ہمزاد کا عشق

قسط ۲

ناول نگار؛ حمزہ یعقوب


صبح کے دھندلکے میں عالیہ نے آنکھیں کھولیں۔ رات کی وہ مدھم سرگوشیاں، وہ نامعلوم لمس، وہ ان دیکھی موجودگی—سب خواب تھا یا حقیقت؟


اس نے اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائی۔ فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے لوگ اپنی جگہ بے سدھ پڑے تھے، ہوا میں پرانی گلیوں کی باسی بُو بسی ہوئی تھی، اور آوارہ کتے کوڑے کے ڈھیر میں خوراک تلاش کر رہے تھے۔


مگر عالیہ کے لیے سب کچھ بدل چکا تھا۔


"وہ، جو ہمیشہ میرے ساتھ تھا..."


یہ الفاظ اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ اس کا دل ایک انجانے خوف اور بے نام تجسس کے درمیان جھول رہا تھا۔

ہمزاد، جو صدیوں سے عالیہ کے ساتھ تھا، اب اس کی نظروں کے سامنے آ چکا تھا۔ مگر وہ اتنی کمزور تھی کہ اسے سمجھ نہ سکی۔


اسد ایک خاموش تماشائی کی طرح عالیہ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ عالیہ اسے پہچانے، اسے قبول کرے، مگر وہ جانتا تھا کہ یہ آسان نہیں ہوگا۔


"کاش میں خود کو مکمل ظاہر کر سکتا..." اس نے آہستہ سے کہا۔


مگر یہ ممکن نہ تھا۔ وہ ایک سایہ تھا، ایک مخلوق جو صرف دیکھ سکتی تھی، مگر چھو نہیں سکتی تھی۔

دن کا اجالا گلیوں میں پھیل چکا تھا، مگر عالیہ کے دل میں رات کے اندھیرے کی بازگشت باقی تھی۔


وہ خالی نظروں سے اپنے سامنے رکھے پیالے کو دیکھ رہی تھی۔ دن بھر وہاں کوئی خاص چیز جمع نہ ہو سکی تھی۔ بھوک سے اس کا سر چکرا رہا تھا۔


اچانک، اس نے محسوس کیا جیسے کوئی اس کے قریب کھڑا ہے۔


"کوئی ہے؟" اس نے آہستہ سے پوچھا۔


ہوا تھوڑی سی حرکت میں آئی، جیسے کوئی قریب آیا ہو۔ مگر نظر کچھ نہ آیا۔


"میں... ہمیشہ سے یہاں تھا۔"


یہ وہی مدھم سرگوشی تھی! عالیہ کا سانس رکنے لگا۔


"کک... کون ہو تم؟"


"تمہارا ہمزاد..."


عالیہ کی آنکھوں میں حیرت اور خوف کا امتزاج ابھرا۔


"ہمزاد؟"


"ہاں، میں وہ ہوں جو تمہاری پیدائش کے دن سے تمہارے ساتھ تھا۔ جو تمہیں دیکھ سکتا ہے، مگر تم مجھے نہیں دیکھ سکتیں۔ جو تمہارے دکھ کو محسوس کر سکتا ہے، مگر اسے بانٹ نہیں سکتا۔ جو تم سے محبت کرتا ہے، مگر تمہارے پاس نہیں آ سکتا۔"


عالیہ نے جلدی سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، مگر کسی ان دیکھی دیوار نے اسے روک لیا۔

عالیہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ یہ سب کچھ ناقابلِ یقین تھا۔


"یہ ممکن نہیں ہے! تم... تم کوئی سایہ ہو، کوئی آسیب ہو، کوئی..."


"میں وہی ہوں جس نے تمہیں ہمیشہ اکیلا نہیں چھوڑا۔"


عالیہ نے جلدی سے اپنے کانوں کو بند کیا۔


"یہ خواب ہے! ہاں، خواب! میں نے کچھ نہیں سنا!" وہ خود سے بولی اور تیزی سے اس سنسان گلی سے نکلنے لگی۔


ہمزاد نے اسے دور جاتا دیکھا، مگر وہ رک گیا۔


"تم مجھ سے بھاگ نہیں سکتیں، عالیہ..." اس نے آہستہ سے کہا۔ "میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، چاہے تمہیں پسند ہو یا نہ ہو۔"

عالیہ گلی کے نکڑ پر پہنچی تو ایک مانوس چہرہ اس کے سامنے تھا۔


عمران۔


وہی نوجوان جو کبھی کبھار اس سے بات کر لیتا تھا، جو اسے کبھی کبھی کھانے کا کچھ دے جاتا تھا، جس کی ہلکی سی مسکراہٹ عالیہ کے دل میں کچھ نرم جذبات جگا دیتی تھی۔


"عالیہ! تم ٹھیک ہو؟"


وہ حیران رہ گئی۔


"تت... تم یہاں؟"


"ہاں، میں تمہیں کل سے نہیں دیکھ پایا تھا، تو سوچا آج دیکھ لوں کہ تم ٹھیک ہو یا نہیں۔"


عالیہ خاموش ہو گئی۔ وہ ہمیشہ سے یہی سوچتی تھی کہ اس کی زندگی میں کوئی نہیں، مگر عمران کی یہ ہلکی سی فکر...


کیا واقعی کوئی اس کی پرواہ کرتا تھا؟

دور کھڑا ہمزاد یہ منظر دیکھ رہا تھا۔


یہ کون تھا؟

یہ کس حق سے عالیہ کی فکر کر رہا تھا؟

یہ کس طرح عالیہ کے قریب جا سکتا تھا، جب کہ وہ... وہ ہمیشہ سے عالیہ کا تھا؟


اس کے اندر آگ لگ چکی تھی۔


"یہ مت سوچنا کہ میں تمہیں اس سے محبت کرنے دوں گا، عالیہ..."

ہمزاد کی محبت اب ایک سادہ محبت نہ رہی تھی۔


یہ ایک جنون بن چکی تھی۔


عمران کو راستے سے ہٹانا ہوگا۔


عالیہ کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھنا ہوگا۔


چاہے کچھ بھی کرنا پڑے...


اب آگے کیا ہوگا؟

جاری ہے