحا رو گی مجھے پکارو گی اور بس۔۔ تم لڑو گی نہیں۔۔ اگر کبھی ایسا لمحہ آتا ہے جب تم خطرے میں ہو اور میں تم سے دور ہوں تو کیا تم کچھ نہیں کرو گی اپنے ریان کی جان کا نقصان ہونے دو گی۔ کبھی سوچا ہے اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میرا کیا ہو گا۔
0 Comments
Post a Comment