چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
قسط نمبر 8
اس لڑکی کی قیمت کڑوروں میں لگے گی کیونکہ اس کی خوبصورتی پر لوگ فدا ہو جائیں گے۔"
سمیرا نے روتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی
امی میں خوف کے مارے کانپ رہی تھی
اور پھر میں بڑی مشکل سے وہاں سے بھاگ نکلی۔
وہ لوگ میرے پیچھے آئے اور میں کسی طرح ایک گاڑی کے نیچے آنے سے بچ گئی۔
بس سر پر چھوٹی سی چوٹ آئی۔
پھر میں نے راستے میں پولیس کو دیکھا اور وہ لوگ پولیس کو دیکھ کر بھاگ گئے۔
میں نے بڑی مشکل سے پولیس کے ذریعے یہاں پہنچا لیکن امی آپ لوگوں نے مجھے ڈھونڈا بھی نہیں۔
سمیرا کی باتیں سن کر مہا لال کی آنکھوں میں شرمندگی اور ندامت کی جھلک تھی۔
اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ اس کی بیٹی کے بارے میں جو غلط سوچ رہا تھا
وہ بے بنیاد اور بے قصور تھی
اور اس نے سمیرا کو اغوا ہونے کے بجائے فسادی نانی کی باتوں پر یقین کیا تھا۔
سمیرا نے اپنے مغموم چہرے پر ایک مسکراہٹ لانے کی کوشش کی اور کہا
"امی آپ سب کیوں یہاں کھڑے ہیں؟ نکاح ہے ناں آج؟
بس میں اسی طرح تیار ہوں مجھے اسٹیج پر لے چلے۔
اس کے لفظوں میں ایک عجیب سی جرات تھی جیسے وہ سب کچھ بھلا چکی ہو اور صرف اپنی تقدیر کو بدلنا چاہتی ہو۔
سمیرا کی باتیں سن کر پورے خاندان میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔
نانی اور سعدیہ دونوں ہی شاکڈ ہو گئے تھے
اور سب کی نظریں سمیرا پر مرکوز ہو گئیں۔
نانی جو یہ سمجھ رہی تھی کہ سمیرا نکاح کے لیے تیار نہیں ہے اور شاید اس لیے بھاگ گئی تھی
حیرت سے سمیرا کو دیکھنے لگی۔
اب سمیرا خود نکاح کے لیے تیار تھی! یہ نانی کے لیے ایک زبردست دھچکا تھا۔
نانی کی آنکھوں میں ایک پل کے لیے شرمندگی اور افسوس کی جھلک تھی۔
وہ جو سوچ رہی تھی
اس کا بالکل الٹ کچھ ہو گیا تھا۔
اس کی یقین دہانی کی غلطی اور عجیب فیصلے پر پچھتاوا شروع ہو گیا تھا
نانی دل ہی دل میں خود کو کوستی رہی
"کاش میں تھوڑا اور انتظار کر لیتی
تو سمیرا آ جاتی۔
کاش میں نے شازیہ اور ذیشان کے نکاح کا فیصلہ نہ کیا ہوتا۔"
سعدیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے
اور دل میں غصہ اور افسوس کا ایک طوفان تھا۔
وہ شازیہ کی طرف دیکھ رہی تھی
جو ابھی چند لمحے پہلے ذیشان سے نکاح کر چکی تھی
اس کی آنکھوں میں ایک سوال تھا
"یہ سب کیسے ہو گیا؟"
سعدیہ نے سمیرا کو اپنے قریب کر لیا اس کی آنکھوں میں غم اور محبت کی آمیزش تھی
بیٹا تم نے جو کچھ بھی جھیلا وہ بہت دردناک تھا، مگر تم نے اسے بہت بہادری سے برداشت کیا۔
سعدیہ کی آواز میں ایک نرم سرگوشی تھی
جو سمیرا کے دل کو بہت سکون دیتی تھی۔
سمیرا نے سر جھکا کر کہا "امی وہ لوگ میرے پیچھے تھے
میں بہت خوفزدہ تھی۔
لیکن جب مجھے پولیس نظر آئی
تو میں نے اپنی زندگی کو بچانے کے لیے ان سے مدد لی۔
آپ لوگوں نے مجھے ڈھونڈا بھی نہیں
بس بس میں یہی سمجھتی رہی کہ آپ لوگ بھی مجھے مجرم سمجھے گے۔
سعدیہ نے سمیرا کو گلے لگا لیا
اور اس کی آنکھوں میں کچھ تھورا سا ملامت بھی تھی۔
بیٹا ہم نے تمہارے بارے میں برا سوچا
اور یہ ہمارا گناہ تھا۔
لیکن اب تمہیں کچھ ہونے نہیں دیا جائے گا۔"
پھر اچانک غصے میں اس نے نانی کی طرف دیکھا اور کہا
"اماں یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے! کیا ضرورت تھی اتنی جلدی شازیہ اور ذیشان کا نکاح کروانے کی؟"
سعدیہ کی باتوں نے سمیرا کو حیرت میں ڈال دیا۔
اس نے شازیہ کی طرف دیکھا اور پھر ماں سے پوچھا
"امی آپ نے کیا کہا؟ ذیشان کا نکاح شازیہ سے کر لیا؟
سمیرا کی آواز میں بے یقینی تھی جیسے وہ اپنی ماں سے یہ سوال دوبارہ سننا چاہتی ہو۔
سعدیہ نے سمیرا کی طرف دیکھا اور اس کا چہرہ لمس کرتے ہوئے کہا
میری بچی! مجھے معاف کر دے۔ جب تم پالر سے واپس نہیں آئی تھی تو نانی نے اتنی جلدی میں یہ فیصلہ کر لیا تھا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔"
مہا لال نے بھی شرمندہ ہو کر سمیرا سے معافی مانگی۔
بیٹا مجھے معاف کر دے۔ میں نے تجھے غلط سمجھا۔
سب کچھ تمہاری نانی کی وجہ سے ہوا۔"
اس کی آواز میں ندامت تھی جیسے وہ اپنی بیٹی کی تکلیف کا ذمہ دار خود سمجھ رہا ہو۔
نانی بچاری سب کی زبانوں سے خود کو ہی قصوروار سن کر اپنے آنسوں چھپاکر روم سے نکل گئی
سعدیہ نے ماریہ بیگم سے کہا بھابھی آپ نے دیکھا؟
آپ ہی کہہ رہی تھیں کہ سمیرا بھاگ تو نہیں گئی۔
دیکھیں میری بیٹی نے کس طرح درندوں کے چنگل سے خود کو بچا لیا۔
میں نے بیٹیوں کی تربیت ایسی نہیں کی کہ میری بیٹی اپنی عزت کو خاک میں ملا کر گھر سے بھاگ جائے۔"
ماریہ بیگم نے سر جھکایا اور افسوس کے ساتھ کہا
سوری بھابھی شیطان واقعی انسان کے ذہن میں غلط وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔
وہ میرے ذہن میں بھی یہ غلط سوچ ڈال رہا تھا
جس کی وجہ سے مجھے شک ہو گیا تھا۔
نانی کے کہنے پر مصطفیٰ نے اپنے بیٹے ذیشان کو منا لیا تھا کہ وہ شازیہ کو قبول کر لے
اور سب نے اس بات کو کسی حد تک تسلیم کیا کہ جو ہوا سو ہوچکا
اب سمیرا کی حالت میں کوئی بہتری آ چکی تھی
اور اس کو آرام کرنے کے لیے کمرے میں چھوڑا گیا
جب کہ سب لوگ ہال میں واپس چلے گئے۔
شازیہ اور ذیشان اسٹیج پر بیٹھے تھے
اور مہمانوں کو نانی نے ایک جھوٹی کہانی سنائی تھی۔
نانی نے کہا
"شازیہ اور ذیشان ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے
ہمیں اس کا پتا نہیں تھا۔
اسی وجہ سے ہم نے انجانے میں سمیرا کا رشتہ طے کر لیا تھا۔
اب ہمیں معلوم ہوا تو شازیہ اور ذیشان کا نکاح کر دیا۔
سمیرا تو پالر میں اپنی کچھ قیمتی سامان بھول آئی تھی
وہ لینے گئی تھی اور راستے میں ایکسیڈنٹ ہونے سے بچ گئی۔
بس معمولی چوٹ آئی تھی، اس لیے خون بہا رہا تھا۔
سب لوگ اس کہانی پر یقین کرگئے لیکن دل میں ہر کسی کے ایک نہ ایک سوال تھا۔
سمیرا روم میں بیٹھی خوش ہو رہی تھی جیسے وہ ذیشان سے نجات کا جشن منا رہی ہو۔
ایک لمحے کے لیے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک بڑی کامیابی حاصل کر چکی ہے
اتنے میں ماہی بھی روم میں داخل ہوئی اور کہہ پڑی
"سمیرا تم واقعی کمال کی ایکٹر ہو! تمہیں تو سچ میں ڈراموں اور فلموں میں کام کرنا چاہیے۔
کیسے ایکٹنگ کر کے سب کو بے وقوف بنایا۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment