چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
قسط نمبر 9
سمیرا نے ماہی کی بات پر ہنستے ہوئے کہا
شکریہ
ماہی
لیکن ذرا دروازہ بند کرو
کہیں کوئی آ نہ جائے
ماہی نے فوراً دروازہ بند کر دیا
اور سمیرا نے خوشی سے اپنا فون اٹھایا
عمران کا نمبر ڈائل کیا۔
مبارک ہو عمران ہمارا پلان کامیاب ہو گیا
سمیرا نے خوشی سے کہا۔
عمران نے جوش سے کہا
واقعی؟ سب نے یقین کر لیا؟
"ہاں"
سمیرا نے کہا
"سب نے یقین کر لیا"
عمران کی آواز میں خوشی تھی
بہت خوشی ہوئی میری جان۔ تم صرف میری ہو اور ہمیشہ میری رہو گی۔
کوئی بھی تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا۔
سمیرا مسکراتے ہوئے کہا
شکریہ عمران اچھا
کل ماؤنٹین ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں۔
فون کاٹ کر سمیرا نے ماہی کے گلے لگ کر کہا
تھینک یو ماہی! تم نے بھی میری مدد کی۔
ماہی نے سمیرا کے گلے میں بازو ڈال کر کہا
"تم میری دوست ہو سمیرا۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں
تمہیں شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
دوست کی مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ دینا میرا فرض ہے۔
سمیرا نے ماہی کی باتوں کو دل سے محسوس کیا۔
وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں یہ چند قریبی لوگ ہی ہیں جو اس کے لیے ہر مشکل میں کھڑے ہیں۔
وہ کچھ دیر تک ماہی کے ساتھ باتیں کرتی رہی اور دونوں نے اپنی کامیابی اور خوشی کا جشن منایا۔۔
شازیہ کو قرآن کے سائے میں رخصت کردیا گیا۔۔
شازیہ کی کوئی نند نہیں تھی ذیشان اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا لیکن تھا تو نشئی ہی۔
یہی وجہ تھی کہ سمیرا کو اس سے نفرت ہوگئی تھی وہ نشئی لوگوں سے ہمیشہ دور رہتی۔
شازیہ کو ماریہ بیگم کی بھانجی نے ان کے روم میں بیٹھایا اور اس سے باتیں کرنے لگی۔
اچھی لگ رہی ھو تم بھی تو شازیہ۔
وہ شازیہ کی خوبصورتی کی تعریف کرتی اور اسے ہمت دیتی۔
شازیہ ہنس کر شکریہ ادا کرتی
مگر اس کا دل اندر ہی اندر کچھ اور ہی سوچ رہا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ھے۔
وہ اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی
تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی باتیں کرکے چلی گئی شازیہ بیڈ پر بیٹھی اپنے شوہر کا سوچنے لگی۔۔
جب ذیشان کمرے میں آیا۔
اس نے دروازہ بند کیا اور ایک لمحے کے لیے شازیہ کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔
شازیہ کی آنکھوں میں اس کی محبت اور امیدوں کی جھلک تھی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ اب ذیشان اسے اپنے دل کی باتیں بتائے گا
شاید وہ کچھ محبت بھرا لفظ کہے گا
مگر اس کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
چٹاخ
اچانک ایک زناٹے دار تھپڑ نے شازیہ کو ہلا دیا۔
ذیشان نے اس کا دوپٹہ اوپر کر کے غصے میں آ کر اس کو منہ پہ تھپڑ مارا
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بیڈ پہ بیٹھنے کی؟
یہ بیڈ میرا ہے اس پر میرا اور صرف سمیرا کا حق ہے۔
ذیشان کی آواز میں زہر تھا اور شازیہ کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔
شازیہ بےچاری جس کی آنکھوں میں معصومیت اور خوابوں کی جھلک تھی
وہ اس تھپڑ اور توہین کا کوئی جواب نہ دے سکی۔
وہ ڈری ہوئی سہمی ہوئی اپنی ٹوٹتی ہوئی ہمت کے ساتھ اپنے گال کو سہلاتی رہی۔
اس کے آنسو اس کی بے بسی کو اور بڑھا رہے تھے۔
شازیہ کا دل ٹوٹ چکا تھا اور آنکھوں میں چھپے غم کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔
جب ذیشان نے اسے ایک اور تھپڑ مارا تو اس کا جسم بھی لرز اٹھا
مگر اس کے اندر کی ہمت اس شدت سے ٹوٹ گئی تھی کہ وہ کچھ بول نہ سکی۔
اس کی روح زخمی تھی اور جسم بے حس۔
"کمینی! سنا نہیں تم نے؟"
ذیشان کا غصہ پھر سے بھڑک اٹھا
اس کے الفاظ میں بے رحمی اور درندگی تھی۔
"دفع ہو جاؤ میرے بیڈ سے۔"
شازیہ نے سر جھکائے
ڈرتے ہوئے بیڈ سے اتر کر باتھروم کے دروازے کی طرف بڑھی۔
دل میں ایک تیز چیخ تھی جو باہر نہیں نکل پائی۔
وہ جلدی بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگی میں کہاں سوؤ گی؟
اس سوال کا جواب ذیشان نے لاتعلق انداز میں دیا
"اندھی ہو کیا؟ صوفہ نظر نہیں آ رہا۔
شازیہ کی آنکھوں میں بے بسی اور غم تھا۔
اس نے دل میں نانی کو شدید کوسا کہ "نانی! یہ کیا کر دیا آپ نے؟
میری زندگی برباد کر دی ذیشان سے شادی کروا کر۔
شازیہ کا دل بھر آیا تھا
وہ دل ہی دل میں اس کے فیصلے پر افسوس کر رہی تھی کہ اگر اس نے تھوڑی سی اور صبر کا مظاہرہ کیا ہوتا تو شاید سمیرا واپس آ جاتی اور سب کچھ الگ ہوتا۔
شازیہ آنکھوں میں نم دل کے ساتھ صوفے پر لیٹ گئی
اور دل میں ایک سوال گھوم رہا تھا
آخر اس نے کون سا گناہ کیا تھا جس کی یہ سزا مل رہی تھی؟
کیوں اس کی تقدیر اتنی سخت تھی؟
اس کا دل ٹوٹ رہا تھا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد شازیہ کی آنکھیں بند ہو گئیں
اور وہ خوابوں کی دنیا میں گم ہو گئی
لیکن اس کے اندر کا درد اس کے خوابوں کی تکمیل کے لیے ضروری ہمت کا فقدان
ان سب باتوں نے ایک نیا مرحلہ شروع کر دیا تھا۔
اس کے خوابوں کی دنیا میں بھی اب غم کی بارش ہورہی تھی۔۔
چاند کی ہلکی روشنی ان کی مسکراہٹوں میں مزید جاذبیت ڈال رہی تھی
اور رات کی سکونت میں صرف ان کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ عمران نے سمیرا کے قریب آ کر آہستہ سے کہا
تمہاری آنکھوں میں جو چمک ہے وہ چاند کو بھی شرمندہ کر دیتی ہے۔
سمیرا مسکراتے ہوئے اپنی نظریں نیچے کرتے ہوئے بولی
تمہاری باتوں میں کچھ خاص بات ہے عمران
تم ہمیشہ مجھے ایسا محسوس کراتے ہو جیسے میں دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوں۔
عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
تمہیں یہ کہنا میرے لیے اتنا آسان ہے کیونکہ تم واقعی میں دنیا کی سب سے خوبصورت ہو
تمہاری مسکراہٹ میں جادو ہے
اور تمہاری خاموشی بھی دل کو سکون دیتی ہے۔
سمیرا نے اس کی باتوں پر مسکراہٹ کی ایک نرم لہر دی اور کہا
یہ سب صرف تمہاری محبت کی وجہ سے ہے، ورنہ میں بھی کوئی خاص نہیں ہوں۔
عمران ہنستے ہوئے بولا
تمہاری خاموشی میں بھی ایک دنیا کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں تمہاری ہر بات، ہر نظر۔ دل میں ایک نیا راز چھپاتی ہے۔
سکون کی وہ چاندنی رات ان کی باتوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب تھے اور وقت تھم چکا تھا۔ چاند کی چمک سے زیادہ ان کی آنکھوں کا چمکنا اہم تھا۔...
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment