تیرا عشق مرہم سا ہے

"قسط نمبر 20"

از۔"طوبیٰ صدیقی"

Special Episode 

°°°°°°

 



❤❤❤


میں تو جی بھی نہیں پاؤں گا۔


میں تمہیں کمزور نہیں دیکھنا چاہتا میں چاہتا ہوں تم مضبوط بنو نڈر بنو حالات کو فیس کرنے کی کوشش کرو۔ تا کہ اگر کسی مصیبت کے لمحے میں میں اگر تمھارے ساتھ نہیں ہوں تو تم خود کی حفاظت کر سکو۔


تمھاری جان صرف تمھاری نہیں ہے مرحا تمھاری جان سے میری سانسیں جڑی ہیں کیا تم کسی کو بھی حق دو گی کہ وہ تمھارے ریان کی سانسیں چھین لے۔


میں نے نوٹ کیا ہے تم گھبرانے لگی ہو بھیٹر میں ڈرنے لگی ہو زیادہ لوگوں کو دیکھ کر تمہیں خوف آنے لگتا ہے۔ ایسے زندگی نہیں گزرتی مرحا۔ حالات سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ بے خوف ہو کر حالات کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔


یا د رکھنا تم جتنا دنیا سے ڈرو گی یہ تمہیں اتناہی ڈرائے گی۔


جب میرا پیار تمھارے ساتھ ہے میں خود تمھارے ساتھ ہوں میری پوری فیملی تمھارے ساتھ ہے ساحر تمھارے ساتھ ہے تو پھر تمہیں ڈرنا تو نہیں چاہیے نہ۔


میں اپنی جان کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔ کوئی بھی ایسی سچویشن آتی ہے جہاں تمہیں لگتا ہے کہ تم خطرے میں ہو تو وہاں ڈرنے اور رونے کے بجائے اپنے آپ کو ریلکس رکھ کر اپنے دماغ کا استعمال کرنا۔ دیکھنا ہر چیز پہ غور کرنا کچھ نہ کچھ تمہیں ایسا ضرور مل جائے گا جو تمہیں اس مسئلہ سے نکال دیگا۔ رونے سے ڈرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔


تمہیں کچھ ہو گیا تو میں مر جاؤں گا اور اگر کوئی تکلیف تمہیں ہوئی تو میں تڑپوں گا مر حا۔


مجھے پورا یقین ہے تم اپنے ریان کو کبھی مر تاثر پتا نہیں چھوڑو گی۔


ریان نے بہت محبت سے مرحا کو سمجھایا تھا۔


مرحا کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ ریان کے پوچھنے پر اس نے فوراً گردن ہاں میں ہلائی۔


وہ ریان کا یہ بھروسہ کبھی ٹوٹنے نہیں دے گی وہ ریان کو تکلیف نہیں دے گی۔ مر جانے خود سے وعدہ کیا۔


ریان نے مرحا کے آنسو صاف کیے۔


اب بس بالکل چپ رونا نہیں ہے تمھارے آنسو مجھے بہت تکلیف دیتے ہیں مرحا۔


ریان نے کہا تو مر جانے جلدی سے آنسو بالکل صاف کیے اور مسکر اکر ریان کو دیکھا۔ 


اچھا سب چھوڑو یہ بتاؤ تم مہندی کب لگواؤ گی - 


ریان نے پوچھا تو مر حا مسکرائی۔


کل آئیں گی مہندی لگانے لڑکیاں۔


مر جانے جواب دیا تو ریان نے اپنے سائیڈ سے مہندی نکال کر مرحا کے سامنے کی۔


مرحا کنفیوز ہو کر اسے دیکھنے لگی۔


میری خواہش ہے تمھارے ہاتھ پہ اپنے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں سے لگانے کی۔


ریان نے مدھم آواز میں کہا تو مر حا کے گالوں پر سرخی چھا گئی۔


ریان نے مرحا کا ہاتھ تھاما اور اور اس کی ہتھیلی پہ مہندی سے دل بنا کر اپنا نام لکھا۔ مجھے بس اتنا ہی آتا ہے۔


ریان نے مسکرا کر کہا جبکہ مر جانے اپنا ہاتھ دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


ریان نے اس کا دوسراہا تھا تھاما اور اس پہ بھی دل بنا کر اپنا نام لکھا۔


مرحا کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں پہ ریان کی محبت کا رنگ چڑھا تھا۔


مرحا کے چہرے کی مسکان ریان کے دل کو سکون دے رہی تھی۔


مر حاریان کی لگائی مہندی دیکھ رہی تھی جبکہ ریان کی نظریں مرحا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔


تھی ایک تیز ہوا کے جنکے سے مرحا کی بال چہرے کے گرد بکھرے۔


ریان نے بہت محبت سے مرحا کے بالوں کو سمیٹا تھا۔


بالوں کو کان کے پیچھے کر کے ریان نے مرحا کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لیا۔


ہم بھی کل نکاح کر لیتے ہیں نہ مجھ سے یہ دوریاں اب برداشت نہیں ہو تیں۔


ریان نے مرحا کے چہرے کے قریب سر گوشی کی تو اس نے اپنا سانس روک لیا۔


ریان کا چہرہ مرحا کے چہرے کے اتنا قریب تھا کہ ریان کی سانسیں وہ اپنے چہرے پہ محسوس کر رہی تھی۔


مر جانے گھبر اگر چہر پھیر اتوریان بھی ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔


بولو کر لیں کل نکاح۔


ریان نے مرحا سے پھر پوچھا تو وہ شرماتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی۔


مرحا کے اس طرح جانے پر ریان کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ بکھری تھی۔


بس مرحا اب یہ دوریاں میں بالکل برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں اب بہت ہوا مجھے دادا جان سے بات کرنی پڑے گی۔


ریان نے اپنے آپ سے کہا اور مسکرا کر اپنے روم میں چلا گیا۔ 


نکات کی تیاری سر نکلتی شروع ہو چکی تھیں۔


عینی اور نور کو بھی سمینہ بیگم نے یہی بلایا تھا کیونکہ نکاح کی رسم ان کے گارڈن میں رکھی گئی تھی۔


عینی اور نور کے ہاتھوں کو بہت خوبصورتی سے مہندی سے رنگا گیا تھا۔


مرحا اور ایمان بھی مہندی لگوا چکی تھیں۔


مرحا کے ہتھیلیوں پہ مہندی دیکھ کر سب نے اسے بہت چھیڑ اتھا مگر جب ریان نے آکر یہ کہا کہ یہ مہندی اس نے خود مر حا کے ہاتھ پہ لگائی ہے تو سب نے ہی دونوں کو ڈھیر ساری دعائیں دی تھیں۔


بتاؤ ذرا مہندی لگا رہا ہے لڑکا ہو کر کہاں لڑکیوں کے نام سے بھی غصہ ہو جاتا تھا اور کہا اب لڑکی کے پیچھے لٹو بنا گھوم رہا ہے جنہ۔۔


سمرین بیگم نے عمل کے کمرے میں آکر غصے سے کہا تو وہ مسکرادی۔


فکر نہیں کریں ماما اس کی مہندی کے رنگ کو خون کے رنگ میں نہ بدلا نہ تو میر انام بھی عمل نہیں۔


عمل نے نفرت سے کہا اور ایک شاپر اٹھا کر دیکھا۔


عمل کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی۔


بس کچھ دیر اور اسکے بعد مرحا کے لیے عمل کا پہلا وار تیار تھا۔


اس نے شاپر کو واپس بند کیا اور سنبھال کر رکھ دیا۔


عمل تم کیا کرے والی ہو اس لڑکی کو نقصان دینے کے چکر میں خود کو تکلیف میں مت ڈالنا بیٹا۔


سمرین بیگم نے پریشانی سے کہا۔


ماما آپ بے فکر رہیں سب ویسا ہی ہو گا جیسا میں نے سوچا ہے۔


ظہر کی نماز کے بعد شاہ میر شایان کا نکاح تھا جبکہ ساحر اور ایمان کی منگنی کی رسم عصر کے بعد رکھی گئی تھی۔


پالر والی نے آکر عینی اور نور کو بہت مہارت سے دلہن بنایا تھا۔


وہ دونوں دلہن بن کر بے تحاشہ حسین لگ رہی تھیں۔


سمینہ بیگم نے دونوں کی نظر اتاری۔


ایمان میں نے ایک باکس دیا۔۔۔


ریان کہتا ہوا ایمان کے روم داخل ہو اگر وہاں پارلر والی ایمان اور مر حاکو تیار کر رہی تھیں۔


بھیو وہ میں نکلوا دیتی ہوں۔


مر حاتم تیار ہو گئیں نہ پلیز بھیو کو وہ باکس نکال دو تمھاری وارڈروب میں ہو گا۔


ایمان نے مرحا سے کہا تو وہ اپنے روم میں جانے لگی۔


ریان کی نظریں مرحا کے اوپر سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔


ایک تو وہ پہلے ہی اتنی خوبصورت تھی اوپر سے یہ میک اپ اور پنک کلر کا ڈریس اسے بہت پر کشش بنا رہا تھا۔


راستہ دیں۔


مرجانے ریان سے کہا تو وہ مسکرا کر سائیڈ ہوا اور مرحا کے پیچھے چل دیا۔


مرحا اپنے کمرے میں آئی تو ریان نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے دیوار سے لگایا۔


مرحا نروس ہوئی جبکہ ریان اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


یہ تم نے کیا کر لیا میری جان۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ریان نے مرحا کو دیکھ کر کہا تو وہ ریان کو کنفیوز نظروں سے دیکھنے لگی۔


کیا۔۔ کیا کر امیں نے۔


مرجانے مدھم آواز میں پوچھا۔


یہ اتنا سارا میک اپ کیوں کروالیا جانم۔


ریان نے مرحا کو اپنے نظروں کے حصار میں لیا ہو اتھا۔


میں اچھی نہیں لگ رہی کیا۔


مر جانے روتی صورت بنا کر کہا تو ریان مسکرایا۔


میں نے کب کہا اچھی نہیں لگ رہیں۔ بہت حسین لگ رہی ہو مگر میری جان تمہیں اس بناوٹی روپ کی


ضرورت نہیں ہے۔ اس نے تمھارے چہرے کی معصومیت کو چھپادیا ہے۔


ریان نے کہا تو مر حا اس کے پاس سے ہٹ کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی۔


مرجانے نظر بھر کر خود کو دیکھا۔


پنک کلر کی خوبصورت سی فراک جو ریان نے اس کے لیے خود پسند کی تھی اس پہ بہت چھیچ رہی تھی۔


مگر ریان کی بات ٹھیک تھی میک اپ کی وجہ سے وہ بڑی بڑی لگ رہی تھی۔


مرجانے آئینے میں سے اپنے پیچھے کھڑے ریان کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔


ریان مسکراتا ہوا اس کے قریب آیا۔


جاؤ منہ دھو کر آؤ۔


ریان کی بات پہ مر جانے نہ میں گردن ہلائی۔


پھر مجھے دوبارہ تیار ہونا پڑے گا ٹائم لگ جائے گا نہ۔


مرحانے منمناتے ہوئے کہا۔


نہیں لگے گا ٹائم آئی پر امس۔


ریان نے کہا تو وہ منہ بناتی واشروم میں بند ہو گئی۔


ریان کو اس کے چہرے کی معصومیت سے عشق تھا۔ وہ معصوم چہرہ ہی تو ریان کے لیے اس کی پوری


زندگی بن گیا تھا۔ بھلا مرحا کی معصومیت کو وہ کیسی مٹنے دیتا۔


مرح کی معصومیت کو وہ کیسی ملنے دیتا۔


مرحامنہ دھو کر آئی تو ریان مسکرایا اور اسے ڈریسر کے سامنے بیٹھایا۔


آپ کیا کر رہے ہیں میں خود۔۔۔


مرحا کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ مر حا کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اس کو چپ کروا گیا۔


ریان نے مرحا کے پاس رکھے لپ اسٹک شیڈز دیکھے اور سب سے لائٹ شیڈ اٹھا کر مرحا کے ہونٹوں کے قریب لایا۔


مرحا حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی اب کیا وہ اس کا میک اپ خود کرے گا۔


ریان نے بہت احتیاط سے لپ اسٹک مرحا کے ہونٹوں پہ لگائی تو مر جانے آئینے میں خود کو دیکھا۔


اس کی لپ اسٹک کہیں سے بھی خراب نہیں ہوئی تھی ریان نے بالکل پر فیکٹلی اس کے لپ اسٹک لگائی تھی۔


اس کے بعد ریان نے کا جل اٹھایا اور مر حاکی آنکھوں میں لگانے لگا۔


مرحا کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ریان کی محبت کا اندازہ تھا اسے مگر یہ سب مرحا کے لیے بہت شاکنگ تھا۔


کاجل لگا کر ریان نے مرحا کی آنکھیں دیکھی پھر مسکرایا۔


اس سے زیادہ میک اپ مجھے تمھارے چہرے پر بالکل نہیں پسند ۔ تمھارا معصوم سا چہرہ میرے لیے میرا سب کچھ ہے۔


ریان نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ کر کہا۔



دروازے پر کھڑی ایمان عینی اور نور نے ہوٹنگ کی تو ریان اور مر جانے دروازے کی طرف دیکھا وہ تینوں کھڑی ان دونوں کو پتہ نہیں کب سے دیکھ رہی تھیں مگر ریان اور مرحا کا دھیان تو ایک دوسرے پہ تھا۔


سب کے اس طرح آجانے پر مر جانے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپالیا۔


جبکہ ریان مسکرا کر سب کو دیکھتا باہر چلا گیا۔


کیا بات ہے بھئی یار مر حاریان بھائی تو تمھارے عشق میں پوری طرح ڈوبے ہوئے ہیں۔ عینی نے مرحا کو چھیڑا۔


صحیح بات ہے مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا یہ میرے ہی ریان بھیو ہیں۔ مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا ریاں بھیو ایسا بھی کچھ کر سکتے ہیں۔


ایمان نے بھی مرحا کو چھیڑا۔


سچ مر حاتم بہت لکھی ہو اللہ تعالیٰ تم دونوں کو ہمیشہ ایسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ خوش رکھے۔


نور نے دعا دی تو سب نے آمین کہا۔


کہتے ہیں ماں باپ کے چلے جانے کے بعد یہ دنیا بہت رلاتی ہے مگر ریان نے اس کی زندگی میں آکر اس کی زندگی کو جنت بنا دیا تھا۔ اس کے بابا کے بعد اسے نہیں لگا تھا کہ کوئی اس کے نخرے اٹھائے گا اسے منائے گا اسے اتنا پیار کرے گا مگر ریان نے ان سب باتوں کو غلط ثابت کر دیا تھا۔ مرحانے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ اس نے ریان کو اس کی زندگی میں بھیجا۔


نکاح کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔


شایان اور شاہ میر نے وائٹ کلر کے شلوار قمیض پر گولڈن کلر کا پرنس کوٹ پہنا ہوا تھا۔ ساحر بلیک قمیض شلوار پر شال ڈال رکھی تھی۔


یہ ڈریسنگ اسے ایمان نے کرنے کو کہی تھی تو بھلا وہ انکار کیسے کر سکتا تھا۔


اور اس میں کوئی شک نہیں تھا بلیک کلر نے ساحر کی پرسنلٹی کو اور بھی زیادہ جاذب نظر بنادیا تھا۔


شہیر نے وائٹ کلر کا شلوار قمیض پہنا تھا جبکہ ریان نے بھی وائٹ ہی شلوار قمیض پہنا تھا بس اس پر


پرنس کوٹ پنک اور گولڈن سا تھا جو مرحا کے ڈریس سے ملتا ہوا تھا۔


سمینہ بیٹا بچیوں کو لے آؤ۔


ذولفقار صاحب کے کہنے پر سمینہ بیگم عینی اور نور کو لینے چلی گئیں۔


مینی نور بیٹا چلو نکاح کی رسم ادا کرتی ہے۔


‏ سمینہ بیگم نے آکر کہا تو مرحا اور ایمان نے دونوں کو سہارا دیا۔ 


عینی اور نور نیچے آئیں تو سہیل صاحب وہی کھڑے تھے۔


اپنی بچیوں کو دیکھ کر آج ان کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔


بیٹیاں کتنی جلدی بڑی ہو جاتی ہیں پتہ ہی نہیں لگتا۔


کہاں ماں باپ بچیوں کو اتنے محبت سے پالتے ہیں ان ہاتھوں میں کھلاتے ہیں اور پھر ان کو بڑا کر کے کسی اور سونپ دینا پڑتا ہے۔


سبیل صاحب نے کہا تو نور اور عینی نہ چاہتے ہوئے بھی رو پڑی تھیں۔ سہیل صاحب نے دونوں کو گلے لگایا۔


مرحا ایک سائیڈ پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔


اسے اپنے بابا کی کمی محسوس ہوئی اس کے بابا بھی تو اس سے اتنا پیار کرتے تھے مگر پھر وہ اس سے بہت دور چلے گئے۔


میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے کروں گا کہ پوری دنیا دیکھے گی اور کہے گی آصف خان جتنا اپنی بیٹی سے پیار کرتے ہیں اتنا کوئی اپنی بیٹی سے نہیں کرتا ہو گا۔"


آصف کی آواز اس کے کان میں کو نجی تو وہ اپنے آنسوؤں پر کنٹرول نہیں کر پائی۔


ساحر نے آکر اس گرد بازو پھیلائے تو اس نے ساحر کی طرف دیکھا۔


روتے نہیں ہیں۔ وہ جہاں بھی ہونگے بہت خوش ہونگے۔ اللہ نے تمھارے نصیب میں ریان جیسا شخص جو لکھا ہے۔


ساحر نے مرحا کی توجہ ریان کی طرف دلائی جو دور کھڑا بے چینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ مرحانم آنکھوں سے مسکرائی۔


اس میں کوئی شک نہیں تھا اللہ نے اگر اس کے ماں باپ اس لیے تھے تو اسے بے سہارا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ ریان کا ساتھ عطا کر کے اللہ نے مرحا کو ایک نئی زندگی دی تھی۔


دونوں دلہنوں کو باہر لان میں لایا گیا جہاں دو صوفے آمنے سامنے رکھے ہوئے تھے اور بیچ میں پھولوں کی لڑیوں سے سجا پر وہ ساتھا۔


مرحا اور ایمان نے نور اور عینی کو لا کر ایک طرف والے صوفے پر بیٹھایا تو شاہ میر اور شایان سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے۔


باہر لان میں لانے سے پہلے ہی لال دوپٹہ سے دونوں کے چہروں پر گھونگھٹ کر دیا گیا تھا۔


اس لیے شاہ میر شایان کو مینی اور نور کا چہرہ نہیں دیکھ رہا تھا۔


سهیل صاحب آکر اپنی دونوں بیٹیوں کے بیچ میں بیٹھے تھے۔


قاضی صاحب نکاح شروع کریں۔ 


سب نکاح کی رسم ادا کرنے میں لگ گئے تو عمل سب سے نظر بچائی ایک سائیڈ پہ بنی ٹیبل کے پاس آئی جہاں تھالیوں میں پھول کی پتیاں رکھی تھیں۔


یہ تھالیاں شہیر نے آرڈر پر عمل مرحا اور ایمان کے لیے بنوائی تھی اور اس پر ان تینوں کے ہی نام کڑھے ہوئے تھے۔


عمل نے سب سے چھپ کر مر حاوالی تھالی میں سے آدھی پتیاں اٹھائیں اور اس میں شاپر کو الٹا کر دیا۔


چھوٹے چھوٹے کانچ کے بے شمار ٹکڑے تھالی میں جا گرے۔


عمل نے ایک نظر تھالی کو دیکھا پھر مسکر اکر تھالی میں باقی کی پتیاں واپس ڈال دیں۔


کانچ کے ٹکڑے اتنے باریک اور اتنے سارے تھے کہ کوئی بھی اس تھالی میں ہاتھ ڈالتا تو اس کا ہاتھ زخموں سے چھلنی ہو جاتا۔


بی ریڈی ڈیئر مر حا۔ ریان کو مجھ سے دور کرنے کی پہلی سز ا مبارک ہو۔


عمل نے دل ہی دل میں مرحا کو مخاطب کیا اور وہاں سے بالکل دور جا کر کھڑی ہو گئی۔


اب اسے مزہ تب آنا تھا جب مرحا اس تھالی میں ہاتھ ڈالے گی۔


ان سب نے ڈیسائیڈ کیا تھا کہ نکاح ہونے کے بعد جب شاہ میر اور شایان دلہنوں کا گھونگھٹ اٹھائیں


کے جب ان پر پھولوںکی پتیاں پھیلی جائیں گی۔


عمل کو بس جلد سے جلد نکاح ختم ہونے کا انتظار تھا۔


نکاح کی رسم شروع ہوئی۔


سب سے پہلے شاہ میر کا نکاح پڑھایا گیا تھا۔


نور نے اپنے ڈیڈ کی سرپرستی میں اپنا آپ شاہ میر حیدر کے نام کر دیا۔


جب قاضی صاحب نے شاہ میر سے نکاح کی قبولیت کا پوچھا تو مرحا اور اس کی پہلی ملاقات سے لے کر


اب تک کی ساری یادیں اس کے ذہن میں گھومی تھیں۔


اور پھر مرحا کی محبت کو اپنے دل میں دفن کر کے شاہ میر نے نور کے ساتھ کو قبول کر لیا تھا۔


اس کے بعد قاضی صاحب نے عینی سے اس کی رضا مندی جانی چاہی تو وہ کچھ نہیں بولی۔


عینی بیٹا کیا ہو ا قاضی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں جواب دو۔


سبیل صاحب نے کہا۔


ڈیڈ میں آپ کے داماد کا سوچ رہی ہوں ساری زندگی جھیل پائیں گے یہ مجھے۔


عینی کی آواز وہاں قریب کھڑے سب ہی لوگوں نے سنی تھی جو سب کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔


شایان کا دل چاہا مینی نے منہ پر ٹیپ لگا دے یہاں اس کا نکاح ہو رہا تھا اور اس لڑکی کے ڈرامے ختم نہیں ہو رہے تھے۔


قاضی صاحب نے دو بار عینی سے پوچھا۔


قبول ہے میرے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔


عینی نے جواب دیا تو شایان اسے گھور کر رہ گیا۔


وہاں موجو د سب لوگوں نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔


یہ پہلی دلہن ہو گی جو اپنے نکاح کے وقت اتنی پٹر پٹر کر رہی ہے۔


شایان نے شاہ میر کے کان میں کہا تو اس نے مسکراہٹ روکی۔


دیکھ لے ابھی بھی وقت ہے بھاگ جا۔


شاہ میر نے شایان کے کان میں کہا تو وہ اترایا۔


ارے یار نہیں ظلم ہو گا بیچاری کے ساتھ کر ہی لیتا ہوں نکاح۔


شایان نے احسان کرنے والے انداز میں کہا تو شاہ میر مسکرا کر سیدھا ہوا۔


اور پھر شایان کی رضا مندی لے لی گئی۔


عینی قرۃ العین شاد سے قرۃ العین شایان حید ر بن گئی تھی۔


آج اس نے اپنا وجود اپنے غم اپنی خوشیاں سب شایان سے جوڑ لی تھیں۔ آج وہ شخص اس کے لیے خاص ہو گیا تھا۔


چلو چلو آپ لوگ نہ ابھی یہ ان لڑیوں کو ہٹا کر اپنی اپنی دلہنوں کے پاس جانا اوکے۔


ایمان نے کہا اور اپنی اور مرحا کی تھالی اٹھا کر لائی۔


عمل نے بھی مسکرا کر اپنی تھالی تھامی تھی۔ اس کی نظریں مرحا کے چہرے پہ تھیں وہ مرحا کے چہرے پر آنے والے تکلیف دہ تاثرات کو دیکھنا چاہتی تھی۔


ایمان نے مرحا کی تھالی اسے دی۔


او کے بھائی چلیں آجائیں۔


ایمان نے کہا تو شاہ میر شایان پھولوں کی لڑیوں سے بنے اس پردے کو پار کر کے اپنی اپنی دلہنوں کے سامنے آکر کھڑے ہوئے۔


جیسے ہی ان لوگوں نے گھونگھٹ اٹھایا تو ایمان عمل اور مر جانے ایک ساتھ تھالی میں ہاتھ ڈال کر پھولوں کی پتیوں کو ہاتھوں میں بھر اتھا۔


سب کا دھیان دلہا دلہن کی طرف تھا جب ایک دردناک چیخ نے سب کا دھیان کھینچا۔


مرحا اپنا ہاتھ پکڑے زور زور سے درد سے چیخ رہی تھی۔


ریان لمحہ ضائع کیسے بنامر حا کی طرف بھاگا تھا۔


مرحا کیا ہوا تمہیں تم ٹھیک تو ہو۔


ریان نے بے چینی سے مرحا سے پوچھا تو اس کی نظر مرحا کی ہتھیلی پہ گئی جو پوری خون میں بھیگ چکی تھی۔


مرحا کا ہاتھ دیکھ کر سب لوگ ہی پریشان ہو گئے تھے۔


باریک اور چھوٹے چھوٹے کانچ کے ناجانے کتنے ہی ٹکڑے مرحا کے ہاتھ کو چھلنی کر گئے تھے۔


مرحا درد تکلیف سے رونے لگی تھی۔


احتشام صاحب نے سب کو پیچھے کر کے اپنے ڈاکٹر دوست کو مرحا کو دیکھنے کا کہا جو اس وقت نکاح میں انوائٹیڈ تھے۔


ریان نے مرحا کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ساحر اسے بھلانے کی کوشش کر رہا تھا مگر مر حا کا درد سے براحال ہو گیا تھا۔


او مائی گاڈ ان کے ہاتھ میں کان کے بہت سارے ٹکڑے گھس گئے ہیں آپ انہیں فوراً ہسپتال لے جائیں ان کا ٹریٹمنٹ وہی ہو سکتا ہے۔


ریان نے بنا وقت ضائع کیسے مرحا کو گود میں اٹھایا اور گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔


ریان کی حالت خراب ہو گئی تھی مرحا کا خون دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا تھا۔


شاہ میر شایان نے ساتھ آنے کو کہا تو ساحر نے ان دونوں کو روک دیا ان کا ابھی ابھی نکاح ہوا تھا ان کا گھر پہ رہنا ضروری تھا۔


ریان مرحا کو لے کر پیچھے بیٹھا تو ساحر نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ سنبھالی اور گاڑی تیزی سے ہسپتال کے راستے پر ڈال دی۔


مر حا درد سے مچل رہی تھی۔ اس کی ہتھیلی میں بہت زیادہ چھن ہو رہی تھی اوپر سے اس کا خون بھی بہت بہہ رہا تھا۔


مر حامیری جان میر ابچہ ابھی ٹھیک ہو جائے گا ہم جا رہے ہیں نہ ہسپتال سب ٹھیک ہو جائے گا پلیز رو مت


ریان نے پیار سے مرحا سے کہا۔


مجھے۔۔ بہت۔۔ درد ہو رہا۔۔۔ ہے۔۔ ریان بہت۔۔ چھن ۔۔ ہو رہی۔۔ ہے۔


مرجانے روتے ہوئے ریان سے کہا تو اس کی خود کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلا۔


وہ مرحا کو ہر درد سے دور رکھنا چاہتا تھا اور یہاں وہ اس قدر تکلیف میں تھی۔


ریان اور ساحر مرحا کو ایمر جنسی میں لے گئے تو مر حا کے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھ کر ڈاکٹر فورا اس کے ٹریٹمنٹ کے لیے آگئے تھے۔


مرحا کے خون سے ریان کے وائٹ کپڑے لال ہو رہے تھے۔ مگر اسے پر واہ نہیں تھی۔ اسے بس اس وقت مرحا کی فکر تھی جو درد سے تڑپ رہی تھی۔


آپ ان کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھیں ایسے یہ ہاتھ ہلائیں گی تو میں ان کے ہاتھ سے کانچ نہیں نکال پاؤں گا۔


‏ ریان نے مرحا کا ہا تھ مضبوطی سے پکڑا اور اس کا سر اپنے سینے پہ رکھا۔


ڈاکٹر نے بیان کو دیکھ کرکہا


مر حامیر ابچہ ابھی درد ٹھیک ہو جائے پلیز صرف تھوڑا سا برداشت کر لو۔


ریان مرحا کو بہلا رہا تھا تو ڈاکٹر نے ریان کو مخاطب کیا۔


مسٹر ریان آپ کا خود کا ہاتھ کانپ رہا ہے پلیز آپ ہاتھ نہیں ملنے دیں۔


ڈاکٹر کی بات سن کر ساحر نے مر حا کا ہاتھ پکڑا تھا۔ وہ ریان کی کنڈیشن سمجھ سکتا تھا۔ اس وقت ریان خود اتنا بو کھلایا ہو اتھا کہ وہ خود کو سنبھال نہیں پارہا تھا۔ مرحا مسلسل رورہی تھی۔


کانچ کا ایک ایک ٹکٹر انکلتے وقت اسے اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی۔


ریان نے مرحا کا سر اپنے سینے پر رکھا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ اس کے بالوں پہ ہاتھ پھیر رہا تھا جبکہ مرحا نے ایک ہاتھ سے ریان کے کالر کو مضبوطی سے تھاما ہو اتھا۔


ڈاکٹر نے کانچ کے سارے ٹکڑے نکال کر دو الگا کر مرحا کے ہاتھ کی بینڈیج کی۔


بہت بار یک کانچ تھا مگر تین چار ٹکڑے تھوڑے بڑے تھے جو ہاتھ کو گہر ا کاٹ گئے ہیں۔ ان کا ہاتھ بہت زیادہ زخمی ہے تکلیف آہستہ آہستہ جائے گی۔


میں دوا لکھ رہا ہوں ٹائم سے دیتے رہیں اور ہر بارہ گھنٹے کے بعد ان کے ہاتھ کی پٹی کھول کر دو الگا کر دوبارہ پٹی باند ھنی ہے کم سے کم تین چار بار کرنا ہو گا۔


ایک پین کلر انجیکشن لکھ رہا ہوں اس سے ان کے درد میں کمی آئے گی۔


ڈاکٹر نے ہدایت دی تو ریان اور ساحر نے ہاں میں گردن ہلائی۔


نہیں نہیں میں انجیکشن نہیں لگواؤں گی ریان پلیز ڈاکٹر کو بولیں نہ مجھے انجیکشن نہیں لگوانا۔


مر جانے روتے ہوئے ریان سے کہا۔


مر حامیری جان میں نے کیا سمجھایا تھا بہادر بنا پڑتا ہے نہ زندگی ایسے نہیں گزرتی تم ایک انجیکشن سے


ایسے ڈرو گی تو پھر میں کیسے مان لوں تم کبھی کسی پریشانی کا سامنا کر پاؤ گی۔


ریان نے مرحا کو سمجھایا۔


ساحر ان دونوں کو دیکھ کر مسکرایا۔


مرحا کے لیے ریان سے بہتر ساتھی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کی محبت اس کی دیوانگی کا گواہ ساحر خود تھا۔


مر جانے ریان کی بات سمجھ کر اپنے دل کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔


انجیکشن دیکھتے ہی مر جانے اپنا سر واپس ریان کے سینے پہ رکھ دیا تو وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلا کر


اسے ریلیکس کرنے لگا۔


دیکھو ہو بھی گیا۔ بس اتنی سی بات تھی میری جان بہت بہادر ہے۔


ریان نے پیار سے مر جا کے کال کھینچے۔ آپ کے کپڑے خراب ہو گئے۔



مرحا کی نظر ریان کے کپڑوں پہ گئی جس کے خون کی دھبے لگے تھے۔


یہ کپڑے میرے لیے بہت خاص ہو گئے ہیں اس میں تمھارا خون لگا ہے۔ میں اسے سنبھال کر رکھوں گا


تا کہ مجھے یادر ہے تمھارے معاملے میں مجھے کبھی لا پر دانہیں ہونا۔


ریان نے محبت سے کہا تو مر حا نظریں جھکا گئی۔


ریان کے ہر انداز میں اس کے لیے محبت تھی۔


مجھے سمجھ نہیں آرہا پھولوں کی پتیوں میں کانچ کیسے آیا۔


ساحر نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔


وہ لوگ واپس گھر جارہے تھے تھوڑی دیر میں عصر ہو جاتی تھی اس کے بعد ساحر اور ایمان کی رسم تھی۔


میں اس پھول والے کو چھوڑوں گا نہیں ساتھ۔ اس کی وجہ سے میری مرحا کو اتنی تکلیف ہوئی ہے۔ جتنا


خون مرحا کا بہا ہے نہ اس سے زیادہ اس کا بہاؤں گا۔


ریان کی باتوں میں دیوانگی تھی۔


نہیں ریان یہ پھول والوں کی غلطی نہیں ہے۔


پھول کی پتیاں تو ایک بڑے شاپر میں آئی تھیں اور ایمان نے میرے سامنے سب کی تھالیوں میں پتیاں


بھری تھیں۔ اگر پتیوں میں کانچ ہوتا تو ایمان کا ہاتھ بھی زخمی ہوتا۔


ساحر کی بات پر ریان بھی پریشان ہو ا تھا۔


یہ حقیقت تھی ایمان نے خود سب کی تھالیاں بھری تھیں وہ خود بھی اس وقت وہاں موجود تھا۔


مطلب جس نے بھی یہ کیا اس نے جان بوجھ کر مرحا کی تھالی میں کانچ بھر اتھا۔ اسے زخمی کرنے کے لیے۔


مگر کس نے کی ہو گی ایسی گھٹیا حرکت۔


ریان نے پریشانی سے کہا۔


ساحر کے خود سمجھ سے باہر تھا ایسا کون ہو سکتا ہے جس نے مرحا کو تکلیف دی تھی۔ وہ جو کوئی بھی تھا دوبارہ مرحا کو تکلیف دے سکتا تھا۔


اس لیے اب ان لوگوں نے محتاط رہنا تھا۔


ساخر اور ریان مرحا کو لے کر گھر پہنچے تو مہمان گارڈن میں ہی موجود تھے شام کا وقت ہونے والا تھا۔


ریان اور ساحر مر حا کو اندر لائے تو ایمان بھاگ کر آکر مرحا کے گلے لگی۔


مر حاتم ٹھیک وہ تھا ہاتھ دیکھا۔ بہت درد ہور ہو جانے میں ایمان نے روتے ہوئے پوچھا تو مر حاکو بے ساختہ ایمان پہ پیار آیا۔


میں اب ٹھیک ہوں تم رو تو نہیں میری جان۔


مرحانے ایمان کو چپ کروایا۔


اور تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں۔ تھوڑی دیر میں تمھاری رسم ہے۔


مرحانے ایمان کو دیکھ کر کہا۔


تمھارے بنا ہو سکتی تھی تیار۔


سمینہ بیگم نے مرحا کو پیار کرتے ہوئے کہا۔


سب نے مرحا کو پیار کیا۔


سب کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھ کر مرحا ایمان کو تیار کرنے او پر چلی گئی۔


شایان عینی اور شاہ میر نور کا فوٹو شوٹ پو چکا تھا۔

نور اور عینی نے اپنا برانڈل لک چینج کر لیا تھا۔

اب وہ دونوں مسز شاہ میر اور مسز شایان کی حیثیت سے ایمان کی رسم میں شرکت کر رہی تھیں۔

نور اور عینی بھی ایمان اور مرحا کے پاس ان کے کمرے میں گئیں تو مرحا ایمان کا دوپٹہ سر پہ سیٹ کر رہی تھی۔

میک اپ تو پہلے ہی ہو چکا تھا بس ڈریس اور دوپٹہ سیٹ کرنا تھا جو مر جانے کر دیا تھا۔

ما شاء اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو ایمان - 

عینی اور نور نے دل سے ایمان کی تعریف کی۔

مر حاتم ٹھیک ہو نہ اب درد تو نہیں ہو رہا۔

عینی نے مرحا سے پوچھا تو وہ مسکرائی۔

میں بالکل ٹھیک ہوں اب درد بہت بہتر ہے۔