چاندنی راتوں کا وعدہ


ازقلم؛ داؤد آبان حیدر


قسط نمبر 7

۔

 نانی اماں اس کے پاس آئیں اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا


 "شازیہ میری بچی مان لے میری بات

ہماری عزت رکھنے کی ذمہ داری اب تم پر ہے مہمانوں کے سامنے ہمیں سب کچھ ٹھیک کرنا ہوگا۔


شازیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن اس نے نانی اماں کے ہاتھ تھام کر ہامی بھر لی۔


سعدیہ بیگم نے شازیہ کا دوپٹہ اس کے چہرے پر ڈالا اور پھر ماریہ بیگم کے ساتھ شازیہ کو لے کر ہال میں داخل ہوئیں۔ 


ہال میں موجود مہمانوں کی نظریں ان کی طرف اٹھ گئیں۔


 کچھ نے سرگوشیاں شروع کر دیں کہ دلہن کے کپڑے کیسے ہیں


 اور ایک عورت نے کہا


"دیکھو دلہن آئی ہے لیکن یہ کیا دلہن کی بہن کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔


کچھ عورتوں نے شک ظاہر کیا


 "مجھے تو لگتا ہے کچھ گڑبڑ ہے۔"


پھر شازیہ کو ذیشان کے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا گیا۔ 


اس کا چہرہ ڈوپٹے میں چھپا ہوا تھا اور سب مہمانوں کو یہی لگا کہ یہ سمیرا ہے۔ 


مولوی صاحب نے شازیہ سے پوچھا


 "شازیہ بنت مہا لال آپ کا نکاح ذیشان ابن مصطفیٰ کے ساتھ چالیس لاکھ حق مہر طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟


شازیہ کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور دل میں بے شمار خوف اور بے یقینی کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ 

وہ لمحوں تک خاموش رہی جیسے اس لمحے میں اس کی تقدیر کا فیصلہ ہو رہا ہو۔

 مولوی صاحب نے دوبارہ پوچھا اور پھر بڑی مشکل سے شازیہ نے ہمت سے کہا

 "ق—ق—ق—قبول ہے۔"


نانی اماں اور سعدیہ نے اطمینان کا سانس لیا۔


 یہ لمحہ شاید ان کے لیے ایک نیا آغاز تھا لیکن شازیہ کی آنکھوں میں ایک اڑتا ہوا سوال تھا کیا یہ اس کی مرضی تھی؟ کیا یہ اس کا حق تھا؟


مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا اور شازیہ کے اور ذیشان کے درمیان یہ بندھن مکمل ہوگیا۔ 


سب نے سکون کا سانس لیا لیکن شازیہ کے دل میں ایک طوفان تھا۔ 

نانی اماں اور سعدیہ نے آپس میں مصنوعی خوشی کے نشان کے طور پر ایک دوسرے کو دیکھا۔

 لیکن اندر کا سکون بہت جلد ٹوٹنے والا تھا

خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کررہے تھے۔


ادھر ہال کے دوسری طرف ماہی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی


اور ایک مسکراہٹ اس کے لبوں پر تھی۔


اس نے اپنا موبائل نکالا اور سمیرا کو پیغام بھیجا "Done"


سمیرا نے اس پیغام کا جواب دیا

"Ok wait kren mein aarhi hun…" 

اور وہ ہال کی طرف چل پڑی۔


تھوڑی دیر بعد ہال میں ایک لڑکی داخل ہوئی اور مہمانوں کی نظریں فوراً اس پر پڑ گئیں۔


 وہ لڑکی جو سمیرا تھی آتے ہی دلہن کے قریب نظر دوڑائی 


اور سب مہمانوں کی نظریں اسی پر مرکوز ہوگئیں۔


 عورتیں سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگیں


کچھ حیرت کا اظہار کر رہے تھے

کچھ سوالات اٹھا رہے تھے۔


سعدیہ کی نظر اس لڑکی پر پڑی اور جیسے ہی وہ اسے پہچان گئی ایک دھچکا لگا۔


 "سمیرا!" وہ ہڑبڑاتے ہوئے چیخ پڑی۔


یہ چیخ سن کر نانی ماریہ مہا لال مصطفیٰ اور ذیشان سب تیزی سے کھڑے ہوگئے۔ 


سب کا دل دھڑک رہا تھا۔


 سعدیہ بیگم فوراً دوڑ کر ہال کے دروازے کی طرف آئیں اور سمیرا کو گلے لگا لیا۔


لیکن سمیرا کے جسم پر خون کے دھبے تھے۔


 اس کے ہاتھوں اور سر پر خون لگا ہوا تھا اور ناک سے بھی خون بہ رہا تھا۔ 


سعدیہ کی آنکھوں میں دہشت اور پریشانی تھی اور وہ بے اختیار چیخیں مار رہی تھیں۔


مہا لال مصطفیٰ ماریہ اور نانی بھی فوراً اس طرف دوڑے لیکن ذیشان وہیں ساکت کھڑا تھا اس کی نظریں شازیہ اور سمیرا پر جمی ہوئی تھیں۔ 


وہ یقین نہیں کر پا رہا تھا کہ اس کا نکاح سمیرا سے نہیں بلکہ شازیہ سے ہوا ہے۔


شازیہ جو ابھی تک اسٹیج پر بیٹھی تھی


 سعدیہ کی چیخ سن کر اپنا دوپٹہ اوپر کر کے تیز قدموں سے سمیرا کی طرف بڑھی۔


 اس کا دل دہل رہا تھا اور وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کیا حقیقت میں وہ جو دیکھ رہا ہے وہ سچ ہے؟


 اس کا ذہن اس تکلیف دہ حقیقت سے لڑ رہا تھا کہ وہ اس شادی میں بے بس تھی۔


سمیرا خون بہنے کی وجہ سے بیہوش ہو گئی تھی اور سعدیہ اس کے قریب پہنچ کر فوراً اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھی۔


 وہ بے قابو ہوگئی اور سمیرا کو اپنی بازوؤں میں سنبھال کر روم کی طرف لے گئی۔


 ڈاکٹر کو فون کیا گیا لیکن سب کچھ بہت تیز ہوچکا تھا۔


 ماریہ بیگم نے پریشانی سے کہا "یہ سب کیا ہوگیا؟" 


جب سمیرا کو ہوش آیا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ 


اس کی آنکھوں میں بے حد خوف تھا


اور جسم میں ایک لرزہ سا دوڑ رہا تھا۔


 اس کا دل بے ترتیب ہو رہا تھا


اور اس کی آنکھوں میں بس ایک سوال تھا


 "یہ کیا ہو رہا ہے؟" 


اس کے ارد گرد سب کچھ ہلچل مچا ہوا تھا


 اور نانی اماں غصے سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔


"کمینی کہاں بھاگ گئی تھی تُو؟"


 نانی نے سخت لہجے میں کہا۔


 "تجھ سے یہ امید نہیں تھی کہ تیرا نکاح ہے اور تُو ایسی غفلت دکھائے گی؟"


سمیرا نے سر جھکایا

اور اس کی نظریں نانی کے غصے سے بچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔


 سعدیہ جو کہ ابھی تک مکمل طور پر پریشان تھی


 نے فوراً نانی سے کہا


 "اماں بس بھی کرو! آپ کو میری بیٹی کی حالت نظر نہیں آ رہی؟ 


کیا آپ ابھی بھی یہی سمجھ رہی ہیں کہ سمیرا بھاگ گئی تھی؟


پھر سعدیہ نے سمیرا کی طرف رخ کیا


اور اس سے سوالات کرنا شروع کر دیے۔


 "بیٹی بتا کہاں چلی گئی تھی تُو؟ 


اور یہ کیا ہو گیا تھا تیرے ساتھ؟"


 اس کی آواز میں اضطراب اور پریشانی چھپی ہوئی تھی۔


سمیرا نے ایک نظر نانی کی طرف ڈالی


پھر اپنی ماں کو دیکھا

اور روتے ہوئے کہا


امی مجھے کچھ نہیں پتا۔

پالر میں دو میاں بیوی آئے تھے


اور انھوں نے ہمیں مٹھائی کھلائی تھی۔

پھر اچانک میں بے ہوش ہوگئی


جب مجھے ہوش آیا

تو میں نے اپنے آپ کو ایک ویران اور سنسان گھر میں پایا۔


اس نے مزید کہا

"جب میں اٹھ کر کھڑی ہوئی تو وہی خاتون نظر آئی

جس نے ہمیں مٹھائی کھلائی تھی۔

وہ کسی سے بات کر رہی تھی

اور میں نے ان کی باتیں سنیں


وہ کہہ رہی تھی کہ ہمیں پالر میں ایک حسین لڑکی ملی تھی


جسے ہم اغوا کر کے طوائفوں کے کوٹھے پر بیچ دیں گے۔


اس لڑکی کی قیمت کروڑوں میں لگے گی۔۔۔



جاری ہے