چاندنی راتوں کا وعدہ 


ازقلم : داؤد آبان حیدر


قسط 2


میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گی۔ جہاں بھی تم ہوں گے میں تمہارے ساتھ ہوں گی۔۔


عمران نے اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور کہا "میں بھی وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا ہم دونوں کا سفر ایک ساتھ ہو گا چاہے زندگی کی کوئی بھی مشکل آئے میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں گا۔"


یہ لمحات ایسے تھے جیسے چاندنی رات کی چمک میں ان دونوں کی تقدیر ایک ہو گئی ہو ان کے دلوں میں محبت اعتماد اور امید کا ایک نیا وعدہ تھا۔


سمیرہ اور عمران نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ وہ زندگی کے ہر پل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے ہر رکاوٹ کو مل کر عبور کریں گے اور جہاں تک بھی ان کی تقدیر انہیں لے جائے گی وہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے۔


چاندنی رات کی خاموشی میں ان کے دلوں میں ایک نیا عہد تھا اور ان کی تقدیر کا سفر ایک نیا آغاز تھا۔۔


چاندنی رات کی خاموشی میں سمیرہ اور عمران کے درمیان ایک عجیب سی ہم آہنگی پیدا ہو چکی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم تھے جیسے وقت تھم چکا ہو اور دنیا کے تمام شور شرابے سے ان کی ملاقات ایک الگ ہی جہان میں ہو۔


چاند کی روشنی سمیرہ کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جیسے وہ کسی نئی حقیقت کو دریافت کر رہی ہو۔ عمران نے اسے گہری نظر سے دیکھا اور اس کے دل میں ایک نرم سی لہر اُٹھی۔۔


چاند کی روشنی میں دونوں ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے ایک لمحے کے لیے سمیرہ نے عمران کی طرف دیکھا اور اسکے دل میں ایک نیا جذبہ اُٹھا۔ اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی ایسا شخص آئے گا جو اس کی باتوں کو اتنی گہرائی سے سمجھے گا۔ عمران کی موجودگی میں وہ خود کو محفوظ اور سکون محسوس کر رہی تھی جیسے وہ ایک الگ دنیا میں ہو۔۔


دریا کی لہریں آہستہ آہستہ کنارے پر آ کر رک رہی تھیں جیسے وہ بھی ان کے رشتہ کی گواہی دے رہی ہوں۔ سمیرہ اور عمران دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے اور ان کے درمیان ایک نیا رشتہ بن رہا تھا جس کا آغاز چاندنی راتوں میں ہوا تھا۔۔۔۔

___&_____&&_______-&__


صبح کے وقت سعدیہ بیگم سمیرا کے کمیرے میں اسے جگانے آئی۔

سمی جلدی اٹھو ناشتے میں سب تمہارا انتظار کررہے ہیں اور کتنی سوتی رہو گی اب اٹھو بھی۔۔


سمیرا ٹس سے مس نہ ہوئی تو سعدیہ بیگم نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔

اللہ یہ لڑکی ھے یا کوئی جن ھے میں کب سے جگا رہی ہوں مجال ھے کہ اٹھ جائے۔

اسی دوران عارف کمیرے میں آیا اس نے شرارت سے پانی سے گلاس اٹھا کر سعدیہ کے اوپر پھینک دیا۔

سمیرا چیختی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ سامنے امی اور اپنے بھائی کو دیکھ کر کہا

امی کیا مصیبت ھے صبح صبح میری نیند خراب کرنے پہنچ جاتے ہیں مجھے تھوڑی دیر تک تو سونے دیتے کتنا اچھا خواب دیکھ رہی تھی۔


پھر اس نے تکیہ اٹھا کر عارف کو دے مارا کہ تم نے پانی کیوں پھینکا دیکھو میرے کپڑے بھی خراب ہوگئے 😠۔

عارف مسکرا کر بولا "اگر تمہاری نیند اتنی گہری نہ ہوتی تو میں یہ پانی تمہارے اوپر نہ پھینکتا بس تمہارے لیے ایک چھوٹا سا سبق تھا اب اُٹھو


دونوں بہن بھائی کی لڑائی شروع ہوگئے

"چلیں بس کر دیں تم دونوں کچھ تو شرم کرو" سعدیہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر سمیرا کے بالوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہا "اب تمہاری نیند ختم ہو گئی اب اٹھو اور ناشتے کرو تمہاری ناشتے کی میز تمہاری منتظر ہے"


سمیرا ہنستے ہوئے اپنے بستر سے اُٹھی اور شوخی سے کہا "امی، بھائی آپ دونوں جانتے ہیں ناں کہ مجھے نیند سے زیادہ محبت ہے۔ پھر اس نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا "لیکن اب چونکہ اٹھنا ہی ہے تو آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔"


عارف ہنستے ہوئے بولا" امی مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری بچپن کی سمیرا ابھی تک نہیں بدلی اتنی مزیدار نیند میں غرق رہنا۔" پھر اس نے سمیرا کی طرف ایک چیلنج بھری نظر سے دیکھا اور کہا"اب تمہاری نیند کا دور ختم بی بی!"


سمیرا ہنستے ہوئے اپنی آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ "یار تم دونوں کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ مجھے سونے کا بھی حق نہیں دوگے؟" وہ شرارت سے کہہ رہی تھی اور پھر اُٹھتے ہوئے کہا "لیکن اب جب تم دونوں نے جاگنے کے لیے مجھے مجبور کیا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک دم تازہ دم ہو گئی ہوں۔"


سعدیہ بیگم مسکرا کر بولیں "چلو یہ رہی میری بہادر بیٹی جو ہمیشہ مزاحیہ انداز میں سب کچھ ٹال دیتی ہے۔ اب تمہارا انتظار کر رہے ہیں جلدی سے تیار ہو جاؤ اور ہمارے ساتھ ناشتہ کرو۔"


سمیرا نے اپنے بال درست کرتے ہوئے جواب دی "ٹھیک ہے امی بس تھوڑی دیر میں تیار ہو کر آتی ہوں۔" اس نے ہنستے ہوئے کہا "آپ دونوں کو تو میری نیند ہی گوارا نہیں ہے۔

 


سمیرا بیڈ سے اُٹھ کر جلدی سے باتھروم میں گئی۔


سعدیہ بیگم اور عارف ہنستے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔


سمیرا فریش ہونے کے بعد تیار ہو کر باورچی خانے کی طرف بڑھنے لگی۔


گھر کا ماحول خوشگوار تھا اور سارے افراد ہنسی مذاق کرتے ہوئے ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔۔

سمیرا کے گھر میں امی ابو بھائی بہن اور نانی بس پانچ افراد ہی رہتے تھے۔۔۔۔


سمیرا کے دل میں نانی کے لیے نفرت تھی وہ نانی کو پرانے زمانے کا دقیانوسی سوچ رکھنے والی فساڈی بڈھی سمجھتی تھی کیونکہ نانی نے اس کی رضامندی کے بغیر اس کی منگنی ماموں کے نشئی بیٹے 

سے کروا دی تھی۔۔