Hamzad ka ishq - Last Episode

ہمزاد کا عشق

آخری قسط 

راٸٹر حمزہ یعقوب

قاری فہیم نے ایک آخری حربہ آزمایا۔ اس نے اپنی تسبیح کو مضبوطی سے پکڑا اور اونچی آواز میں ایک دعا پڑھنی شروع کی۔


عالیہ کے جسم میں جھٹکا سا لگا۔


خواب میں، اسد نے ایک دم چونک کر پیچھے دیکھا۔


"یہ کیا ہو رہا ہے؟"


زمین ہلنے لگی، جیسے خواب خود ٹوٹنے والا ہو۔


"نہیں… نہیں، یہ ممکن نہیں!"


عالیہ نے موقع غنیمت جانا اور پوری طاقت سے چیخ کر کہا:


"یہ خواب میرا نہیں ہے، اور میں یہاں مزید نہیں رکوں گی!"


ایک تیز روشنی پھیلی، اور عالیہ کو لگا جیسے کسی نے اسے کسی غار سے باہر کھینچ لیا ہو۔


اچانک، اس کی آنکھیں کھل گئیں!

عالیہ نے زور سے سانس لی، جیسے وہ کسی گہرے پانی سے باہر آئی ہو۔


"تم ٹھیک ہو؟" عمران نے فوراً پوچھا۔


عالیہ نے سر ہلایا، مگر اس کی آنکھوں میں اب بھی خوف تھا۔


"میں نے اسے وہاں چھوڑ دیا، قاری صاحب! میں نے اسد کو خواب میں قید کر دیا!"


قاری فہیم نے ایک گہری سانس لی۔


"یہ اچھی خبر ہے، مگر یاد رکھو، ہمزاد کو ہمیشہ کے لیے قید کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر کسی نے غلطی کی، تو وہ پھر آزاد ہو سکتا ہے!"


عالیہ نے عمران کی طرف دیکھا۔


"تو کیا سب ختم ہو گیا؟" عمران نے آہستہ سے پوچھا۔


قاری فہیم نے دور خلا میں دیکھا، جیسے وہ کسی چیز کو محسوس کر رہے ہوں۔


"شاید نہیں، عمران… شاید نہیں!"

عالیہ کی آنکھوں میں نیند کی سرخی تھی، مگر دل کسی ان دیکھے خوف میں پھنسا ہوا تھا۔ اسد کو خواب کی دنیا میں قید کیے کئی دن ہو چکے تھے، مگر وہ اب بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔


"تم کچھ پریشان لگ رہی ہو، عالیہ۔" عمران نے کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔


"پریشانی کی کوئی بات نہیں، بس کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے… جیسے کچھ ہونے والا ہے۔" عالیہ نے آہستہ سے کہا۔


عمران نے اس کی بات کو سنجیدگی سے لیا۔


"قاری فہیم کہتے ہیں کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، مگر… میں بھی مطمئن نہیں ہوں، عالیہ! جیسے کوئی چیز چھپی بیٹھی ہو، جو کسی لمحے باہر آئے گی۔"


عالیہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔

رات کے دوسرے پہر، عالیہ نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی کہ اچانک ایک سرگوشی نے اسے جگا دیا۔


"عالیہ..."


یہ آواز کسی دور دراز گلی سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔


اس نے آنکھیں کھولیں، مگر کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ عمران قریب ہی سو رہا تھا، اس کی سانسوں کی آواز ہلکی ہلکی سنائی دے رہی تھی۔


"یہ میرا وہم ہے… یا کچھ اور؟" عالیہ نے خود کو تسلی دی، مگر اگلے ہی لمحے…


کھڑکی پر کوئی سایہ لہرا گیا!


عالیہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔


"یہ ممکن نہیں! میں نے اسد کو قید کر دیا تھا!"


مگر پھر سرگوشی دوبارہ سنائی دی۔


"تم نے جو دیکھا، وہ سچ نہیں تھا، عالیہ… میں کہیں نہیں گیا!"


عالیہ نے جھٹکے سے کمبل کھینچ کر خود کو ڈھانپ لیا۔


"یہ خواب ہے… بس خواب!" وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی، مگر کھڑکی پر وہ سایہ اب مزید واضح ہو چکا تھا۔

صبح ہوتے ہی عالیہ اور عمران قاری فہیم کے پاس پہنچے۔


"آپ نے کہا تھا کہ سب ختم ہو چکا ہے، مگر کل رات میں نے اسد کی آواز سنی، میں نے اس کی موجودگی کو محسوس کیا!" عالیہ نے بےچینی سے کہا۔


قاری فہیم گہری سوچ میں پڑ گئے۔


"میں نے بھی کل رات کچھ عجیب سا محسوس کیا تھا… جیسے کوئی بند دروازہ دوبارہ کھلنے کی کوشش کر رہا ہو۔"


"مگر اسد خواب میں قید ہو چکا تھا، پھر وہ واپس کیسے آ سکتا ہے؟" عمران نے الجھن سے پوچھا۔


قاری فہیم نے تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے کہا:


"ہمزاد کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا، عمران! وہ جس سے جُڑ جاتا ہے، اس کی روح کے ساتھ ہی پروان چڑھتا ہے۔ اگر وہ اب بھی عالیہ سے جُڑا ہوا ہے، تو شاید… وہ کسی اور شکل میں واپس آ رہا ہے!"


عالیہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔


"کیا مطلب؟ کیا وہ اب بھی میرے اندر ہے؟"


"یہی جاننے کے لیے ہمیں ایک اور طریقہ آزمانا ہوگا!"

قاری فہیم نے ایک آئینہ نکالا اور اسے عالیہ کے سامنے رکھ دیا۔


"عالیہ، اس آئینے میں دیکھو اور سورۃ الاخلاص پڑھو!"


عالیہ نے گھبرا کر آئینے میں دیکھا۔


شروع میں سب کچھ نارمل تھا، مگر جیسے ہی اس نے سورۃ الاخلاص پڑھنی شروع کی…


اس کا عکس دھندلانے لگا!


"یہ… یہ کیا ہو رہا ہے؟" عالیہ کی آواز لرز گئی۔


اچانک آئینے میں اسد کا چہرہ نمودار ہوا!


"میں نے کہا تھا ناں، عالیہ… میں کہیں نہیں گیا!"


عالیہ نے گھبرا کر پیچھے ہٹنا چاہا، مگر اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔


"یہ کیسے ممکن ہے؟ اسد تو خواب میں قید ہو چکا تھا!" عمران نے حیرت سے کہا۔


"نہیں، عمران! ہمزاد کو خواب میں قید کیا جا سکتا ہے، مگر وہ اگر جسم کے اندر چھپ گیا ہو… تو؟" قاری فہیم کی آواز سنجیدہ تھی۔


عالیہ نے سانس روک لی۔


"کیا مطلب؟ کیا اسد… میرے اندر ہے؟"


قاری فہیم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


"یہی خوفناک حقیقت ہے، عالیہ! اسد ابھی بھی تمہارے اندر کہیں موجود ہے، اور اگر ہم نے جلدی کچھ نہ کیا، تو وہ دوبارہ قابو پا لے گا!"

عالیہ کا جسم پسینے میں بھیگ چکا تھا، ہاتھ لرز رہے تھے اور سانسیں بے ترتیب ہو چکی تھیں۔ وہ قاری فہیم کی بات سن کر جیسے سن ہو گئی تھی۔


"یہ ممکن نہیں! میں نے خود دیکھا تھا کہ وہ قید ہو چکا ہے… میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ ختم ہو چکا ہے!"


"ہمزاد ہمیشہ اپنے وجود کے لیے ایک راستہ رکھتا ہے، عالیہ!" قاری فہیم کی آواز میں سنجیدگی تھی۔


عمران نے عالیہ کے قریب آ کر اس کا ہاتھ تھاما۔


"ہم اسد کو نکالنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور ڈھونڈیں گے۔"


قاری فہیم نے موم بتی جلائی اور زمین پر ایک دائرہ کھینچ دیا۔


"عالیہ، تمہیں اس دائرے کے اندر بیٹھنا ہوگا، اور جو کچھ بھی ہو… باہر مت نکلنا!"


عالیہ نے عمران کی طرف دیکھا، جیسے وہ اس سے تصدیق چاہ رہی ہو۔ عمران نے سر ہلایا۔


عالیہ نے گہرے سانس لیے اور دائرے کے اندر بیٹھ گئی۔


قاری فہیم نے آنکھیں بند کیں اور زیرِ لب کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔

عالیہ کی آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی۔


"عالیہ..."


وہی مانوس سرگوشی۔


"میں تمہارے بغیر ادھورا ہوں، عالیہ… تم نے مجھے دھوکہ دیا، مگر میں پھر بھی تمہیں چھوڑ نہیں سکتا!"


عالیہ نے سر جھٹک دیا۔


"نہیں! تم میرا وہم ہو!"


"ہاہاہا! میں تمہارے اندر دھڑکن کی طرح دھڑک رہا ہوں، عالیہ… اگر تم مجھے نکالنا چاہتی ہو، تو خود کو مارنا ہوگا!"


عالیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


"نہیں… نہیں… میں ایسا نہیں کر سکتی!"


"تو پھر مجھے قبول کر لو! میں ہمیشہ کے لیے تمہارا ہوں!"

اچانک عالیہ نے چیخ ماری۔


"رکو!"


قاری فہیم نے آنکھیں کھولیں۔


"یہ وقت آ گیا ہے، عمران! عالیہ کو سنبھالو!"


عمران نے آگے بڑھ کر عالیہ کو پکڑنا چاہا، مگر ایک جھٹکے سے وہ پیچھے جا گرا۔ عالیہ کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔


"اب بہت دیر ہو چکی ہے، قاری صاحب!" اسد کی آواز عالیہ کے اندر سے گونجی۔


"تم باہر نہیں آ سکتے، اسد! ہم تمہیں ختم کر دیں گے!" قاری فہیم نے سخت لہجے میں کہا۔


"میں پہلے ہی باہر آ چکا ہوں!"


عمران نے ہمت کر کے عالیہ کا چہرہ دیکھا، اور جو دیکھا… اس نے اس کا خون جما دیا۔


عالیہ کی آنکھیں بالکل سیاہ ہو چکی تھیں، جیسے وہاں روشنی کا نام و نشان نہ ہو!


"یااللہ! یہ کیا ہو رہا ہے؟" عمران نے ہکلایا۔


"یہ اسد کی آخری کوشش ہے، عمران! ہمیں جلدی کرنی ہوگی!" قاری فہیم نے قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔


عالیہ نے تڑپنا شروع کر دیا، جیسے کوئی اندر سے اس کی روح کو کھینچ رہا ہو۔


"نہیں… مجھے جانے مت دو… میں عالیہ کے بغیر مر جاؤں گا!" اسد کی چیخیں گونجنے لگیں۔


اچانک عالیہ کی آنکھوں سے خون بہنے لگا۔


"عالیہ! عالیہ! سنبھالو خود کو!" عمران نے چیخ کر کہا۔

قاری فہیم نے پانی پر کچھ پڑھ کر عالیہ کے چہرے پر چھڑکا۔


"لا الہ الا اللہ!"


اچانک عالیہ نے ایک زور دار چیخ ماری، اور اس کے جسم سے سیاہ دھواں نکلنے لگا!


"نہیں! میں مرنا نہیں چاہتا!"


"اب تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں، اسد!" قاری فہیم نے پانی مزید چھڑکا۔


اسد کی چیخیں بلند سے بلند تر ہوتی گئیں… اور پھر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ سب کچھ خاموش ہو گیا۔

کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ عالیہ زمین پر بے حس و حرکت پڑی تھی۔ اس کی سانسیں بے ترتیب تھیں، اور چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ عمران نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔


"قاری صاحب… عالیہ ٹھیک تو ہے، نا؟" عمران کی آواز میں بے چینی واضح تھی۔


قاری فہیم نے عالیہ کی نبض چیک کی اور کچھ پڑھ کر اس کے ماتھے پر پھونک ماری۔


"یہ ابھی خطرے سے باہر نہیں ہے۔ مگر اگر رات تک اس نے آنکھیں نہ کھولیں، تو…" قاری فہیم نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔


عمران نے بے چینی سے عالیہ کے ہاتھ کو تھاما۔


"نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! عالیہ کو کچھ نہیں ہوگا!"


"ہم نے اسد کو نکال دیا ہے، عمران، مگر کیا تمہیں لگتا ہے کہ وہ اتنی آسانی سے ہار مان جائے گا؟" قاری فہیم کی آنکھوں میں ایک عجیب سی سنجیدگی تھی۔


"آپ کا مطلب؟ اسد تو ختم ہو چکا ہے، نا؟"


قاری فہیم نے ایک گہری سانس لی۔


"یہی تو مسئلہ ہے… مجھے لگتا ہے کہ ہمزاد مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا، بلکہ کہیں اور جا چکا ہے!"

عالیہ کے جسم میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ عمران نے فوراً اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔


"عالیہ! تمہیں ہوش آ رہا ہے؟"


عالیہ نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی، مگر جیسے اس کے پلکوں پر بوجھ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں کھل گئیں، اور وہ حیرت سے چاروں طرف دیکھنے لگی۔


"یہ… میں کہاں ہوں؟" عالیہ کی آواز دھیمی اور کمزور تھی۔


"تم محفوظ ہو، عالیہ! ہم نے اسد کو ختم کر دیا!" عمران کی آواز میں خوشی تھی۔


مگر عالیہ کی آنکھوں میں کچھ عجیب سا تاثر تھا۔ جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو، جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو۔


"کیا واقعی؟… اسد ختم ہو چکا ہے؟" عالیہ نے سرگوشی کی۔


قاری فہیم نے اس کی طرف دیکھا۔


"کیوں، عالیہ؟ تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ ختم نہیں ہوا؟"


عالیہ نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سے بولی،


"کیونکہ میں اسے محسوس کر رہی ہوں!"

کمرے میں ایک پل کے لیے سناٹا چھا گیا۔ عمران نے بے یقینی سے عالیہ کو دیکھا۔


"یہ ناممکن ہے، عالیہ! ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ راکھ میں بدل گیا تھا!"


عالیہ نے آنکھیں بند کر لیں، جیسے کچھ محسوس کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔


"نہیں، عمران… وہ راکھ میں نہیں بدلا… وہ کہیں اور چلا گیا ہے!"


قاری فہیم کی آنکھوں میں تشویش ابھری۔


"کہیں اور؟ تمہیں کیسے پتہ؟"


عالیہ نے دھیرے سے سر اٹھایا اور عمران کی آنکھوں میں جھانکا۔


"کیونکہ… وہ اب بھی مجھے بلا رہا ہے!"

رات کے اندھیرے میں عالیہ جاگ گئی۔ وہ پسینے میں شرابور تھی، دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔


"یہ… خواب تھا؟ یا… حقیقت؟"


وہ آہستہ سے بستر سے اتری اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔


"اگر وہ واقعی ختم ہو گیا ہے، تو پھر مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ میرے اندر ہی کہیں چھپا ہوا ہے؟"


وہ آئینے میں اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ اور پھر… اچانک…


آئینے میں اس کی اپنی آنکھیں نہیں تھیں۔ وہ کسی اور کی آنکھیں تھیں… سیاہ، گہری، اور وحشت سے بھری ہوئی!


اسد کی آنکھیں!


عالیہ کے ہونٹوں پر ایک عجیب مسکراہٹ پھیل گئی…

عالیہ کے چہرے پر وہی مسکراہٹ جمی رہی، جو کسی اور کی لگ رہی تھی۔ آئینے میں اسد کی آنکھیں چمک رہی تھیں، اور عالیہ کو ایسا لگا جیسے وہ خود سے بات کر رہی ہو، مگر حقیقت میں کوئی اور اس کے اندر بسا ہوا تھا۔


"تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے جان چھڑا چکے ہو، عمران؟" عالیہ نے دھیمی، مگر پرسرار آواز میں کہا۔


وہ فوراً پیچھے ہٹی، اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھوا، جیسے یقین نہ آ رہا ہو۔


"یہ… یہ کیا ہو رہا ہے؟" عالیہ کی سانسیں تیز ہو گئیں۔


"تم میری ہو، عالیہ!" آئینے میں اسد کی آواز گونجی۔


عالیہ کے پیروں تلے زمین نکلنے لگی۔ اسے احساس ہو گیا کہ اسد ختم نہیں ہوا تھا، وہ کہیں اور نہیں گیا تھا… وہ اس کے اندر ہی کہیں چھپا تھا!

عالیہ کے اندر ایک جنگ چھڑ چکی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسد کے زیر اثر آئے، مگر اس کے دل کی دھڑکنیں اس کے کنٹرول میں نہیں تھیں۔


عین اسی وقت، دروازہ کھلا اور عمران اندر آیا۔


"عالیہ؟ تم ٹھیک ہو؟"


عالیہ نے بمشکل خود کو سنبھالا اور زبردستی مسکرائی۔


"ہاں… میں ٹھیک ہوں!"


مگر عمران کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ عالیہ کی آنکھوں میں ایک عجیب وحشت تھی، جیسے وہ خود نہ ہو، جیسے کوئی اور اسے اندر سے قابو کر رہا ہو۔


قاری فہیم بھی پیچھے آ گئے۔ جیسے ہی انہوں نے عالیہ کی آنکھوں میں جھانکا، ان کا چہرہ فق ہو گیا۔


"یہ… یہ تو ممکن نہیں!"


"کیا ہوا، قاری صاحب؟" عمران نے بے چینی سے پوچھا۔


"اسد… وہ ابھی گیا نہیں… وہ عالیہ کے اندر موجود ہے!" قاری صاحب کی آواز لرز رہی تھی۔


منظر 3: آخری جنگ


عمران کے دل پر جیسے کسی نے چوٹ ماری ہو۔

عمران کے دل پر جیسے کسی نے چوٹ ماری ہو۔


"نہیں! یہ سچ نہیں ہو سکتا!"


عالیہ نے ایک قدم پیچھے ہٹا لیا، جیسے وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو۔


"نہیں… میں اس کا غلام نہیں بن سکتی… میں آزاد ہوں!"


مگر اندر سے ایک ہنسی گونجی۔


"تم آزاد نہیں ہو، عالیہ! تم ہمیشہ سے میری تھی، اور میری رہو گی!"


عالیہ کی آنکھوں میں درد ابھر آیا۔


"نہیں، اسد! تمہاری محبت ایک قید تھی… مگر میں اب قید میں نہیں رہنا چاہتی!"


"تمہیں کوئی اختیار نہیں!"


"ہے، اسد! اختیار ہے! اور میں اس قید سے نکلوں گی!"


قاری فہیم نے فوراً قرآن کی آیات پڑھنا شروع کیں۔ عالیہ کے جسم میں جھٹکے لگنے لگے، وہ زمین پر گرنے لگی۔ عمران نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی، مگر جیسے ہی اس نے عالیہ کو چھوا، ایک زوردار جھٹکا لگا، اور عمران پیچھے جا گرا۔


"عالیہ! مقابلہ کرو! تم اس کے قبضے میں نہیں جا سکتی!" عمران چیخا۔


عالیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


"عمران… مجھے بچا لو!"


قاری فہیم نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور دم کیا ہوا پانی عالیہ پر چھڑک دیا۔ اچانک ایک تیز چیخ پورے کمرے میں گونجی۔ عالیہ کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور پھر… سناٹا چھا گیا۔

عالیہ کی آنکھیں بند تھیں، عمران نے بے چینی سے اس کا چہرہ تھاما۔


"عالیہ؟ عالیہ؟ آنکھیں کھولو!"


آہستہ آہستہ، عالیہ نے آنکھیں کھولیں۔ اس کی آنکھوں میں وہ خوف ختم ہو چکا تھا۔ وہ خود کو ہلکا محسوس کر رہی تھی، جیسے کسی نے اس کے اندر سے ایک بھاری بوجھ نکال دیا ہو۔


"عمران… وہ چلا گیا!"


"واقعی؟ اسد ختم ہو گیا؟" عمران نے بے یقینی سے پوچھا۔


قاری فہیم نے ایک گہری سانس لی اور باہر جھانکا۔ آسمان صاف ہو چکا تھا، اور ہوا میں تازگی تھی۔


"ہاں… وہ ختم ہو گیا۔ ہمیشہ کے لیے!"

کئی دن بعد، عالیہ اور عمران سمندر کنارے بیٹھے تھے۔ عالیہ پرسکون لگ رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں گزرے وقت کی پرچھائیاں اب بھی موجود تھیں۔


"میں کبھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ میں اس قید سے نکل پاؤں گی!" عالیہ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔


"مگر تم نے مقابلہ کیا، عالیہ! تم نے خود کو آزاد کیا!" عمران نے نرمی سے کہا۔


"اور تمہارے بغیر میں یہ کبھی نہ کر پاتی، عمران!"


عمران نے اس کا ہاتھ تھاما۔


"اب یہ سب ماضی ہے… اور ہمارا مستقبل ہمارے سامنے ہے!"


عالیہ نے دھیرے سے سر ہلایا اور سمندر کی لہروں کو دیکھنے لگی۔


کہیں دور، جیسے ایک سرگوشی ہوا میں بکھر گئی…


"عشق قید بھی ہو سکتا ہے، اور آزادی بھی… مگر جو سچا ہو، وہ ہمیشہ آزاد کر دیتا ہے!"

ختم شدہ

اس کہانی کو جلد ختم کرنے کے چکر میں وہ اختتام نیں دے پایا جو میں نے سوچا تھا کیونکہ رمضان شروع ہو رہا ہے اور سب بزی ہوتے ہیں عبادت میں مشغول ہوتے ہیں اسلیے جلدی ختم کر دی آپ سب سے ریکوسٹ ہے کہ دعاٶں میں لازمی یاد رکھیے گا ۔میں رمضان میں بھی چھوٹی چھوٹی سٹوریز اپلوڈ کیا۔کروں گا۔ آپ نے بتانا ہے۔اسلامک سٹوری بسٹ رہیں گی یا ہارر ہی لکھوں۔اور جو لوگ چاہتے ہیں رمضان کے بعد اس کا پارٹ ٹو بھی۔لکھو وہ بھی کمنٹ کریں۔


Post a Comment

0 Comments