چاندنی راتوں کا وعدہ
تحریر : داؤد آبان حیدر
قسط 3
کالج کے گروانڈ کی ہری بھری گھاس پر سمیرا اداس بیٹھی تھی جیسے کوئی گمشدہ سی پرندہ ہو جسے اپنا راستہ نہ مل رہا ہو
اس کی آنکھوں میں ایک گہرا سا دکھ چھپا تھا اور دل میں ایک انجانی سی پریشانی۔ وہ اپنی جگہ پر بیٹھی تھی مگر اس کا دماغ کہیں اور دور بہت دور جا چکا تھا اور پھر اچانک ایک آواز آئی۔
"ہیلو! کہاں گم ہو؟" ماہی جو سمیرا کی بیسٹ فرینڈ تھی تیز قدموں سے آتی ہوئی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ "کیا بات ہے؟ ہمیشہ گم سم رہتی ہو کسی کے پیار میں ہو؟"
سمیرا نے سر اٹھایا ایک ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا "کچھ نہیں یار بس ویسے ہی بیٹھی ہوں۔" لیکن اس کے چہرے پر ادھوری مسکراہٹ اور آنکھوں میں چپ کی ایک گہری سی خاموشی تھی جو ماہی سے چھپی نہ رہ سکی۔
ماہی نے سمیرا کے قریب آ کر اس کی نظریں پڑھیں اور کہا "دیکھو سمیرا جو بھی مسئلہ ہو تم مجھے بتاؤ۔ مجھ سے ہوسکے تو میں کوئی حل نکالوں گی۔" اس کی آواز میں اتنی گہری ہمدردی اور پختہ یقین تھا کہ سمیرا کی بے چینی کو ٹٹولنا مشکل نہ تھا۔
سمیرا نے ایک لمبی سانس لی پھر ماہی کو نظر بھر کے دیکھا اور دل کی بات اس کے سامنے رکھ دی۔ "یار ماہی تم تو جانتی ہو نا کہ میں عمران سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے دل و جان سے جڑے ہوئے ہیں لیکن... ہماری محبت کی راہ میں میری فسادی نانی رکاوٹ بن چکی ہے۔" اس کی آواز میں غصے اور دکھ کا ایک عجیب سا امتزاج تھا۔
"وہ میری شادی اپنے نشئی پوتے سے کروانا چاہتی ہے جیسے میں کوئی پالتو جانور ہوں جسے جہاں چاہے باندھ کر چھوڑ دے!" سمیرا نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا۔
ماہی نے سر کو ہلکا سا جھکایا جیسے سمیرا کی تکلیف کو سمجھ رہی ہو اور اس کی آنکھوں میں تھوڑی دیر کے لیے غصہ اور ہمدردی کا گہرا مکسچر تھا۔ "سیمی، تمہاری نانی کو محبت کی اہمیت نہیں سمجھ آتی۔ وہ جو چاہے کرے لیکن تمہاری زندگی تمہاری ہے۔ تمہاری محبت کی طاقت کہیں زیادہ مضبوط ہے۔"
ماہی نے سمیرا کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
سمیرا نے تھوڑا سا سکون محسوس کیا لیکن دل میں ابھی بھی سوالات کا ایک طوفان تھا۔ کیا وہ واقعی اپنی نانی کی مرضی کے خلاف جا کر اپنی محبت کے حق میں فیصلہ لے سکتی تھی؟ "تم کہہ رہی ہو کہ میں عمران کے ساتھ رہوں لیکن۔۔
ماہی نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ بات تو سمجھنی ہوگی کہ تمہارے اور عمران کے درمیان جو محبت ہے وہ تمہاری اور عمران کی ہے نہ کہ کسی اور کی۔"
سمیرا نے افسردہ لہجے میں کہا "مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں۔ عمران بھی میرا خیال رکھتا ہے وہ مجھے ہمیشہ چاہتا ھے لیکن نانی کی ضد اور اُس کے فیصلوں کے سامنے میں کچھ نہیں کر پا رہی۔ وہ ہر حال میں مجھے اُس نشئی پوتے سے شادی کے لیے مجبور کرنا چاہتی ہے۔"
ماہی نے اس کی طرف رخ کر کے کہا"سمیرا تمہیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہے اور تمہاری مرضی کے بغیر تمہاری زندگی میں کسی کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ تمہیں اپنی خوشی اور محبت کا خیال رکھنا ہوگا۔ عمران تمہارے لیے ہے اور وہ تمہیں چاہتا ہے۔ تم دونوں کو مل کر اس مشکل کا حل نکالنا ہوگا"
سمیرا نے غمگین نظروں سے ماہی کی طرف دیکھا اور پھر کہا "میں چاہتی ہوں کہ میری نانی مجھے سمجھ سکے لیکن وہ کبھی نہیں مانے گی۔ وہ ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ میں اس کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزاروں۔۔
سمیرا نے لمبی سانس لی اور کہا "اور اگر تم دونوں کا رشتہ سچا ہے تو اس کے لیے تمہیں ہر حال میں لڑنا ہوگا۔ نانی کی خوشی کی جگہ تمہیں اپنی محبت کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اگر وہ تمہاری محبت کو نہیں سمجھتی تو تمہیں خود اپنے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔"
سمیرا کی آنکھوں میں چمک آئی جیسے ماہی کی باتوں نے اس کے دل میں ایک نئی روشنی جلا دی ہو۔ اس نے اپنی سانسوں کو گہرائی سے لیا اور فیصلہ کیا کہ وہ عمران کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے لیے نیا راستہ اختیار کرے گی۔۔۔
"شکریہ ماہی تم نے میری ہمت بڑھا دی ہے۔" سمیرا نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور ماہی نے اُسے پر اعتماد انداز میں جواب دیا "یہی تو دوست کا کام ہوتا ہے۔"
دونوں دوست ایک دوسرے کی آنکھوں میں وہ عزم اور حوصلہ دیکھ کر اُٹھیں جیسے سمیرا نے اپنی تقدیر کے راستے پر قدم رکھ دیا ہو اور اب وہ اپنے راستے پر چلنے کے لیے تیار تھی چاہے کتنی ہی مشکلات آئیں۔۔
_________________________
سمیرا جب گھر پہنچی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تو اچانک سامنے سے نانی کی آواز آئی جیسے کسی بھاری آواز والی گھڑی کا الارم بجا ہو۔ "سمیرا! کتنی بار کہا ہے کہ گھر میں داخل ہو کر سلام کیا کرو! مجال ہے کہ تم پہ کسی بات کا اثر ہو!" نانی کی آواز میں وہی پرانی شکایت اور غصہ تھا
جو ہمیشہ سمیرا کے لیے مشکلات کا باعث بنتا۔
سمیرا تھوڑی دیر کے لیے رک گئی پھر نانی کی طرف چلتے ہوئے کہا "نانی یہ پرانی روایات کا زمانہ نہیں رہا جہاں ہر وقت اسلام علیکم یا نمستے کہہ کر لوگوں سے ملنا ضروری ہو۔ آج کل ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے سب کچھ بدل چکا ہے۔"
نانی سمیرا کی بات سن کر فوراً غصے میں آ گئیں اور سر پر ہاتھ مارا " سمیری تمہیں یہودیوں کی ایجاد کردہ موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا نے تباہ کر دیا ہے ہمیں تو تمہاری فکر ہے کہ اچھے آداب اپناؤ!" نانی کی ہر بات میں تنقید کا ایک نیا زاویہ تھا"
میں تو کب سے سعدیہ کو کہتی تھی کہ بچوں کو موبائل سے دور رکھو لیکن اس نے میری بات نہ سنی۔ اب دیکھو تمہاری یہ حالت ہو گئی ہے تم ہمیشہ موبائل پر ہی منہ گاڑے رہتی ہو۔
نانی کی باتیں سن کر سمیرا کے دل میں فوراً ایک غصے کا طوفان اٹھا اور وہ آہستہ سے خود میں بڑبڑائی "بڑی آئی مذہبی بڈھی! اپنے نشئی پوتے کو نشے سے نہ روک سکی اور آئی مجھے سلام و آداب سکھانے! او مائی گاڈ اس فسادی بڈھی سے کب جان چھوٹے گی۔۔۔
سمیرا نے دل میں سوچا کہ کتنی مرتبہ وہ نانی کو اپنی باتوں سے سمجھانے کی کوشش کر چکی تھی مگر نانی کا دماغ ہمیشہ پرانی سوچوں پر جڑا رہتا تھا۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment