چاندنی راتوں کا وعدہ


ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

قسط نمبر 14


جیسے ہی نانی نے فرینہ کی طرف دیکھا اور اسے سمیرا کو طوائفوں کے کوٹھوں میں بیچنے کے الزامات لگائے


پورے ہال میں ایک سنسنی پھیل گئی۔


رخسانہ بیگم کا غصہ بڑھ گیا


 اور انہوں نے فرینہ کو زور دار تھپڑ مارا


یہ سب کیا کہہ رہے تھے 

تمہاری تربیت تو ایسی نہیں کی تھی کہ تم طوائفوں کے کوٹھوں کے مالکوں کے ساتھ تعلقات بنا کر دوسروں کی عزتوں کو اغوا کرکے ان کو بیچنے لگو۔


جس سے پورے ہال میں ہلچل مچ گئی۔


مہالال نے فوراً فرینہ کو پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دی۔


 سمیرا اور عمران خاموشی سے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے اور ان کے دلوں میں خوف تھا کہ کہیں سب کچھ ختم نہ ہو جائے۔


فرینہ نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے


 اور اس نے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔

فرینہ نے خود کو بچانے کے لیے۔

رخسانہ بیگم اور نانی کی طرف دیکھ کر کہا آپ جو سمجھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ھے میں نے کسی کو اغواء نہیں کیا نہ میں طوائفوں کے کوٹھے والوں سے تعلق رکھتی ہوں۔

سعدیہ نے انہیں کہا اپنی بکواس بند کرو مجھے اپنی شازیہ پہ بھروسہ ھے میری بیٹی جھوٹ نہیں بولتی۔

فرینہ چل کر سمیرا کے پاس آئی بھابھی بتائیں نہ آپ ہی سب کو۔


سمیرا نے خود کو اور فرینہ کو بچانے کی کوشش کی


سمیرا کھڑی ہوئی فرینہ کو تسلی دی کہ تم پریشان مت ھو میں بتاتی ہوں سب کو۔

سمیرا نانی اور رخسانہ کی طرف آئی نانی فرینہ سچ کہہ رہی ھے اس نے مجھے اغوا نہیں کیا۔


ایسا کچھ نہیں جو آپ سمجھ رہی ھے۔۔


سعدیہ اور نانی نے حیرت سے سمیرا کو دیکھا۔


سعدیہ نے کہا لیکن سمیرا تم ہی تو کہہ رہی تھی کہ جس نے مٹھائی کھلا کر بےہوش کردی تھی وہی تمہیں ویران گھر لے گئی تھی تمہیں طوائفوں کے کوٹھے پہ بیچنے کی کوشش کی۔


سمیرا نے کہا امی میری بات سنیں فرینہ نے مٹھائی کھلا کر سب کو بےہوش کردیا تھا سوائے میرے۔


اس نے یہ سب کرکے میری ہیلپ کی تھی میں ذیشان سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میں عمران سے محبت کرتی ہوں اس لیے ہم نے پلان بنایا تھا شازیہ کے نکاح کے بعد مجھے اطلاع ملی کہ نکاح ہوگئی پھر میں یہاں آئی جھوٹی کہانی سنائی تھی آپ سب کو۔

فرینہ بےقصور ہے اس نے کچھ نہیں کیا۔


یہ ساری سازش تھی جس کے تحت فرینہ اور بالاج نے یہ سب کچھ کیا تاکہ سمیرا کی شادی عمران سے ہو سکے۔۔


سمیرا کی باتیں سن کر نانی

 سعدیہ مہالال اور شازیہ سب شش و پنج میں پڑ گئے


اور ان کے لیے یہ سب تسلیم کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔


لیکن جب سمیرا نے فرینہ کی بے گناہی کا دفاع کیا


تب نانی نے غصے میں آ کر سمیرا کو ایک زور دار تھپڑ مارا


تم اتنی گری ہوئی لڑکی ھو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا


سمیرا کی باتیں سن کر عارف کو شدید غصہ آیا۔۔


عارف کا دل غصے سے بھرا ہوا تھا


 اور وہ گن اٹھا کر عمران کی طرف چل پڑا تھا۔


اب تمہیں نہیں چھوڑوں گا


 تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن سے محبت کرنے کی؟


 عارف کی آواز میں غصہ اور نفرت کی گہری لکیریں تھیں


 اور سمیرا خوف سے لرزتے ہوئے


دوڑ کر اپنے بھائی کی طرف بڑھ گئی۔


وہ اس کے سامنے آ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے اسے کہہ رہی تھی


 


بھائی چھوڑ دو! 

معاف کر دو! 

میں ہاتھ جوڑ کر تم سے درخواست کرتی ہوں اسے مت مارو!


سعدیہ جو ساری صورتحال دیکھ رہی تھی بھی بے ساختہ عارف کو روکنے کی کوشش کرنے لگی


عارف! کیا کر رہے ہو تم؟


تمہارا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا؟

تمہاری بہن کا شوہر ہے وہ

اور نکاح بھی ہو چکا ہے محبت کرنا اب اسکا حق ہے!


پلیز گن نیچے کرو

کچھ بھی نہیں کرو!


مگر

 عارف کا غصہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ وہ کسی کی بات نہ سن سکا

اور آخرکار گن چلا دی۔

گولی سیدھی عمران کے سینے پر جا لگی

اور ہال میں ہر طرف چیخیں گئیں۔

سمیرا بھی اس حادثے کو دیکھ کر چیخ اُٹھی

"عمران!"


اس کی آواز میں خوف اور درد تھا

جیسے اس کی دنیا رک گئی ہو۔




جاری ہے