ہمزاد کا عشق
قسط نمبر ۶
،ناول نگار؛ حمزہ یعقوب
ہوا میں لرزہ طاری تھا۔ ہمزاد کے مقابل کھڑا سایہ اب دھیرے دھیرے واضح ہو رہا تھا۔ اس کی شکل ہمزاد جیسی ہی تھی، مگر اس کی آنکھیں بالکل مختلف— ٹھنڈی، گہری، اور کسی پراسرار راز سے بھری ہوئی۔
"کون ہو تم؟" ہمزاد کی آواز میں پہلی بار ایک عجیب سا خوف تھا۔
سایہ ہلکا سا مسکرایا۔
"کیا واقعی تم مجھے نہیں پہچانتے؟ یا پہچاننے سے انکار کر رہے ہو؟"
ہمزاد کے چہرے پر سختی آ گئی۔
"یہ میرا معاملہ ہے، پیچھے ہٹ جاؤ!"
"یہ تمہارا معاملہ نہیں ہے، ہمزاد..." سایہ ایک قدم آگے بڑھا، اور اچانک ہوا مزید بوجھل ہو گئی۔
عالیہ کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ایک اور ہمزاد؟"
سایہ بولا،
"کیا عالیہ کو معلوم ہے کہ تم اصل میں کون ہو؟ اور تم یہاں کیوں ہو؟"
ہمزاد کے چہرے پر بےچینی چھا گئی۔
"بکواس بند کرو!"
"کیوں؟ سچ کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہو؟"
"یہ سب غیر ضروری ہے!" ہمزاد غصے سے گرجا، لیکن اس کی آواز میں پہلے جیسی سختی نہیں تھی۔
"کیا تم نے عالیہ کو بتایا کہ تم کبھی کسی اور کے ہمزاد تھے؟"
عالیہ نے چونک کر ہمزاد کی طرف دیکھا۔
"کیا مطلب؟" عالیہ کی آواز لرز رہی تھی۔
ہمزاد خاموش رہا۔
سایہ آگے بڑھا،
"ہاں، عالیہ! یہ تمہارا ہمزاد نہیں ہے، یہ کسی اور کا تھا... اور اس نے اپنے اصل مالک کو دھوکہ دیا تھا!"
عالیہ کے ذہن میں سوالات کا طوفان تھا۔
"کیا یہ سچ ہے؟ تم کسی اور کے ہمزاد تھے؟"
ہمزاد کی آنکھیں نیچے جھک گئیں۔
"میں نے اس کے لیے سب کچھ چھوڑا، عالیہ..."
"کس کے لیے؟" عالیہ نے الجھن سے پوچھا۔
ہمزاد نے آہستہ سے جواب دیا،
"تمہارے لیے..."
"میری لیے؟ لیکن میں نے تو تمہیں کبھی بلایا ہی نہیں!" عالیہ کی آواز میں بے یقینی تھی۔
ہمزاد نے گہری سانس لی، جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اٹھانے والا ہو۔
"تم نے نہیں بلایا تھا، مگر تمہاری روح نے... تمہاری تنہائی، تمہارا درد، تمہارا وہ خالی پن... وہ سب ایک پکار بن گئے، اور میں نے اس پکار کو سنا۔"
"مگر تم پہلے کس کے ہمزاد تھے؟"
سایہ ہنسا۔
"یہ نہیں بتائے گا، کیونکہ یہ جانتا ہے کہ اگر عالیہ نے سچ جان لیا، تو یہ سب ختم ہو جائے گا!"
عالیہ نے بےچینی سے پوچھا،
"سچ کیا ہے؟ مجھے سب کچھ بتاؤ!"
سایہ قریب آیا اور بولا،
"ہمزاد، تم نے اپنے اصل مالک کو کیوں چھوڑا؟"
ہمزاد کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا۔
"وہ مجھے نہیں سمجھتا تھا..."
"یا شاید تم نے اسے دھوکہ دیا تھا؟" سایہ سخت لہجے میں بولا۔
"نہیں!" ہمزاد نے چیخ کر کہا۔
"تو پھر عالیہ کو بتا دو کہ تمہارا اصل مالک کون تھا!"
عالیہ نے سانس روکے ہمزاد کی طرف دیکھا۔
ہمزاد نے ایک پل کے لیے آنکھیں بند کیں، پھر آہستہ سے بولا،
"عمران..."
عالیہ کے دماغ پر جیسے بجلی گری۔
"کیا... عمران؟ عمران کا ہمزاد؟"
عمران جو بے ہوش پڑا تھا، اچانک ہلنے لگا، جیسے اس کے کانوں میں کوئی گہرا راز پھونک دیا گیا ہو۔
"ہاں، عالیہ..." ہمزاد کی آواز بھاری ہو گئی۔
"میں عمران کا ہمزاد تھا، مگر وہ مجھے قبول نہیں کرتا تھا۔ وہ مجھے نظر انداز کرتا، مجھے کمزور سمجھتا۔ اس نے کبھی میرا وجود تسلیم ہی نہیں کیا۔"
"تو تم نے اسے چھوڑ دیا؟" عالیہ نے کانپتی آواز میں کہا۔
"ہاں، اور میں تمہارے پاس آ گیا..."
سایہ ہنسا۔
"تم نے اسے چھوڑا نہیں تھا، تم نے اسے دھوکہ دیا تھا، اور اس دھوکے کی قیمت ادا کرنی ہوگی!"
اچانک ہوا میں گرج سنائی دی، اور عمران کے جسم نے ایک جھٹکا لیا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟" عالیہ نے چیخ کر کہا۔
"ہمزاد کا رشتہ توڑا نہیں جا سکتا، عالیہ..." سایہ دھیمی آواز میں بولا۔
"اگر کوئی ہمزاد اپنے اصل مالک کو دھوکہ دے، تو وہ ایک سزاوار بن جاتا ہے..."
"کیسی سزا؟" عالیہ کی آنکھوں میں خوف تھا۔
"موت!" سایہ بولا، اور جیسے ہی اس نے یہ کہا، ہمزاد کی چیخ سنائی دی۔
اب کیا ہوگا؟
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment