چاندنی راتوں کا وعدہ

ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

قسط نمبر 15


لیکن پھر اچانک سمیرا کی آنکھ کھل گئی


اور وہ ہڑبڑاتے ہوئے جاگ اُٹھی۔


 اس نے اپنے چاروں طرف دیکھا

اور یہ جان کر حیران رہ گئی کہ اس کے سامنے کچھ نہیں تھا


 بس خاموشی تھی۔


اس نے وقت دیکھا

اور پانچ بج رہے تھے۔


سمیرا کی سانسیں تیز تھیں


 اور اس نے پانی پینے کے لیے جگ اٹھایا۔


اس لمحے میں اس نے گہری سانس لی

اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ یہ سب صرف ایک خواب تھا۔


وہ خواب جو اس نے ابھی ابھی دیکھا تھا

وہ صرف ایک خوفناک تصور تھا


ایک ایسی صورت حال جس سے وہ ڈر رہی تھی۔


آج اس کی زندگی کا سب سے اہم دن تھا -


اس کا نکاح ہونے والا تھا

اور وہ اپنے خوابوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنے جا رہی تھی۔


مگر اس خواب نے اسے ایک لمحے کے لیے ماضی کے خوف میں ڈبو دیا تھا


جہاں وہ سوچ رہی تھی کہ کہیں یہ خواب حقیقت نہ بن جائے


 اور اس کی زندگی کا سب سے خوشی کا لمحہ دردناک سانحے میں بدل جائے۔ 


سمیرا نے ایک اور گہری سانس لی اور اپنے آپ کو تسلی دی۔


 


یہ صرف ایک خواب تھا

 کچھ نہیں اور کچھ نہیں ہوگا۔


 سب کچھ ٹھیک ہو گا۔


 اس نے اپنے دل کو مضبوط کیا اور خوابوں کے بدلے حقیقت میں قدم رکھا


یہ سوچ کر کہ اس کا نکاح خوشیوں کا آغاز ہوگا

اور وہ جو بھی سوچے گی 

وہی حقیقت بنے گی۔


اس دن سمیرا کی شادی کا دن تھا


 اور وہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ تیار ہو رہی تھی۔


کمرا خوشبوؤں سے بھرا ہوا تھا 


اور ہر طرف رنگ برنگی سینڈلز

 زرق برق لباس اور خوبصورت جیولری موجود تھی۔


سمیرا نے ایک خوبصورت لال لباس پہنا جس پر ہلکی سی بھوری کڑھائی کی گئی تھی


اس کے چہرے پر ہنسی تھی اور آنکھوں میں چمک۔

لیکن دل بھی تھوڑا خوف بھی تھا وہ ڈر بھی رہی تھی کہ کہیں خواب حقیقت نہ بن جائے اگر بن گئی تو اس کی دنیا اجڑ جائےگی۔


عمران ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ اپنے عہد و پیمان کا آغاز کرتے ہیں۔


سمیرا کی بہن شازیہ نے اسے خوشی خوشی گیت گاتے ہوئے چھوٹی چھوٹی محبت کی باتیں سنائیں

 جب کہ والدین کی آنکھوں میں خوشی اور فخر کے ساتھ آنسو تھے۔

سمیرا اور عمران اسٹیج پہ بیٹھے تھے سب تعریفیں کررہے تھے کہ چاند سورج کی جوڑی ھے کوئی کہہ رہا تھا کہ چاند اور چاندنی کی جوڑی ہے۔

کوئی کہہ رہا تھا کہ سورج اور زہرہ کی جوڑی ہے 🤷‍♂️


نکاح شروع ہوچکا تھا سمیرا اور عمران نے خوشی خوشی سے مولوی صاحب کو جواب دیا تھا کہ نکاح قبول ہے۔


دوستوں رشتہ داروں اور خاندان والوں نے انہیں محبت بھری دعائیں دیں۔


 تالیاں بجیں اور ہنسی خوشی کا ماحول چھا گیا۔


عائشہ نے حارث کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک کم نہیں ہوئی۔ 


ہال میں عورتیں ایک لڑکی کو دیکھ کر سرگوشیاں کررہے تھے کہ یہ اتنی نیک ھے تو شادی میں کیوں آئی۔


وہ لڑکی فرینہ تھی جس نے نقاب کیا ھوا تھا تاکہ شازیہ اسے نہ دیکھ سکے ورنہ اس بات کا امکان تھا کہ سمیرا کی خواب حقیقت کا رنگ اوڑھ لے گی۔


بالاج نے تو نقلی داڑھی اور مونچھیں لگایا تھا تاکہ عارف پہنچان نہ سکتے۔


رخسانہ بیگم خود فرینہ کی وجہ سے پریشان تھی کہ اس کی بیٹی کو ہوا کیا ہے اچانک بدل گئی ہے نقاب کرنے لگی ھے کہتی ھے کہ کسی نامحرم کی نظر نہ لگے جائے۔


 

اچانک فرینہ کی ٹکر شازیہ سے ہوگئی فرینہ گرتے گرتے بچ گئی شازیہ نے اسے نہیں دیکھا اسکا چہرہ نقاب میں تھا اس نے سوری کہا۔

کوئی بات نہیں۔

کہتی ہوئی فرینہ بھاگ گئی۔


سمیرا اور عمران کی رخصتی دھوم دھام سے ہورہی تھی۔


 پورے گھر میں خوشیوں کا سماں تھا۔


سمیرا اور عمران کے چہرے پر خوشی کی مسکراہٹ تھی


 جیسے دونوں کا ایک خواب پورا ہو رہا ہو۔


ان کی گاڑی جیسے ہی محل کے دروازے پر رکی


 عمران نے فوراً گاڑی کا دروازہ کھولا اور سمیرا کا ہاتھ تھام کر اسے باہر نکالا۔ 


سب لوگ استقبال کے لیے کھڑے تھے


 جن میں فرینہ بھی تھی

اس نے اب اپنا نقاب ہٹا لیا تھا۔


 تمام ملازمہ لائن میں کھڑی تھیں

ہر ایک کے ہاتھ میں پھول تھے


 اور کچھ ملازمہ اوپر کھڑی تھی تاکہ سمیرا اور عمران کے اندر آنے پر ان پر پھولوں کی برسات ہو۔


یہ منظر کسی جنت کے نظارے سے کم نہ تھا۔


عمران نے سمیرا کا ہاتھ تھامے ہوئے جیسے ہی قدم اندر رکھا


 سمیرا نے اپنے دل کی دھڑکن کو محسوس کیا۔


دونوں پہ پھولوں کی برسات ہونے لگی


جیسے ہر پھول ان کے نئے سفر کی خوشبو لے کر آیا ہو۔


سمیرا کی آنکھوں میں خوشی کی جھرمٹ تھی


اور عمران کی مسکراہٹ میں ایک نیا جہان چھپے ہوئے تھا۔


 دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اندر داخل ہو رہے تھے۔


رخسانہ بیگم 

جو کہ بے حد خوش تھی

 نے دونوں کی نظریں اٹھائیں اور دل سے دعائیں دیں


یہ دعائیں اور خوشی کی لہر اس لمحات کو مزید خاص بنا رہی تھی


۔


رخسانہ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی کیونکہ اس کا اکلوتا بیٹا اب اپنی زندگی کی ایک نئی اور حسین سفر کی ابتدا کر رہا تھا۔


سمیرا دل سے بہت خوش تھی عمران اس کا ہاتھ تھامے جیسے جیسے اندر قدم رکھ رہا تھا نیچے اور اوپر سے دونوں پہ پھولوں کی برسات ہورہی تھی


سمیرا اور عمران کی جوڑی دیکھ کر

آسمان میں ستارے بھی رقص کررہے تھے چاند بھی خوشی سے گیت گا رہا تھا دریا کی لہریں بھی زور و شور سے 

 گنگنا رہی تھیں۔  

یہ سب قدرت کے حسین مناظر ان کی محبت کی گواہی دے رہے تھے


جیسے ساری کائنات ان کے رشتہ کی خوشی میں شریک ہو۔


 سمیرا کی مسکراہٹ عمران کے چہرے کی چمک جیسے دنیا کا سب سے خوبصورت منظر تھا


ہر طرف پھیلی ہوئی یہ خوشبو اور رنگینیاں ان کی محبت کی تائید کر رہی تھیں گویا ساری کائنات ان کے ساتھ تھی۔


تیری یادوں کے سائے میں گزرتی تھی راتیں  


دل کے ہر کونے میں چھپی ہیں تیری محبت کی باتیں


چاندنی کی چادر تلے ہم نے جو وعدہ کیا  

   دل کی گہرائیوں سے ہمیشہ وفا کیا___


جاری ہے