ہمزا کا عشق
قسط ۴
ناول نگار؛ حمزہ یعقوب
رات اپنے عروج پر تھی، مگر عالیہ کی آنکھوں میں نیند کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ وہ گلی کے کنارے، ایک ویران سے مکان کے سامنے بیٹھی تھی۔ چاند کی مدھم روشنی میں اس کے چہرے پر چھائے خدشات نمایاں تھے۔
عمران نے جو کہا تھا، کیا وہ سچ تھا؟
کیا واقعی کوئی تھا جو اسے دیکھ رہا تھا؟
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب اسے ایسا محسوس ہوا ہو۔ کئی بار وہ اپنے پیچھے کسی کی آہٹ سن چکی تھی، کئی بار اسے لگا تھا جیسے کوئی اس سے سرگوشیاں کر رہا ہو۔
مگر وہ ہمیشہ ان باتوں کو جھٹک دیتی تھی، یہ سوچ کر کہ شاید یہ اس کا وہم ہے۔
لیکن آج...
آج ہوا میں کچھ بدلا بدلا سا تھا۔
اسے محسوس ہوا جیسے کوئی بہت قریب ہے، اتنا قریب کہ وہ اس کی سانسیں سن سکتی تھی۔
"عالیہ..."
یہی آواز... وہی سرگوشی... جو کئی دنوں سے اس کے خوابوں اور جاگتی آنکھوں میں بسی تھی۔
عالیہ نے جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا، مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
مگر اس کا دل کہہ رہا تھا، کوئی ہے۔
اسی وقت، ایک مدھم سی حرکت اس کی آنکھوں کے گوشے میں ابھری۔
وہ جھٹ سے کھڑی ہو گئی۔
سامنے کی خالی گلی میں، ایک دھند سی نمودار ہو رہی تھی۔
آہستہ آہستہ، وہ دھند کسی شکل میں بدلنے لگی۔
دو آنکھیں—گہری، سیاہ، اور اتنی چمکدار جیسے کسی کنویں کی تاریکی میں کوئی شعلہ جل اٹھا ہو۔
عالیہ کے قدم پیچھے ہٹنے لگے۔
"کک... کون ہو تم؟"
دھندلی شکل نے آہستہ سے سر جھکایا، جیسے کسی پرانے عاشق کی طرح محبت کا اظہار کر رہا ہو۔
"میں وہ ہوں جو ہمیشہ تمہارے ساتھ تھا... جو تمہارے ہر آنسو کا گواہ ہے... جو تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنا بنانا چاہتا ہے، عالیہ۔"
عالیہ کی سانسیں تیز ہونے لگیں۔
"یہ سب میرا وہم ہے... یہ سب خواب ہے!" اس نے خود کو یقین دلانے کی کوشش کی۔
مگر وہ آنکھیں... وہ دھند... وہ سرد ہوا... سب کچھ اتنا حقیقت کے قریب تھا کہ جھوٹ لگنا ممکن ہی نہ تھا۔
دوسری طرف، عمران اپنے کمرے میں بےچین تھا۔
کیا عالیہ محفوظ ہے؟
اس نے جو کچھ دیکھا تھا، وہ کیا تھا؟
اسے لگا جیسے کسی ان دیکھے خطرے کی تلوار اس کے سر پر لٹک رہی ہے۔
"مجھے عالیہ سے فوراً ملنا ہوگا!"
وہ جلدی سے دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اندھیرے گلیوں میں بھاگنے لگا۔
عالیہ نے کانپتے ہوئے قدم پیچھے ہٹائے، مگر وہ دھندلی شبیہ اس کے قریب آ رہی تھی۔
"عالیہ، میں نے تمہیں ہمیشہ چاہا ہے..."
"کون ہو تم؟ تم مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو؟"
دھند کے اندر سے ایک مردانہ آواز آئی، مگر وہ کسی عام انسان جیسی نہیں تھی۔
"میں تمہارا ہمزاد ہوں، عالیہ... تمہارے ساتھ پیدا ہوا، تمہارے ہر لمحے میں شامل رہا، مگر تم نے مجھے کبھی نہیں دیکھا۔"
ہمزاد...
یہ لفظ اس کے جسم میں سنسنی دوڑا گیا۔
"تم جھوٹ بول رہے ہو!" عالیہ کی آواز لرز رہی تھی۔
"نہیں، عالیہ... تم میری ہو۔ اور میں کسی کو تمہیں مجھ سے دور نہیں جانے دوں گا۔"
عالیہ نے خوف سے نظریں گھما کر دیکھا، جیسے کوئی راستہ تلاش کر رہی ہو۔
"مجھے چھوڑ دو!"
"نہیں، عالیہ... اگر تمہیں چھوڑ دوں، تو میرا وجود ہی بے معنی ہو جائے گا۔"
عالیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"مجھے جانے دو!"
"میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا، عالیہ... لیکن اگر کسی اور نے تمہیں چھونے کی کوشش کی، تو وہ زندہ نہیں بچے گا!"
اسی لمحے عمران گلی میں پہنچا اور جیسے ہی عالیہ کو خوفزدہ کھڑا دیکھا، وہ دوڑ کر اس کی طرف آیا۔
"عالیہ! تم ٹھیک ہو؟"
ہمزاد کی موجودگی جیسے ہوا میں بھڑک اٹھی۔
"یہ انسان پھر آ گیا!"
عمران نے اردگرد دیکھا، مگر اسے کچھ نظر نہیں آیا۔
"عالیہ، کیا ہوا؟ تم اتنی خوفزدہ کیوں ہو؟"
عالیہ نے کانپتی آواز میں کہا، "یہاں کوئی ہے... جو نظر نہیں آتا!"
عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، اور پھر جیسے ہوا میں کچھ بدلا۔
ٹھنڈ بڑھنے لگی، ایک انجانا دباؤ ان کے گرد گہرے ہونے لگا۔
"میں نے کہا تھا، عمران... عالیہ صرف میری ہے!"
اچانک عمران کو ایک دھکا لگا اور وہ پیچھے جا گرا۔
عالیہ چیخ اٹھی۔
"عمران!"
عمران نے خود کو سنبھالا اور کھڑا ہو گیا۔
"تم کون ہو؟ سامنے آؤ!"
ہوا میں ایک بھیانک قہقہہ گونجا۔
"تم ایک عام انسان ہو، عمران... تم مجھ سے نہیں جیت سکتے!"
عمران نے مٹھی سختی سے بند کی۔
"عالیہ تمہاری ملکیت نہیں ہے!"
ہمزاد کا سایہ اور گہرا ہونے لگا۔
"تو پھر دیکھو، عمران... تمہارے ساتھ کیا ہوتا ہے!"
ہوا میں سرگوشیاں پھیلنے لگیں، جیسے درجنوں آوازیں بیک وقت بولنے لگی ہوں۔
عمران کو لگا جیسے اس کا جسم جکڑ لیا گیا ہو، جیسے کسی ان دیکھی طاقت نے اسے دبوچ لیا ہو۔
"عمران!" عالیہ نے چیخ کر کہا۔
عالیہ نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں، مگر جیسے ہی اس نے دعا کے چند الفاظ دل میں دہرائے، سایہ ایک لمحے کے لیے ہلکا پڑ گیا۔
"یہ کیسا نور ہے؟" ہمزاد پیچھے ہٹنے لگا۔
عمران نے فوراً موقع دیکھا اور عالیہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "چلو یہاں سے!"
مگر ہمزاد اب مزید غصے میں تھا۔
"تم دونوں نہیں بچ سکتے!"
اب کیا ہوگا؟
جاری ہے
0 Comments