چاندنی راتوں کا وعدہ

ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

قسط نمبر 16


شازیہ تہجد کی نماز میں گم تھی

دل کی گہرائیوں سے اپنے نشئی شوہر زیشان کے لیے ہدایت کی دعا مانگ رہی تھی۔

اس کی آنکھیں بند تھیں اور روح میں ایک خاص سکون تھا 

لیکن اس کے دل میں ایک گہرا خوف بھی تھا


اچانک زیشان نشے کی حالت میں روم میں داخل ہوا۔


اس کی نظر جیسے ہی شازیہ پر پڑی

ایک شدید غصہ اس کے چہرے پر آ گیا۔


کس کی اجازت سے تم نماز پڑھ رہی تھی؟

بولو

اس نے قریب آ کر شازیہ کو بالوں سے پکڑ کر مصلے سے اٹھایا اور تین چار تھپڑوں کی برسات کردی۔


شازیہ نے ڈرتے ہوئے جواب دیا 


میں نماز پڑھنے کے لیے کسی کی اجازت کی محتاج نہیں ہوں۔ 


اس کی آواز میں جرات کی جھلک تھی

لیکن زیشان کے غصے نے اس کے دل کو خوف سے بھر دیا۔

شازیہ کو زیشان سے شراب کی بدبو آرہی تھی اور وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ نشے میں ہے۔


چٹاخ!


زیشان نے پھر سے دو تین تھپڑ مارے اور شازیہ کے بالوں سے زور سے پکڑ کر بولا


"تمہاری ہمت کیسے میرے سامنے زبان چلانے کی؟ ابھی بتاتا ہوں تمہیں!"


زیشان نے شازیہ کو بیڈ کی طرف دھکیل دیا اور اپنا قمیص اتار کر صوفے کی طرف پھینک دیا۔

شازیہ ڈری ہوئی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔


 وہ اپنی جان بچانے کے لیے روم سے باہر نکلنے ہی لگی تھی

 مگر زیشان نے پھر سے اسے پکڑ کر بیڈ کی طرف دھکیل دیا۔


خود اس کے قریب ہوگیا

اب تم نہیں بچ سکو گی مجھ سے نہیں بچ سکو گی!


 اس نے دھمکی دی۔

 شازیہ نے خود کو زیشان سے چھڑانے کی ناکام کوشش کی۔


ذیشان نے ایک ہاتھ سے شازیہ کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور دوسرے ہاتھ سے اس کے کپڑے پھاڑنے لگا۔


شازیہ روتی رہی چیختی رہی مگر زیشان جیسے درندہ صفت انسان کو رحم نہ آیا۔


اس نے شازیہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔


شازیہ کی چیخیں بلند ہو رہی تھیں لیکن زیشان نے شازیہ کا دوپٹہ اٹھا کر اس کے ہاتھ باندھ دیئے اور اپنا ہاتھ اس کے منہ پر رکھ دیا تاکہ اس کی چیخیں سن کر گھر والے نہ آجائیں۔


😭😭😭😭


سمیرا دلہن بنی اپنے بیڈروم میں بیٹھی ہوئی تھی۔


دل میں بے شمار خوشیوں کی لہر دوڑ رہی تھی

کیونکہ آج وہ اپنی محبت کو پا چکی تھی۔


بہت خوش ہوں میں

 سمیرا نے دل ہی دل میں سوچا۔ 


اتنے میں عمران روم میں داخل ہوا


دروازہ لاک کرکے اس نے سمیرا کے قریب آ کر

 اس کا چہرہ نرم ہاتھوں سے اوپر کیا۔ 


شرماؤ نہیں میری جان

تم بہت حسین لگ رہی ہو


 عمران کی آواز میں محبت اور احساس تھا۔


سمیرا کی مسکراہٹ بے قابو ہوگئی

اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔


عمران نے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی اور سمیرا کی طرف بڑھا دی۔ 

یہ لو میری جان تمہاری منہ دکھائی کا تحفہ۔


سمیرا نے حیرانی سے وہ ڈبہ پکڑا اور اس میں موجود چیز کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"کیا ہے اس میں؟"


عمران نے مسکراتے ہوئے کہا

خود کھول کر دیکھو۔


سمیرا نے ڈبہ کھولا اور اس میں ایک حسین ہیرے کی انگوٹھی تھی۔

یہ وہ لمحہ تھا جس نے سمیرا کی خوشی کو دوگنا کر دیا۔


وہ خوشی سے عمران کے گلے لگ گئی

"تھینکس جانو" 


عمران نے اسے نرمی سے اپنی گرفت میں لے کر کہا


یہ انگوٹھی تمہاری ہے میری زندگی کا حصہ ہے اس کو ہمیشہ پہنے رکھنا۔


سمیرا نے گلے سے ہٹ کر کہا مجھے پہناؤ اسے اپنے ہاتھوں سے۔

اس نے اپنا نرم ہاتھ عمران کی طرف بڑھایا۔


عمران نے اس کا ہاتھ محبت سے پکڑا اور پھر اپنے ہونٹوں سے اس کے ہاتھ پر ایک نرم کس کیا۔

پھر انگوٹھی اس کی انگلی میں پہناتے ہوئے کہا

۔


میری جان اب ہم ڈھیر ساری باتیں کرے گے آج کی رات چاندنی رات سے کم نہیں۔


پھر عمران نے سمیرا کا ہاتھ تھامے ہوئے اسے کھڑکی کے پاس لے گیا۔

دونوں کے درمیان خاموشی تھی مگر اس خاموشی میں ایک کہانی چھپی ہوئی تھی۔


کھڑکی سے چاند صاف نظر آ رہا تھا۔

عمران نے سمیرا کے پیچھے سے آ کر اسے گلے لگایا اور کہا 


دیکھو چاند بھی آج بہت خوش ہے لگتا ہے اسے بھی چاندنی مل گئی ہے۔


سمیرا مسکرا کر بولی

عمران آج میری سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی۔

مجھے میری محبت مل گئی۔


عمرا نے سمیرا کے گردن پہ کس کیا

اور آگے آکر نیچے جھک کر اپنی کوٹ سے ایک گلابی پھول 🌹 نکال کر سمیرا کے آگے کیا


لو یو میری جان


میں وعدہ کرتا ہوں مرتے دم تک تمہارے ساتھ رہو گا کبھی نہیں چھوڑو گا تمہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے


ہم نے آج شادی کرکے چاندنی راتوں میں کئے گئے وعدے وفا کیے ہیں۔


سمیرا کی آنکھوں میں محبت کی ایک نئی چمک تھی

اور اس کا دل عمران کے وعدوں میں ڈوب گیا۔

عمران نے کہا

دیکھو میری جان آج رات کا چاند بھی ہم دونوں کی خوشیوں میں شریک ہے۔


سمیرا نے گلابی پھول لیا اور عمران کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں

تم سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا

میں تمہارے ساتھ ہمیشہ رہنا چاہتی ہوں اور ہر لمحہ تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔


عمران نے سمیرا کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی

ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا میری جان۔

تمہاری ہر خوشی میری خوشی ہے اور تمہارا ہر دکھ میرے لیے تکلیف۔


عمران نے سمیرا کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ کر محبت کی مہر ثبت کیا پھر اسے اپنی گود میں اٹھا کر بیڈ کی طرف لے گیا۔

سمیرا نے عمران کے گود میں اسکے آنکھوں کو دیکھا دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھو گئے۔۔

دونوں کے لیے جیسے وقت تھم گیا۔



جاری ہے