ہمزاد کا عشق  

قسط ۵

ناول نگار؛ حمزہ یعقوب

عالیہ اور عمران تیزی سے گلیوں میں دوڑ رہے تھے، جیسے کوئی ان کے پیچھے ہو۔ عمران نے عالیہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، مگر عالیہ کا دل کانپ رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ جو ان کے پیچھے ہے، وہ کوئی عام چیز نہیں۔


ہوا میں ایک عجیب سی خنکی تھی۔ گلیاں سنسان تھیں، مگر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہزاروں آنکھیں اندھیرے میں چھپی ان کا تعاقب کر رہی ہوں۔


"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ میں کہاں بھاگ رہی ہوں؟" عالیہ کے دماغ میں ایک بھونچال مچا ہوا تھا۔


تبھی اچانک—


ٹھک!


ایک زور دار جھٹکے سے عمران رک گیا، جیسے کسی دیوار نے راستہ روک لیا ہو۔


"کیا ہوا؟" عالیہ نے کانپتی آواز میں پوچھا۔


عمران نے حیرت سے سامنے دیکھا۔


یہ وہی راستہ تھا جس پر وہ ابھی کچھ لمحے پہلے دوڑے تھے، مگر اب یہاں ایک دیوار کھڑی تھی، جیسے کسی غیبی ہاتھ نے لمحوں میں پوری دنیا کا نقشہ بدل دیا ہو۔


"تم کہیں نہیں جا سکتے، عالیہ..."


یہی آواز۔ وہی سرگوشی۔ وہی نامعلوم خوف۔

ہوا میں کچھ بدلا، جیسے فضا بھاری ہو گئی ہو۔


پھر وہ نمودار ہوا—


ہمزاد۔


اس کا وجود اب کسی دھندلے سائے کی طرح نہیں تھا، بلکہ وہ اب بالکل واضح دکھائی دے رہا تھا۔ قد لمبا، آنکھیں انگاروں کی مانند، اور چہرے پر وہی دیوانگی جس میں محبت اور قہر دونوں شامل تھے۔


"میں نے کہا تھا، عمران... عالیہ صرف میری ہے!"


عمران نے عالیہ کو پیچھے کیا اور خود سامنے آ گیا۔


"یہ سب تمہاری غلط فہمی ہے! عالیہ کسی کی ملکیت نہیں ہے!"


ہمزاد ہنسا، مگر اس ہنسی میں دہشت تھی۔


"محبت ملکیت نہیں ہوتی؟ تو پھر تم بھی اسے چھوڑ دو!"


عمران نے مٹھیاں سخت کر لیں۔


"میں عالیہ کو کسی خوف میں جینے نہیں دوں گا!"

عالیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


"تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ کیوں میرا پیچھا کر رہے ہو؟"


ہمزاد نے اسے نرمی سے دیکھا۔


"عالیہ... میں تمہیں اپنی قید میں نہیں رکھنا چاہتا، میں بس تمہیں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں... ہمیشہ کے لیے!"


عالیہ نے نفی میں سر ہلایا۔


"محبت زبردستی نہیں کی جاتی!"


"محبت کبھی زبردستی نہیں ہوتی، عالیہ... لیکن میں تمہارے بغیر رہ نہیں سکتا!"

یہ کہتے ہی ہوا میں بجلی کی سی کڑک سنائی دی۔


اچانک عمران کے پیروں تلے زمین ہلنے لگی۔


"یہ کیا ہو رہا ہے؟" عمران نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔


عالیہ نے خوفزدہ نظروں سے دیکھا۔ زمین جیسے نیچے سے سرک رہی تھی، جیسے کوئی ان دونوں کو ایک دلدل میں کھینچ رہا ہو۔


"اگر تم عالیہ سے دور نہیں جا سکتے، تو تمہیں ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا ہوگا!"


یہ کہہ کر ہمزاد نے ہاتھ بلند کیا اور ہوا میں ایک سیاہ گرداب نمودار ہونے لگا۔

عمران نے عالیہ کی طرف دیکھا۔


"تمہیں مجھ پر یقین ہے نا، عالیہ؟"


عالیہ کی آنکھوں میں بے بسی تھی۔


"عمران، وہ بہت طاقتور ہے!"


"لیکن میں ڈرنے والا نہیں ہوں!"


عمران نے زمین سے ایک پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے ہمزاد کی طرف پھینک دیا۔ مگر پتھر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔


"بہت نادان ہو، عمران..."


اچانک عمران کے گرد ایک سیاہ روشنی لپٹنے لگی، جیسے کوئی نظر نہ آنے والی زنجیر اسے باندھ رہی ہو۔


"اب تم عالیہ سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جاؤ گے!"

عالیہ کے دل میں ایک طوفان تھا۔


کیا وہ ہمزاد کو روک سکتی ہے؟


کیا اسے عمران کو بچانے کے لیے ہمزاد کے ساتھ جانا ہوگا؟


"رکو!" عالیہ نے چیخ کر کہا۔


ہمزاد نے چونک کر اسے دیکھا۔


"عالیہ، تم—"


"میں تمہیں کچھ کہنے دینا چاہتی ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ تم عمران کو چھوڑ دو!"


ہمزاد کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔


"کیا تم میری بات سننے کے لیے تیار ہو؟" عالیہ کی آواز میں تھرتھراہٹ تھی، مگر وہ مضبوطی سے کھڑی رہی۔


ہمزاد نے عمران پر جمی اپنی گرفت کو آہستہ کر دیا۔


"ٹھیک ہے، عالیہ... میں تمہاری بات سنوں گا۔ لیکن یاد رکھنا، اگر تم نے مجھے دھوکہ دیا، تو عمران زندہ نہیں بچے گا!"


اب کیا ہوگا؟


جاری ہے