چاندنی راتوں کا وعدہ

ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

قسط نمبر 11



چند ہفتے بعد


سعدیہ بیگم اور نانی اماں لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے


کہ ملازمہ نے آکر اطلاع دی کہ میڈم کوئی مہمان آئے ہیں۔ آی


سعدیہ نے نانی کی طرف دیکھا اور پوچھا "کون آئے ہیں؟"


ملازمہ کو حکم دیا کہ


ہیں اندر بھیجو۔


اتنے میں ایک عورت اور اس کے ساتھ دو لڑکیاں بھی آئیں ہاتھ میں پھول


مٹھائی اور ڈھیروں تحائف لے کر۔


نانی اماں اور سعدیہ حیرت سے ان اجنبی چہروں کو دیکھ کر چونک گئے کہ کوئی اجنبی ان کے گھر کیسے آ سکتا ہے اور وہ بھی ڈھیروں تحائف کے ساتھ ؟


سعدیہ نے انہیں صوفے پر بیٹھنے کا کہا اور پھر پوچھا۔


بہن میں نے آپ کو پہنچانا نہیں۔


رخسانہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا


میں سمیرا کا رشتہ لینے آئی ہوں میرا نام رخسانہ ہے یہ میری دو بیٹیاں ہیں ائبہ اور یہ فرینہ۔


رشتہ کی بات سن کر سعدیہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


سعدیہ نے پوچھا


آپ سمیرا کو کیسے جانتی ہیں؟


رخسانہ بیگم نے جواب دیا


سميرا جس کالج میں پڑھتی ہے


وہاں میری بیٹی بھی پڑھتی ہے۔


دونوں کی دوستی ہے۔


میرا بیٹا اپنی بہن کو لینے کالج آتا تو تب سمیرا انہیں پسند آ گئی۔ تو ہم رشتہ لے کر آئے ہیں۔


فرینہ نے سعدیہ سے کہا


 سمیرا کہاں ہے؟ 

مجھے اس سے ملنا ہے۔


سعدیہ نے کہا


وہ اپنے روم میں ہوگی۔


ملازمہ کو آواز دی فرینہ اور صائبہ کو سمیرا کے روم میں لے جاؤ۔



ملازمہ فرینہ اور صائبہ کو لے کر سمیرا کے روم میں جانے لگی۔


روم کے باہر فرینہ نے ملازمہ سے کہا آپ روم دکھاؤ میں خود اندر جاؤں گی۔


ملازمہ نے سامنے والے دروازے کی طرف اشارہ کیا پھر چلی گئی۔


فرینہ اور صائبہ دونوں سمیرا کے روم کی طرف چل پڑے۔

سمیرا بیڈ پر بیٹھی کانوں میں ہینڈ فری لگائے گانے سن رہی تھی۔


اچانک اس کے روم میں دو لڑکیاں داخل ہو گئیں۔


فرینہ کو دیکھ کر سمیرا چونک گئی۔


اسے حیرت ہوئی اور اس نے کہا


تم یہاں کیسے آ گئی ہو ؟



فرینہ وہی لڑکی تھی جس نے پالر میں مٹھائی کھلا کر سب کو بے ہوش کر دیا تھا )


فرینہ نے مسکرا کر کہا


کیوں؟ میں اپنے بھائی کی ہونے والی بیوی کے گھر نہیں آ سکتی؟


سمیرا نے کہا اچھا اچھا بیٹھو۔


پھر پوچھنے لگی دونوں آئی ہو؟


صائبہ نے کہا


سمیرا ہم تمہارا رشتہ لینے آئے ہیں امی کے ساتھ۔



سمیرا کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ اس کی زندگی میں ایک نیا جوش اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔


او مائی گاڈ میرا رشتہ لینے ؟ سچ میں ؟


صائبہ نے سر ہلا کر کہا سچ پس!


فرینہ نے مسکراتے ہوئے کہا


کیوں؟ تمہیں پسند نہیں آیا کیا؟ ہمیں بتا دو ہم جا کر مام کو لے کر واپس گھر جائیں۔


سمیرا نے ہنستے ہوئے کہا


ارے نہیں! میرا وہ مطلب نہیں تھا۔

 مجھے تو بہت خوشی ہوئی



سميرا فرینہ اور صائبہ تینوں باتوں میں مصروف تھیں


ہنسی مذاق کر رہی تھیں کہ اچانک روم کی دروازے پر کھٹکا آیا۔


ایک ملازمہ اندر آئی اور بادب طریقے سے کہا سمیرا آپ کو میڈم بلا رہی ہیں لڑکے کی والدہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔


سن کر تو سمیرا نے فوراً مسکراتے ہوئے کہا


اوکے میں ابھی آتی ہوں۔


فرینہ نے ہنستے ہوئے کہا


سمیرا کی خوبصورتی دیکھ کر تو امی بے ہوش ہو جائیں گی


انہیں لگے گا جنت سے کوئی پری اتری ہے ان کے بیٹے کے لیے۔


سمیرا نے ہنستے ہوئے فرینہ کے بازو پر ایک تھپڑ مارا ارے تم بھی!


فرینہ مسکرا کر بولی اچھا بس اب چلو بھی وقت ضائع نہ کرو!


سميرا نے اپنی آنکھوں کی چمک کے ساتھ پوچھا کیا عمران بھی آیا ہے؟


صائبہ نے جواب دیا نہیں 

بھائی تو گھر بیٹھا ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ ہاہاہاہاہاہاہا 

بھائی تو گھر بیٹھا ہمارا انتظار کر رہا ہے۔


تینوں ہنستے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئیں جہاں سعدیہ اور رخسانہ بیگم باتیں کر رہی تھیں۔


بچاری نانی جو دل سے اداس تھی


مصنوعی مسکراہٹ لیے باتیں کر رہی تھی۔


ان کی نظریں رخسانہ اور اس کی بیٹیوں پر پڑیں اور انہیں یہی محسوس ہوا کہ یہ لوگ بھی سمیرا کی طرح روشن خیال اور ماڈرن ہیں۔



سمیرا کو دیکھتے ہی رخسانہ بیگم خوشی سے اٹھ کھڑی ہو گئیں۔ او مائی گاڈ اتنی بیوٹی فل ہے یہ تو! رخسانہ بیگم کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے اور وہ پر جوش ہو گئیں۔


آؤ سمیرا میرے پاس بیٹھو۔



رخسانہ بیگم نے اسے محبت سے دعوت دی۔


سمیرا ان کے قریب جا کر بیٹھ گئی اور رخسانہ بیگم کی نظریں اسے کچھ اس طرح سے دیکھ رہی تھیں


جیسے وہ ایک ہیرے کو دیکھ رہی ہوں


رخسانہ بیگم کو سمیرا کی شکل اس کی باتوں کا انداز اور اس کا لب و لہجہ اتنا پسند آیا کہ وہ دل ہی دل میں یہ سوچنے لگیں


کہ ان کے بیٹے اور سمیرا کی جوڑی کمال کی ہوگی۔


دونوں کی جوڑی دیکھ کر دنیا یہ کہے گی کہ یہ چاند اور چاندنی کی جوڑی ہے۔


رخسانہ بیگم کے دل میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی


کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کے بیٹے کے لیے سمیرا جیسی خوبصورت اور سمجھدار لڑکی کا انتخاب کرنا ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ ہوگا۔۔


گھر کی فضاء خوشی سے گونج رہی تھی۔


نانی سعدیہ بیگم اور رخسانہ بیگم کی باتوں میں مزاح اور خوشی کی جھرمٹ چھائی ہوئی تھی۔


سمیرا اور فرینہ بھی آپس میں گپ شپ کر رہی تھیں


اور اس درمیان ہنسی مذاق کا تبادلہ ہو رہا تھا۔


لیکن اچانک دروازہ کھلا اور مہالال صائب کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔


ان کے کانوں میں خوشی کی آوازیں اور قہقہے پڑے


جس سے وہ حیران ہوئے۔


مہالال سوچنے لگے


یہ کیا ہے؟


کبھی ہمارے گھر میں ایسا ماحول نہیں ہوتا یہ کچھ نیا ہے


یقیناً کوئی مہمان آیا ہوگا۔


وه لاؤنج میں داخل ہوئے تو نظر پڑی سعدیہ بیگم نانی اور سمیرا کو اجنبی لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے۔


سعدیہ نے مہالال کو دیکھ کر مسکرا کر بتایا یہ لوگ سمیرا کا رشتہ لینے آئے ہیں۔ یہ رخسانہ بیگم ہیں ان کی بیٹی فرینہ سمیرا کی سہیلی اور کالج کی دوست ہے


اور یہ ان کی دوسری بیٹی صائبہ ہے۔


مهالال بھی وہی بیٹھ گئے رخسانہ بیگم سے عمران کے بارے میں تفصیل سے باتیں کرنے لگے۔


ان کی باتوں سے واضح ہو رہا تھا کہ انہیں یہ لوگ بہت پسند آ گئے تھے اور دل میں سوچا

اگر یہ لوگ اتنے اچھے ہیں تو ان کا بیٹا بھی یقیناً اچھا ہوگا۔



باتوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر مہالال اور سعدیہ نے رخسانہ بیگم سے مخاطب ہو کر کہا ہمیں تو یہ رشتہ منظور ہے


لیکن سمیرا کی مرضی بھی پوچھنا ضروری ہے۔


پھر مہالال نے سمیرا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا


بیٹی ہم تم پہ زبردستی نہیں کر سکتے تمہیں جو پسند ہو وہی بتا کیا تمہیں یہ رشتہ منظور ہے؟


سميرا شرم سے نظریں جھکائے گہری سانس لے کر جواب دیا

"جی ابو جیسے آپ کی مرضی مجھے منظور ہے رشتہ۔"


یہ کہہ کر سمیرا فوراً اپنے روم کی طرف بھاگ گئی۔


سب ہنستے ہوئے سمیرا کو دیکھتے رہے اور اس کے پیچھے ایک ہنستی ہوئی فضاء چھا گئی۔


رخسانہ بیگم منگنی اور نکاح کی تاریخ لے کر اپنے گھر روانہ ہو گئیں۔


گھر پہنچتے ہی عمران دروازے پر کھڑا نظر آیا اور جیسے ہی اس نے رخسانہ بیگم کو دیکھا وہ بھاگتے ہوئے ان کے پاس آیا اور پوچھا مام کیا ہوا؟ کیا کہا سمیرا کے والدین نے؟ ہاں یا نہیں ؟"


فرینہ اداس ہو کر بولی


بھائی انہوں نے کہا کہ ہم خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے اور بے عزتی کر کے ہمیں باہر نکال دیا۔"


عمران نے یہ سن کر حیرت سے پوچھا "کیا؟"


رخسانہ بیگم اور صائبہ ہنسنے لگیں۔ رخسانہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں، بیٹا میں تو تاریخ لے کر آئی ہوں منگنی اور نکاح کی۔



یہ سن کر عمران کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی خوشی سے جھومتے ہوئے فورا اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر رقص کرنے لگا


امی میں تو خوش ہوں، آج۔۔۔"


رخسانہ بیگم نے اسے روکتے ہوئے کہا پاگل ہو گئے ہو ؟ تمہیں تو بس خوشی کی خبر چاہیے تھی۔


اب تھوڑی آہستہ رہو کہیں گر نہ جاؤ!


یہ منظر بہت خوشگوار تھا عمران کی خوشی بے قابو ہو چکی تھی


اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ نے پورے گھر کی فضا کو روشن کر دیا تھا۔


جاري ہے