چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم: داؤد آبان حیدر
قسط : 4
سمیرا نے نانی کی خاموشی دیکھ کر کہا "تمہیں تو میری بات کا اثر ہی نہیں ہوتا میں نے کب سے تمہیں سمجھایا تھا کہ دنیا بدل رہی ہے لیکن تم نہیں سمجھیں گی!"
سمیرا کی بات سن کر نانی آگ بگولہ ہوگئی سمیری اب دیکھو تمہارے پاپا آئے تو میں اس سے بات کرکے تمہاری ذیشان سے شادی کروا دیتی ہوں جب تم اپنے سسرال میں جاؤ گی ناں تب سمجھ آئےگی تمہیں۔
سمیرا نے نانی کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے کہا "نانی میں جانتی ہوں آپ کی فکر اپنی جگہ ہے لیکن زندگی کی رفتار بدل چکی ہے۔ آپ کی ساری نصیحتیں بھی ٹھیک ہیں لیکن دنیا اب اتنی تیز چل رہی ہے کہ ہم کو بھی ساتھ چلنا پڑے گا۔" یہ کہہ کر سمیرا بغیر کسی جواب کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی جیسے اس نے نانی کی پرانی باتوں کو ایک طرف رکھ کر اپنی زندگی کے نئے راستے پر چلنا شروع کر دیا ہو۔۔
اور یوں سمیرا اپنے دل کی باتوں کو اپنے اندر دفن کرتے ہوئے اپنے آپ میں ایک نئی تبدیلی کی طرف قدم بڑھا چکی تھی۔۔۔
پیچھے نانی آگ کھڑی اسے جاتے یوئے دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگانے لگی توبہ توبہ اللہ ایسے بگڑی ہوئی اولاد کسی کو نہ دے۔۔
______
سعدیہ بیگم صوفے پر بیٹھی اپنی بہن سے بات کر رہی تھی اچانک نانی کی آواز آئی اور سعدیہ نے فوراً فون بند کیا جیسے کوئی سرخ روشنی پر گاڑی رک جائے۔۔
نانی کے چہرے پر وہ غصہ تھا جیسے ابھی کسی کو دھکیل کر باہر نکال دے۔
کیا بات ہے امی؟ آپ اتنے غصے میں کیوں ہو؟" سعدیہ نے نانی کی طرف بڑھتے ہوئے سوال کیا۔
نانی نے سعدیہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھا اور کہا "سعدیہ! میں نے تمہیں کتنی بار کہا تھا کہ بچوں کو موبائل سے دور رکھو لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ اب دیکھ لو موبائل نے سمیرا کو خراب کر دیا ہے۔ وہ نہ سلام کرتی ہے نہ نماز پڑھتی ہے اور یہ سب دیکھ کر میری زندگی عذاب بن چکی ہے۔ کتنی بار نصیحتیں کیں لیکن مجال ہے کہ سمیرا پر میری باتوں کا اثر ہو!"
سعدیہ نے نانی کا ہاتھ پکڑ کر کہا "امی آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟ ہمیشہ سمیرا کی وجہ سے پریشان ہو جاتی ہیں۔ اس کی عمر ہی ایسی ہے اور ایسی عمر میں انسان بگڑتا ہے۔ خود ہی سمجھ جائے گی آپ پریشان نہ ہوں۔" پھر وہ نانی کا ہاتھ تھامتے ہوئے ملازمہ کو چائے کا کہہ کر نانی کو لان میں لے گئی۔۔۔۔
__________________
ادھر سمیرا اپنے کمرے میں جا کر فریش ہونے گئی۔
فریش ہو کر جب وہ باہر نکلی تو اس کے فون پر عمران کا کال آیا۔
"ہیلو عمران!" سمیرا نے خوش ہو کر کہا۔
"ہیلو سمیرا کیا حال ہے؟" عمران کی آواز آئی
سمیرا نے کہا"کیا بتاؤں یار فسادی بڈھی سے کب جان چھوٹے گی؟ ہر روز نئی نصیحت لے کر آ جاتی ہے اور میں تو بس اب تکلیف میں ہو ں۔ جب بھی گھر آتی ہوں آتے ہی مجھے سلام سکھانے آ جاتی ہے! اس نے اپنی جوانی میں نانا کے ساتھ پسند کی شادی کی تھی اور اب اس بڈھی کو میری خوشیوں کا مذاق بنانا ہے۔ دل کرتا ہے کہ اسے باہر گھسیٹ کر نکال دوں"
عمران نے سمیرا کی باتوں کو غور سے سنا اور بمشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا۔ پھر کہا "میری جان جب تم میرے پاس آؤ گی نا تو تمہیں اس بڈھی سے کبھی نہیں ملنے دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بیوی کا اس شخص سے سامنا ہو جو ہمیشہ تمہیں تکلیف دینے کی کوشش کرتا ہے"
سمیرا نے جواب دیا "چلو پھر کوئی پلان بناؤ
ہم دونوں کی شادی کے لیے کچھ کریں فسادی کبھی راضی نہیں ہوگی اس لیے ہمیں خود ہی کوئی قدم اٹھانا پڑے گا"
عمران نے کہا "پلان سوچ لیا ہے۔ رات کے وقت دریا کے کنارے ملیں گے اور بات کریں گے"
سمیرا نے کہا "اوکے میں کوشش کروں گی آنے کی۔"
اتنے میں سمیرا کی نمازی بہن شازیہ آ گئی۔ شازیہ ہمیشہ نانی کی خدمت کرتی تھی اور نانی نے بھی اسے اپنے جیسا بنا لیا تھا۔ شازیہ ہمیشہ اپنی نانی کی ہدایات پر چلتی تھی اور جدید سوچ سے بیگانہ تھی۔
شازیہ نے سلام کیا"سلام وعلیکم آپ کس سے بات کر رہی تھیں؟"
سمیرا نے کوئی جواب نہ دیتے ہوئے کہا "میں جس سے بھی بات کروں تمہیں کیا؟ جاؤ اور اپنی نانی کی خدمت کرو یہاں کیا کرنے آئی ہو؟"
شازیہ نے کہا "میں تمہیں بتانے آئی تھی کہ آج مامی آئی تھی۔"
سمیرا نے بیزاری سے کہا "تو پھر؟
شازیہ نے کہا "تمہاری شادی کی بات طے ہو گئی ہے اگلے جمعے کو تمہارا نکاح ہے۔ نانی فضول رسومات مایوں اور مہندی وغیرہ کے خلاف ہے اس لیے صرف سادگی سے نکاح ہوگا پھر ولیمہ ہوگا "
سمیرا نے یہ سنا تو اس کے منہ سے نکل پڑا "کیا؟ اتنی جلدی؟ کیوں؟ اس فسادی بڈھی کو میرے نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟"
سمیرا نے سر پکڑ لیا اور بے بسی میں کہا "یہ سب کیسے ہوگیا؟"
شازیہ اس کے منہ سے "بڈھی فسادی" لفظ سنتے ہی غصے سے کھڑی ہوگئی
۔ "شٹ اپ آپی! تم نے نانی کو فسادی بڈھی کہا؟ رکو! میں امی کو بتاؤں گی، اور پھر تمہیں جوتے کھانے کے لیے تیار رہنا ہوگا!"
سمیرا نے شازیہ کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا "
"جو بھی کرنا ہے کر لو مجھے تو اس فسادی بڈھی سے جان چھڑانی ہے۔ میں تمہاری طرح نانی کے اشاروں پر ناچنے والی نہیں ہوں میں مر جاؤں گی لیکن کبھی بھی ذیشان سے شادی نہیں کروں گی!" سمیرا نے اپنے دل کی بات کھل کر کہہ دی۔
شازیہ جو سمیرا کے جواب سے بے حد غصے میں آچکی تھی ایک لمحے کے لیے رکی اور پھر اپنی جگہ سے اُٹھ کر لان کی طرف بڑھ گئی جہاں امی اور نانی بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس کے دل میں غصے کی لہر تھی اور وہ چاہتی تھی کہ سمیرا اپنی ضد چھوڑے۔
لان میں پہنچتے ہی شازیہ نے نانی سے کہا، " سمیرا نکاح کے لیے راضی نہیں ہے۔"
نانی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا "کیا؟! اس کو ہر حال میں ذیشان سے شادی کرنی ہوگی۔"
نانی نے سعدیہ سے مخاطب ہو کر کہا "تم اسے سمجھا کر آؤ اور اُس پہ نظر رکھو، کہیں کوئی غلط قدم نہ اُٹھائے۔"
اسی دوران سمیرا بھی اندر آ گئی اور نانی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی "میں ہرگز اس نشئی سے شادی نہیں کروں گی نانی! وہ ہمیشہ نشہ کرتا رہتا ہے اپنے گھر والوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تو میرا کیا خیال رکھے گا؟"
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment