ہمزاد کا عشق 

قسط نمبر 13

راٸٹر حمزہ یعقوب

عمران نے بےچینی سے اردگرد دیکھا۔


"تو پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اسے ہمیشہ کے لیے کیسے ختم کیا جائے؟"


قاری فہیم نے زمین پر ایک دائرہ کھینچا اور کچھ پڑھنا شروع کیا۔


"ہمیں معلوم کرنا ہوگا کہ وہ کہاں چھپا ہے... اور اگر وہ کسی اور جگہ منتقل ہو چکا ہے، تو وہ اب کس شکل میں ہے؟"


عالیہ نے خوفزدہ نظروں سے عمران کو دیکھا۔


"اگر وہ کسی اور میں داخل ہو گیا تو؟ اگر وہ کسی اور کی زندگی برباد کرنے والا ہے؟"


قاری فہیم نے نظریں جھکا لیں۔


"یہی سب سے بڑا خوف ہے، عالیہ!"


اتنے میں، دروازے کے باہر ایک تیز دستک ہوئی۔


تین بار…


پھر خاموشی!


عمران نے جھجھک کر دروازے کی طرف دیکھا۔


"اتنی رات گئے کون آ سکتا ہے؟"


قاری فہیم نے عالیہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے دروازے کے قریب گیا۔


"کون ہے؟"


کوئی جواب نہیں آیا۔


مگر دروازے کی درز کے نیچے ایک سایہ نظر آیا۔


اور پھر…


ایک مانوس آواز!


"عالیہ… دروازہ کھولو… تم نے مجھے مسترد کر دیا، مگر میں لوٹ آیا ہوں!"

کمرے میں سناٹا تھا۔ عالیہ کی آنکھیں خوف سے دروازے کی درز کے نیچے پڑنے والے سائے پر جمی ہوئی تھیں۔ عمران نے بےچینی سے قاری فہیم کی طرف دیکھا، جو کچھ پڑھتے ہوئے دروازے کے قریب پہنچ چکے تھے۔


"کون ہے؟" قاری فہیم کی آواز مضبوط تھی، مگر دروازے کے پیچھے کوئی جواب نہیں آیا۔


"عالیہ... دروازہ کھولو... تم نے مجھے مسترد کر دیا، مگر میں لوٹ آیا ہوں!"


یہ آواز بالکل اسد کی تھی!


عالیہ کی سانسیں رکنے لگیں۔


"یہ ناممکن ہے... یہ ناممکن ہے!" وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگی۔


"یہ وہم بھی ہو سکتا ہے، مگر ہمیں محتاط رہنا ہوگا!" قاری فہیم نے دروازے پر سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر دم کیا، پھر آہستہ سے دروازہ کھولا۔

دروازہ کھلتے ہی باہر کا اندھیرا اندر داخل ہونے لگا۔ ہلکی سی ٹھنڈی ہوا چلی، مگر دروازے کے باہر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔


"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ابھی تو کسی نے آواز دی تھی!" عمران نے حیرانی سے کہا۔


قاری فہیم نے زمین کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولے:


"یہ صرف ایک فریب تھا، یا شاید کوئی ہمارے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔"


"مگر یہ اسد کی آواز تھی! میں نے خود سنی تھی!" عالیہ کی آنکھوں میں خوف اب بھی برقرار تھا۔


"ہمزاد آسانی سے واپس نہیں جاتے، عالیہ!" قاری فہیم نے دھیرے سے کہا۔


"تو کیا اسد ابھی بھی یہیں ہے؟" عمران نے سوال کیا۔


"یہی جاننا ہوگا!" قاری فہیم نے عالیہ کو دیکھا۔


"ہمیں تمہارا ایک آخری امتحان لینا ہوگا، عالیہ!"

عالیہ کو لگا جیسے ہوا اچانک مزید بوجھل ہو گئی ہو۔


"کیسا امتحان؟"


"ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اسد اب بھی تمہاری روح سے جڑا ہے یا نہیں۔ اس کے لیے ہمیں خواب کی دنیا میں جانا ہوگا!"


"کیا؟ خواب کی دنیا میں؟" عمران حیران رہ گیا۔


"جی ہاں۔ ہمزاد صرف جسم سے نہیں جُڑتا، وہ روح کی تہوں میں چھپ جاتا ہے۔ اگر اسد اب بھی کہیں ہے، تو وہ تمہارے خوابوں میں ظاہر ہوگا۔ ہمیں اس کا سامنا وہاں کرنا ہوگا!"


عالیہ نے خوفزدہ نظروں سے قاری فہیم کو دیکھا۔


"کیا ہوگا اگر وہ اب بھی طاقتور ہوا؟ اگر وہ مجھے دوبارہ قابو میں لے لے؟"


"اسی لیے میں اور عمران تمہارے ساتھ ہوں گے۔ مگر یاد رکھو، خواب میں اگر تم نے ایک لمحے کے لیے بھی کمزوری دکھائی، تو اسد تمہیں پھر سے اپنی گرفت میں لے سکتا ہے!"

قاری فہیم نے ایک خاص وظیفہ پڑھا، اور عالیہ اور عمران کو ایک دائرے میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


"آنکھیں بند کرو... اور جو بھی ہو، گھبرانا مت!"


عالیہ اور عمران نے آنکھیں بند کیں۔


تھوڑی دیر کے بعد…


ہر چیز بدل گئی!

عالیہ نے خود کو ایک وسیع، ویران صحرا میں کھڑے پایا۔ ہر طرف دھند ہی دھند تھی، جیسے یہ کوئی پرانی، بھولی بسری جگہ ہو۔


"عمران؟ قاری صاحب؟" اس نے آواز دی، مگر کوئی جواب نہ آیا۔


پھر، اچانک…


ایک آواز گونجی۔


"تم نے سوچا تھا کہ مجھ سے جان چھوٹ گئی، عالیہ؟"


عالیہ کا سانس رک گیا۔


سامنے، دھند سے نکل کر ایک سایہ نمودار ہوا۔


اسد!


مگر اس بار اس کا چہرہ اور زیادہ خوفناک تھا، آنکھیں سرخ، اور چہرے پر وحشیانہ مسکراہٹ۔


"تم نے مجھے دھوکہ دیا، عالیہ! مگر تم میری ہو! ہمیشہ کے لیے!"

عالیہ کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ اسد کی سرخ آنکھیں اسے جکڑ رہی تھیں، جیسے وہ اس کی روح میں اتر رہا ہو۔ وہ پیچھے ہٹنا چاہتی تھی، مگر اس کے پاؤں زمین میں جکڑے جا چکے تھے۔


"میں تم سے کہہ چکی ہوں، اسد! میں تم سے محبت نہیں کرتی!" عالیہ نے لرزتی آواز میں کہا۔


اسد نے ایک زہریلی ہنسی ہنسی۔


"محبت؟ عالیہ، یہ محبت نہیں، تم میری ملکیت ہو! تمہاری روح پر صرف میرا حق ہے!"


"نہیں!" عالیہ نے زور سے آنکھیں بند کر لیں، جیسے وہ اس کا وجود مٹانا چاہتی ہو۔


مگر جب اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو منظر بدل چکا تھا۔


وہ ایک پرانی، سنسان حویلی میں کھڑی تھی۔ ہر طرف ٹوٹے دروازے، بوسیدہ دیواریں، اور ایک ہلکی زرد روشنی۔


اور سامنے…


اسد ایک کرسی پر بیٹھا تھا، بڑے اطمینان سے، جیسے وہ اسی کا راج ہو۔


"تمہیں پتہ ہے، عالیہ؟ خواب میں وقت رک جاتا ہے۔ یہاں کوئی تمہیں بچانے نہیں آئے گا!"

ادھر حقیقت کی دنیا میں، عمران اور قاری فہیم عالیہ کے قریب بیٹھے تھے۔ عالیہ کا جسم بے حس پڑا تھا، اس کی سانسیں بے ترتیب تھیں، جیسے کسی گہرے بوجھ تلے دبی ہو۔


"یہ اچھا نہیں ہو رہا، قاری صاحب! عالیہ پھنس چکی ہے!" عمران گھبرا گیا۔


قاری فہیم کی پیشانی پر پسینہ نمودار ہوا۔


"ہمیں اسے فوراً نکالنا ہوگا! مگر اگر ہم نے کوئی غلطی کی، تو وہ ہمیشہ کے لیے اس جال میں پھنس جائے گی!"


"تو پھر کیا کریں؟"


قاری فہیم نے جلدی سے کچھ پڑھنا شروع کیا اور عالیہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔


"عالیہ! سنو! یہ خواب تمہارا نہیں، یہ تمہارے دشمن کا بچھایا جال ہے! باہر نکلو!"


مگر عالیہ تک ان کی آواز نہیں پہنچ رہی تھی۔

عالیہ نے اپنے اردگرد دیکھا۔


"یہ سب جھوٹ ہے! یہ سب ایک فریب ہے!" اس نے خود کو یقین دلانے کی کوشش کی۔


"واقعی؟ تو پھر دیکھو، یہ فریب ہے یا حقیقت!" اسد نے ہاتھ گھمایا، اور اچانک…


حویلی کی دیواروں پر دھندلی شبیہیں نمودار ہونے لگیں۔ عالیہ نے آنکھیں پھیلا دیں۔


یہ سب اس کے ماضی کی یادیں تھیں!


ایک چھوٹی بچی، جو بارش میں بھیگ رہی تھی، بھوکی، تنہا…


ایک نوجوان لڑکی، جو گلی کے کسی کونے میں بیٹھی رو رہی تھی…


ایک لڑکی، جس کے خواب چکناچور ہو چکے تھے…


"یہ سب تمہاری کہانی ہے، عالیہ! تم ہمیشہ تنہا رہی ہو، اور جب میں آیا، تمہیں اپنانے کے لیے، تم نے مجھے مسترد کر دیا!"


"یہ… یہ جھوٹ ہے!" عالیہ نے چیخ کر کہا۔


"کیا واقعی؟ اگر یہ جھوٹ ہوتا، تو تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟"


عالیہ نے اپنی انگلیوں کو چھوا…


اس کی ہتھیلیاں بھیگ چکی تھیں!


"نہیں… میں دوبارہ اس دھوکے میں نہیں آؤں گی!"


اسد کی آنکھوں میں غصے کی لپک آئی۔


"تمہیں آنا ہوگا، عالیہ! کیونکہ میں تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گا!"

جاری ہے

ایک ریکوسٹ پلیز یار جو لوگ کاپی کریں میرا نام نہ ختم کیا جاۓ آپ شٸر۔کریں جتنے مرضی گوپس میں لکین میرے نام کے ساتھ میرا حمزہ یعقوب ہے اور میں ظفروال ضلع نارووال کا رہاٸشی ہوں۔



جاری ہے