تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 21

از۔"طوبیٰ صدیقی"

 

°°°°°°


❤️❤️❤️


مرجانے مسکرا کر کہا۔


بھئی درد تو بہتر ہو گا نہ ریان بھائی کی محبت جو ساتھ ہے۔


نور نے مرحا کے گلے میں باہیں ڈالی تو وہ بلش کرنے لگی۔


مینی بھا بھی نور بھا بھی آپ دونوں کو ماما بلا رہی ہیں۔


شہیر نے کمرے میں آکر کہا اور فورا بھاگ گیا۔


مر حارسم بس شروع ہونے والی ہے تم ایمان کو ریڈی رکھو۔ تم


نور کہہ کر عینی کے ساتھ نیچے چلے گئی۔


مر جانے ایمان کو دیکھا۔ اس ساری تیاری مکمل تھی۔


بہت خوبصورت لگ رہی ہو آج تو لالا تمہیں دیکھ کر ہوش ہی کھو دیں گے۔


مرحانے ایمان کو دیکھ کر کہا تو وہ شرمادی۔


تب ہی کمرے میں دو عور تیں برقعہ پہنے داخل ہوئیں اور کمرے میں آکر اندر سے کمرہ بند کر دیا۔


کون ہیں آپ لوگ اور یہاں کیا کر رہی ہیں دروازہ کیوں بند کیا ہے آپ نے۔


مرحانے آگے آکر پوچھا تو ان دونوں نے اپنا چہرہ کھولا۔


برقعے کے اندر دو آدمیوں کو دیکھ کر ایمان اور مرحا کی حالت خراب ہو گئی۔


اس سے پہلے مرحا یا ایمان شور کر تیں ان دونوں نے ایمان مرحا کے چہرے پر اسپرے کیا تو وہ دونوں بے ہوش ہو گئیں۔


نور اور عینی سمینہ بیگم کے پاس آئیں تو انہوں نے مسکرا کر اپنی دونوں بہوؤں کا ہاتھ پکڑا اور مہمانوں سے ملوانے لگی۔


گھر کے اندر باہر ہر جگہ مہمان بھرے ہوئے تھے۔


ذو الفقار صاحب ہمیں تو لگا تھا ہم سب سے پہلے ریان کے کسی فنکشن کو اٹینڈ کریں گے۔


ذوالفقار صاحب کے ایک جاننے والے نے کہا تو وہ مسکرائے۔


آپ بے فکر رہیں ہم جلد ہی ریان کا نکاح کرنے والے ہیں بڑے پیمانے پر۔ فکر


ذو الفقار صاحب نے ریان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔


چاروں بھائی کھڑے ساتھ میں شاندار لگ رہے تھے سب نے ایک جیسے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔


شاہ میر اور شایان نے بھی اپنے کپڑے چینج کر لیے تھے۔


ایمان نے ڈیسائیڈ کیا تھا کہ اس کی رسم میں اس کے چاروں بھائی ایک جیسے لگنے چاہیں۔


تو اپنی بہن کی خواہش کے مطابق ان چاروں نے ویسے ہی ڈریسنگ کی تھی۔


ذوالفقار صاحب کے چاروں پوتوں میں ان کی جان بستی تھی۔


انہیں اپنے پوتوں کو دیکھ کر فخر محسوس ہوتا تھا۔


باد قار ، با اخلاق ، خاذب نظر اور ایک دوسرے کے لیے جان دینے کو تیار رہنے والے۔


انہیں سمینہ بیگم کی تربیت پہ ناز تھا۔


شعیب صاحب کی بیگم کی وفات کے بعد انہوں نے شاہ میر اور شہیر کو اپنے بچوں کی طرح تربیت دی تھی۔ ان چاروں کی تربیت میں سمینہ بیگم نے کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔


شایان کی نظریں بار بار عینی کی طرف اٹھ رہیں تھیں۔ کہاں وہ ہمیشہ پینٹ شرٹ میں ملبوس رہنے والی اکھٹر مزاج لڑکی اور کہاں اب اس روپ نے اسے بالکل بدل دیا تھا۔


خود پہ کسی کی نظریں محسوس کر کے عینی کی نظریں بے ساختہ شایان کی طرف اٹھی تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 


مینی نے ہاتھ کے اشارے سے گن بنائی اور شوٹ کرنے والے انداز میں شایان کا نشانہ لیا تو شایان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔


اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔


شاہ میر کی نظریں بھی نور سے ہٹ نہیں پارہی تھی۔ میک اپ اور بھاری ڈریس میں اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی تھی۔


یہ روپ نکاح کے بعد کا تھا یا شاہ میر کے دیکھنے کا نظریہ بدلا تھا۔ نور اسے اس وقت پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔


شاہ میر کی نظریں خود پہ پاکر اس کا شرمانا شاہ میر کے چہرے پہ بار بار مسکراہٹ لا رہا تھا۔


بے شک نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ نکاح کے دو بول لڑکے اور لڑکی کے دل کے جذبات بدل دیتے ہیں۔ یہاں بھی یہی ہو اتھا نکاح نے اپنا اثر دیکھایا تھا۔ شاہ میر نور کو اب الگ ہی نظر سے دیکھ رہا تھا۔


ساحر تیار ہو کر باہر آیا تو ذوالفقار صاحب نے سب سے اس کا تعارف اپنے ہونے والے داماد کے طور پر کروایا۔


ساحر نے بھی اپنے کپڑے تبدیل کر لیے تھے۔


ایمان کی رسم کی ڈریس پستہ کلر کی تھی اس سے میچنگ کی قمیض شلوار ایمان نے ساحر کے لیے لیا تھا جس پر اس نے وائٹ کلر کی ویسٹ کوٹ پہنا ہوا تھا۔


با بار سم شروع کرتے ہیں۔


احتشام صاحب نے کہا تو انہوں نے گردن ہلا کر اجازت دی۔


عینی نور جاؤ بیٹا ایمان کو لے آؤ۔


سمینہ بیگم نے نور اور عینی کو کہا تو وہ دونوں اندر ایمان کو لینے چلی گئی۔


نور نے ایمان کے روم کا دروازہ کھولنا چاہا تو وہ اندر سے بند تھا۔


عینی نے دروازہ بجایا۔


ایمان مرحادروازہ کھولو سب بلا رہے ہیں۔


عینی نے آواز دی مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔


مرحا۔۔۔ مرحا دروازہ کھولو۔


نور نے بھی آواز دی مگر اندر سے دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔


نور اور عینی کو پریشانی ہونے لگی۔


عینی نے بہت کوشش کی مگر دروازہ نہیں کھلا تو عینی نے اپنے بالوں سے ہیئر پن نکالی اور لاک میں


گھومانے لگی۔


یہ کیا کر رہی ہو عینی۔


نور نے پریشانی سے پوچھا۔


دروازے کا لاک کھول رہی ہوں مجھے آتا ہے یہ بس دو منٹ۔


عینی بہت مہارت سے دروازے کو کھولنے کی کوشش میں لگی تھی جیسے پتہ نہیں کتنی بار وہ یہ کام کر چکی ہو۔


اور پھر عینی کی محنت رنگ لائی دروازے کا لاک کھل گیا۔


نور اور عینی تیزی سے اندر آئیں مگر کمرے کا حال دیکھ کر ان دونوں کی ہی حالت خراب ہو گئی تھی۔


ایمان کا کمرہ بکھرا ہوا تھا بیڈ شیٹ آدھی زمین پر پڑی تھی جیسے کسی نے اسے کھینچا ہو۔ فرش پر خون کا قطرے گرے ہوئے تھے۔


ایک دو چیر زمیں اور زمین پہ گری ہوئی تھیں۔


عینی اور نور بن وقت ضائع کیسے باہر بھاگی تھیں۔


باہر سب کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔


شیر از بھی اپنی فیملی کے ساتھ آگیا تھا۔ وہ نکاح اٹینڈ نہیں کر پایا تھا جس کی معذرت وہ پہلے ہی کال پر کر چکا تھا۔ 


ریان بھائی وہ ایمان مرحا اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔ ایمان کا پورا کمرہ بکھرا ہوا ہے۔ وہ دونوں کہیں نہیں ہیں۔


عینی نے آکر جو خبر دی تھی اس نے سب کے سروں پہ آسمان گرادیا تھا۔


سب گھر والے تیزی سے گھر کے اندر بھاگے تھے۔


ریان اور ساحر نے ایمان کے کمرے میں قدم رکھا تو وہ کمرے کی حالت دیکھ کر ہی سمجھ گئے تھے کہ


یہاں کیا ہوا ہے۔


ایمان اور مرحا کا کڈنیپ ہو چکا تھا۔


تمام گھر والوں کی حالت خراب ہو گئی تھی


میں حویلی والوں کو چھوڑوں گا نہیں ان کی اتنی ہمت وہ کیسے کر سکتے ہیں ایسا۔


ریان کا غصہ سے براحال ہو رہا تھا۔


یہ حویلی والوں کا کام نہیں ہے ریان۔ اس کے پیچھے وہ لوگ ہوتے تو صرف مرحا کو لے کر جاتے ان


لوگوں نے ایمان کو بھی کڈنیپ کیا ہے مطلب اس کے پیچھے کوئی اور ہے۔


ساحر نے ریان سے کہا تو سب نے اس بات سے اتفاق کیا تھا۔ مرحا اور ایمان کی ایک ساتھ کڈنیپینگ سب کو الجھا گئی تھی۔


ریان ساحر کے ساتھ ساتھ شایان شہیر شاہ میر اور شیر از بھی مرحا اور ایمان کو ڈھونڈ نے نکل گئے تھے۔


دونوں جو ان لڑکیوں کا یوں گھر سے اغوا ہو جانا سب کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔


احتشام صاحب نے سب مہمانوں سے معذرت کر کے رخصت کر دیا تھا۔


مینی کہاں جارہی ہو عینی مینی۔۔۔


نور نے عینی کو آواز دی جو اپنے کپڑے چینج کر کے جینس شرٹ پہ بالف کوٹ پہن کر باہر کی طرف بھائی تھی۔


نور نے عینی کے پاس گن دیکھی تھی جس کی وجہ سے وہ پریشان ہو گئی تھی۔


سمینہ بیگم نے عینی کو جاتے دیکھا تو شایان کو کال کری پہلے ہی دو بچیاں مصیبت میں تھیں اب وہ عینی کو کسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتی تھیں۔


شایان اور شیری ایک گاڑی میں تھے جبکہ ریان اور شاہ میر اپنی اپنی بائیک پر نکل چکے تھے۔


سمینہ بیگم کی کال آتے دیکھ شایان نے فورا کال اٹھائی تھی۔


ہیلو ماما کیا ہوا کچھ خبر ملی۔


شایان نے پوچھا۔


نہیں شایان عینی کہیں نکل گئی ہے تمھاری بائیک لے کر اس کے پاس گن بھی تھی مجھے پریشانی ہو رہی ہے اس پر کوئی مصیبت نہ آجائے - 


سمینہ بیگم کی بات پر شایان کا دماغ چکر ا گیا۔


والاٹ ! اسے کیا ضرورت تھی ایسے کہیں جانے کی اور اس کے پاس گن کہاں سے آئی۔ اچھا آپ


پریشان نہ ہوں میں دیکھتا ہوں۔


شایان نے ان کو تسلی دی اور کال کٹ کر دی۔


اس نے عینی کا نمبر ڈائل کیا تو اس نے کال نہیں اٹھائی۔


اگر عینی کو کر رہے ہو کال تو مت کرو وہ نہیں اٹھائے گی۔


شیری نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔


یار شیری بھائی وہ لڑکی بالکل پاگل ہے اتنی ٹینشن ہے یہاں اور وہ پتہ نہیں کہاں نکل گئی ہے۔ بہت بد


دماغ لڑکی ہے بس ہر وقت اپنی اپنی کرنی ہوتی ہے اسے۔


شایان نے نحصے سے کہا۔


وہ بد دماغ نہیں ہے بہت اسمارٹ ہے۔ اس کا دماغ جس اسپیڈ سے کام کرتا ہے نہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کی فکر نہیں کرو یہ سچویشن اس کے لیے ہینڈل کرنا مشکل نہیں ہے وہ قرۃ العین شاہ ہے۔


بڑی سے بڑی پریشانی میں بھی اس کا دماغ کام کرنا نہیں چھوڑتا۔


شیری کی باتوں پر شایان الجھ کر رہ گیا۔


‏ایک منٹ کیا مطلب ہے ان باتوں کا آپ مینی کو اتنا کیسے جانتے ہیں۔ اور آپ یہ سب کیا بول رہے ہیں۔


شایان نے کنفیوز ہو کر پوچھا تو شیری نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا۔


شایان وہ کوئی نارمل لڑکی نہیں ہے۔ وہ ایک سیکریٹ ایجنٹ ہے۔ وہ ہماری فورسزز کے لیے کام کرتی ہے۔ میری اور ریان کی ملاقات اس سے دو سال پہلے ہوئی تھی تب اس نے ہمارے ساتھ اپنا پہلا کیس حل کیا تھا۔


یاد ہے تمہیں شاہ میر کا ڈرگ کیں۔ وہاں میں اور ریان اس سے پہلی بار ملے تھے۔ سب کو لگتا ہے وہ باہر ملک پڑھنے گئی تھی مگر ایسا نہیں تھا۔ وہ ملک میں رہ کر سیکریٹ ایجنٹ کی ٹریننگ لے رہی تھی۔


اس لیے تم اس کے لیے پریشان مت ہو وہ بہت اسٹرونگ ہے تمھاری سوچ سے بھی زیادہ۔


شیری نے اپنی بات مکمل کر کے شایان کو دیکھا جو منہ کھولے اس کی باتیں سن رہا تھا۔


اس کی بیوی ایک سیکریٹ ایجنٹ تھی اور اسے کبھی پتہ ہی نہیں لگا۔


باقی اب کچھ نہیں پوچھنا یہ سب باتیں بعد کی ہیں۔ ابھی ایمان اور مرحا کو ڈھونڈ ناضروری ہے۔ شیری نے کہا تو شایان نے گردن ہلائی۔ اس کی زبان کو تو ویسے بھی بریک لگ گئی تھی۔


مینی نے رات ہی سوسائٹی میں خاموشی سے جگہ جگہ کیمرے لگائے تھے۔ اسے شک تھا آج کے فنکشن میں پورے گھر میں مہمان تھے ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ یہ کام اس نے شیری اور ریان کو بنا بتائے کیا تھا۔


اب اسے جا کر یہ دیکھنا تھا کہ کیمرے میں کیا کیا کیچر ہو سکا ہے۔


عینی اپنے روم میں آئی اور لاکر میں سے ایک لیپ ٹاپ نکالا۔


عینی کے ہاتھ بہت تیزی سے کام کر رہے تھے اس نے لیپ ٹاپ سے ان ساری کیمروں کو کانٹیکٹ کیا اور پچھلے ایک گھنٹے کی ریکارڈنگ چیک کرنے لگی۔


ریان کے گھر کے فرنٹ اور بیک سائیڈ سے لے کر آس پاس کے کافی علاقہ کو اس نے کور کیا تھا۔ اسے یقین تھا کچھ نہ کچھ کیمرے میں ضرور قید ہوا ہو گا۔


عینی ریان اور شیری کے ساتھ ایمان اور مر حادونوں کے کیس دیکھ رہی تھی۔


ایمان پر جن لوگوں کی نظر تھی وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے ان کا تعلق گینگ سے تھا شیر ی ریان اور عینی پرسنلی اس کیس کو دیکھ رہے تھے جبکہ مرحا کے کیس میں انہیں صرف ایک غلطی کا انتظار تھا۔


۔ اس دن جب ساحل اور حاشر آئے تھے اس دن ان لوگوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی جس پہ وہ لوگ ایکشن لیتے۔


عینی ان کے گروپ کا ایسا حصہ تھی جو بالکل نار ملی عام انسان کی طرح لوگوں کے بیچ رہ کر ہر چیز پہ نظر رکھتی اور ثبوت جمع کرتی۔


جبکہ ریان اور شاہ میر شیری کے پرسنل ایجنٹ تھے۔


وہ کسی ادارے کے لیے کام نہیں کرتے تھے وہ صرف شیری کے ساتھ کام کرتے تھے ان دونوں کا تعلق کسی بھی فورس سے نہیں تھا۔


عینی بیٹھی ریکارڈنگ چیک کر رہی تھی تب اسے وہ دیکھائی دیا جس کی اسے تلاش تھی۔


وہ لیپ ٹاپ کو واپس لا کر میں رکھ کر جلدی سے باہر بھاگی تھی


ایمان کو ہوش آیا تو اس نے آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھنے کی کوشش کی۔ اس کا سر بری طرح بھاری ہو رہا تھا۔


اس نے بہت مشکل سے آنکھیں کھول کر نظر گھومائی تو اس کے ساتھ ہی کرسی پہ مر حابے ہوش پڑی تھی۔


ایمان تیزی سے اس کے پاس آئی تھی۔


مر حامر جا آنکھیں کھولو پلیز مرحا اٹھو۔۔


ایمان نے اس کے گال تھپتھپائے تو اس نے مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں۔


مرجانے ہوش میں آکر ایمان کو دیکھا


ایمان تم ٹھیک ہو نہ۔


مرحانے بے چینی سے پوچھا۔


میں ٹھیک ہوں مگر تمھارا ہاتھ اس سے خون نکل رہا ہے مرحا۔


ایمان کی نظر مرحا کے ہاتھ پہ گئی جہاں خون اس کے ہاتھ پہ بندھی پٹی کے اوپر آگیا تھا۔


اسے دیکھنے کا وقت نہیں ہے ہم لوگ کہاں ہیں یہ لوگ ہمیں یہاں کیوں لائے ہیں۔


مر جانے پر یشانی سے کہا اور آس پاس دیکھا۔


یہ کوئی کار خانہ تھا۔


مرحا اور ایمان جس کمرے میں تھیں وہ بہت بڑا تھا اور اس میں بہت سارے ڈبے رکھے تھے۔


مرجانے پورے کمرے میں نظر دوڑائی تو اسے ایک دیوار کے اوپر کے سائیڈ ایک کھر کی دیکھائی دی۔


لیکن وہ بہت زیادہ اوپر تھی۔


مرحا کے دماغ میں ریان کی سمجھائی باتیں گونج رہی تھیں۔


ریان یہاں نہیں تھا مگر اس نے بنا گھبرائے اس مسئلے سے نکلنا تھا۔


ایمان پریشان نہیں ہو ہم یہاں سے نکل جائیں گے۔


مر جانے ایمان کا ہاتھ تھاما۔


کسی کے آنے کی آہٹ سے وہ دونوں تیزی سے واپس اپنی جگہ پہ بیٹھی تھیں۔ ہیلو بیوٹیفل لیڈیز کیسی ہیں آپ دونوں۔ آنے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔


باہر سے آنے والا شخص مرحا اور ایمان کے سامنے کرسی رکھ کر بیٹھا۔


مر حا حیرت سے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی۔


آپ۔


مرجانے حیرانگی سے کہا تو سامنے بیٹھے شخص نے قہقہہ لگایا۔


ساحر تیزی سے گھر میں داخل ہوا۔


لالا میں نے بہت کوشش کی پیار سے سمجھانے کی مگر یہ منہ نہیں کھول رہا۔


یاسر نے ساحر کو بتایا تو وہ غصے سے اکرم کی طرف بڑھا۔


اکرم کے ایک ہاتھ پہ کئی کٹ لگے تھے جو ساحر نے اسے آرمی سے لگائے تھے اور دوسرے ہاتھ کا گوشت گل گیا تھا۔


ساحر نے غصے سے اس کا منہ دبوچا۔


بتا تیرے آدمیوں کا اڈا کہاں ہے جلدی بتا۔


ساحر اس کے منہ پر دھاڑا تھا


ساحر کو دیکھ کر اکرم پہ پھر سے خوف طاری ہو گیا تھا۔


تو ایسے نہیں بولے گا نہ یا سر تیزاب دو مجھے آج اسے یہیں ختم کر دوں گا میں۔


ساحر نے غصے سے کہا تو اکرم گڑ گڑانے لگا۔


نہ نہ نہیں پلیز مجھے نہیں مارو۔ ان لوگوں کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں ہے۔ مگر اس لڑکی کے پیچھے راجا بھائی نے اپنے خاص آدمی کو لگا دیا ہے اس کا اڈا مجھے پتہ ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا اس لڑکی کو اسی آدمی نے اٹھایا ہو گا۔


اکرم نے اپنا منہ کھولا تو ساحمہ نے اس سے جگہ کا ایڈریس لے کر یا سر سے گن لی اور فور آباہر نکلا۔


اسے جلد سے جلد وہاں پہنچنا تھا


آپ مجھے اٹھا کر لائے سمجھ آتا ہے مگر آپ نے ایمان کو کیوں کڈنیپ کیا اس سے کیا دشمنی ہے آپ کی۔


اور آپ لوگ یہ سب کیوں کر رہے ہیں میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔


مر جانے غصے سے کہا۔


اندر سے اس کا دل بری طرح کانپ رہا تھا مگر وہ اپنا ڈر ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔ اسے ریان کی ساری باتیں یاد تھیں۔


ارے ارے پیاری بہنا تم غلط سمجھ رہی ہو میں یہاں تمھیں لینے نہیں آیا وہ تو حاشر اور ساحل تمھارے پیچھے لگے ہیں تاکہ تم گاؤں جاؤ حاشر سے شادی کرو اور پھر ساری جائیداد زمینیں سب ان کی ہو جائیں گی۔


پہلے تو وہ تمہیں بھی مارنا چاہتے تھے مگر پھر اس حاشر کی نیت تم پر خراب ہو گئی۔


لیکن میں ایسا کچھ نہیں چاہتا میں تمہیں گاؤں نہیں لے کر جاؤں گا اور تمہارے لیے میں حاشر کو بھی راستے سے ہٹا دوں گا پھر تم اپنی محبت کے ساتھ خوش رہنا۔ پیار کرتی ہو نہ اس کے بھائی ہے۔


سامنے بیٹھے شخص نے ایمان کو دیکھ کر کہا جو ڈری سہمی مرحا کا ہاتھ تھامی ہوئی تھی۔


مزمل لالا آپ اتنے اچھے ہر گز نہیں ہیں کہ مجھ سے آپ کو کچھ چاہیے نہ ہو۔ کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے اور ایمان اس کا اس سب سے کیا تعلق ہے آپ اسے یہاں کیوں لائے ہیں۔


مرحا نے مزمل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی۔


مزمل حاشر کا بھائی تھا مگر وہ راجا بھائی کا خاص آدمی تھا جو پچھلے پانچ سال سے اس کے ساتھ تھا مگر آج تیک را جا بھائی اور سلمان کے علاوہ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ مزمل ایک ایسا آدمی تھا جو منظر عام پر نہیں آتے پیٹھ کے پیچھے بیٹھ کر پلاننگ کرتے ہیں اور پھر اپنے آدمیوں سے کام کرواتے ہیں مگر ان کا چہرہ ان کے آدمیوں نے بھی نہیں دیکھا ہوتا۔


مزمل کو راجا بھائی نے سلمان کے لیے کام کرنے کا کہا تو اس نے ایمان کی انفار میشن لینا شروع کر دی اور پھر مر حاکو اس کے ساتھ دیکھ کر اس نے ایک تیر سے دو نشانے لینے کا سوچا تھا۔


مرحا اور ایمان کی کڈنیپنگ اس نے ایسے ہی نہیں کری تھی۔ ایک ایک مومنٹ پہ نظر رکھ کر اس نے بہت صفائی سے کام کیا تھا۔ 


با بابابا ۔ بالکل صحیح سمجھی تم اسمارٹ گرل۔ تم سے مجھے زیادہ کچھ نہیں چاہیے مر حابس تم گاؤں کی ساری زمین جائیداد میرے نام کر دو اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔


اور یہ ایمان ارے اسے تو اس سلمان کو دینا ہے۔ وہ لٹو ہوا پھر رہا ہے اس کے پیچھے سالا اتنی مار کھا کر بھی اس کا پیچھے چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔


سلمان کا نام سن کر ایمان خوف سے کانپنے لگی تھی سلمان نے اس کے ساتھ جو پہلے کیا تھا، اس کے بعد ایمان کے دل میں اس کا بے انتہا خوف بیٹھ گیا تھا۔


جب کہ مرحا بھی پریشان ہو چکی تھی سلمان عزت کا لٹیر اتھاوہ ایمان کو اس سے پہلے بھی نقصان دینے والا تھا مگر ساحر نے اسے بچا لیا تھا اور اب یہ کام مر جانے کرنا تھا۔


وہ ایمان کو کسی بھی حال میں ان لوگوں کے ہاتھ لگنے نہیں دے سکتی تھی۔


ایمان میں سب کی جان بھی ہوئی تھی اور ایک لڑکی کے پاس عزت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا وہ ایمان کی عزت پر ایک حرف بھی نہیں آنے دے گی وہ خود یہاں سے نکل پائے یا نہیں مگر وہ ایمان کو یہاں سے نکال کر رہے گی۔ اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا۔


چلو تم دونوں تھوڑا ساریسٹ کرو میں پیپر زلاتا ہوں اور وہ سلمان بھی آتا ہی ہو گا۔ ہم۔


مزمل کہہ کر باہر کی طرف چلا گیا اور دروازے کو باہر سے بند کر دیا۔


مر حاوہ آجائے گا مر حاوہ آجائے گا ہمیں کون بچائے گامر حاوہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔


ایمان کارو رو کر براحال ہو گیا تھا۔ مر جانے اسے گلے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔


ایمان میری جان بات سنو ہم رو کر یہاں وقت ضائع نہیں کر سکتے ہمیں یہاں سے نکلنا ہو گا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ملے گا ہم چلو آو میرے ساتھ۔


مرحا نے ایمان کا ہاتھ تھاما اور اس کمرے کے ایک ایک کونے کو چیک کرنے لگی مگر یہاں سے باہر جانے کا ایک ہی راستہ تھا جو مزمل باہر سے بند کر گیا تھا۔


مر جانے دیوار کے اوپر لگی کھٹر کی کو دیکھا۔


یه واحد راستہ تھا جہاں سے وہ بھاگ سکتی تھیں۔


ایمان ہمیں وہاں تک پہنچنا ہو گا ایک کام کرتے ہیں یہ ڈبے ایک کے اوپر رکھ کر ایک سیڑھی سی بناتے ہیں۔ یہی ایک واحد راستہ ہے۔ 


مرحانے ایمان سے کہا تو اس نے اپنے آنسو صاف کر کے ہاں میں گردن ہلائی۔


یہ ریان کی باتوں کا ہی اثر تھا جو مر حامیں یہ ہمت پیدا کر گئی تھیں۔


مرحا اور ایمان نے مل کر ڈبوں پر ڈبے رکھنا شروع کیے۔ ایک ایک ڈبے کو اوپر سے اوپر پہنچانا بہت مشکل تھا مگر وہ ہمت نہیں ہاری سکتی تھیں۔


ڈبوں کی ایک لائن لگ گئی تھی مر جانے اوپر چڑھ کر ایمان کو ہاتھ دے کر اوپر کھینچا۔


ایمان کوشش کر کے اوپر کی طرف پہنچی تو دونوں نے سکون کا سانس لیا۔


مرحا کے ہاتھ سے خون پٹی سے باہر آنے لگا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔ بس اسے کسی بھی طرح یہاں سے نکلنا تھا۔


ایمان تم باہر کو دو۔


مر جانے ایمان سے کہا تو وہ منع کرنے لگی۔


نہیں مر حاہم ایک ساتھ جائیں گے۔


ایمان نے کہا تو مر جانے ایمان کو سمجھایا۔


ایمان میری بات سنو اتنا ٹائم نہیں ہے کہ ہم دونوں یہاں سے نکل پائیں اور مجھ سے زیادہ تمہارا یہاں سے نکلنا ضروری ہے ان کے ارادے پتہ ہیں نہ تمھیں وہ مجھے کوئی نقصان نہیں دیں گے مگر وہ تمھیں نہیں چھوڑیں گے


تم باہر جاؤ اور کیسے بھی کر کے ریان سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کرو پلیز ایمان تم مجھے یہاں سے باہر


جا کر ہی بچا سکتی ہو ورنہ ہم دونوں یہاں سے نہیں نکل پائیں گے۔


مر جانے ایمان سے کہا۔


باہر سے آوازیں آنے لگی تھیں یقینا وہ لوگ آرہے تھے۔


ایمان جلدی ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے اور کود کے رکنا نہیں فورا بھاگ جانا او کے۔


مر جانے ایمان سے کہہ کر اس کی کھڑکی پر چڑھنے میں مدد کی۔


ایمان لہنگے میں تھی جس کی وجہ سے اسے بہت پریشانی ہو رہی تھی۔


مرحا کا ہا تھ بری طرح درد کرنے لگا تھا۔


مزمل کے ساتھ سلمان را جا بھائی اور دو آدمی داخل ہوئے تو ان کی نظر اوپر کی طرف گئی۔


اے ے سے پکڑو انکو اللہ۔


مزمل نے پیچ کر کہا مگر مرحا ایمان کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔


ایمان رکنا نہیں فورا بھاگ جانا۔


مرجانے بیچ کر کہا۔


ایمان اوپر سے نیچے کو دی تو اس کا ہاتھ ایک لوہے کی روڈ پہ زور سے لگا۔ اس اپنا ہاتھ بے جان ہوتا محسوس ہوا مگر وہ رکی نہیں تھی اسے مرحا کو بچانا تھا اور تب ہی ممکن تھا جب وہ یہاں سے بھاگ پاتی۔ ایمان تیزی سے باہر کی سائیڈ بھاگی۔


مزمل کے آدمی بھی ایمان کے پیچھے بھاگے مگر وہ فوراً بھاگ جانے کی وجہ سے ان کی پہنچ سے پہلے ہی گلی کر اس کر کے میں روڈ کی طرف آئی۔


ایمان کے سامنے تیز رفتار بائیک آرہی تھی جسے دیکھ کر ایمان نے زور سے اپنی آنکھیں میچیں تھیں۔


سلمان نے آکر ڈبوں پہ لاتیں ماری تو توازن بر قرار نہ رکھنے کی وجہ سے مر حازور سے زمین پر گری تھی


جس سے اس کا ہونٹ اور سر دونوں پھٹ گئے تھے۔


اسے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔


ہاتھوں پیروں میں درد کی لہر اٹھی تھی۔


سلمان نے اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا اور زور دار تھپڑ رسید کیا۔


مرحا دوبارہ زمین پر جا گری۔


اے ے ے سے سلمان پیچھے ہٹ ابھی میرا کام باقی ہے میں مرنے نہیں دے سکتا اس کو دور ہٹ اس سے۔


اس سے پہلے سلمان مرا کی طرف بڑھتا مز مل ہی میں آگیا۔


تو ہٹ جامز مل اس کی وجہ سے وہ لڑکی پھر میرے ہاتھ سے نکل گئی۔


سلمان کے غصے کی انتہا نہیں تھی۔


مبر سے کام لو سلمان۔ پیچھے ہٹو۔


را جا بھائی کی آواز پہ سلمان سر جھٹک کر ایک طرف ہو گیا۔


مزمل نے مرحا کو کرسی پر بٹھایا اور پانی لبوں سے لگایا مگر مر جانے اپنا چہرہ پھیر لیا۔


بھائی وہ لڑکی بھاگ گئی۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر وہ مین روڈ تک پہنچ گئی تھی۔


مزمل کے آدمیوں نے آکر بتایا تو مر جانے مسکر اگر مزمل اور سلمان کو دیکھا۔


اب تم دونوں اپنی خیر مناؤ۔


تم لوگ میرے ریان کو جانتے نہیں ہو میرے جسم سے نکلے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے وہ تم لوگوں سے۔


اور ساحر لالا کا غصہ تو تم بھی جانتے ہونگے مزمل خان۔ نہیں تو پوچھو اس بیغیرت آدمی سے کتنا پیٹا تھا اس کو لالا نے۔


مرحا نے مسکرا کر مزمل اور سلمان کو مخاطب کیا تو اس بار مزمل بھی خود پر کنٹرول نہیں رکھ پایا اور


ایک لات مرحا کی کرسی پر ماری تو وہ کرسی سمیت زمین پہ جا گری۔


مرحا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تھا۔


ہمیں جلدی ہی یہاں سے نکلنا ہو گا وہ لوگ ہم تک پہنچ گئے تو ہم بری طرح پھنس جائیں گے۔


سلمان نے گھبراتے ہوئے کہا۔ تو سب نے ہامی بھری تھی۔


ہاں میرا دھندا اس لڑکی کی وجہ سے خراب نہیں ہونا چاہیئے سلمان مزمل یا درکھنا۔


را جا بھائی نے غصے سے کہا تو ان دونوں نے ہاں میں گردن ہلائی۔


آپ فکر نہیں کریں را جا بھائی۔


مزمل نے کہا۔


عینی نے ریکارڈ ینگ میں اس کار کو دیکھ لیا تھا جس میں وہ لوگ مرحا اور ایمان کو ڈال کر لے کے گئے۔


وہ سیکو میں سے ایک ایک کیمرے کی ریکارڈنگ دیکھ رہی تھی مگر ایک ریکارڈنگ کے بعد وہ گاڑی کسی ریکارڈنگ میں نظر نہیں آئی۔


عینی تیزی سے اس شاپ کے پاس آئی تھی جہاں اس نے گاڑی کو آخری بار دیکھا۔


شاپ کے پاس آکر اس نے ہر اینگل سے تینوں راستوں کو دیکھا تھا۔


ایک راستہ وہ تھا جو ریان کے گھر کی طرف سے آرہا تھا۔


دوسرا راستہ وہ تھا جہاں وہ گاڑی گئی ہی نہیں تھی۔


اب بچہ تھا آخری راستہ جو ایریا کے اس حصے کی طرف جاتا تھا جہاں ابھی آبادی نہیں ہوئی تھی۔


وہ لوگ بہت چالاک تھے ان لوگوں نے ایسا علاقہ چنا تھا جہاں لوگوں کا آنا جانانا ہونے کے برابر تھا۔ مینی نے ریان اور شیری کولو کیشن سینڈ کی اور جلدی پہنچنے کا کہہ کر خود اس طرف چل دی۔


اسے جلد سے جلد مرحا اور ایمان تک پہنچنا تھا اس سے پہلے کہ ان دونوں کے ساتھ کوئی حادثہ ہو۔


عینی تیزی سے بائیک چلا رہی تھی تب ہی اچانک ایک لڑکی اس کی بائیک کے سامنے آئی مگر عینی نے بہت مہارت سے بائیک سے اس لڑکی کو بچایا تھا۔


عینی نے ہیلمیٹ اتر اتو ایمان علینی کو دیکھ کر فورا اس کے پاس آئی۔


ایمان تم ٹھیک ہو نہ مر حا کہاں ہیں۔


مینی کے پوچھنے پر ایمان رونے لگی۔


عینی جلدی ریان بھائی کو بلاؤ مر حا مصیبت میں ہے ہمیں اسے بچانا ہے اس نے مجھے وہاں سے بہت مشکل سے بھا گایا ہے اس کے کزن نے اسے وہاں  قید کیا ہوا ہے اور وہ سلمان وہ بھی وہاں ہے تم پلیز جلدی کال کرو بھیو کو۔

ایمان نے روتے ہوئے کہا تو عینی نے اسے گلے لگایا۔

ایمان بری طرح ہانپ رہی تھی۔

ایمان سب ٹھیک ہے ریان بھائی آتے ہونگے تم پریشان نہیں ہو او کے تم یہ بتاؤ مر حاکے وہی کزن ہیں جو اس دن گھر آئے تھے۔

مینی نے پوچھا تو اس نے نہ میں گردن ہلائی۔

‏ نہیں یہ دوسرا کزن ہے مزمل نام لے رہی تھی مرحا اس کا۔ وہ مرحا سے جائیداد اپنے نام کروانے کے لیے اسے لے کر گئے ہیں اور وہ سلمان اس نے مجھے ۔۔

میں جانتی ہوں تم پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہو جائے گا اوکے ۔ تم مجھے اس جگہ لے کر چلو۔ عینی نے کہا تو ایمان نے نفی کی۔

نہیں عینی بھیو ہی مرحا کو بچا سکتے ہیں وہ لوگ بہت خطرناک ہیں ہم وہاں نہیں جا سکتے۔