چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
قسط نمبر 17
دو دن بعد
چاند کی روشنی میں شازیہ
کھڑکی کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔
اس کا شوہر ذیشان مدہوشی کی حالت میں بیڈ پر سو رہا تھا۔
شازیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے
اور اس کے دل میں ایک ہی سوال تھا
"نہ جانے کس گناہ کی سزا مل رہی ہے مجھے؟
شازیہ رو رہی تھی کہ اس کے ساتھ یہ سب ہوگا
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی اتنی سخت ہو سکتی ہے۔
اس کی حالت بےحد خراب ہو چکی تھی
اور وہ بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
اچانک اس کے کانوں میں آذان کی آوازیں گونجیں
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کر وضو کرنے گئی۔
وضو کرکے وہ نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔
نماز کے دوران بھی اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہتے رہے۔
نماز کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اپنے رب سے فریاد کی۔
"یا رب العالمین تیرے سوا کسی سے اپنی پریشانیاں بیان نہیں کرتی۔
تو ہی مجھے اس ظالم سے نجات دے دے
جو روزانہ مجھ پر تشدد کرتا ہے اور اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اور وہ دل کی گہرائیوں سے اپنے رب کے سامنے جھکی ہوئی تھی۔
دوسری جانب بیڈ پر اس کا نشئی شوہر بےخبر سو رہا تھا۔
نماز پڑھ کر شازیہ ناشتہ بنانے گئی۔
گھر میں ملازموں کے ہوتے ہوئے بھی
وہ صبح سویرے اٹھ کر کچن میں گھس جاتی تھی
کیونکہ وہ ڈر رہی تھی کہ اس کا شوہر اسے پھر تشدد نہ کردے۔
وہ بےچاری کسی سے بھی اپنے مسائل بیان نہیں کر رہی تھی کہ لوگ کیا سوچیں گے۔
ماریہ بیگم اور مصطفیٰ گھر میں نہیں تھے
وہ دوسرے شہر گئے ہوئے تھے رشتے داروں کے گھر پر۔
اس لیے گھر میں صرف ذیشان اور شازیہ رہتے تھے اور چند ملازمائیں۔
ناشتہ تیار کرکے وہ کچن میں بیٹھی ناشتہ کرنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد کمرے سے آوازیں آئیں۔
وہ سمجھ گئی کہ نشئی جاگ گیا ہے
فوراً اٹھ کر ملازمہ کو ذیشان کے لیے ناشتہ لگوانے کا کہہ کر ماریہ بیگم کے کمرے میں صفائی کے بہانے چلی گئی۔
ذیشان ناشتہ کرنے کے لیے میز پر آیا تو ملازمہ ناشتہ رکھ رہی تھی۔
وہ ملازمہ سے شازیہ کا پوچھنے لگی
ملازمہ نے جواب دیا کہ وہ میڈم کے کمرے میں گئی صفائی کرنے۔
ذیشان ناشتہ کرنے لگا
اچانک اسے رات والا سین یاد آیا جب وہ ڈھیر سارا شراب پی کر گھر آیا تھا۔
اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا کہ رات کو بہت غلط کیا شازیہ کے ساتھ۔ لیکن دماغ نے حمایت کی کہ جو کچھ ہوا
وہ ٹھیک تھا
"وہ میری بیوی ہے میں جو چاہوں کروں اس کے ساتھ۔"
ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے لبوں پر نمودار ہوئی اور وہ ناشتہ کرکے باہر نکل گیا۔
ملازمہ نے اس سے آکر اطلاع دی کہ وہ چلا گیا۔
شازیہ شکر ادا کرتے ہوئے باہر آئی
لیکن اپنے روم میں آکر پھر سے رونے لگی
"کیا سب کے شوہر ایسے ہوتے ہیں یا صرف میرے نصیب میں نشئی شوہر لکھا ہوا تھا؟
ضمیر نے اسے آواز دی
شازیہ اللہ پر بھروسہ رکھو خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
صبح کے دس بج رہے تھے اور بینی خوابوں کی دنیا میں گُم تھی جب مہوش بیگم نے محبت سے آ کر اس کو جگانے کی کوشش کی۔
اٹھو بینی!
بارہ بج رہے ہیں ابھی تک سوئی ہوئی ہو؟
بینی نے کوئی حرکت نہیں کی اور خوابوں کی سرمستی میں گم رہی۔
مہوش بیگم نے پھر مزید زور دے کر کہا
اٹھو، بینی!
اور اسے زور زور سے جھنجھوڑنے لگیں۔
بینی نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔
کیا ہوا مما؟
سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی آ کر میری نیند حرام کر دیتی ہو؟ پتہ بھی ہے کہ میں آج رات دیر سے سوئی تھی، بڑی مشکل سے نیند آئی تھی!
بینی شام ہونے والی ہے!
اٹھو جلدی! مہمان آتے جاتے ہیں
تمہارا پوچھتے رہتے ہیں
اور تمہیں نیند میں دیکھ کر کیا سوچیں گے؟
مہوش بیگم نے کہا۔
مما آپ کو ہر وقت لوگوں کی پڑی رہتی ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے اور کیا کہیں گے۔
بینی نے ذرا مایوس لہجے میں جواب دیا۔
مہوش بیگم بحث نہیں کرنا چاہتی تھیں
کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ بینی ہر سوال کا جواب دے دیتی ہے۔
اس لیے انہوں نے اس سے کہا کہ فریش ہونے کی تیاری کرو
اور وہاں سے چلی گئیں۔
بینی نے دل ہی دل میں سوچا
او مائی گاڈ مجال ہے جو مجھے سکون سے سونے دے
جس دن بھی اچھا خواب دیکھوں فوراً مما آکر نیند حرام کر دیتی ہیں
نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنے بستر سے اٹھ کر آئینے کے سامنے آئینے میں جھانکا۔
دل نے کہا
بینی کتنی خوبصورت ہو تم
تمہارے تو ہزاروں دیوانے ہوں گے اس دنیا میں۔
فخر سے سینہ چوڑا کرتے ہوئے
بینی کمرے کے غسل خانے میں چلی گئی فریش ہونے۔
اتنے میں آرزم (بینی کا چھوٹا بھائی) کمرے میں داخل ہوا۔ "بینی بینی
کہاں ہو تم؟
بینی نے غسل خانے سے ہی آواز دی
"بولو کیا ہوا؟"
آرزم کو بینی کی آواز سنائی دی
لیکن وہ کمرے میں ادھر ادھر دیکھنے لگا پھر بیڈ کے نیچے جھک کر دیکھا۔
"بینی تم کہاں ہو؟"
آرزم نے بے چینی سے پوچھا۔
بینی غسل خانے سے نہا کر باہر نکلی
کیا ہوا یار؟
غسل خانے میں نہا رہی تھی مر تو نہیں گئی تھی
آرزم ہنستے ہوئے بولا
آج ہمارے دو بڑے مہمان آ رہے ہیں تیاری کرو
مہمان؟
بینی نے پوچھا
کون آرہا ہے؟
زینب پھوپھی اور ان کی بیٹی عائشہ آرہی ہے
آج تو ہمیں ایک خوبصورت تقریب رکھنی ہے۔
آرزم نے خوشی سے جواب دیا۔
بینی نے ایک لمحے کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
ٹھیک ہے
میں تیاری کرتی ہوں۔
اور جلدی جلدی اپنے کپڑے بدلنے لگی
تھوڑی دیر بعد جب بینی فریش ہو کر تیار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ گھر میں سجاوٹ کی گئی تھی
پھولوں کی مہک ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور مہمانوں کا آنا شروع ہو چکا تھا۔
زینب پھوپھی اور عائشہ پہنچی تھیں
دونوں کے چہرے پر خوشی اور محبت کی چمک تھی۔
بینی بیٹی کتنی بڑی ہو گئی ہو!
زینب پھوپھی نے اس کے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
شکریہ
پھوپھی آپ کی دعائیں تو ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے
بینی نے خوشی سے جواب دیا۔
عائشہ نے بھی بولا
بینی تمہاری خوبصورتی میں تو کوئی کمی نہیں آئی
لگتا ہے تم نے تو جادو کر لیا ہے۔
شکریہ عائشہ آج تو تم بھی بہت خوبصورت لگ رہی ہو
بینی نے مسکرا کر کہا۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment