چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
6 قسط نمبر
وقت کیسے گزر گیا پتا ہی نہیں چلا۔
آخرکار وہ دن بھی آ گیا جب پورے ہال کو دلہن کی طرح سجایا گیا۔ سعدیہ بیگم اپنے شوہر مہا لال کے ساتھ خوشی سے مسکرا کر ہال کے دروازے پر کھڑی مہمانوں کو ویلکم کر رہی تھیں۔
عارف بیوٹی پارلر کے باہر گاڑی میں بیٹھا تھا پالر کے اندر سمیرا اور شازیہ تیار ہونے گئیں تھیں۔
کچھ دیر بعد دو میاں بیوی ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ لے کر پارلر میں آئے۔ خاتون مٹھائی کا ڈبہ لے کر اندر گئی اور مرد مٹھائی کا ڈبہ لے کر آس پاس لوگوں میں بانٹ رہا تھا۔ وہ عارف کے پاس آیا اور کہا "ہیلو بھیا میری بیوی ماں بننے والی ہے اس خوشی میں مٹھائی بانٹ رہا ہوں آپ بھی لے لیں۔"
عارف نے مسکراتے ہوئے مٹھائی کھائی لیکن اس کا دماغ اور دل ان باتوں میں نہیں تھا وہ ابھی تک سوچ رہا تھا کہ اتنا خوش بھی کوئی ہوتا ہے؟
پالر کے اندر داخل ہوکر خاتون نے سمیرا اور شازیہ کو بھی مٹھائی دی۔ سب خواتین نے خوش ہو کر مٹھائی کھائی اور اس خوشی کا حصہ بنیں۔
ہال میں مہمانوں کی بھرمار ہو چکی تھی۔
ذیشان اسٹیج پر بیٹھا تھا مسکراتے ہوئے اپنی دلہن کا انتظار کر رہا تھا۔
نانی اماں ہال میں مہمانوں سے مل رہی تھیں
سعدیہ اور مہا لال صاحب دونوں بہت خوش تھے اپنی بیٹی کی شادی پر اتنے مہمانوں کو دیکھ کر دل بھر آیا تھا۔
لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک نیا طوفان آنے والا تھا اور اسی خوشی کے پیچھے ایک آفت چھپ رہا تھا۔
ذیشان کی ماں ماریہ بیگم نانی کے پاس آئی اور کہا "اماں دلہن کہاں ہے؟ اتنی دیر ہوگئی ابھی تک نہیں آئی۔ لوگ مجھ سے دلہن کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔"
نانی اماں مسکرا کر جواب دیتی ہیں "بہو، صبر رکھو دلہن آرہی ہوگی۔ وہ تو بیوٹی پارلر گئی ہے شازیہ اور عارف کے ساتھ۔"
لیکن ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد،
سمیرا اور شازیہ کا کچھ پتا نہ چلا۔
اب تو سب کو فکر ہونے لگی کہ کہیں کچھ برا نہ ہو جائے۔ نانی اور ماریہ بیگم سعدیہ کے پاس آئے اور نانی غصے سے بولی "سعدیہ! کہاں گم ہو گئے یہ تینوں؟ بیوٹی پارلر گئے تھے یا امریکہ؟ فون کرکے پوچھو کمبختوں سے!"
مہا لال صاحب نے جیب سے فون نکالا اور عارف کو فون کیا مگر عارف نے فون نہیں اٹھایا۔ کئی بار ٹرائی کرنے کے بعد وہ مایوس ہو گئے۔
"اماں یہ تینوں فون بھی نہیں اٹھا رہے
کتنا سمجھایا تھا کہ جلدی آجانا! کتنی دیر ہوگئی ابھی تک نہیں آئے۔
ماریہ بیگم گھبرا کر کہنے لگیں "اماں کہیں سمیرا بھاگ تو نہیں گئی؟
سعدیہ نے جواب دیا "بھابھی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میری سمیرا ایسے نہیں ہے کہ بھاگ جائے۔
سعدیہ بیگم کی گھبراہٹ بڑھ رہی تھی وہ مسلسل فون کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ آخرکار نانی نے بھی بے چین ہو کر کہا "ہمیں کچھ کرنا ہوگا کہیں یہ سمیرا ہمیں دھوکا تو نہیں دے رہی؟
نانی نے غصے سے مہا لال سے کہا "تم مصطفیٰ (ذیشان کے والد) کے ساتھ جاکر پالر میں دیکھ آؤ۔ کچھ تو کرو یہ کیا ہو رہا ہے؟
مہا لال اور مصطفیٰ باہر جانے ہی والے تھے کہ اچانک شازیہ اور عارف ہال میں داخل ہوئے۔ جیسے ہی دونوں ہال میں پہنچے تمام خاندان کے لوگ دوڑ کر ان کے پاس پہنچے۔
لیکن شازیہ اور عارف کے چہرے پر جو خوف تھا وہ سب کو بے چین کر رہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے جیسے پوچھنا چاہتے ہوں کہ آخر کیا جواب دیں۔
نانی اماں نے غصے سے کہا "کمبختوں! چھپ کیوں ہو؟ کچھ تو بتاؤ! اتنی دیر کیوں لگا دی اور دلہن کہاں ہے؟
سعدیہ بیگم شازیہ کے قریب آئیں اور اسے بازوؤں سے پکڑتے ہوئے کہا "بتاؤ سمیرا کہاں ہے؟ ساتھ کیوں نہیں آئی؟
شازیہ نے گہری سانس لی اور جو کچھ کہا وہ سن کر سب کے جسموں میں لرزہ آ گیا۔
"امی ہم پالر گئے تھے وہاں دو میاں بیوی آئے تھے۔ انھوں نے ہمیں مٹھائی کھلا کر بے ہوش کردیا۔ پھر ہمیں کچھ پتا نہیں چلا۔ جب ہم ہوش میں آئے تو ہم نے دیکھا کہ سمیرا غائب تھی۔ پالر میں کئی لڑکیاں بے ہوش پڑی تھیں۔ ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم کہ سمیرا کہاں ہے۔"
شازیہ کی یہ بات سن کر جیسے مہالال ساکت ہو گیا۔ سب لوگ بے یقینی اور خوف کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ نانی اماں کے چہرے پر غصے اور بے چینی کی لکیریں کھچ گئیں۔
ماریہ بیگم جو اس صورتحال سے سب سے زیادہ پریشان ہو چکی تھیں
نانی اماں کی طرف مڑ کر کہا، "اماں! اب مہمانوں کو کیا جواب دیں گے؟
اس بدقسمت دن کے بارے میں کیا کہیں گے؟
نانی اماں کی آنکھوں میں غصہ اور شرمندگی کا ایک خطرناک امتزاج تھا۔
وہ پوری طرح بے بس اور غصے سے بھری ہوئی تھی۔
لیکن ان کا غصہ بے اثر تھا کیونکہ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
سب پریشان ہوگئے تھے سعدیہ اور مہا لال سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔
نانی اماں کے دماغ میں اچانک ایک نیا آئیڈیا آیا تھا
اس نےس سوچا کہ مہمانوں کی نظر میں عزت بچانے کا یہی طریقہ ہوگا۔
"ہمیں مہمانوں کا تماشا نہیں بننا چاہیے"
نانی اماں نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"ہم شازیہ کا نکاح ذیشان سے کروا دیتے ہیں۔"
یہ سن کر سعدیہ بیگم نے حیرت سے سر اٹھایا اور پھر نانی کی بات کو سن کر سوچنے لگی
"لیکن اماں شازیہ تو ذیشان سے پانچ سال چھوٹی ہے ایسا کیسے ممکن ہوگا؟
نانی اماں نے ایک گہری سانس لے کر کہا
"سعدیہ، سوچ لو یہ وقت سوال جواب کا نہیں ہے۔ اندر ہال میں مہمان ہمارے منتظر ہیں۔"
جب نانی نے شازیہ کا نکاح ذیشان سے کروانے کا فیصلہ کیا تو اس کے دل میں صرف ایک ہی مقصد تھا کہ عزت بچائی جائے اور مہمانوں کے سامنے کچھ بھی بے عزتی نہ ہو۔
ماریہ بیگم نے نانی اماں کی بات پر اعتراض کیا
"پر اماں ذیشان شازیہ کو قبول کرلے گا؟
نانی اماں نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا
"ذیشان اندر بیٹھا ہے نکاح کے بعد ہی اسے پتا چلنا چاہیے کہ اس کا نکاح شازیہ سے ہوا ہے نہ کہ سمیرا سے۔
ابھی ہم شازیہ کا چہرہ ڈوپٹے میں چھپا کر اسٹیج پر لے جاتے ہیں۔
یہ سب سن کر شازیہ کی نظریں جھک گئیں اور وہ شرم سے اپنی گردن نیچے کر کے رونے لگی۔۔
آپ لوگ ناول پڑھ کر گزر جاتے کمنٹس میں اپنی رائے بھی دیاکرے
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment