چاندنی راتوں کا وعدہ


ازقلم؛ داؤد آباں حیدر

قسط نمبر 12


اتوار کے دن منگنی کی خاص رسم تھی

اور ہفتہ سے ہی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔


پورے لاؤنج کو ایک جادوئی ماحول میں ڈھال دیا گیا تھا


 رنگین بتیاں، دلکش پھولوں کے گجرے اور نرم روشنیوں کے جھرمٹ نے پورے ہال کو روشن کر دیا تھا۔


ایک خوبصورت فضاء بن چکی تھی۔ 


نانی اماں مہالال اور سعدیہ بیگم سبھی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے۔


سعدیہ بیگم سمیرا کو سجانے میں لگی ہوئی تھی

جبکہ سمیرا کی خوبصورتی اور دلکشی میں جیسے مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ 


دوسری طرف

شازیہ بھی تیار ہو کر میکے جانے کی تیاری میں تھی۔


وہ سمیرا کی منگنی میں جانے والی تھی۔


شازیہ نے جب اپنی خوبصورت جوڑی مکمل کی تو سینڈلز پہن کر آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا۔ 

اس لمحے میں شازیہ نے اپنے آپ کو اتنی دلکش پایا کہ لمحے بھر کے لیے وہ خود میں گم ہو گئی۔

لیکن جیسے ہی وہ ہوش میں آئی سیڑھیوں سے نیچے اُترنے لگی

اچانک اس کا پاؤں سینڈلز کی وجہ سے پھسل گیا۔


اور وہ قلا بازی کھاتی ہوئی نیچے گر گئی۔

اس کی چیخ سن کر ماریہ بیگم اور مصطفیٰ بیگم بھاگتے ہوئے آئے۔ 


ماریہ بیگم نے فوراً شازیہ کو سہارا دے کر اپنے روم میں بیٹھایا اور ڈاکٹر کو بھی فون کیا۔ 

ڈاکٹر نے آنے پر چیک اپ کے بعد کہا


اسے آرام کی ضرورت ہے

زیادہ چلنے سے ہڈی ٹوٹ سکتی ہے۔


ماریہ بیگم نے کہا

ہم منگنی پہ نہیں جا سکتے شازیہ تمہیں اکیلے کیسے چھوڑ دیں؟


شازیہ نے اصرار کیا

ممانی آپ جائیں ماموں کے ساتھ۔

 میں ٹھیک ہوں ملازمہ بھی یہی ہے، آپ دونوں جائیں۔


شازیہ کی ضد کو دیکھ کر ماریہ اور مصطفیٰ بیگم نے فیصلہ کیا کہ وہ منگنی میں جائیں گے۔


دوسری طرف سمیرا اور عمران اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے


 دونوں ہنستے ہنستے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔

ساری محفل خوشی سے گونج رہی تھی۔

مہمان آ چکے تھے اور ہال کی فضا محبت اور خوشی سے معمور تھی۔ 


سعدیہ اور نانی نے ماریہ بیگم کو دیکھا اور ان کے پاس آ کر پوچھا

بھابھی شازیہ نہیں آئی؟


ماریہ بیگم نے انہیں ساری بات بتا دی


وہ تیار ہو کر آرہی تھی لیکن سیڑھیوں سے گر گئی۔

ڈاکٹر نے زیادہ چلنے سے منع کیا تو ہم نہیں آئے تھے۔

اس نے ضد کر کے ہمیں بھیج دیا۔


نانی نے سن کر دل سے دکھ کا اظہار کیا


میری بچی سیڑھیوں سے گر گئی اور تم لوگوں نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔


کل صبح ہم اپنی بچی سے ملنے آئیں گے۔


منگنی کی رسم شروع ہو چکی تھی۔

رخسانہ بیگم نے عمران کو انگوٹھی دی اور عمران نے خوشی سے سمیرا کی انگلی میں وہ انگوٹھی پہنائی۔

پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔۔ 


⭐ چاہے کچھ بھی ہو جائے ہر پل ہم ساتھ رہے گے


⭐ چاندنی راتوں کا یہ وعدہ کبھی نہ ٹوٹے۔۔


پھر سعدیہ بیگم نے سمیرا کو انگوٹھی دی

 اور سمیرا نے عمران کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی پہنائی۔

ایک بار پھر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ 


یہ خوشی کا لمحہ تھا جہاں نہ صرف دو دلوں کا ملن تھا بلکہ ایک نئی زندگی کی ابتدا ہو رہی تھی۔


ہر طرف خوشی کا رنگ بکھر رہا تھا

 اور سب کے دلوں میں محبت اور امید کی نئی کرن جگمگا رہی تھی۔


تمام مہمان کھانے میں مصروف تھے

ہال کی فضاء خوشی سے بھری ہوئی تھی۔

نانی اور سعدیہ بیگم مہمانوں سے مل کر خوشی کا اظہار کر رہی تھیں۔

اس دوران عارف اپنی بہن سمیرا کے شوہر سے بات کرنے کے لیے اسٹیج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ 


اسی دوران صائبہ اسٹیج سے اتر کر اپنی ماں رخسانہ کے پاس جا رہی تھی


جو ہال میں مہمانوں سے بات کر رہی تھیں۔

اچانک دونوں کی ٹکر ہو گئی اور صائبہ کا توازن بگڑنے لگا


وہ گرنے والی تھی کہ عارف نے فوراً اپنی بانہوں میں اُسے تھام لیا۔

دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں کچھ لمحوں کے لیے کھو گئے۔


سعدیہ کی نظر دونوں پر پڑی اور وہ ہنسی کو روک نہ سکی۔


اس نے اپنا ہاتھ منہ پر رکھا اور چپکے سے ہنسی نکالی۔


نانی یہ منظر دیکھتے ہوئے دونوں کے پاس آئی اور بگڑ کر کہا

ارے! یہ کیا دیکھ رہی ہوں میں؟


نانی کی آواز سن کر دونوں ہوش میں آئے۔

عارف نے فوراً صائبہ کو اپنی بانہوں سے آزاد کیا اور کہا


نانی، وہ لڑکی گر رہی تھی، تو میں نے بچا لیا۔


صائبہ شرم سے اپنی نظریں نیچے کیے

وہاں سے تیزی سے چل کر دور جا پہنچی۔

عارف کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور اُسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اور صائبہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔


عارف اسٹیج کی طرف بڑھا جہاں فرینہ اور صائبہ پہلے ہی موجود تھیں۔

صائبہ عمران سے بات کر رہی تھی اور مذاق کرتے ہوئے کہہ رہی تھی

بھائی آپ کو تو چاندنی سی بیوی ملی ہے۔

بیوی کم ہیرا زیادہ لگ رہی ہے بھابھی تو۔


صائبہ کی باتوں سے عارف کو فوراً اندازہ ہوگیا کہ یہ لڑکی عمران کی بہن ہے۔


اس بات کا ذکر اُس کے ذہن میں ابھی تک گونج رہا تھا

جب سمیرا نے عارف کو دیکھ کر کہا


بھائی وہاں کیوں کھڑے ہو؟

 آؤ تصویریں بنواؤ ہمارے ساتھ!


سمیرا کی باتوں میں ایک شوخی تھی

 اور عارف کا دل کچھ عجیب سی کیفیت سے بھر گیا تھا۔

دل ہی دل میں اُس نے سوچا کہ کہیں یہ جاذبیت صرف اُس تک ہی محدود نہ ہو

 بلکہ صائبہ کا دل بھی کسی طور پر اُسے محسوس کر رہا ہو۔ 


یہ سب لمحے ایک دوسرے کے لیے نئے تھے 

جہاں خوشی اور دل کی دھڑکنیں آپس میں الجھ رہی تھیں۔۔۔



جاری ہے