چاندنی راتوں کا وعدہ


ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

قسط نمبر 13


اتنی جلدی سمیرا اور عمران کی مایوں اور مہندی کی تقریبات بھی مکمل ہو چکی تھیں۔


ہفتے والے دن نکاح تھا اور اتوار کو ولیمہ کی تقریب۔


سمیرا کی منگنی مایوں اور مہندی میں شازیہ نہیں آئی تھی

 

مگر کل نکاح تھا اور شازیہ نے خود کو جانے کے لیے تیار کر لیا تھا

کیونکہ اس کا پاؤں بھی کچھ حد تک ٹھیک ہو گیا تھا۔

اب وہ آہستہ آہستہ چل پار رہی تھی۔


پورا ہال کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا

اور سب لوگ اپنی تیاریوں میں مصروف تھے۔

شازیہ بھی ماریہ بیگم کے ساتھ پالر سے تیار ہو کر آئی۔


🌷🌹🥀🥀🌹


سعدیہ اور مہالال دروازے پہ کھڑے مہمانوں کا خیرمقدم کر رہے تھے

نانی اماں بھی مہمانوں سے خوشی سے مل رہی تھیں۔


 رخسانہ بیگم بھی خوشی سے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ 


سمیرا اور عمران کو اسٹیج پہ بٹھایا گیا


اور سب لوگ ان کی جوڑی کی تعریف کر رہے تھےکہ ماشاءاللہ چاند اور چاندنی کی جوڑی ہے۔


سمیرا عمران دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے

لیکن اس خوشی کے دوران انہیں یہ نہیں علم تھا کہ ان کی زندگی میں ایک نئی مصیبت آنے والی ہے۔


فرینہ اور عمران کے دوست بالاج پالر سے ہال کی طرف جا رہے تھے

لیکن اچانک ان کی گاڑی خراب ہو گئی۔


دونوں سڑک پر بیٹھے گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔


رات کا وقت تھا لیکن نہ تو کوئی رکشہ آیا اور نہ ہی کوئی کار۔


بالاج عمران کا بچپن کا دوست تھا

اور وہ ہمیشہ عمران کی مدد کرتا آیا تھا۔


مولوی صاحب ہال میں پہنچ گئے


اور رخسانہ بیگم اور مہالال صاحب نے انہیں نکاح پڑھانے کا کہا


سمیرا نے خوشی خوشی مولوی صاحب کو جواب دیا 

"قبول ہے! قبول ہے!"


 نکاح کی رسم کے بعد سب لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے


اور شازیہ بھی اسٹیج پر کھڑی بہن کو مبارکباد دے رہی تھی۔


اسی دوران بالآخر ایک گاڑی والے نے بالاج اور فرینہ کی مدد کی اور وہ ہال تک پہنچ گئے۔


 شازیہ کی نظر جیسے ہی دروازے پر پڑی وہ چیخ اٹھی۔


 اس کی چیخ سن کر سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے


 اور فرینہ تو خوف کے مارے ہڑبڑاتے ہوئے رک گئی۔


سعدیہ بیگم شازیہ کے قریب آئیں اور کہا


کیا ہوا؟ گھبرا کیوں رہی ہو؟ کچھ تو بتاؤ۔


شازیہ نے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور کہا


"ام، امی وہ لڑکی..."


سعدیہ نے فوراً فرینہ کی طرف دیکھا اور کہا


"ہاں، وہ لڑکی دلہا کی بہن ہے فرینہ۔ لیکن تمہیں کچھ کہا کیا اُس نے؟"


شازیہ نے سب کو وہ بات بتا دی جو اس نے فرینہ کے بارے میں دیکھی تھی۔


وہی لڑکی ہے جس نے پالر میں مٹھائی کھلا کر سب کو بے ہوش کر دیا تھا " 


شازیہ کی باتوں کو سن کر نانی اماں کا غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔


وہ فوراً اس معاملے کو مزید سنجیدگی سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگیں۔


بالاج بیچارہ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہی عارف کو دیکھ کر بھاگ گیا


 کیونکہ وہ ڈرا ہوا تھا کہ کہیں اس کی وجہ سے شادی کینسل نہ ہو جائے۔


بالاج نے عارف کو مٹھائی کھلا ئی تھی

جبکہ فرینہ نے پالر میں لڑکیوں کو مٹھائی کھلائی تھی۔


لیکن یہ سب کچھ سمیرا اور عمران کا ایک منصوبہ تھا—


مٹھائی کے ڈبے میں کچھ مٹھائی پہ بے ہوش کرنے والی دوا نہیں تھی جس سے سمیرا بےہوش نہیں ہوئی اور سڑکوں پہ چلتے لوگ بھی بےہوش نہیں ہوئے بےہوش بس عارف شازیہ اور پالر میں سب لڑکی ہوئے سوائے سمیرا کے۔


سب کے بے ہوش ہونے کے بعد سمیرا فرینہ اور بالاج کے ساتھ فرار ہو گئی

اور پھر نکاح کے بعد واپس آ کر جھوٹی کہانی سنائی تھی۔




جاری ہے