ہمزاد کا عشق

قسط ۳

ناول نگار؛ حمزہ یعقوب


عالیہ خاموش بیٹھی اپنے خیالوں میں گم تھی۔ آج دن بھر اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچی رہی۔


کیا واقعی کوئی ہے جو اسے دیکھتا ہے؟ جو اس کے ساتھ ہے؟


وہ خود کو بہلاتی رہی کہ یہ سب اس کے ذہن کا کھیل ہے، مگر رات ہوتے ہی وہی سرگوشیاں، وہی نامعلوم احساس پھر اس کے گرد لپٹنے لگا۔


"میں ہمیشہ تمہارے ساتھ تھا، عالیہ..."


یہ آواز اس کے اندر ایک کپکپی دوڑا گئی۔


"تم کون ہو؟ تم مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو؟"


ہوا میں ہلکی سی ہنسی گونجی، جیسے کسی نے ایک بھیانک راز پر پردہ ڈال دیا ہو۔


"محبت کبھی تنگ نہیں کرتی، عالیہ..."

وہ کون تھا جسے اس نے عالیہ کے قریب دیکھا تھا؟

وہ سایہ، وہ عجیب سی ٹھنڈ، وہ سرگوشیاں—یہ سب کیا تھا؟


وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ عالیہ کے گرد کچھ ایسا تھا جو اسے عام انسانوں سے مختلف بناتا تھا۔


"مجھے عالیہ سے بات کرنی ہوگی۔"

رات کے سناٹے میں عمران اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اچانک لائٹ بند ہو گئی۔


ہوا میں ایک غیر مرئی طاقت محسوس ہونے لگی۔


"عمران..."


یہ سرگوشی سنتے ہی اس کا خون خشک ہو گیا۔


"دور ہو جاؤ عالیہ سے..."


عمران نے جلدی سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر دروازہ جیسے کسی غیبی طاقت نے جکڑ لیا تھا۔


دیواروں پر سائے دوڑنے لگے۔


"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟" عمران نے خود سے کہا۔


اچانک ایک دھندلی شکل اس کے سامنے ابھری، دو چمکتی ہوئی آنکھیں، گہری اور کھائی کی مانند۔


"عالیہ صرف میری ہے۔"


یہ کہتے ہی وہ سایا ایک تیز جھونکے کے ساتھ اس کے قریب آیا۔ عمران کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی، اس کے سانس اکھڑنے لگے۔


وہ بے ہوش ہونے کے قریب تھا کہ اچانک دروازہ خود بخود کھل گیا۔


سایہ غائب ہو چکا تھا۔


مگر عمران کو اب یقین ہو گیا تھا کہ یہ محض وہم نہیں، بلکہ کوئی خوفناک حقیقت ہے۔

اگلی صبح، عالیہ نے عمران کو دیکھا تو وہ بےحد کمزور لگ رہا تھا۔


"عمران! تم ٹھیک ہو؟ تمہاری طبیعت خراب لگ رہی ہے!"


عمران نے گہری نظر سے عالیہ کو دیکھا۔


"عالیہ... تمہارے آس پاس کچھ ہے، کوئی ہے جو تمہیں قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔"


عالیہ کا دل دھک سے رہ گیا۔


"کیا وہ بھی اسے دیکھ چکا ہے؟"


"کک... کون؟"


"وہی جو تمہارے سائے کی طرح ساتھ رہتا ہے، مگر تم اسے دیکھ نہیں سکتیں۔"


عالیہ کی آنکھوں میں خوف ابھر آیا۔


"میں نہیں جانتی عمران، مگر میں یہ سب سن سن کر تھک چکی ہوں۔ میں بس سکون چاہتی ہوں!"


عمران نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔


"میں تمہیں اس قید سے نکالوں گا، عالیہ۔ چاہے مجھے کسی بھی حد تک جانا پڑے!"

یہ سب دیکھ کر ہمزاد کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔


"تم اسے مجھ سے چھیننے کی کوشش کر رہے ہو، عمران؟"


"تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں زندہ چھوڑ دوں گا؟"


ہوا میں ایک بھیانک گونج سنائی دی، جیسے کوئی طوفان آنے والا ہو۔


اب کیا ہوگا؟

جاری ہے