ہمزاد کا عشق
قسط نمبر ۱۰
عالیہ پیچھے ہٹتی گئی، مگر اسد کا سایہ اس کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔
تبھی، دروازہ زور سے کھلا اور عمران اندر داخل ہوا۔
"پیچھے ہٹو، عالیہ!" عمران نے زور سے کہا۔
عالیہ حیران رہ گئی۔
"عمران، تم...؟"
"یہ تمہیں لے جائے گا، عالیہ! اسے روکنا ہوگا!"
*"نہیں، عمران! اسد مجھ سے محبت کرتا ہے!"
"یہ محبت نہیں، عالیہ! یہ قید ہے! اگر تم آج اس کے ساتھ چلی گئیں، تو کبھی واپس نہیں آ سکو گی!"
*"عالیہ، میری بات مت سنو!" اسد کی سرگوشی اب زہریلی لگنے لگی تھی۔
مگر اب عالیہ کے دل میں بھی خوف کا احساس جاگ چکا تھا۔
"اسد... تمہاری آنکھیں... تمہاری آواز... یہ سب بدل چکا ہے!"
اسد نے غصے سے گھور کر عمران کی طرف دیکھا۔
"تم ہمیشہ درمیان میں کیوں آ جاتے ہو؟"
*"کیونکہ میں عالیہ کو کھونا نہیں چاہتا!" عمران نے مضبوطی سے کہا۔
*"مگر وہ میری ہے!" اسد کی آواز گونجی، اور پورے کمرے میں تیز ہوا چلنے لگی۔
عالیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"
عمران نے جلدی سے جیب سے کچھ نکالا اور عالیہ کے ہاتھ میں دیا— ایک چمکتا ہوا تعویذ۔
"یہ پکڑو، اور اسد کا نام لو!"
"مگر..."
*"کرو، عالیہ!" عمران چیخا۔
عالیہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے تعویذ تھاما اور سرگوشی کی،
*"اسد... اگر تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو، تو رک جاؤ!"
اچانک ایک زوردار چیخ گونجی، اور کمرے میں روشنی پھیل گئی۔
اسد کا سایہ پیچھے ہٹنے لگا، جیسے کسی نے اسے زبردستی کھینچ لیا ہو۔
"نہیں... عالیہ! تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا!"
*"میں نے وہی کیا جو صحیح تھا، اسد!" عالیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
سایہ تیزی سے کمزور ہوتا گیا، اور پھر ایک لمحے میں غائب ہوگیا۔
کمرہ خاموش تھا۔ عجیب سی سکون بھری دہشت ہر چیز پر چھا چکی تھی۔ عالیہ کانپتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی، اس کے ہاتھوں میں وہی تعویذ تھا جو عمران نے دیا تھا۔ اس کی سانسیں بےترتیب تھیں، اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
عمران نے جھک کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"عالیہ، تم ٹھیک ہو؟"
عالیہ نے دھیرے سے سر ہلایا مگر اس کی آنکھیں خالی تھیں۔
"وہ چلا گیا؟" عالیہ کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی۔
"ہاں۔ مگر یہ مت سمجھنا کہ سب ختم ہو گیا ہے۔" عمران نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
"کیا مطلب؟"
"اسد ایک عام ہمزاد نہیں تھا، عالیہ۔ وہ کوئی سادہ سایہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی مخلوق بن چکا تھا جو عام طریقوں سے فنا نہیں ہو سکتی۔ وہ لوٹ سکتا ہے۔"
عالیہ نے دہشت زدہ نظروں سے عمران کو دیکھا۔
"نہیں... نہیں! میں نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو رک جائے! اور اس نے مجھے چھوڑ دیا!"
*"یہی تو مسئلہ ہے، عالیہ!" عمران کی آواز میں بےچینی تھی۔
"وہ تم سے محبت کرتا ہے... مگر یہ محبت نہیں، یہ جنون ہے! تم نے اسے روک دیا، مگر وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے واپس آنے کی راہ تلاش کرے گا!"
رات کے اندھیرے میں عالیہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے دیکھے، جیسے وہ دنوں سے جاگ رہی ہو۔
"کیا واقعی سب ختم ہو گیا ہے؟"
وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔
تبھی، آئینے میں ایک پرچھائی ابھری۔
ایک مدھم سرگوشی گونجی۔
"میں واپس آؤں گا، عالیہ!"
عالیہ کی چیخ لبوں تک آئی مگر گلے میں ہی گھٹ گئی۔ اس نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا۔ مگر کمرہ خالی تھا۔
مگر آئینے میں... آئینے میں وہ سایہ اب بھی موجود تھا، آہستہ آہستہ قریب آتا ہوا۔
"نہیں... نہیں! عمران نے کہا تھا کہ تم جا چکے ہو!"
"تم جانتی ہو، عالیہ... میں کہاں جا سکتا ہوں؟ میں تمہارے اندر ہوں۔ تمہاری سانسوں میں، تمہارے خوابوں میں!"
عالیہ نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے، مگر وہ سرگوشی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
عالیہ کانپتی ہوئی عمران کے دروازے پر پہنچی اور زور سے دستک دی۔
دروازہ کھلتے ہی وہ تقریباً اندر گر گئی۔
"عمران! وہ واپس آ گیا ہے!"
عمران نے فوراً دروازہ بند کیا اور عالیہ کو سہارا دیا۔
"کہاں؟ کیسے؟"
"وہ... وہ آئینے میں تھا! وہ کہہ رہا تھا کہ وہ کہیں نہیں گیا، وہ میرے اندر ہے!"
عمران کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
"یہ تو بہت برا ہوا، عالیہ! اگر وہ واقعی تمہارے اندر بسا ہوا ہے، تو اسے نکالنا آسان نہیں ہوگا!"
"کیا مطلب؟ کیا کوئی راستہ نہیں؟"
"ایک راستہ ہے... مگر یہ خطرناک ہے!"
"کچھ بھی کر لو، عمران! میں اس عذاب کے ساتھ نہیں جی سکتی!"
عمران نے اپنی الماری سے ایک پرانا صندوق نکالا۔ اس میں سے ایک زرد رنگ کا پرانا نسخہ نکالا اور دھیرے سے کہا،
"یہی واحد طریقہ ہے، عالیہ!"
"یہ کیا ہے؟"
"یہ ایک قدیم طریقہ ہے، جو کسی انسان کے اندر بسی ہوئی مخلوق کو باہر نکال سکتا ہے۔ مگر... اس کے نتائج ناقابلِ تصور ہو سکتے ہیں!"
"کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں اسے مزید برداشت کر سکتی ہوں؟ کرو جو کرنا ہے!"
عمران نے عالیہ کے سامنے ایک دائرہ کھینچا، اور اس کے چاروں طرف موم بتیاں جلا کر رکھ دیں۔
"تمہیں بس اپنی آنکھیں بند کرنی ہیں اور کچھ بھی نہ سوچنا۔ میں جو پڑھوں گا، اسے خاموشی سے سننا!"
عالیہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں بند کر لیں۔
عمران نے نسخہ کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔
"بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ..."
ہوا تھم گئی۔
عالیہ نے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس کیں۔
"اللّٰھُمَّ اَخرِج ھٰذا الشَّیطَانَ مِن جَسَدِھَا!"
اچانک ایک زوردار جھٹکا لگا، جیسے پورے کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو۔
عالیہ نے چیخ مار کر آنکھیں کھول دیں۔
"عمران، یہ کیا ہو رہا ہے؟"
عمران کے ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا۔
"وہ... وہ نکل نہیں رہا!"
تبھی، عالیہ کی آنکھیں بدلنے لگیں۔
"عالیہ؟" عمران نے خوف سے کہا۔
عالیہ کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔
"میں نے کہا تھا نا، عمران... میں واپس آؤں گا!"
کمرے میں ایک عجیب سی ٹھنڈک پھیل چکی تھی۔ ہوا میں لرزہ خیز خاموشی تھی، جیسے کسی ان دیکھے خوف نے ہر شے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ عمران کی نظریں عالیہ پر جمی ہوئی تھیں، مگر وہ اب وہ عالیہ نہیں تھی۔
اس کی آنکھیں سیاہ پڑ چکی تھیں، جیسے ان میں کوئی روشنی باقی نہ رہی ہو۔ ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی، جو عمران کو اندر تک ہلا گئی۔
"میں نے کہا تھا نا، میں واپس آؤں گا!" کمرے میں ایک عجیب سی ٹھنڈک پھیل چکی تھی۔ ہوا میں لرزہ خیز خاموشی تھی، جیسے کسی ان دیکھے خوف نے ہر شے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ عمران کی نظریں عالیہ پر جمی ہوئی تھیں، مگر وہ اب وہ عالیہ نہیں تھی۔
اس کی آنکھیں سیاہ پڑ چکی تھیں، جیسے ان میں کوئی روشنی باقی نہ رہی ہو۔ ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی، جو عمران کو اندر تک ہلا گئی۔
"میں نے کہا تھا نا، میں واپس آؤں گا!" عالیہ کی زبان سے نکلی ہوئی یہ سرگوشی عمران کے وجود میں جھرجھری دوڑا گئی۔
"یہ... یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے تعویذ جلایا تھا، میں نے عمل مکمل کیا تھا!" عمران کی آواز لرز رہی تھی۔
"عمل؟ تم جیسے ناتواں انسان کیا جانیں کہ ہمزاد کیا ہوتا ہے؟ میں کوئی عام سایہ نہیں ہوں، عمران! میں عالیہ کے اندر تھا، میں اس کی ہر سانس، ہر دھڑکن میں سما چکا ہوں۔ تم مجھے باہر نہیں نکال سکتے!"
عمران پیچھے ہٹا، اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
"عالیہ، اگر تم سن سکتی ہو، تو خود کو قابو میں رکھو! تمہیں اس سے لڑنا ہوگا!"
"عالیہ؟" وہ ہنسی۔
یہ ہنسی نہیں تھی، یہ جیسے کسی اور جہان کی سرگوشی تھی، ایک ایسی آواز جو انسانی نہیں لگ رہی تھی۔
"عمران، عالیہ اب کہیں نہیں رہی! اب صرف میں ہوں!"
عالیہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی۔ عمران نے دروازے کی طرف بھاگنے کی کوشش کی، مگر جیسے ہی اس نے دروازے کا ہینڈل پکڑا، وہ گرم لوہے کی طرح جلنے لگا۔
"تم کہیں نہیں جا سکتے، عمران!"
عمران نے جلدی سے ہاتھ کھینچا، مگر اس کی ہتھیلی سرخ پڑ چکی تھی۔
"تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟"
"میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا، عمران! میں تو چاہتا ہوں کہ تم دیکھو... دیکھو کہ عالیہ کس طرح میری ہوگی!"
عمران کے چہرے پر بےبسی تھی۔
"تمہاری محبت جنون ہے، اسد! یہ محبت نہیں، یہ قید ہے!"
"قید؟" عالیہ کے لبوں پر وہی شیطانی مسکراہٹ لوٹ آئی۔
"محبت ہمیشہ قید ہوتی ہے، عمران! میں نے عالیہ کو مانگا تھا، میں نے اس کے لیے سب کچھ چھوڑا تھا! میں نے اپنے وجود کا ہر ذرہ اس کے لیے قربان کیا تھا! اور تم... تم مجھے روکو گے؟"
عمران نے دانت بھینچ لیے۔
"میں تمہیں روکوں گا! میں عالیہ کو تمہارے چنگل سے نکال کر رہوں گا!"
اسد نے قہقہہ لگایا۔
جاری ہے
0 Comments