ہمزاد کا عشق

قسط نمبر 12

راٸثر حمزہ یعقوب 

قاری فہیم نے اپنی تھیلی سے ایک پرانی کتاب نکالی، جس کے صفحات زرد ہو چکے تھے۔ اس نے کچھ پڑھنا شروع کیا، اور جیسے ہی اس کے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوئے، کمرے میں ایک غیر معمولی تبدیلی آ گئی۔


ہوا رک گئی تھی۔


دروازے کی درزوں سے سیاہ دھواں نکلنا شروع ہو گیا، جیسے کوئی مخلوق دیواروں کے پیچھے چھپی بیٹھی ہو۔


عمران نے عالیہ کی طرف دیکھا، جو کانپ رہی تھی۔


"یہ ہو کیا رہا ہے؟" عمران نے گھبرا کر پوچھا۔


"ہمزاد کو بےنقاب کیا جا رہا ہے!" قاری فہیم نے کتاب کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا۔


اچانک، عالیہ کی آنکھیں بدل گئیں۔ ان میں ایک گہری سیاہی ابھر آئی، جیسے کوئی اور اس کے اندر بس گیا ہو۔


"تم سب بےوقوف ہو... میں امر ہوں! کوئی مجھے ختم نہیں کر سکتا!"


یہ آواز عالیہ کی نہیں تھی۔


یہ اسد تھا!

عمران پیچھے ہٹ گیا۔


"عالیہ؟ عالیہ! ہوش میں آؤ!"


مگر عالیہ کی ہنسی کمرے میں گونج رہی تھی، اور وہ ہنسی نہیں تھی... وہ کسی چیز کی جیت کا اعلان تھا!


"میں کبھی نہیں جاؤں گا، عمران! تم جتنا چاہو مجھ سے لڑو، مگر عالیہ میری ہے! ہمیشہ میری رہے گی!"


قاری فہیم نے جلدی سے ایک مٹی کا کٹورا نکالا اور اس میں پانی بھر دیا۔


"عمران! جلدی کرو! عالیہ کو اس پانی میں جھانکنے دو!"


"کیوں؟ یہ کیا کرے گا؟"


"یہ اس کی روح کو جگا دے گا! اگر عالیہ نے اپنا سچ دیکھ لیا، تو وہ خود اسد کو باہر نکال پھینکے گی!"


مگر اسد نے قہقہہ لگایا۔


"بےکار کوششیں! عالیہ میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی!"

عمران نے ہمت جمع کی اور عالیہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے پانی کے قریب کیا۔


"عالیہ! دیکھو! یہ تمہاری حقیقت ہے!"


عالیہ کے اندر کہیں ایک ہلکی سی لرزش ہوئی۔


"نہیں! میں... میں کہاں ہوں؟"


"تم قید ہو، عالیہ! مگر تمہیں خود کو آزاد کرنا ہوگا!"


عالیہ کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے روشنی چمکی۔


"عالیہ! مت سنو اسد کی بات! وہ تمہیں قید رکھنا چاہتا ہے!" عمران کی آواز گونج رہی تھی۔


اسد غصے سے چیخا۔


"خاموش ہو جاؤ! عالیہ، تم میری ہو!"


مگر عالیہ کے اندر کچھ بدل رہا تھا۔


"نہیں... میں تمہاری نہیں ہوں!"


اور اسی لمحے، عالیہ نے پوری طاقت سے اپنا ہاتھ جھٹکا، اور جیسے ہی اس نے پانی میں جھانکا، اس کی چیخ پورے کمرے میں گونج گئی!

عالیہ کی چیخ جیسے پورے کمرے میں گونج گئی۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا، آنکھیں کھلی تھیں مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کہیں اور دیکھ رہی ہو، کسی اور دنیا میں… کسی اور حقیقت میں۔


قاری فہیم نے فوراً پانی کے پیالے پر کچھ پڑھنا شروع کیا۔ دھواں سا اٹھنے لگا، جیسے کمرے کی دیواروں سے کوئی سایہ جھڑنے لگا ہو۔


"نہیں! نہیں!"


یہ اسد کی آواز تھی!


"میں عالیہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا! وہ میری ہے! میری!"


عالیہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ وہ اپنا سر پکڑ کر زمین پر گر گئی۔ عمران نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر جیسے ہی اس نے عالیہ کو چھوا، ایک تیز جھٹکا لگا اور وہ پیچھے جا گرا۔

قاری فہیم نے نظریں اٹھائیں۔


"یہ ہمزاد کمزور ہو رہا ہے! عالیہ کو بس ایک آخری قدم اٹھانا ہوگا!"


"کیا کرنا ہوگا؟" عمران نے جلدی سے پوچھا۔


"عالیہ کو خود اسد کو مسترد کرنا ہوگا! جب تک وہ خود نہیں کہے گی کہ وہ اس کے عشق کو قبول نہیں کرتی، اسد کہیں نہیں جائے گا!"

عالیہ زمین پر بیٹھی کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک الجھن تھی، جیسے کوئی بہت بڑی کشمکش اس کے اندر جاری ہو۔


"عالیہ، سنو! تمہیں بولنا ہوگا! کہو کہ تم اسد کی نہیں ہو!" قاری فہیم کی آواز میں سختی تھی۔


مگر عالیہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔


"میں... میں نہیں کہہ سکتی..."


"کیوں؟ عالیہ! یہ تمہاری زندگی کا سوال ہے!" عمران چلایا۔


عالیہ نے نم آنکھوں سے عمران کو دیکھا اور سرگوشی کی:


"کیونکہ... میں نے اسد کو کبھی نفرت سے نہیں دیکھا!"


کمرے میں جیسے ایک دھماکا سا ہوا۔ دیواروں سے سیاہ دھواں لپٹ گیا، اور اچانک ہی ایک سایہ سامنے آ کھڑا ہوا۔


اسد!


اس کا چہرہ پہلے سے زیادہ خوفناک، زیادہ وحشی لگ رہا تھا، مگر آنکھوں میں ایک عجیب سا درد تھا۔


"دیکھا؟ عالیہ مجھ سے نفرت نہیں کر سکتی!" اسد نے فاتحانہ قہقہہ لگایا۔


مگر عالیہ کی آنکھیں اب بدل چکی تھیں۔ وہ خوفزدہ نہیں تھی۔


"ہاں، میں تم سے نفرت نہیں کر سکتی اسد... مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں!"


اسد کا چہرہ ایک دم زرد پڑ گیا۔


*"کیا؟"


"محبت وہ ہوتی ہے جو آزادی دیتی ہے، قید نہیں کرتی! تمہارا عشق محبت نہیں تھا... تمہاری ضد تھی، تمہارا غرور تھا!"


"نہیں! یہ جھوٹ ہے!" اسد کی آواز گرجی۔


"نہیں! یہ سچ ہے، اسد!" عالیہ کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔


"میں تمہیں اختیار نہیں دیتی! میں تمہیں خود سے دور کرتی ہوں!"


اسد کی چیخ فضا میں گونجی۔


"نہیں! عالیہ! تم ایسا نہیں کر سکتی! تم میری ہو!"


مگر اس بار عالیہ کی آنکھوں میں صرف مضبوطی تھی۔


"نہیں، اسد! میں آزاد ہوں!"

قاری فہیم نے فوراً پانی کے پیالے میں کچھ اور پڑھا، اور جیسے ہی عالیہ نے اپنی آنکھیں بند کیں، ایک زوردار جھٹکا لگا۔ کمرے کی کھڑکیاں زور سے بند ہو گئیں، روشنی تیز ہو گئی، اور ایک چیخ ہوا میں گونجی…


"نہیں!!!"


اسد کا سایہ چیختا ہوا دیواروں میں گھلنے لگا، جیسے کوئی چیز اسے کھینچ رہی ہو۔ وہ ہاتھ پھیلا کر عالیہ کی طرف بڑھا، مگر وہ پیچھے ہٹ گئی۔


"خدا حافظ، اسد!" عالیہ نے آخری بار سرگوشی کی۔


اور پھر... سب کچھ خاموش ہو گیا!


دیواریں اپنی جگہ پر واپس آ گئیں، کمرے کی فضا نارمل ہو گئی۔


قاری فہیم نے گہری سانس لی۔


"کام ہو گیا!"

کمرے میں موت جیسی خاموشی چھا گئی تھی۔ عالیہ فرش پر بیٹھے کانپ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں تھکن اور خوف کا امتزاج تھا۔ قاری فہیم نے تسبیح گھمائی اور لمبی سانس لی۔


"ہمزاد کی گرفت ٹوٹ چکی ہے۔"


عمران نے عالیہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔


"تم ٹھیک ہو؟"


عالیہ نے سر ہلایا، مگر اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔ جیسے کوئی چیز اب بھی اندر چھپی بیٹھی ہو، کوئی ان دیکھا خوف۔


"مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے... جیسے وہ اب بھی مجھے دیکھ رہا ہو۔" اس کی آواز سرگوشی سے بھی ہلکی تھی۔


قاری فہیم نے تیز نظروں سے عالیہ کو دیکھا۔


"یہ صرف وہم ہے۔ تم اب آزاد ہو، عالیہ!"


مگر عمران کو کچھ عجیب سا احساس ہوا۔


"قاری صاحب، اگر واقعی ہمزاد ختم ہو چکا ہے، تو کمرے کی روشنی اب تک مدھم کیوں ہے؟ اور یہ سردی کیوں بڑھ رہی ہے؟"

قاری فہیم ایک لمحے کو خاموش رہا، پھر اس نے زمین پر بکھرے پانی کو دیکھا۔ پانی کی سطح پر ہلکا سا ارتعاش تھا، جیسے کوئی نادیدہ قوت اسے چھو رہی ہو۔


"یا اللہ خیر..." قاری فہیم نے آہستہ سے کہا۔


"کیا ہوا؟" عمران نے پوچھا۔


"ہمزاد گیا نہیں... وہ چھپ گیا ہے!"


عالیہ کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔


"مگر میں نے تو خود اسے مسترد کر دیا تھا! میں نے کہا تھا کہ میں اس کی نہیں ہوں!"


"ہاں، تم نے کہا تھا۔ مگر ایک ہمزاد کو مکمل ختم کرنے کے لیے صرف زبانی انکار کافی نہیں ہوتا... اسے مکمل طور پر بےدخل کرنا پڑتا ہے!"


"کیا مطلب؟" عمران نے جلدی سے پوچھا۔


قاری فہیم نے گہری سانس لی۔


"اسد تمہارے دل میں نہیں رہا، مگر اس نے کہیں اور پناہ لے لی ہے! وہ ابھی بھی اس دنیا میں موجود ہے... اور وہ واپس آنے کی کوشش کرے گا!"

 جاری ہے