چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
قسط نمبر 10
صبح کا وقت تھا
ہوا میں تازگی تھی
اور شازیہ نے فجر کی اذان سن کر اپنی آنکھیں کھولیں۔
بے شمار خیالات اور دکھوں کے بیچ
اس نے اٹھ کر غسل خانہ کا رخ کیا
لباس تبدیل کیا اور وضو کیا۔
اس کی نیند میں گہرے دکھ اور پچھتاوے کے سائے تھے
لیکن نماز کا وقت تھا اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اللہ سے مدد طلب کرے۔
وہ اپنا دوپٹہ درست کرتے ہوئے جائے نماز تلاش کر رہی تھی۔
اچانک اسے کچھ قدموں کی آہٹ سنائی دی
اس نے ہولے سے دروازہ کھولا اور نظر اُٹھا کر مصطفیٰ ماموں کو دیکھا
جو فجر کی نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے۔
بہو کیا بات ہے؟
اتنی جلدی اٹھ گئی ہو؟
مصطفیٰ چچا نے شازیہ سے سوال کیا۔
شازیہ نے شرم سے سر جھکایا
ماموں نماز پڑھنی ہے
لیکن مصلہ نہیں مل رہا۔
مصطفیٰ چچا مسکرائے اور کہا
ماشاءاللہ ہماری بہو بھی نماز پڑھتی ہے۔
رک بیٹا میں لاتا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں گئے اور مصلہ لے کر واپس آ گئے
جیتی رہو بیٹی۔
انھوں نے دعاؤں کے ساتھ شازیہ کو مصلہ دیا
میں بھی مسجد جا رہا ہوں تم بھی اللہ سے دعا مانگنا۔
شازیہ نے دل سے شکریہ کہا
اور اپنے کمرے میں جا کر نماز پڑھنے لگی۔
نماز پڑھ کر دعائیں مانگ رہی تھی اس کی آنکھوں سے آنسوں بھی بہا رہے تھے۔
جانے کون سی خطا ہوئی تھی اس سے جس کی سزا ذیشان کی صورت میں ملی اسے۔
نماز پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں مشغول ہوگئی
ذیشان کے کانوں میں خوبصورت آواز گونج رہی تھی اس کی آنکھیں کھلے تو دیکھا شازیہ رکاوٹ کررہی ھے۔
اس کے چہرے سے معصومیت ظاہر ہورہی تھی
دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا کہ اس کو اتنی نیک بیوی ملی ھے
اس نے رات کو اس کی بےعزتی کرکے غلط کیا۔
وہ اٹھ بیٹھا شازیہ کو ہی دیکھ رہا تھا شازیہ نے محسوس کیا کہ کوئی اس کو دیکھ رہا ھے
اس نے بیڈ کی طرف دیکھا تو ڈر گئی ذیشان بیٹھا تھا اسے ہی گھور رہا تھا۔
شازیہ سوچنے لگی کہ میں نے ذیشان کی نیند خراب کردی اب دوبارہ اس کی بےعزتی ھوگی اس نے جلدی سے قرآن کی تلاوت مکمل کرکے الماری کے اوپر رکھ دیا۔
پھر ڈرتے بڑڑاتے ذیشان سے کہنے لگی سوری میری وجہ سے آپ کی نیند ڈسٹرب ھوئی۔
ذیشان نے اس کی آواز سن کر سوچوں سے باہر نکلا اور کہا کوئی بات نہیں۔
شازیہ ناشتہ بنانے کا کہہ کر جانے ہی لگی کہ ذیشان نے اس سے روکا کہ رکو بات سنو رات کو جو ھوا معاف کردو غلطی ہوئی میں ہوش میں نہیں تھا شراب پی کر آیا تھا۔
شازیہ اس کی بات سن کر بھاگ گئی کہ اب پتا نہیں کیا مصیبت چڑھ گیا اس نشئی کو۔
پہلے زخم دیتا ھے دل توڑتا ھے پھر معافی بھی مانگتا ھے
شازیہ کچن میں آئی تو ممانی ناشتہ تیار کر رہی تھی۔
شازیہ نے ممانی کے بار بار منع کرنے کے باوجود اس کی مدد کرنے کی کوشش کی۔
ممانی آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں
میں سب کچھ کر لوں گی۔
شازیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
لیکن ممانی نے اسے روکتے ہوئے کہا
نہیں بیٹا تم ابھی آئی ھو دلہن آتے ہی کام کرتے اچھی نہیں لگتی۔
تمہارا کام نہیں ہے تم جا کر آرام کرو۔
لیکن شازیہ کی ضد غالب آئی اور وہ ممانی کے ساتھ ناشتہ تیار کرنے میں مشغول ہو گئی۔
دونوں نے مل کر ناشتہ تیار کیا اور پھر سب نے ایک ساتھ کھایا۔
ناشتہ کے بعد شازیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ذیشان کے ساتھ میکے جائے گی۔۔
اس کا دل ابھی بھی مایوسی اور غم میں ڈوبا تھا
مگر اس نے یہ سوچا کہ شاید یہ قدم اُٹھا کر وہ کچھ سکون حاصل کر سکے۔
ماموں نے بھی ذیشان کو شازیہ کے ساتھ دادی سے ملنے بھیجا۔
صبح کا وقت تھا اور آج سمیرا کا دل خوشی سے بھرا ہوا تھا۔
وہ آج بہت خوش تھی
کیونکہ اس کی زندگی میں ایک نیا آغاز ہونے والا تھا۔
ذیشان سے جان چھوٹنا اس کے لیے کسی خواب سے کم نہیں تھا
رات سے پہلے کی ساری الجھنیں تکلیفیں اور خوف آج وہ سب ماضی بن چکے تھے۔
آج وہ آزاد تھی اور یہ آزادی اسے اپنے خوابوں کے قریب لے جا رہی تھی۔
سمیرا سویرے اٹھ کر تیار ہو گئی۔
وہ ہمیشہ سے اپنے اندر ایک خاص قسم کی پختگی اور خوشی محسوس کرتی تھی جب وہ اپنی زندگی کے بارے میں فیصلے کرتی تھی۔
آج کا دن میرا ہے!
اس نے خود سے کہا اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنے روم میں واپس آگئی۔
سکون سے اپنے کمرے میں آئی تو عمران کا فون آیا
سمیرا نے مسکراتے ہوئے فون اٹھایا
ہیلو عمران!
عمران کی آواز سن کر سمیرا کا دل خوش ہو گیا۔
کیسی ہو تم؟
عمران نے کہا
"بہت اچھا ہوں بہت خوش ہوں!
ذیشان سے جان چھوٹ گئی ہے
بس زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
سمیرا نے خوش ہو کر کہا۔
تمہاری خوشی میں میں بھی شریک ہوں۔
تم نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل درست تھا۔ عمران نے کہا۔
سیمیرا کی آواز میں کچھ سنجیدگی آ گئی
میں جانتی ہوں عمران
اب مجھے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
تم ہی تو ہو جو ہمیشہ میری حمایت کرتے ہو۔
تمہارا ساتھ میرے لیے سب سے قیمتی چیز ہے۔
عمران نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
سمیرا تمہارا ساتھ میری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ ہے۔
میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں
چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
تمہیں کبھی بھی میرے ساتھ کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
میں تمہارے ساتھ ہی ہوں گا تمہاری ہر خوشی اور غم میں۔
سیمیرا نے نرم لہجے میں کہا
میں جانتی ہوں۔عمران۔
تمہاری محبت اور حمایت نے ہمیشہ مجھے مضبوط بنایا ہے۔
عمران نے کہا
میرے لیے تمہاری ہر خوشی سب سے اہم ہے
اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔
تمہارے ساتھ یہ سفر انتہائی خاص ہے
اور ہم دونوں کا ساتھ ایسا ہونا چاہیے کہ ہم ایک دوسرےدن گئے کے ساتھ اپنی زندگی کے تمام پل خوشی سے گزاریں......
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment