ہمزاد کا عشق 

قسط نمبر ۸

ناول نگار؛ 


ہوا میں ایک عجیب سا بوجھل پن تھا، جیسے وقت رک گیا ہو۔ عالیہ کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر تھا جسے وہ کبھی بھی دیکھنے کی توقع نہیں کر رہی تھی— ہمزاد، جس کی طاقت اور غرور ہمیشہ ناقابلِ شکست لگتا تھا، اب درد سے چیخ رہا تھا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا، جیسے کسی نادیدہ شکنجے میں جکڑا جا رہا ہو۔


"یہ کیا ہو رہا ہے؟" عالیہ نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔


سایہ مسکرا کر بولا،


"یہی وہ سزا ہے جس سے کوئی ہمزاد نہیں بچ سکتا... دھوکہ دینے والے ہمزاد کا انجام یہی ہوتا ہے!"


"نہیں! میں یہ نہیں ہونے دوں گی!" عالیہ نے بےاختیار چیخ کر کہا۔


"تم کچھ نہیں کر سکتی، عالیہ..." سایہ آگے بڑھا، اس کی آنکھوں میں عجیب سی روشنی تھی۔


"یہ وقت کا فیصلہ ہے۔ جو ہمزاد اپنے مالک کو دھوکہ دے، اسے یا تو فنا ہونا پڑتا ہے یا پھر واپس جانا پڑتا ہے!"

اچانک عمران کے جسم میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھلنے لگیں۔


"عمران!" عالیہ اس کی طرف جھکی۔


عمران کی سانس اکھڑی ہوئی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی تھی— جیسے وہ کسی اور ہی دنیا میں جا چکا ہو اور وہاں سے واپس لوٹ رہا ہو۔


"عالیہ...؟"


عالیہ نے جلدی سے اس کا ہاتھ تھاما۔


"میں یہاں ہوں، عمران... تم ٹھیک ہو؟"


عمران نے گہری سانس لی، پھر اس کی نظریں ہمزاد پر جا ٹکیں، جو زمین پر گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا، اس کا چہرہ اذیت میں ڈوبا ہوا تھا۔


اور پھر، عمران کے چہرے پر ایک ایسا تاثر آیا جو عالیہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا— جیسے اسے اچانک سب کچھ یاد آ گیا ہو۔


"اب میں سمجھا..." عمران نے دھیمی آواز میں کہا۔


"کیا سمجھا؟" عالیہ نے بےچینی سے پوچھا۔


عمران نے سیدھا ہو کر ہمزاد کو دیکھا۔


"یہ ہمیشہ میرے ساتھ تھا، میرے اندر... لیکن میں نے کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ میں نے اسے نظر انداز کیا، اس سے نظریں چرائیں... اور تبھی، یہ تمہاری طرف چلا گیا۔"


ہمزاد نے سر اٹھایا، اس کی آنکھوں میں درد تھا۔


"میں نے تمہیں چھوڑا تھا، عمران... کیونکہ تم نے مجھے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ تم ہمیشہ مجھے کمزور سمجھتے رہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمزاد کمزور نہیں ہوتے، وہ اپنے مالک کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔"


"اور میں نے تمہیں کمزور سمجھا کیونکہ میں خود کمزور تھا..." عمران نے آہستہ سے کہا۔

سایہ نے گہری سانس لی اور بولا،


"اب فیصلہ عمران کے ہاتھ میں ہے... یا تو یہ اپنے ہمزاد کو واپس قبول کر لے، یا یہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے گا!"


عالیہ نے بےیقینی سے عمران کی طرف دیکھا۔


"عمران، تمہیں کیا کرنا ہوگا؟"


عمران نے خاموشی سے ہمزاد کو دیکھا۔


ہمزاد نے سر جھکا لیا، جیسے اسے اپنے انجام کا اندازہ ہو چکا ہو۔


"میں واپس جانا نہیں چاہتا، عمران..." اس کی آواز میں نمی تھی۔


"میں نے عالیہ کے ساتھ جو وقت گزارا، وہ حقیقی تھا۔ میں نے اسے کسی مفاد کے لیے نہیں چاہا... میں نے واقعی اس سے محبت کی ہے!"


"لیکن تمہاری جگہ میرے ساتھ ہے..." عمران نے آہستہ سے کہا۔


"اگر میں تمہیں قبول کر لوں، تو کیا عالیہ کی زندگی سے چلے جاؤ گے؟"


ہمزاد نے کوئی جواب نہیں دیا۔


یہی وہ لمحہ تھا جس سے عالیہ سب سے زیادہ ڈر رہی تھی۔


"نہیں، عمران!" عالیہ نے بےاختیار کہا۔


"یہ... یہ جا نہیں سکتا!"


"عالیہ، یہ ضروری ہے..." عمران نے نرمی سے کہا۔


"اگر یہ واپس نہیں گیا، تو یہ ختم ہو جائے گا!"


عالیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


"لیکن... میں نے بھی اسے چاہا ہے، عمران! یہ بھی میرا حصہ بن چکا ہے!"


ہمزاد نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ عالیہ کو دیکھا۔


"یہی محبت کی خوبصورتی ہے، عالیہ... ہم جسے چاہتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے ہمارا نہیں ہو سکتا!"


عمران نے آہستہ سے آنکھیں بند کیں اور گہری سانس لی۔


اور پھر، اس نے ہاتھ بڑھایا۔


ہمزاد نے ایک پل کے لیے جھجک محسوس کی، پھر دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ عمران کی طرف بڑھایا۔


جیسے ہی دونوں ہاتھ ایک دوسرے سے ملے، ایک زوردار روشنی پھوٹی— ایک ایسی روشنی جو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی۔

ہوا میں عجیب سی سرسراہٹ ہوئی۔


ہمزاد کی شکل آہستہ آہستہ دھندلی ہونے لگی۔


"عالیہ..."


یہ آخری لفظ تھا جو ہمزاد کے لبوں سے نکلا۔


اور پھر... وہ غائب ہو گیا۔

روشنی مدھم ہوتے ہی عالیہ نے حیرت سے عمران کی طرف دیکھا۔


"یہ... کیا ہوا؟"


عمران نے گہری سانس لی، جیسے وہ ایک بھاری بوجھ سے آزاد ہو چکا ہو۔


"یہ واپس چلا گیا، جہاں اسے ہونا چاہیے تھا..."


عالیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


"مگر... میں اسے کیسے بھول سکتی ہوں؟"


عمران نے نرمی سے عالیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"محبت صرف حاصل کرنے کا نام نہیں، عالیہ... بعض اوقات، محبت قربانی کا تقاضا کرتی ہے!"


اب کیا ہوگا؟

 جاری ہے