ہمزاد کا عشق
قسط نمبر ۱۱
ناول نگار؛ حمزہ یعقوب
کوشش کر لو، عمران! مگر یاد رکھو، میں اب صرف ایک سایہ نہیں... میں عالیہ کا جسم ہوں، میں اس کی سانس ہوں! اگر مجھے مارو گے، تو عالیہ کو بھی مرنا ہوگا!"
عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"نہیں... نہیں! یہ جھوٹ ہے!"
"یہی سچ ہے، عمران!"
عمران کے پاس وقت کم تھا۔ اگر وہ جلدی کچھ نہ کرتا تو عالیہ ہمیشہ کے لیے کھو سکتی تھی۔
اس نے جلدی سے جیب سے ایک دوسرا تعویذ نکالا۔
"یہ تمہیں ختم کر دے گا، اسد!"
عالیہ— یا جو اب عالیہ کے جسم میں تھا— وہ لمحے بھر کے لیے پیچھے ہٹا۔
"یہ ممکن نہیں! تم نے یہ تعویذ کہاں سے حاصل کیا؟"
"یہ وہ تعویذ ہے جو تمہیں عالیہ کے جسم سے باہر نکال دے گا!"
"تم جھوٹ بول رہے ہو، عمران! تم ایسا کچھ نہیں کر سکتے!"
"تم دیکھنا چاہتے ہو؟"
عمران نے تعویذ کھولا اور زور زور سے آیات پڑھنے لگا۔
"اللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ..."
عالیہ— یا اسد— نے ایک چیخ ماری۔
"رُک جاؤ! عمران، مت کرو!"
مگر عمران نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور آیات پڑھتا رہا۔
ہوا میں ارتعاش ہونے لگا۔ جیسے پورا کمرہ لرزنے لگا ہو۔ عالیہ نے چیخ ماری، مگر عمران نے آیات پڑھنا نہیں روکا۔
تبھی ایک دھماکے کی آواز آئی— اور عالیہ بےہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
عمران نے جلدی سے عالیہ کی نبض چیک کی۔ وہ زندہ تھی، مگر اس کی سانس بہت ہلکی ہو چکی تھی۔
"عالیہ؟ سن سکتی ہو؟"
کوئی جواب نہیں آیا۔
تبھی، دروازے کے قریب ایک سایہ ابھرا— اور دھیرے دھیرے دھند میں تحلیل ہونے لگا۔
"یہ ختم نہیں ہوا، عمران..." وہ سرگوشی سنائی دی۔
"میں واپس آؤں گا!"
عمران کی نظریں عالیہ کے بےجان وجود پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کی سانسیں ہلکی چل رہی تھیں، مگر وہ ہوش میں نہیں آئی تھی۔ پورے کمرے میں ایک غیر مرئی خوف تیر رہا تھا، جیسے ابھی کچھ اور ہونے والا ہو۔
عمران نے کانپتے ہاتھوں سے عالیہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھی، جیسے کوئی شدید جنگ لڑ کر بےحال ہو چکی ہو۔
"عالیہ؟ سن رہی ہو؟" عمران نے آہستہ سے پکارا۔
کوئی جواب نہیں آیا۔
تبھی، باہر ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا، کھڑکی کے پٹ زور سے کھل گئے، اور روشنی کے ہلکے سے جھماکے میں، کمرے میں ایک سایہ سا نظر آیا۔ عمران تیزی سے پلٹا، مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔
"یہ میرا وہم ہے... یا شاید کچھ اور؟" اس نے خود سے سرگوشی کی۔
چند لمحے بعد، عالیہ نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس کی نظریں دھندلی تھیں، جیسے وہ کسی خواب سے باہر آ رہی ہو۔
"عمران..." اس کی آواز سرگوشی جیسی تھی۔
عمران کے چہرے پر امید جاگی۔
"عالیہ! تم ٹھیک ہو؟"
عالیہ کی نظریں آہستہ آہستہ عمران کے چہرے پر مرکوز ہوئیں، مگر ان میں ایک عجیب سا خالی پن تھا۔
"یہ... یہ کہاں ہوں میں؟"
"تم محفوظ ہو، عالیہ! تم آزاد ہو گئی ہو!"
مگر عالیہ کی آنکھوں میں خوشی نہیں تھی۔ وہ کسی گہرے خلا میں دیکھ رہی تھی، جیسے اس کا دل کسی ان دیکھی تکلیف میں ڈوبا ہوا ہو۔
"آزاد؟" وہ مدھم آواز میں بولی، اور اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔
"مگر عمران... میں اسے محسوس کر رہی ہوں... وہ کہیں گیا نہیں!"
عمران نے گھبرا کر عالیہ کو دیکھا۔
"عالیہ، یہ تمہارا وہم ہے! میں نے خود اسد کو یہاں سے بھگایا تھا! میں نے تعویذ جلایا تھا، وہ ختم ہو گیا!"
مگر عالیہ نے سر ہلا دیا۔
"نہیں، عمران! وہ ابھی بھی یہیں ہے... وہ کہیں نہ کہیں چھپا ہوا ہے! میں اس کی موجودگی کو محسوس کر سکتی ہوں!"
عمران خاموش ہو گیا۔ اگرچہ وہ عالیہ کو تسلی دینا چاہتا تھا، مگر حقیقت یہ تھی کہ اسے بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے کوئی غیر مرئی آنکھ ان دونوں کو دیکھ رہی ہو، جیسے کمرے میں ہوا کا دباؤ بدستور برقرار ہو۔
"ہمیں یہاں سے جانا ہوگا، عالیہ! یہ جگہ اب محفوظ نہیں!" عمران نے فیصلہ کیا۔
مگر عالیہ وہیں بیٹھی رہی، نظریں زمین پر ٹکائے۔
"اگر وہ واپس آیا، تو کیا ہوگا، عمران؟ کیا ہم ہمیشہ بھاگتے رہیں گے؟"
"نہیں، عالیہ! ہم اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کریں گے! ہمیں کسی ایسے عامل یا روحانی عالم سے ملنا ہوگا جو اس کا حل جانتا ہو!"
اسی لمحے، دروازے پر آہستہ سے دستک ہوئی۔
دونوں نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا۔
"اس وقت کون ہو سکتا ہے؟" عمران نے دھیمی آواز میں کہا۔
دستک دوبارہ ہوئی، اس بار تھوڑی زور سے۔
عمران نے جھجکتے ہوئے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک باریش بوڑھا کھڑا تھا، جس کی آنکھیں عجیب سی چمک لیے ہوئے تھیں۔
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟" اس نے دھیمی مگر مضبوط آواز میں کہا۔
عمران کو ایک عجیب سا احساس ہوا، جیسے یہ بوڑھا ان سب حالات سے پہلے ہی واقف ہو۔
"آپ کون ہیں؟" عمران نے سوال کیا۔
بوڑھے نے آہستہ سے کہا:
"میں وہ ہوں جو تمہارے سوالوں کے جواب جانتا ہے... اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے پیچھے کون ہے!"
عالیہ نے خوفزدہ نظروں سے بوڑھے کو دیکھا۔
"کیا... کیا آپ واقعی اسد کو ختم کر سکتے ہیں؟"
بوڑھے نے گہری سانس لی۔
"ختم؟ نہیں! لیکن میں تمہیں وہ طریقہ بتا سکتا ہوں جس سے تم اس کی گرفت سے ہمیشہ کے لیے نکل سکو!"
بوڑھے کی گہری نظریں عمران اور عالیہ پر جمی ہوئی تھیں۔ کمرے میں صرف ہوا کے سرسراہٹ کی آواز تھی، جیسے وقت نے ایک لمحے کے لیے رک جانا ہو۔
عمران نے آخرکار خاموشی توڑی:
"آپ کون ہیں؟ اور آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟"
بوڑھے نے اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور دھیمی مگر مضبوط آواز میں کہا:
"مجھے قاری فہیم کہتے ہیں۔ میں تمہاری مدد کے لیے آیا ہوں!"
عالیہ کی آنکھوں میں امید اور خوف کا امتزاج تھا۔
"کیا آپ واقعی ہمیں اس عذاب سے نکال سکتے ہیں؟"
قاری فہیم نے ایک گہری سانس لی اور کہا:
"شیطانی ہمزاد کبھی آسانی سے نہیں چھوڑتے، بیٹی! تمہیں معلوم بھی نہیں کہ تمہارے ساتھ کیا ہو چکا ہے!"
عمران نے گھبرا کر پوچھا:
"کیا مطلب؟ عالیہ تو آزاد ہو چکی ہے، اسد تو جا چکا ہے!"
قاری فہیم نے عمران کی طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں کہا:
"تم یہ سمجھ رہے ہو کہ وہ چلا گیا، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے! وہ اب بھی تمہارے قریب ہے، مگر تمہیں دکھائی نہیں دے رہا!"
عالیہ کے جسم میں جھرجھری دوڑ گئی۔
"یہ کیسے ممکن ہے؟ میں نے اسے محسوس کیا تھا، وہ چلا گیا تھا!"
قاری فہیم نے سر ہلایا۔
"ہمزاد ایک بار کسی سے جُڑ جائیں تو یوں آسانی سے نہیں جاتے! تم نے بس اس کی جسمانی گرفت سے چھٹکارا پایا ہے، مگر اس کی روح تمہارے آس پاس ہے۔ وہ واپس آنے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے!"
عمران کا چہرہ زرد ہو گیا۔
"تو پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟"
قاری فہیم نے دروازے کی طرف دیکھا، جیسے کوئی غیر مرئی چیز وہاں کھڑی ہو۔
"تمہیں ایک فیصلہ کرنا ہوگا! اگر تم واقعی اسد کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتے ہو، تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے!"
"کون سا راستہ؟" عمران نے بےچینی سے پوچھا۔
قاری فہیم نے عالیہ کی طرف اشارہ کیا۔
"اسے خود اسد کا سامنا کرنا ہوگا!"
عالیہ کی سانس رک گئی۔
"کیا؟ میں... میں اسے کیسے سامنا کر سکتی ہوں؟ وہ تو مجھے مار ڈالے گا!"
"یہی تو تمہیں سمجھنا ہوگا، بیٹی! جب تک تم خود اس کے خلاف کھڑی نہیں ہو گی، وہ ہمیشہ تمہارے پیچھے رہے گا!"
عمران نے پریشانی سے عالیہ کی طرف دیکھا۔
"عالیہ، یہ بہت خطرناک ہے! اگر کچھ غلط ہو گیا تو..."
قاری فہیم نے سر ہلایا۔
"خطرہ تو ہے، مگر یہ واحد راستہ ہے! تمہیں ایک ایسا عمل کرنا ہوگا جس سے اسد کو ہمیشہ کے لیے قید کیا جا سکے!"
عالیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
"مگر وہ کہاں ہے؟ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ وہ ہمارے قریب ہے؟"
قاری فہیم نے شمع بجھا دی، اور پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
"اب تمہیں خود دیکھنا ہوگا!"
عالیہ اور عمران نے اپنی آنکھیں کھولیں اور چاروں طرف دیکھا۔
اور تب... اچانک ایک سرگوشی ہوا میں گونجی:
"تمہیں لگا تم مجھ سے بچ گئے ہو؟ عالیہ، تم میری ہو... ہمیشہ کے لیے!"
عالیہ کی آنکھوں میں خوف کی ایک لہر ابھری۔
"یہ... یہ کہاں سے بول رہا ہے؟"
"وہ تمہارے اندر بول رہا ہے، بیٹی!" قاری فہیم کی آواز سخت ہو گئی۔
"اب فیصلہ کرو! کیا تم اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو؟ یا ہمیشہ اس کی قید میں رہو گی؟"
عالیہ کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اندھیرے میں قاری فہیم کی گونجتی ہوئی آواز اور اسد کی سرگوشیاں جیسے اس کی روح تک سرایت کر گئی تھیں۔ وہ بےبس محسوس کر رہی تھی، جیسے کسی ان دیکھے شکنجے میں جکڑی جا چکی ہو۔
"تم مجھ سے دور جا سکتی ہو، مگر بچ نہیں سکتی..."
یہ سرگوشی نہیں تھی، یہ ایک وعدہ تھا۔ اسد کی آواز میں ایسی وحشت تھی کہ عالیہ نے بےاختیار اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
عمران نے اسے سہارا دینے کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"عالیہ! ہمت کرو! یہ سب تمہارا وہم ہے!"
"نہیں عمران!" قاری فہیم نے سخت لہجے میں کہا۔ "یہ وہم نہیں، حقیقت ہے! یہ شیطانی ہمزاد اپنی گرفت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں! مگر اب وقت آ گیا ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے!"
جاری ہے
0 Comments