تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 22

از۔"طوبیٰ صدیقی"


°°°°°°


❤❤❤


ایمان نے کہا تو اس نے ایمان کو کندھوں سے تھاما۔


ایمان تم مجھ پہ بھروسہ رکھو کچھ نہیں ہو گا اوکے مجھے لے کر چلو تب تک ریان بھائی آجائیں گے وہ


لوگ جانتے ہیں تم وہاں سے بھاگ گئی ہو تو وہ مر حا کو کہیں اور بھی لے جاسکتے ہیں۔


عینی کی بات ایمان کو ٹھیک لگی تھی۔


وہ عینی کے ساتھ بیٹھ کر اسے اس جگہ واپس لے آئی جہاں سے وہ بھاگی تھی۔


عینی نے بائیک خامشی سے کھڑی کی اور اپنی گن لوڈ کی۔


ساحر بھی وہاں اس وقت پہنچا تھا اور شایان اور شیری بھی آگئے تھے۔


عینی نے سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔


ایمان کو صحیح سلامت دیکھ کر ساحر کی جان میں جان آئی تھی۔ شایان نے ایمان کو گلے سے لگایا ہوا تھا۔


ساحر کی نظر میں ایمان پر تھیں مگر اس وقت اسے ایک بھائی کا فرض بھی نبھانا تھا۔


شاہ میر اور ریان نے بائیک رو گی۔ ‏



اس سے پہلے وہ ریان سے کچھ کہتے وہ تیزی سے اندر کی طرف گیا تھا۔ اس نے ایمان کو دیکھ لیا تھا مطلب خطرے میں اس وقت صرف مرحا تھی۔ ریان کے اوپر جنون سوار تھا جس نے بھی مرحا کے


ساتھ یہ کیا تھا آج وہ ریان کے قہر سے نہیں بچ سکتے تھے۔


باقی سب بھی اس کے پیچھے ہی اندر داخل ہوئے تھے۔


گھر میں سب ہی لوگ پریشان تھے۔


ذوالفقار صاحب کا بی پی خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا۔


وہ جانتے تھے انکے پوتے ایمان اور مرحا دونوں کو لے آئیں گے مگر ٹینشن سے ان کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔


سمینہ بیگم کا بھی رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔


ایسے میں نور بہو ہونے کی ذمہ داری اچھے سے تیار ہی تھی۔ وہ سب کا خیال رکھ رہی تھی۔


سمینہ بیگم کو بھی اس نے بہت حوصلہ دیا تھا۔


سبیل صاحب بھی اس وقت یہیں موجود تھے۔


انہیں عینی کے اوپر بہت غصہ تھا اس وقت اسے یہاں سب کے ساتھ ہونا چاہیے تھا مگر وہ تو نا جانے کہاں چلی گئی تھی۔


میرے دل کو بہت بہت سکون مل گیا ماما بس ایمان کے لیے افسوس ہو رہا ہے بیچاری وہ صحیح سلامت آجائے۔


اور وہ مرحا اللہ کرے ریان اسے کبھی ڈھونڈ ہی نہ پائے۔


عمل سے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔


اس وقت گھر میں صرف عمل اور سمرین بیگم ہی پر سکون تھے۔ انہیں ایمان کی کڈنیپنگ کا افسوس تو تھا مگر مرحا کے جانے سے انہیں بہت خوشی ملی تھی اوپر سے مرحا کا ہاتھ دیکھ کر تو عمل کے دل میں سکون اتر اتھا۔


مرحا کے چوٹ کیسے لگی۔ پھولوں میں کانچ کیسے آیا۔ اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاسکا۔


اب وہ لوگ اس مسئلے میں لگ گئے تو یقینا ہاتھ کے زخم کو تو انہوں نے بھول ہی جانا تھا اس لیے کم پر سکون تھی۔


مگر وہ اب تک ریان کی دیوانگی کو سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔


اس نے ریان حیدر کی محبت کو تکلیف دی تھی۔ اس لڑکی کو تکلیف دی تھی جس میں ریان کی خود کی جان بھی ہے۔


مرحا کے ایک چھوٹے سے زخم کو بھی وہ بھولنے والا نہیں تھا۔ 


کیا یہ کیا بول رہے ہو۔ ایسے کیسے ہوا اور کس نے کڈنیپ کر لیا۔


حاشر اور ساحل امجد ماجد اور اماں صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اگلا لائحہ عمل تیار کر رہے تھے جب حاشر کے پاس اس کے آدمی کی کال آئی۔


حاشر نے ریان اور مرحا کے پیچھے آدمی لگارکھا تھا جو انہیں خبر دیتا تھا کہ مرحا اور ریان کسی وقت کہاں ہیں۔


آج اس آدمی نے جو خبر دی تھی وہ بہت حیرت انگیز تھی۔


اماں صاحب مرحا کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔


حاشر نے بتایا تو وہ پریشانی سے اسے دیکھنے لگیں۔


ارے ایسے کیسے اغوا کر لیا ہے اس کا بھلا کو نساد شمن پیدا ہو گیا۔


اماں صاحب نے کہا تو حاشر خود سوچ میں پڑ گیا۔


ہم شہر چلیں کیا۔


ساحل نے حاشر کو دیکھ کر کہا تو اس نے منع کر دیا۔


ابھی ہم شہر نہیں جاسکتے۔ ان کا شک ہم پہ گیا ہو گا۔ اگر اس ریان نے ہمیں دیکھ لیا نہ تو قبر میں پہنچا دے گا۔


حاشر نے کہا تو ساحل نے قہقہہ لگایا۔



کیا ہوا حاشر ڈر گئے تم اس شہر کے لونڈے سے۔


ساحل نے کہا تو حاشر گہری سوچ میں چلا گیا۔


تم نے اس کی آنکھوں میں وہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے۔


اس پہ مر حا کا جنون سوار ہے۔ اس کی دیوانگی اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔


اس کی آنکھوں میں اتنا قہر تھا کہ اگر مر حا کو کسی نے تکلیف دی تو وہ اس کا حشر نشر کر دیگا۔


مرحا سے کوئی سڑک چھاپ عاشقوں والی محبت نہیں کرتا وہ اس کی محبت عشق جنون دیوانگی کی حدوں کو بھی عبور کر چکی ہے۔ وہ زندہ نہیں چھوڑے گا ہر اس انسان کو تباہ کر دے گا جو مرحا کو اس سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔


حاشر نے سوچتے ہوئے کہا۔


تو کیا مر حا کو ایسے ہی چھوڑ دو گے تم۔


امجد نے سوال کیا۔


نہیں مرحا میری ہے۔ اسے میں ریان کا کبھی نہیں ہونے دوں گا۔ مگر اس طرح سے میں مرحا کو حاصل نہیں کر سکتا ہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا جو بھی کرنا ہوگا۔


کچھ ایسا کرنا ہو گا جس سے مرحا خود ہمارے پاس آنے پر مجبور ہو جائے۔


حاشر نے کہا تو ساحل نے اس کی بات سمجھ کر گردن ہلائی۔


اور یہ ساحر کے کیا کر توت ہیں وہاں وہ کیسے چھپ چھپا کر کسی سے منگنی کر رہا ہے۔


اماں صاحب نے نقاہت سے کہا۔


ریان کی بہن پہ دل آگیا ہے لالا کا۔ محبت ہو گئی ہے انہیں۔


ساحل نے مسکراتے ہوئے کہا۔


ہنہ محبت حویلی سے ایسے کٹ گیا ہے جیسے اس کا یہاں کسی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔


اماں صاحب کیا اپنے بڑے پوتے کی یا دستار ہی ہے۔


ساحل نے ہنستے ہوئے کہا تو اماں صاحب نے پاس پڑا چپل اٹھا کر اسے مارا۔


ارے او و بد بخت خبر دار اس نامراد کو میرا پوتا کہا تو سمجھا۔ چلو تم سب کے سب دفع ہو جاؤ یہاں سے۔


اماں صاحب کا غصہ دیکھ کر سارے ان کے پاس سے چلے گئے۔ 


ریان کار خانے کے اندر آیا تو مزمل مرحا کو بالوں سے پکڑے کھڑا تھا جبکہ اس کے ہاتھ میں موجود گن


مرحا کے ماتھے پہ رکھی ہوئی تھی۔


مرحا کے سر سے بہتے خون نے اس کے چہرے پہ لکیریں بنادی تھیں جبکہ اس کے ہونٹ کے پاس سے بھی خون نکل رہا تھا۔ 


اس کے ہاتھ پہ بندھی پٹی پوری طرح لال ہو چکی تھی۔ درد سے مرحا کی آنکھیں بھی نہیں کھل پارہی تھیں۔


اس نے ریان کو دیکھ کر مدھم آواز میں ریان کو پکارا تھا۔


مرحا کی حالت دیکھ کر ریان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔


تیری اتنی ہمت تو نے مرحا کو ہاتھ بھی کیسے لگایا۔


ریان آگے بڑھنے لگا تو مزمل نے مرحا کے سر پر رکھی گن لوڈ کی۔


اے ے ے سے آگے مت آنا میں گولی چلا دوں گا۔ پیچھے رہ۔


مزمل نے دھمکی دی جسکاریان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔


آنکھوں میں خطر ناک تاثر لیے وہ مزمل کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے قدم قدم آگے بڑھ رہا تھا۔


تو گولی چلائے گا تو میری مرحا کو مارے گا مجھ سے دور کرے گا تو میری مرحا کو ہاں تیری قبر کھود دوں گا میں آج یہیں۔


ریان نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا اور تیزی سے آگے بڑھ کر مزمل کے پیٹ پر لات ماری تو وہ پیچھے کو جاکر گرا۔


مزمل کے پیچھے گرنے سے مرحا بھی لڑکھڑائی تو ریان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔


ریان۔۔ میں۔۔ نہیں۔۔ ڈری۔۔ میں روئی۔۔ بھی۔۔ نہیں۔۔


مر جانے توڑ توڑ کر الفاظ ادا کیے تو ریان نے پیار سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔


مجھے اپنی جان پہ فخر ہے۔ اب میں آگیا ہوں نہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جتنی تکلیف ان لوگوں نے


تمہیں دی ہے نہ اس سے کئی زیادہ تکلیف دوں گا میں انہیں۔


ریان نے مرحا سے کہا تو وہ مسکرائی۔


ریان کی نظر مرحا کے ایک ایک زخم پر تھی جو اس کے غصے کو اور بڑھارہے تھے۔


مزمل نے دوبارہ گن اٹھا کر ریان پر چلانی چاہی تب ہی شیری نے اس کے ہاتھ کا نشانہ لے کر گولی چلائی۔


سلمان درد سے مچل گیا۔


ریان نے مرحا کو ایک سائیڈ پہ بیٹھایا اور مزمل کو پیٹنا شروع کر دیا۔


تو نے میری مرحا کو مارا تو نے اس کو ہاتھ بھی کیسے لگایا۔ خون بہائے گا تو اس کا اسے تکلیف دیگا میں جان سے مار دوں گا تجھے۔


ریان کے اوپر جنون سوار تھا وہ بری طرح مزمل کو پیٹ رہا تھا۔


جب مزمل آدھ مارا ہو گیا تو شیری نے ریان کو پیچھے ہٹایا۔


مزمل اور سلمان و اندازہ نہیںتھا کہ یہاں اتنے لوگ آجائیں گے۔


انہوں نے راجا بھائی کو چھپا دیا تھا۔


مگر اب ان دونوں کا نیچ پانا مشکل تھا۔



ساحر نے سلمان کی طرف قدم بڑھائے تو ساحر کو دیکھ کر سلمان ایک ایک قدم پیچھے جانے لگا۔


کیا ہو اسلمان تم تو مجھے دیکھ کر ہی ڈر گئے ہو ۔ لگتا ہے تم نے مجھے پہچان لیا ہے۔


مگر وہ تمھارا ساتھی تھا نہ اکرم وہ بیوقوف مجھے پہچانا ہی نہیں تھا۔


اس نے میری ایمان کو تھپڑ مارا تھا پتہ ہے اس کا حال میں نے کیا کرا۔


میں نے اس کے ایک ہاتھ پہ آرمی کے اتنے وار کیے اتنے وار کیے کہ سارا سال اس کے وہ زخم بھر نہیں پائیں گے۔


اور اس کے دوسرے ہاتھ پہ میں نے تیزاب ڈال کر اس کا گوشت ہی گلا ڈالا۔


اب تم سوچو اس نے ایمان پر صرف ہاتھ اٹھایا تھا تو اس کا یہ حال کر اتھا میں نے۔


تم نے تو میری ایمان پہ بری نظر رکھی ہے۔


اپنی گندی نظروں سے میری ایمان کو دیکھا تھانہ اور ان ہاتھوں سے اسے چھونے کی کوشش کی تھی۔


کیا سزادی جائے تمہیں۔


ساحر عضب ناک تیور لیے سلمان کے قریب پہنچا تھا۔


ساحر کی باتوں سے سلمان کا دل کانپنے لگاتھا۔


ساحر نے سلمان کا سر پکڑا اور دیوار پہ مار تا چلا گیا۔


سلمان کے سر سے خون بہنے لگا مگر ساحر رکا نہیں۔


ایمان آنکھوں میں خوف لیے یہ سب دیکھ رہی تھی۔


شایان شاہ میر بھی ایمان کے ساتھ کھڑے تھے جب مزمل کے ایک آدمی نے پیچھے سے شایان کے



چا قو مار نا چاہا تو عینی نے چاقو کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا۔


ارے ارے ارے یہ کیا کرنے لگے تھے ان جناب سے تو آج ہی میر انکاح ہوا ہے۔ میرے شوہر ہیں یہ اور تم انہیں مار رہے ہو بیڈ بوائے ویری بیڈ بوائے۔


عینی کی آواز پر شایان اور شاہ میر مڑے تو عینی چاقو کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔


عینی کے ہاتھ سے خون نکلنے لگا تھا مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھے۔ ایک قاتلانہ مسکراہٹ۔


عینی نے اس آدمی کا وہی ہاتھ موڑ کر ایک زور دار لات اسے ماری تو وہ دور جا گرا۔


شایان شاہ میر حیرت سے عینی کا یہ روپ دیکھ رہے تھے۔ عینی تمہیں چوٹ۔۔


رئیلی شایان یہ چوٹ ہے۔ گرواپ بے بی گرواپ۔


شایان اس سے پہلے اس کا ہاتھ دیکھتا مینی مسکر اکر کہتی اسی آدمی کو دوبارہ اٹھا چکی تھی۔


ریان چھوڑو اسے وہ مر جائے گا۔


شیری ریان کو مزمل سے دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ریان کو قابو کرنا مشکل ہو گیا تھا۔


وہ بھرے ہوئے شیر کی طرح مزمل کو ختم کرنے کے در پہ تھا۔


شیری اور شہیر نے ریان کو قابو کرنے کی کوشش کی تو مز مل بھاگ کر ساحر کی طرف گیا۔


لالا پلیز مجھے بچالو یہ آدمی پاگل ہو گیا ہے میرا یقین کریں یہ چوٹ مرحا کو میں نے نہیں دی یہ ساری چوٹ اس سلمان نے دی ہے۔ اس نے مرحا کو اوپر سے گرایا تھا اور پھر مر حا کو تھپڑ بھی مارا تھا۔


مزمل کی جان پر بن آئی تو وہ سارا الزام سلمان پر لگانے لگا۔


ریان ایک بار پھر مزمل کی طرف بڑھا تو ساحر نے اسے روکا۔


نہیں ریان اسے ایسے نہیں مارو۔


اسے تو جان سے مار ڈالو اس بیغیرت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔


ساحر نے مزمل کو پکڑ کر واپس ریان کی طرف پھینکا تو ریان نے ایک بار اسے پیٹنا شروع کر دیا۔


ساحر سلمان کی طرف مڑا۔


تم نے اچھا نہیں کیا تمھارے کیے کی سزا صرف اور صرف موت ہے سلمان۔


ایمان کو تکلیف دینے کی اجازت میں خود کو بھی نہیں دیتا اور تم نے اسے اس تکلیف سے گزارا جو کسی


بھی لڑکی کے لیے مرنے کا مقام رکھتی ہے۔


میں ہر اس انسان کو ختم کر دوں گا جس نے ایمان کو تکلیف دی یا اس پر غلط نگاہ بھی ڈالی۔


ساحر نے کہہ کر اپنی بندوق کی ساری گولیاں سلمان کے سینے میں اتار دیں۔


ساحر مر ا تو ایمان نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔


ساحر ایمان کے پاس آیا اور اسکے آنسو صاف کیے۔


ایک آنسو نہیں ہے تمھارا ایمان اب سب ٹھیک ہے اب کوئی تمہیں تکلیف نہیں دے گا۔


ساحر نے ایمان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا تو وہ مسکرائی


ایمان کی مسکراہٹ نے ساحر کے دل میں سکون اتارا تھا۔


شیری اپنا سر پکڑ کر رہ گیا۔


وہ سلمان اور مزمل کو گرفتار کرنا چاہتا تھا مگر ایک کو ساحر نے ختم کر دیا تھا اور دوسرے کو ریان چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔


اٹس اوکے شیری سرے پچھلے پانچ گھنٹوں سے ساحر بھائی اور ریان بھائی جس اذیت سے گزیں ہیں اس کے بعد یہ تو ہونا تھا۔


زیادہ کوئی مسئلہ تھوڑی ہے بس انکاؤنٹر میں مارے گئے۔


عینی نے ونک کر کے کہا تو شیری کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


ہاں بس تم ہی رہ گئیں اپنا ہاتھ صاف کرنے سے دکھ تو ہو رہا ہو گا نہ ایک آدمی بھی موت کے گھاٹ جو نہیں اتارا۔


شیری نے عینی سے کہا تو اس نے مسکرا کر شیری کے سامنے اپنی گن لوڈ کی اور باہر کے راستے سے بھاگتے ہوئے را جا بھائی پہ گولیاں چلا دیں۔


سب نے نظر گھوما کر باہر کے راستے کو دیکھا جہاں راجا بھائی اوندھے منہ گرا پڑا تھا۔ وہ سب سے نظر بچا کر بھاگنا چاہتا تھا مگر عینی کی نظر سے پیچ جانا نا ممکن سی بات تھی۔


میں اپنا ٹارگٹ کبھی نہیں چھوڑتی۔


عینی نے مسکرا کر کہا۔


مینی کی نظر شایان پر پڑی جس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئی تھیں۔


عینی کو ہنسی آئی مگر وہ کنٹرول کر گئی۔


مزمل بے جان ہو از مین پہ پڑا تھا تب ریان نے اسے چھوڑا۔


ریان کا سب سے پہلا خیال مرحا پہ گیا جو بے ہوش پڑی تھی۔


ریان تیزی سے مرحا کی طرف بڑھا تو سب کا دھیان اس طرف گیا۔


مرحا آنکھیں کھولو دیکھو سب ٹھیک ہے۔


ریان نے اسے پکڑا مگر مر جانے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔


ریان اسے ہسپتال لے جانا ہو گا۔


تم اور شاہ میر اسے ہسپتال لے جاؤ ساحر تم عینی شایان اور ایمان کو لے کر گھر جاؤ۔


گھر میں سب پریشان ہونگے۔


شہیر تم بھی گھر جاؤ۔



میں ان سب کا بندوست کرتا ہوں اور آگے بھی رپورٹ کرنی ہوگی۔


شیری نے کہا تو سب نے ہامی بھری۔


ریان وقت ضائع کیسے بنا مر حا کو اپنی باہوں میں اٹھائے ہسپتال کے لیے نکل گیا تھا۔


عینی تم ایمان کو لے کر گاڑی میں بیٹھو۔


شایان شہیر مجھے کچھ بات کرنی ہے۔


ساحر نے عینی کو ایمان کے ساتھ گاڑی کی طرف بھیج دیا اور شایان شہیر کو روکا۔


جی بھائی کیا ہوا ابولیں کیا بات ہے۔


شہیر نے کہا۔


شایان شهیر تم دونوں کی ایک ہیلپ چاہیے مجھے۔


ساحر نے دونوں سے کہا اور پھر اپنا مسئلہ بتایا جسے سن کر ان دونوں نے ہی اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔


ساحر سب کو لے کر گھر پہنچا تو سب لوگ ہال میں ہی بیٹھے تھے۔


عمل ایمان کے ساتھ مرحا کو نہ دیکھ کر دل ہی دل میں شکر ادا کر رہی تھی۔


ایمان میری بچی!


ایمان کو اندر آتادیکھ احتشام صاحب نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔


میں بالکل ٹھیک ہوں بابا آپ لوگ پریشان نہیں ہوں۔


سب کی پریشانی کو نوٹ کر کے ایمان نے کہا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ نے سب کو مطمئن کر دیا۔


ذوالفقار صاحب نے ایمان کو گلے لگایا۔


ہماری تو جان نکل گئی تھی میرا بچہ اللہ نے کرم کیا تم ٹھیک ہو۔


سمینہ بیگم نے ایمان کو گلے لگایا تو انہیں ساتھ ہی مر حا کا خیال آیا۔


مرحا کہاں ہے ریان اور شاہ میر بھی نہیں ہیں۔


سمینہ بیگم نے پوچھا۔


ریان اور شاہ میر اسے ہسپتال لے کر گئے ہیں تھوڑی چوٹیں آئی ہیں مرحا کو آپ پریشان نہیں ہوں ابھی تھوڑی دیر میں وہ لوگ آجائیں گے۔


ساحر نے جواب دیا تو سمینہ بیگم پریشان ہو گئیں۔


چوٹیں آئی ہیں مگر کیسے مرحا ٹھیک تو ہے نہ۔


سمینہ بیگم نے فکر مندی سے پوچھا تو ایمان انہیں وہاں جو بھی کچھ ہوا تفصیل سے بتانے لگی۔


ماما آپ کو پتہ ہے آج میں مرحا کی وجہ سے ہی یہاں ہوں۔ ہم بالکل سنسان جگہ پہ تھے۔


وہاں سے نکلنے کے لیے صرف ایک ہی کھڑ کی تھی وہ بھی اتنی اونچی۔


میں اور مرحا اتنی مشکل سے وہاں چڑھے تھے۔ مگر مر جانے پہلے مجھے بچایا اس نے مجھے وہاں سے بھاگنے میں مدد کی۔ 


ان لوگوں نے نہ مرحا کو اتنی اونچائی سے گرایا اس کا سر اور ہونٹ بھی پھٹ گیا ماما اور اس کی دو پہر والی چوٹ بھی اور خراب ہو گئی۔


وہ بہت تکلیف میں تھی ماما۔


ایمان بولتے بولتے روپڑی تو سمینہ بیگم نے اسے گلے لگایا۔


بس میرا بچہ رو نہیں یہ اللہ کا کرم تھا تم دونوں صحیح سلامت وہاں سے آگئی ہو۔ مرحا نے آج بہت


بہادری کا کام کیا ہے۔ اللہ پاک اسے زندگی کی ساری خوشیاں عطا کرے۔


سمینہ بیگم نے دعادی تو سب کے منہ سے آمین نکلا۔


عمل کو مرحا کی تعریف ہضم نہیں ہوئی تو وہ سمرین بیگم کے ساتھ اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔


اب تم بھی بتا دو کہاں تھیں تم کہاں چلی گئی تھیں ایسے بنا بتائے۔ کتنی پریشانی تھی گھر میں۔


اور گن وہ کہاں سے آئی تمھارے پاس۔


سبیل صاحب نے عینی کو دیکھ کر سول جو اب شروع کر دیے۔


مینی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ اس وقت کیا بہانہ کرے۔


انگل مینی میرے ساتھ تھی وہ شیری نے ماریہ بھابھی کے پاس اپنی گن رکھوائی ہوئی تھی جلدی جلدی


میں لے جانا بھول گیا تھا اس لیے عینی کو لانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ مجھے بھی شیری نے بتایا۔


شایان نے عینی کو دیکھ کر مسکر اگر جواب دیا تو عینی کے چہرے پر بھی مسکان آئی۔


نور سب کے لیے چائے لے کر آئی۔ دادا جان نے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا۔


اب بس ریان اور شاہ میر مرحا کو جلدی سے گھر کے آئیں۔


نور بیٹا آج ہی تم دونوں کا نکاح ہوا ہے اور تم آج ہی کاموں میں لگ گئی ہو آواد ھر بیٹھو۔


سمینہ بیگم نے اسے ڈانٹا تو وہ مسکرا کر ایمان کے ساتھ بیٹھ گئی۔


اب بس سب کو مرحا کا انتظار تھا۔


ڈاکٹر مر حا ٹھیک ہے نہ۔


اسے کوئی گہری چوٹ تو نہیں آئی نہ۔


ریان نے ڈاکٹر سے پوچھا تو وہ مسکرائے۔


مسٹر ریان مرحا بالکل ٹھیک ہے درد اور تھکاوٹ کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔


سر پہ بھی زخم بہت زیادہ گہر انہیں ہے اس لیے اسٹیچیز کی ضرورت نہیں پڑی۔


میں نے ان کے سب زخموں کی بینڈ بیچ کر دی ہے وہ بالکل ٹھیک ہیں اور انہیں ہوش بھی آگیا ہے۔


یہ کچھ دوائیاں ہیں کھانا کھلا کر دینی ہے اس سے انہیں نیند آجائے گی رات میں پر اہلم نہیں ہو گی۔ آپ مل لیں ان سے۔


ڈاکٹر نے ہدایت دی تو اس نے ہامی بھری - 


بھائی میں دوائیاں لے کر آتا ہوں پھر گھر چلتے ہیں۔


شاہ میر نے کہا تو وہ ہاں میں گردن ہلا تا مر حا کے پاس چلا گیا۔


ریان اندر آیا تو مر حا اٹھ کر بیٹھ گئی۔


ریان آپ ٹھیک ہیں نہ۔


مرجانے فکر مندی سے پوچھا تو ریان مسکرایا۔


تم میری آنکھوں کے سامنے موجود ہو میں ٹھیک کیسے نہیں ہونگا۔


تمہیں چین ہو رہا ہو گا نہ۔


ریان نے اس کے سارے زخموں کا معائنہ کرتے ہوئے کہا۔


نہیں میں ٹھیک ہوں مجھے چین نہیں ہو رہا۔


بس مجھے گھر جانا ہے ریان پلیز گھر چلیں نہ۔


مر جانے منہ بنا کر کہا تو ریان نے مسکرا کر اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا۔


ریان مرحا کا ہاتھ تھامے باہر لایا تو شاہ میر بھی دوائیاں لے کر آچکا تھا۔


مر حاتم ٹھیک ہواب۔


شاہ میر نے پوچھا تو اس نے مسکراہاں میں گردن ہلائی۔


ریان نے مرحا کے لیے گاڑی کا بیک ڈور کھولا اور اس کے ساتھ خود بھی پیچھے بیٹھ گیا۔


شاہ میر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی گھر کی طرف لے لی۔


مر حا کا ہاتھ ریان کے ہاتھ میں قید تھا جبکہ ریان اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کا سر سہلا رہا تھا۔


ریان کو اپنے پاس پا کر مر حا خود بھی پر سکون تھی۔


ریان مرحا کو لے کر گھر میں داخل ہوا تو سب مرحا سے مل کر بہت خوش ہوئے۔


ذو الفقار صاحب نے ایمان مرحا دونوں کا ساتھ میں صدقہ اتارا تھا۔


بچیاں بہت بڑی مشکل کو پار کر کے آئی تھیں۔


ایمان میری گڑیا ٹھیک ہے نہ۔


ریان نے ایمان کو گلے لگایا تو وہ مسکرائی۔


میں ٹھیک ہوں بھیو۔


ایمان کے کہنے پر ریان نے اس کے ماتھے پہ بوسا دیا۔


سینے سے تو وہ مر حا کو بھی لگانا چاہتا تھا مگر ابھی وہ ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا اس لیے صرف آہ بھر کر رہ گیا۔


ساحر نے شایان شہیر کو اشارہ کیا تو اس کا اشارہ سمجھ کر شایان عینی اور نور کے ساتھ نظر بچاتا او پر چلا گیا۔


ایمو ادھر آئیں جلدی سے۔


شہیر نے ایمان کو کہا تو وہ کنفیوز ہو کر اسے دیکھنے لگی۔


ارے ایسے نہیں دیکھیں آئیں نا۔


شہیر اس کا ہاتھ پکڑ کر ہال کے بیچ میں لایا تولا ئیٹس بند ہو گئیں۔


شہیر کے بچے یہ کیا مزاق ہے لائٹ کھولو۔


نے تھی۔ ایمان نے شہیر کو پکارا مگر وہاں خاموشی چھا چکی تھی


اچانک ایمان کے اوپر گول دائرے کی صورت اسپاٹ لائٹ پڑی تو وہ گھبراگئی۔


لیکن اس کے بعد چلنے والے گانے نے ایمان کے لبوں پہ تبسم بکھیر دیا۔


" مجھے پیار ہوا تھا اقرار ہوا تھا "


یہ گانا ایمان کا فیورٹ گانا تھا جو ساحر نے اسے کئی بار گنگناتے ہوئے سنا تھا۔ اس لیے ساحر نے ایمان کے


لیے یہی گانا چلانے کا کہا تھا۔


گانے کی آواز ایمان پوری طرح محسوس کر رہی تھی تبھی لائیٹس کھلی تو ساحر ایمان کے سامنے کھڑا تھا۔


ساحر ہونٹوں پہ مسکراہٹ لیے ایمان کو دیکھ رہاتھا یہ


جبکہ ایمان کے چہرے کی مسکراہٹ ساحر کا سکون تھی۔ 


" ہے تمنا ہمیں تمہیں دلہن بنائیں "


اس لائن پہ ساحر ایمان کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھا اور خود اس لائن کو گنگناتے ہوئے مرحا کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔


ایمان نے نظر اٹھا کر احتشام صاحب اور ریان کو دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ مطمئن ہوئی تھی۔


ایمان نے اپنا ہاتھ ساحر کے ہاتھ پہ رکھا تو شایان عینی اور نور نے اوپر سے ان دونوں کے اوپر گلاب کی پتیاں برسائی جو ایمان کو کھکھلانے پہ مجبور کرگئی۔


مس ایمان حیدر بہت محبت کرتا ہوں آپ سے۔


آپ کے لیے اپنی جان آپ کے قدموں میں رکھ سکتا ہوں۔ آپ مجھ سے شادی کریں گی۔


ساحر کے پروپزل پر ایمان کی آنکھوں میں نمی آئی جے پیچھے دھکیل کر اس نے ہاں میں گردن ہلائی تو ساحر نے منگنی کی انگوٹھی ایمان کے ہاتھ میں پہنائی۔


اس کے ساتھ ہی سب نے شور مچایا اور تالیاں بجائیں۔


ایمان اور ساحر کی رسم نہیں ہو پائی تھی جسے لے کر ایمان اداس تھی مگر ساحر کے اس انداز میں پر پوز کرنے پر ایمان کی ساری اداسی ہوا میں تحلیل ہو گئی۔


ساحر نے ایمان کو انگوٹھی پہنا کر ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھا جسے محسوس کر کے ایمان کی نظریں شرم سے جھک گئی۔


ایمان کو خوش دیکھ کر سب لوگ خوش تھے۔ ساحر اور ایمان کو سب نے ڈھیر ساری دعائیں دی تھیں۔


ساحر کا ساتھ پاکر ایمان اپنی قسمت پہ رشک کر رہی تھی اللہ نے اس کے نصیب میں اتنی محبت کرنے والا شخص جو لکھ دیا تھا۔


ساحر اور ایمان کو سب نے صوفے پہ بٹھا کر ان کا منہ میٹھا کیا تھا۔


ساحر کا ایمان کو پر پوز کرنا اس کے دل کو گد گدا گیا تھا۔ ایک انجانے سے احساس نے دل میں جگہ بنائی تھی۔


سب باری باری انہیں مٹھائی کھلا رہے تھے۔


ذوالفقار صاحب نے دونوں کی نظر اتاری۔


ساحر کی نظریں اپنے ساتھ بیٹھی ایمان پہ بار بار اٹھ رہی تھیں جس سے ایمان شر مار ہی تھی اور اس کا یہ


شرمانا ساحر کے دل کو بے ترتیب دھڑ کا رہا تھا۔


رات میں روم میں آنا ایک بہت ضروری کام ہے۔


ساحر نے ایمان کے کان میں سرگوشی کی۔


ایمان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا مگر اس کو خود کو دیکھتا پا کر اپنی نظریں جھکا گئی۔


اچھا اب آپ لوگ ہمیں بھی اجازت دیں بہت وقت ہو گیا ہے ہمیں بھی چلنا چاہیے۔


سہیل صاحب نے کہا تو عینی اور نور بھی جانے کے لیے کھڑی ہوئیں۔


نہیں سہیل بیٹا آج تم لوگ یہیں شہر جاؤ ویسے بھی تو ٹائم زیادہ ہو گیا ہے اور بچیاں بھی تھک گئی ہو نگی۔


آج تم لوگ رات یہی گزار لو۔


ذوالفقار صاحب نے کہا تو شاہ میر نے مسکر اکر نور کو دیکھا۔


نکاح کے بعد وہ نور سے سہی سے مل بھی نہیں پایا تھا۔ اگر آج وہ لوگ رک جاتے تو وہ نور سے ملنے کا ارادہ رکھتا تھا۔


شایان کے چہرے پہ بھی اس بات سے خوشی آئی تھی عینی سے اسے بہت سارے حساب برابر کرنے


تھے اس نے شایان سے اتنا بڑا سچ چھپایا تھا شایان عینی کو ایسے تو نہیں بخشنے والا تھا۔


سہیل صاحب نے بہت منع کیا مگر پھر سب کی ضد پر وہ رکنے کے لیے راضی ہو گئے۔


سب لوگ آرام کرنے کے لیے چلے گئے۔


ایمان نے نور اور عینی کو انکا کمرہ دیکھایا۔


اور تھوڑی دیر ان کے ساتھ بیٹھ کر اپنے روم میں چلے گئی۔


میں جاؤں یا نہیں جاؤں۔ نہیں گئی تو وہ ناراض نہ ہو جائیں۔


اللہ جی کیا کروں۔


ایمان کشمکش میں تھی تبھی اس کا فون بجا۔


انجان نمبر سے کال آتی دیکھ اس نے اگنور کر دیا۔


مگر اس کے بعد آنے والے میسیج نے ایمان کو کال اٹھانے پہ مجبور کر دیا۔


ہیلو۔۔


ایمان نے مدھم آواز میں کہا۔


میری جان میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں آپ آرہی ہیں یا میں خود آجاؤں۔


ساحر کی آواز پہ اس کا دل تیزی سے دھڑ کنے لگا۔


نہیں آپ نہیں آئیں میں آتی ہوں۔


ایمان نے بہت مشکل سے کہا اور کال کاٹ دی۔


خود کو ایک نظر آئینے میں دیکھا اس نے منگنی والا ہی ڈریس پہنا ہوا تھا جو جگہ جگہ سے خراب ہو رہا تھا۔


اللہ میں ایسے کیسے جاؤں گی ان کے سامنے۔ پہلے چینج کر لیتی ہوں پھر جاؤں گی۔


ایمان نے اپنی وار ڈروب سے کپڑے نکالے اور شاور لینے چلی گئی

ریان مرحا کو کمرے میں چھوڑ کر اس کے لیے کھانا لینے گیا تو سمینہ بیگم کچن میں موجود تھیں۔

ما ما مر حا کے لیے کھانا چاہیے تھا اسے میڈیسن دینی ہے۔

ریان نے سمینہ بیگم کو مخاطب کیا تو وہ مسکرائیں۔

میں اس کے لیے ہی کھانا نکال رہی تھی۔